ایک اداس نظم جیسا شہر

شیکسپیئر نےکہا ہےکہ ’’نام سے کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘ ٹھیک اسی طرح سے آج بھی اس شہر کو ’’شکارپور‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔


عمر قاضی February 01, 2015
[email protected]

لاہور: وہ شہر اب دردکی ایک صدا بن چکا ہے،جس شہرکے بارے میں ہم نے جب سندھی زبان کے عظیم شاعرشیخ ایاز کی یادداشتوں کو پڑھا تو ہمیں اس شہر سے عشق ہوگیا۔

وہ شہر جس کے بارے میں شیخ ایاز نے لکھا ہے کہ اس شہر کا حسن اور دلفریبی، اس شہر کا کلچر اور آرکیٹیچر ایاز کی شاعری کی نشوونما کے لیے انتہائی سازگار بن گیا۔ شیخ ایاز کی تحریروں سے تو ایسا بھی لگتا ہے کہ اگر اس نے شکارپور میں جنم نہ لیا ہوتا تو شاید وہ شاعر نہ بن پاتا۔ مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سے شکارپور میں؟ ایک شاعر کا جنم تو اس شکارپور میں ہوا جس کی سڑکوں کو ہر دن سورج طلوع ہونے سے قبل پانی سے دھویا جاتا تھا۔جس شہر کے اطراف میں پھولوں کے باغات تھے۔

جس شہر میں ادیبوں اور شاعروں کی محفلیں جما کرتی تھیں۔جس شہر میں پاکستان بننے سے قبل کوایجوکیشن والا کالج تھا۔ جہاں شیکسپیئر کے ڈراموں کو اسٹیج کیا جاتا تھا۔اس شہر میں کبھی کوئی فساد نہیں ہوا۔ اس شہر میں لوگ سکون کے ساتھ رہا کرتے تھے۔جس شہر میں مالی بہار کے موسم میں لوگوں کو پھولوں کے تحائف دیا کرتے تھے۔ جس شہر میں فقیرگاتے تھے۔ جس شہر میں کبھی نفرت کی لہر نہیں اٹھی۔ جس شہر کے دامن پر کسی مظلوم کے خون کا داغ نہیں۔ اس شہر میں ایک شاعر کا جنم لینا بے حد فطری بات ہے۔

جس طرح شیکسپیئر نے کہا ہے کہ ''نام سے کیا فرق پڑتا ہے؟'' ٹھیک اسی طرح سے آج بھی اس شہر کو ''شکارپور'' کے نام سے پکارا جاتا تھا مگر یہ شہر وہ شہر نہیں۔ جو محبت کی بات سنا کرتا تھا اور محبت کی زبان بولا کرتا تھا۔ وہ شہر تو تاریخ کے ملبے میں مدفون ہو چکا۔اب اس نام سے جو شہر موجود ہے اس کو دیکھ کر کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ اب یہاں محبت کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔کیا یہ شہر کسی شاعر کی تخلیق کا سبب بن سکتا ہے جس شہر میں پشاور سانحے کے بعد دہشتگردی کی اتنی بھیانک کارروائی ہوئی جس نے ملک کو نہیں تو کم ازکم اس سندھ کو ہلا کر رکھ دیا ہے جس سندھ کی سرزمین نے صوفیاء کو جنم دیا۔ وہ عدم تشدد والے لوگ جو زمین پر چلتے بھی تو یہ دیکھ کر کہیں ان کے پاؤں تلے کوئی چیونٹی نہ آجائے!جن لوگوں کے لیے شیخ ایاز نے لکھا تھا کہ ''ہم نے کبھی کسی کے بارے میں بری بات نہیں سوچی۔''

جی ہاں! وہ وادی سندھ جو امن کی سرزمین تھی۔ جو عدم تشدد کی سرزمین تھی۔ جو انصاف کی سرزمین تھی۔ جس کی مٹی میں محبت کی مہک تھی۔ اس سندھ کو اچانک یہ اطلاع موصول ہوئی ہے کہ اب محبت کی اس جنت کو دہشتگردی کے جہنم میں تبدیل کیا جائے گا اور اس سفاک سازش کا باقاعدہ آغاز بھی ہوچکا ہے اور اس کا آغاز بھی ہوا تو اس شہر سے جس شہر میں شعور اور محبت کے پھول کھلا کرتے تھے۔ کیا کوئی سوچ بھی سکتا تھا کہ اتنا بڑا سانحہ ہوجائے گا؟ اہل شکارپور کو اس بات کا افسوس تھا کہ ان کے شہر کو حکومت نے فراموش کردیا ہے۔کیوں کہ کافی عرصے سے شکار پور جرم کی آماجگاہ بن چکا ہے۔

وہ شہر جس کے تھانوں میں کبھی کوئی شکایت لے کر نہیں آتا تھا، اب اس شہر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اگر کراچی سے بھی کوئی کارچھینی جائے یا حیدرآباد سے کوئی شخص اغوا ہوجائے تو اس کا پتہ شکارپور میں ملے گا۔ اس کا سبب اورکچھ نہیں سوائے اس کے کہ جن لوگوں نے اس شہر کو محبت سے تعمیر کیا تھا اور جو لوگ اس شہر کی پہچان تھے اب وہ لوگ اس شہر کو چھوڑ چکے ہیں۔ اور ان لوگوں کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کو پر کیا ہے ان لوگوں نے جو لوگ دیہاتی اور قبائلی ہیں۔ ان لوگوں نے اس شہر کے تاریخی کلچرکو تباہ کردیا ہے۔

اب شیخ ایاز کی نثر کو پڑھنے کے بعد کوئی اس شہر کو دیکھنے جائے گا تو وہ اس شہر کی تنگ و تاریک گلیوں میں بھٹکتا رہے گا۔ وہ ملنے والے لوگوں کو حیرت سے دیکھے گا اور شام ہوتے ہوئے اسے پھولو ں کی مہک آنے کے بجائے بارود کی بو محسوس ہوگی اور اس کے لیے اس شہر میں ایک پل رکنا محال ہوجائے گا۔ کیوں کہ اس شہر میں اب سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ جرم اور سب سے زیادہ محسوس کی جانے والی کیفیت عدم تحفظ کی ہے، اگر ایسے ماحول میں دہشتگردی کی کوئی واردات ہوتی ہے تو وہ سمجھ میں آنی چاہیے۔کیوں کہ جہاں جرم کو پناہ ملے وہاں امن اور انصاف نہیں رہ سکتا۔

اس شہرکے اس ماحول کی وجہ سے وہاں دہشت گردوں کو پاؤں رکھنے کی جگہ ملی اور انھوں نے جمعے کو جس سفاکی کا مظاہرہ کیا اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ سندھ کے اس ماحول میں جہاں ایک انسان کے قتل پر پورا شہر بغیر کسی ہڑتال کی کال کے بند ہوجاتا ہے اور لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا اور کیوں ہوا؟ مگر شکارپور کی امام بارگاہ میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد اس شہر کے لوگ بہت غمزدہ ہیں۔

ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ان کے شہر کو دہشت گردوں نے نشانہ کیوں بنایا؟ کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ وہ چھوٹا سا شہر جس کا رقبہ اور آبادی کراچی کے ایک علاقے کے برابر ہے وہاں پر جب ہر محلے اور ہر گلی میں ایک لاش لائی جائے اور ساٹھ جنازوں کے اٹھنے سے اس شہر کا ماحول کیسا بن گیا ہوگا؟ اس کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ کیوں کہ ہم لاہور اورکراچی میں رہتے ہوئے اس شہر کا ماحول نہیں سمجھ سکتے جس شہر میں زندگی تیز رفتاری کے ساتھ نہیں چلتی۔

جہاں لوگ عام طور پر پیدل چلتے ہیں اورسب ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ شکارپور کی امام بارگاہ میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد ہمارے لیے''جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد ساٹھ ہے'' مگر ان کے لیے وہ لوگ ساٹھ افراد نہیں تھے۔ان میں سے کوئی ارشاد تھا تو کوئی جاوید، کوئی سجاد تھا تو کوئی عبدالرحمان! وہ سب جانے پہچانے لوگ تھے۔ ان سب لوگوں کو سب لوگ اگر ذاتی حوالے سے نہیں تو کم از کم خاندانی حوالے سے جانتے تھے۔

سب کو پتہ تھا کہ وہ نوجوان کیسا تھا؟ اس نے ابھی شادی کی تھی کہ نہیں؟ اس کو کس محکمے میں ملازمت ملی؟ وہ کراچی یا حیدرآباد منتقل ہوگیا ہے کہ نہیں! وہ سب لوگ ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے اور پہچانتے تھے۔ اس لیے ان لوگوں کے لیے وہ عام افراد نہیں بلکہ ہمسائے تھے اور سندھی زبان میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ''محلہ والدین کی طرح ہوا کرتا ہے'' اس طرح وہ افراد جو جمعے کو سندھ کی تاریخ کی سب سے بڑی اور سب سے بری دہشت گردی کا نشانہ بنے یہ افراد اہل شکارپور کے بچے تھے۔

سندھ کا دل ٹکڑے کردینے والے اس سانحے کے بارے میں جان کر اہل سندھ کو یہ محسوس ہوا کہ شکارپورکو دروازہ بناکر اب دہشت گردی سندھ میں داخل ہوگئی ہے اور جو لوگ ادب اور آرٹ سے وابستہ ہیں ان کے لیے یہ سانحہ اس شیخ ایاز کے شہر میں ہوا جس کا تصور بے حدخوبصورت تھا ۔اب وہ تصور ٹوٹ چکا ہے۔اس تصور کی کرچیاں چن کر سندھ کی ایک خوبصورت شاعرہ نے ''ہر طرف شام غریباں'' کے عنوان سے جو نظم لکھی اس میں وہ درد موجود ہے جو درد لاڑکانہ کی شاعرہ نے موہن جو دڑو کی اسٹوپا پر کھڑے ہوکر اس شہر کی طرف دیکھتے ہوئے یہ اشعار لکھے ہیں جو شہر لاڑکانہ سے پکار اور بازگشت کا رشتہ رکھتا ہے۔

جی ہاں! شیخ ایاز کے بعد سندھ کے درد کو سروں میں سمانے والی سندھی زبان کی سب سے بڑی شاعرہ روبینہ ابڑونے اپنے پڑوسی شہر کی غمگین منظرکشی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

''مجھ سے تم سے یہ پوچھتے ہو

ایاز کے رس بھرے گیت
آخرکہاں گئے؟

اور نشیلے عشق کے مدھ بھرے سنگیت
آخرکہاں گئے؟

مئے کدہ مقتل بن ہے
ہر طرف بس کربلا کا ہے نظارہ

کیوں لکھی در اور صدر کی
راہ لہو میں لال ہے؟

مجھ سے تم یہ پوچھتے ہو
کیوں محبت کے مقدس راستے

ویران ہیں؟
اور عطر بازار

بھر گئی ہے
بارود کی بدبو سے''

میں جانتا ہوں کہ اس شاہکار نظم کا اس عجلت میں ترجمہ اس معیار کا نہیں مگر ان الفاظ سے اس درد کی ایک جھلک دیکھی جاسکتی ہے، اس شہر کی جو کل ایاز کی عشقیہ شاعری کی آغوش تھا اور آج روبینہ ابڑو کی اداس نظم بن چکا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں