رضیہ سلطانہ جری خاتون حکمران…
غیر معمولی شخصیات کی غیر معمولی اموات نہایت سبق آموز و حیران کن ہیں۔
QUETTA:
عمومی طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ حکمرانی کا حق صرف مردوں کو حاصل ہے اس لیے کہ ان میں حکمرانہ خصلت اور ریاست چلانے کے لیے شاطرانہ چالوں میں مہارت حاصل ہوتی ہے لیکن کچھ صلاحیتیں خداداد بھی ہوتی ہیں اس عطیہ خداوندی کو کسی مخصوص پیرائے سے نتھی کرنا،مناسب نہیں تاریخ انسانی میں مدری نظام رائج رہا ہے جہاں خواتین نے مردوں پر حکمرانی کی ہے۔
پدری نظام کے بعد بھی تاریخ میں ہمیں ایسی خواتین کے قصے ملتے ہیں جنھوں نے شہرت و داوم پایا ۔ملکہ سبا سے لے کر بینظیر بھٹو یا بنگلہ دیش کی خالدہ ضیا، شیخ حسینہ ہوں یا ماضی کی اندرا گاندھی ، ان کی سیاسی بصیرت اور اپنے مخالفین کے ساتھ شطرنج کی چالوں سے کون واقف نہیں ہے۔کچھ اسی طرح کا کردار مسلم حکمرانوں میں رضیہ خاتون کا بھی ہے جس نے اپنی شاطرانہ چالوں اور بصیرت کی وجہ سے متنازعہ ہونے کے باوجود تاریخ میں نام رقم کردیا۔
التمش کی اولاد نرینہ ہونے کے باوجود اُن کی نا اہلی اور عیش پسندی سے مایوس ہوکر اُس نے اپنی بیٹی کو اپنا جانشین مقررکردیا۔التمش انتہائی خوبصورت شخص تھا اور قطب ایبک کا داماد تھا،ایبک بھی نہایت خوبرو اوردلیر شخص تھا۔اُن کی اولاد رضیہ بھی نہ صرف حسین ذہین و فطین،بلکہ بہادر بھی تھی۔التمش کی وفات کے بعد اُمرا اور وزرا ء نے اُس کی وصیت کے برعکس رضیہ کے بجائے رُکن الدین فیروز شاہ کو محض اس لیے حکمران بنا دیا کہ عورت کی سربراہی کو نہایت عار محسوس کیا جاتا تھا۔
فیروز شاہ نے تخت نشین ہوتے ہی امور سلطنت پر توجہ دینے کے بجائے شہاب الدین غوری ، قطب الدین ایبک اور باپ کی بے اندازہ دولت کو گویوں، بھانڈوں، مسخروں، مراثیوں، نقالوں اور بازاری عورتوں اورشراب نوشی پر خرچ کرنا شروع کردیا۔کاروبار حکومت میں اُس کی والدہ شاہ ترکان کا ہاتھ تھا ، اس نے جب دیکھا کہ اس کا بیٹا عیش و عشرت میں پڑکرکاروبار حکومت سے بے پرواہ ہوچکا ہے تو اس نے التمش کے نکاح میں آئی ہوئی اعلیٰ خاندان کی عورتوں کو نہایت ذلت اور رسوائی سے قتل کرڈالا۔
حرم کی دوسری عورتوں کو بھی نہایت ذلیل کیا ان کو نہایت بدحال اور مفلسی میںزندگی گذارنا پڑی ۔ یہی نہیں بلکہ اُس نے التمش کے سب سے چھوٹے بیٹے قطب الدین کو بھی قتل کرڈالا، ان حالات میں امرا ء نے رکن الدین سے متنفر ہوکر اس کے خلاف بغاوت کرکے اُسے شکست دی اور رضیہ کو تخت نشین کرا دیا۔ رضیہ لگ بھگ بیس برس کی تھی۔
رضیہ سلطانہ میں وہ سب خوبیاں پائی جاتیں تھیں جو کسی حکمران کے لیے لازمی تھی، صرف ایک کمی گنوائی جاتی تھی کہ وہ مرد نہیں تھی لیکن اس میں تمام مردانہ صفات موجود تھیں۔وہ بہادر ، دور اندیش ، ذہین و حسین ہونے کے علاوہ امور سلطنت سے بخوبی واقف تھی۔التمش اپنے تمام بیٹوںکی صلاحیتوں اور فراست پر رضیہ سلطانہ کی فراست کو اولیت اور اہمیت دیکر امور سلطنت میں بیٹی کے صلاح مشوروں کو اکثر اوقات حرف ِ آخر کی حیثیت دیا کرتا تھا اس لیے اس نے رضیہ کو جانشین مقرر کر دیا تھا۔
1236ء میں تخت نشین ہوتے ہی اُس نے پردے کو مکمل ترک کرکے مکمل مردانہ لباس پہننا شروع کردیا، دربارخاص وعام مقررکرتی، باپ کے قاعدے وقانون کے مطابق حکومت چلاتی رہی ۔رضیہ کے برسراقتدار آتے ہی چند بڑے اورطاقتور امرا ء نے بغاوت کی،رضیہ نے نہایت جرات اور تدبر سے امراء کوشکست دی اور بیشتر کو عبرت ناک سزائیں دیں۔
اُس کی دھاک تمام امرا ء اور عوام کے دلوں میں بیٹھ گئی، اندرونی طور پر امراء کی سازشوں کی بیخ کنی نہ ہونے اور محض رضیہ کے عورت ہونے کے باعث وہ درپردہ اُسے ہمہ وقت ہٹانے کی ہر طرح کی کوشش میں مصروف تھے۔بھائیوں معززالدین اورناصر الدین کی موجودگی میں ایک عورت کی مردوں پر حکمرانی ، ایک ادنی امیرجمال الدین عرف یاقوت حبشی سے تعلقات نے شکست خوردہ امراء کی سازشوں کی دبی ہوئی چنگاریوں کو ہوا دی اور بغاوتیں شروع ہوگئیں۔
ان ھی دنوں رضیہ کا ایک ہمدرد اور طاقتور نگران امیر قطب الدین جس کے باعث رضیہ کو نہایت استحکام اور تقویت حاصل ہوئی تھی، دہلی سے رنتھ پور چلا گیا۔اُس کی غیر موجودگی میں رضیہ کو سہولت اور کچھ آزادی سی مل گئی ۔رضیہ نے جو نہایت حسین، جوان اورغیر شادی شدہ تھی، امیر قطب الدین کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھا کر ایک ادنی امیر جمال الدین عرف یاقوت حبشی سے اتنے قریبی تعلقات استوار کرلیے کہ اسے امیر الاامراء بنا دیا۔آخر تعلقات کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ جب رضیہ گھوڑے پر سوار ہونے لگتی تو یاقوت حبشی اُس کی بغل میں ہاتھ ڈال کر اُسے گھوڑے پر بٹھا دیتا۔
لاہور کے حاکم ملک اعزاز الدین اور بٹھنڈہ کے حاکم ملک التونیہ نے ملک یاقوت کی بیجا دخل اندازیوں سے تنگ آ کر جنگ کا اعلان کردیا۔ رضیہ اور یاقوت ، بٹھنڈہ پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے تھے کہ راستے میں اُن ہی کے ترکی امرا ء نے اُن پر حملہ کرکے یاقوت کو جس سے انھیں نفرت تھی ، ہلاک کر ڈالا ۔رضیہ کو بھٹنڈہ ہی کے قلعے میں قید کرکے رضیہ کے بھائی معزالدین بہرام شاہ کو تخت پر بٹھا دیا۔دوسرا بھائی ناصر الدین محمود ایک گوشہ نشین شخص تھا ۔رضیہ نے جو نہ صرف حسین و ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ موقع شناس بھی تھی ، کسی طرح ملک التونیہ سے شادی کرلی۔دونوں نے ککھڑوں، جاٹوں اور آس پاس کے زمینداروں کا زبردست لشکر تیار کرکے کھوئی ہوئی سلطنت حاصل کرنے کے لیے دہلی پر حملہ کردیا۔
رضیہ کے بھائی نے اپنے بہنوئی اعزاز الدین بلبن کو اُن کے مقابلے کے لیے بھیجا۔ دونوں کو شکست ہوئی ۔ رضیہ نے میدان جنگ سے فرار ہو کر بھٹنڈہ میں پناہ لی۔ بے چین اقتدار پسند اور جنگجویانہ فطرت نے اُسے سکون سے بیٹھنے نہیں دیا۔ وہ دوبارہ بکھری ہوئی فوج کو جمع کرکے دہلی پر حملہ آور ہوئی ، لیکن دوسری مرتبہ بھی اس کے بہنوئی اعزاز الدین بلبن نے26 ستمبر1240ء میں رضیہ کو شکست دی۔رضیہ ، التونیہ دونوں فرار ہوکر کھتل کی جانب نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔
دونوں انتہائی تھکے ماندے اور بھوک سے نڈھال ایک درخت کے نیچے سستا رہے تھے۔ رضیہ نے کسی راہگزر ہندو جاٹ سے روٹی اور پانی مانگا۔اُس نے دوسرے ہندو جاٹوں کو اطلاع دی، انھوں نے قیمتی لباس کی خاطر دونوں کو بیدردی سے قتل کرڈالا۔اس کے بھائی نے رضیہ کی نعش دہلی منگوا کر ترکمانی دروازے کے پاس بلبل خانے کے محلے میں بیس فٹ کے احاطہ میں سنگِ سرخ سے مقبرہ بنادیا۔ یہ مقبرہ اب بھی رجی سجی کی درگاہ کے نام سے دہلی میں نہایت خراب و خستہ حالت میں موجود ہے۔
رضیہ کی بہن سجیہ بیگم عرف سجی کو بھی اسی مقبرے کے احاطے میں رضیہ کی قبر کے پاس دفنا دیا گیا ۔بندہ پیراگی (1656۔1716ء) نے مقبرہ کو تباہ کرکے تمام سنگِ سرخ نکال لیا۔رضیہ کے زوال، تباہی اور قتل کی سب سے بڑی وجہ ملک یاقوت حبشی سے اس کی بیجا قربت اور ہوس اقتدار تھی ، قتل کے وقت رضیہ بمشکل پچیس برس کی ہوگی۔ایک جری حکمران کی عبرت ناک موت تاریخ کا حصہ بن گئی۔غیر معمولی شخصیات کی غیر معمولی اموات نہایت سبق آموز و حیران کن ہیں۔رضیہ سلطانہ کی داستان اسی سلسلے کی کڑی ہے۔