بی جے پی چیف کے ساتھ گفتگو
کانگریس نے تعلیم، صحت یا روز گار کے میدان میں مسلمانوں کے لیے کچھ بھی نہیں کیا
بی جے پی کے سربراہ نتن گڈکری کے ساتھ اتفاقیہ ملاقات بڑی سود مند رہی لیکن اس نے مجھے الجھن میں بھی ڈال دیا ہے۔
میں نے اسے وہی باتیں کہتے ہوئے سنا جو بائیں بازو والوں کا نکتہ نظر ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ آیا ان کے نظریاتی اختلافات معدوم ہو گئے ہیں، کیونکہ بی جے پی اور بائیں بازو کی جماعتوں (لیفٹسٹوں) نے گزشتہ چند ماہ کے دوران پارلیمنٹ کا مشترکہ طور پر بائیکاٹ کیا اور مشترکہ احتجاجی مظاہرے بھی کیے۔ گڈکری نے ملکی نظام کی از سر نو تشکیل کی بات بھی کی تا کہ ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی جو غریبی کی دلدل میں دھنس رہی ہے ،اسے باہر نکالا جا سکے۔ انھوں نے آزادی کے بعد سے پے در پے آنے والی حکومتوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جنہوں نے غریبوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔
ایک موقع پر گڈکری نے کہا کہ وہ لیفٹسٹ ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی واضح کیا کہ وہ سو فیصد آر ایس ایس (راشٹریہ سیوک سنگھ) کے پرچارک ہیں اور انہیں اس پر فخر بھی ہے۔ ''میں خاکی نیکر پہنتا ہوں اور جب میں ''شاکا'' میں کھڑا ہوتا ہوں تو خود کو بہت پروقار محسوس کرتا ہوں۔ مجھے اس کی ایک اور بات پر بھی الجھن محسوس ہوئی۔ اس نے تسلیم کیا کہ ان کی پارٹی کے اندر داخلی لڑائی جاری ہے۔ ''وہ پہلے ہی وزارت عظمیٰ کے منصب کے لیے اپنا دعویٰ دائر کر چکے ہیں۔
لیکن میں نے انہیں بتا دیا ہے کہ میں امید وار نہیں ہوں۔'' اس کے باوجود اسے اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ آیندہ الیکشن ان کی پارٹی ہی جیتے گی اور مرکز میں وہی مخلوط حکومت بنائے گی۔ گڈکری نے اس بات پر زور دیا کہ نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس (این ڈی اے) لوک سبھا کی 526 نشستوں میں سے 200 نشستیں تو یقیناً حاصل کر لے گا۔ فی الحال این ڈی اے کے اراکین 114 ہیں۔ گڈکری کا کہنا تھا کہ ایک بار ہماری تعداد 150 تک پہنچ گئی تو آپ دیکھیں گے کہ کس طرح دیگر سیاسی پارٹیاں بھاگم بھاگ این ڈی اے کی طرف آتی ہیں۔
اسے اکالی دل کی طرف سے حمایت کا پورا یقین تھا بلکہ اے آئی اے ڈی ایم کے کی جے للیتا کے بھی اپنی طرف آنے کی واثق امید تھی۔بی جے پی کے صدر نے اس بات کو تسلیم کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا کہ اگر ان کی پارٹی اکثریت حاصل کرنا چاہتی ہے تو پھر اسے مسلمانوں کے ووٹ بھی درکار ہوں گے۔ میری طرف دیکھتے ہوئے اس نے کہا ''آپ لوگوں نے ہمارے بارے میں یہ تاثر پھیلا دیا ہے کہ ہم مسلمانوں کے خلاف ہیں لیکن ہندوتوا کا مطلب اسلام دشمنی نہیں ہے۔
ہماری ترجیح قومیت ہے۔ میں نے اس کی تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ ہماری ترجیح قومیت کے بجائے ملک ہونی چاہیے۔ اس نے کہا ہاں ملک کو ترجیح دی جانی چاہیے لیکن ہندوتوا بھی معاشرے میں اجتماعیت کی علامت ہے۔ جسے موافقت' ہم آہنگی اور برداشت کے معنوں میں بھی لیا جا سکتا ہے۔ اس موقع پر اس نے کانگریس پارٹی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ملک میں جو بھی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں، ان سب کی ذمہ دار کانگریس ہے۔ یہ ایک ایسی پارٹی ہے جو صرف سازشیں اور جوڑ توڑ ہی کرتی ہے اور اسی نے ملک کو سیکولر اور غیر سیکولر حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
کانگریس نے تعلیم، صحت یا روز گار کے میدان میں مسلمانوں کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ اس نے صرف مسلمانوں کو ووٹ بینک کے طور پر ہی استعمال کیا ہے۔ اور دیکھ لو کہ کیا ہو رہا ہے؟ وہ مسلمان نوجوانوں میں سے کچھ لڑکوں کو پکڑ لیتے ہیں اور ان پر دہشتگردی کا لیبل لگا دیتے ہیں۔ ان کو ایسے جرائم میں ملوث کیا جاتا ہے جن کی بنا پر انہیں دہشت گرد قرار دیا جا سکے۔ آخر غریب مسلمانوں کے پاس کیا راستہ ہے؟ پولیس نے ان کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کر کے اس برادری کو حد سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
تاہم ایک بات کا گڈکری نے بلند آواز میں اظہار کیا اور کہا کہ اگر بھارت میں مسلمانوں کی اکثریت ہو جاتی ہے تو پھر وہ اسے ایک اسلامی ریاست میں تبدیل کر دیں گے۔ اسلام سیکولرازم کو نہیں مانتا۔ مجھے یاد آیا کہ جب میں راجیہ سبھا (ایوان بالا) میں تھا تو اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے بھی اسی قسم کی بات کہی تھی۔ ان کا کہنا تھا،'' بھارت اس وجہ سے سیکولر ملک ہے کیونکہ یہاں ہندوئوں کی اکثریت ہے۔
جس دن مسلمانوں کی اکثریت ہو گئی تو وہ ملک کو اسلامی سٹیج میں بدل دیں گے۔ آپ دنیا بھر میں دیکھ لیں جہاں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں انھوں نے یہی کیا ہے۔''صرف گجرات کے بارے میں گڈکری نے ایسی باتیں کیں جو آف دی ریکارڈ تھیں لیکن اس کے ساتھ ہی اس کا دعویٰ تھا کہ وزیراعلیٰ نریندر مودی ایک بار پھر اسمبلی کا انتخاب بھاری اکثریت سے جیت جائیں گے کیونکہ یہ ریاست تعمیر و ترقی کے حوالے سے پورے ملک میں سب سے آگے ہے۔اس سے قبل تین سال پہلے میری گڈکری سے صرف ایک ملاقات ہوئی تھی جب ہم دونوں ایک مراٹھی اخبار کی افتتاحی تقریب میں شریک ہوئے تاہم وہ اخبار جلد ہی بند ہو گیا۔ ائر پورٹ کی انتظار گاہ میں مجھے دیکھ کر اس نے فوراً پہچان لیا اور میری خیر خیریت دریافت کی۔
یہ کانگریس کے بیشتر لیڈروں کے رویے سے یکسر مختلف بات تھی حالانکہ ان میں سے بیشتر کے ساتھ میری اچھی خاصی جان پہچان بھی ہے لیکن جب میں ان سے کسی مسئلے پر بات کرنا چاہوں تو وہ خالی خالی نظروں سے مجھے دیکھتے رہ جاتے۔ یہ درست ہے کہ وہ سیاسی طور پر بہت طاقتور ہیں لیکن ان میں غرور، تکبر اور با اختیار ہونے کے احساس کا غلبہ نظر آتا ہے۔گڈکری بہت پرجوش تھا اور میرے ساتھ آدھ گھنٹے تک بات چیت کرتا رہا۔
مجھے وہ منکسر مزاج شخص نظر آیا جو نظریاتی طور پر مجھ سے طویل فاصلے پر تھا مگر اپنے نظریات کے بارے میں اس کا انداز قطعاً جارحانہ نہیں تھا۔ حتٰی کہ وہ اپنا موقف بیان کرتے ہوئے اپنی آواز بھی زیادہ بلند نہیں کرتا تھا۔ اس کی آنکھوں کی چمک اس کے الفاظ سے کہیں زیادہ متاثر کن ہوتی۔ بی جے پی کے دیگر لیڈروں کو بھی گڈکری کی اس خصوصیت کا علم ہونا چاہیے۔ میں نے اسے بی جے پی کی دوسری مدت کے لیے سربراہی پر مبارک دی۔''لیکن میں نے تو کسی کو نہیں کہا تھا اور نہ ہی میں کسی قطار میں کھڑا ہوا تھا۔
یہ منصب مجھے خود بخود ہی مل گیا ہے''۔اس نے جواب دیا۔بی جے پی چیف پاکستان کے ساتھ بہترین تعلقات کا خواہاں ہے۔ ''میں نے پاکستانیوں کو بتا دیا ہے کہ ہمیں اچھے پڑوسیوں کی مانند امن و آشتی سے رہنا چاہیے اور غربت کے خلاف مشترکہ طور پر جدوجہد کرنی چاہیے۔ ''وہ اسلحہ کی خریداری میں اپنی دولت ضایع کر رہے ہیں۔ آپ خود اندازہ کریں اگر دونوں ملک یہ دولت کاشتکاری کے لیے استعمال کریں اور اس سے توپیں' ٹینک اور گولا بارود خریدنے کے بجائے کاشتکاری کے جدید آلات اور ٹیکنالوجی حاصل کریں تو دونوں ملکوں کی فصلیں کس قدر بھرپور ہوں گی۔ گڈکری کا کہنا تھا کہ دنیا کے سب سے بڑے دشمن بنیاد پرست ہیں اور اسے پاکستان میں اس کے بڑھتے ہوئے اثرات سے افسوس ہو رہا ہے۔
گڈکری کو چین پسند نہیں ہے حتٰی کہ ان کے ملک کا دورہ کر کے بھی اسے خوشی نہیں ہوئی۔ وہاں بھارت دشمنی کے تبصروں سے اسے تکلیف ہوئی۔ ''ہم پاکستان کے دوست بن سکتے ہیں مگر چین کے نہیں کیونکہ اس کے عزائم لامحدود ہیں''۔ 1962ء میں بھارت چین جنگ کے بعد جب لال بہادر شاستری نے بھارتی وزیر داخلہ کی حیثیت سے چین کا دورہ کیا تھا تو انھوں نے بھی تقریباً اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ اس وقت میں ان کا پریس آفیسر تھا۔طیارہ دہلی ائرپورٹ پر اتر چکا تھا چنانچہ مجھے بی جے پی چیف کے ساتھ اپنی بات چیت ختم کرنا پڑی۔ گڈکری نے رخصت ہوتے وقت کہا ''تم جب بھی چاہو مزید بات چیت کے لیے میں تمہارے گھر آ جائوں گا۔''
(ترجمہ! مظہر منہاس)
میں نے اسے وہی باتیں کہتے ہوئے سنا جو بائیں بازو والوں کا نکتہ نظر ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ آیا ان کے نظریاتی اختلافات معدوم ہو گئے ہیں، کیونکہ بی جے پی اور بائیں بازو کی جماعتوں (لیفٹسٹوں) نے گزشتہ چند ماہ کے دوران پارلیمنٹ کا مشترکہ طور پر بائیکاٹ کیا اور مشترکہ احتجاجی مظاہرے بھی کیے۔ گڈکری نے ملکی نظام کی از سر نو تشکیل کی بات بھی کی تا کہ ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی جو غریبی کی دلدل میں دھنس رہی ہے ،اسے باہر نکالا جا سکے۔ انھوں نے آزادی کے بعد سے پے در پے آنے والی حکومتوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جنہوں نے غریبوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔
ایک موقع پر گڈکری نے کہا کہ وہ لیفٹسٹ ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی واضح کیا کہ وہ سو فیصد آر ایس ایس (راشٹریہ سیوک سنگھ) کے پرچارک ہیں اور انہیں اس پر فخر بھی ہے۔ ''میں خاکی نیکر پہنتا ہوں اور جب میں ''شاکا'' میں کھڑا ہوتا ہوں تو خود کو بہت پروقار محسوس کرتا ہوں۔ مجھے اس کی ایک اور بات پر بھی الجھن محسوس ہوئی۔ اس نے تسلیم کیا کہ ان کی پارٹی کے اندر داخلی لڑائی جاری ہے۔ ''وہ پہلے ہی وزارت عظمیٰ کے منصب کے لیے اپنا دعویٰ دائر کر چکے ہیں۔
لیکن میں نے انہیں بتا دیا ہے کہ میں امید وار نہیں ہوں۔'' اس کے باوجود اسے اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ آیندہ الیکشن ان کی پارٹی ہی جیتے گی اور مرکز میں وہی مخلوط حکومت بنائے گی۔ گڈکری نے اس بات پر زور دیا کہ نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس (این ڈی اے) لوک سبھا کی 526 نشستوں میں سے 200 نشستیں تو یقیناً حاصل کر لے گا۔ فی الحال این ڈی اے کے اراکین 114 ہیں۔ گڈکری کا کہنا تھا کہ ایک بار ہماری تعداد 150 تک پہنچ گئی تو آپ دیکھیں گے کہ کس طرح دیگر سیاسی پارٹیاں بھاگم بھاگ این ڈی اے کی طرف آتی ہیں۔
اسے اکالی دل کی طرف سے حمایت کا پورا یقین تھا بلکہ اے آئی اے ڈی ایم کے کی جے للیتا کے بھی اپنی طرف آنے کی واثق امید تھی۔بی جے پی کے صدر نے اس بات کو تسلیم کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا کہ اگر ان کی پارٹی اکثریت حاصل کرنا چاہتی ہے تو پھر اسے مسلمانوں کے ووٹ بھی درکار ہوں گے۔ میری طرف دیکھتے ہوئے اس نے کہا ''آپ لوگوں نے ہمارے بارے میں یہ تاثر پھیلا دیا ہے کہ ہم مسلمانوں کے خلاف ہیں لیکن ہندوتوا کا مطلب اسلام دشمنی نہیں ہے۔
ہماری ترجیح قومیت ہے۔ میں نے اس کی تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ ہماری ترجیح قومیت کے بجائے ملک ہونی چاہیے۔ اس نے کہا ہاں ملک کو ترجیح دی جانی چاہیے لیکن ہندوتوا بھی معاشرے میں اجتماعیت کی علامت ہے۔ جسے موافقت' ہم آہنگی اور برداشت کے معنوں میں بھی لیا جا سکتا ہے۔ اس موقع پر اس نے کانگریس پارٹی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ملک میں جو بھی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں، ان سب کی ذمہ دار کانگریس ہے۔ یہ ایک ایسی پارٹی ہے جو صرف سازشیں اور جوڑ توڑ ہی کرتی ہے اور اسی نے ملک کو سیکولر اور غیر سیکولر حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
کانگریس نے تعلیم، صحت یا روز گار کے میدان میں مسلمانوں کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ اس نے صرف مسلمانوں کو ووٹ بینک کے طور پر ہی استعمال کیا ہے۔ اور دیکھ لو کہ کیا ہو رہا ہے؟ وہ مسلمان نوجوانوں میں سے کچھ لڑکوں کو پکڑ لیتے ہیں اور ان پر دہشتگردی کا لیبل لگا دیتے ہیں۔ ان کو ایسے جرائم میں ملوث کیا جاتا ہے جن کی بنا پر انہیں دہشت گرد قرار دیا جا سکے۔ آخر غریب مسلمانوں کے پاس کیا راستہ ہے؟ پولیس نے ان کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کر کے اس برادری کو حد سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
تاہم ایک بات کا گڈکری نے بلند آواز میں اظہار کیا اور کہا کہ اگر بھارت میں مسلمانوں کی اکثریت ہو جاتی ہے تو پھر وہ اسے ایک اسلامی ریاست میں تبدیل کر دیں گے۔ اسلام سیکولرازم کو نہیں مانتا۔ مجھے یاد آیا کہ جب میں راجیہ سبھا (ایوان بالا) میں تھا تو اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے بھی اسی قسم کی بات کہی تھی۔ ان کا کہنا تھا،'' بھارت اس وجہ سے سیکولر ملک ہے کیونکہ یہاں ہندوئوں کی اکثریت ہے۔
جس دن مسلمانوں کی اکثریت ہو گئی تو وہ ملک کو اسلامی سٹیج میں بدل دیں گے۔ آپ دنیا بھر میں دیکھ لیں جہاں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں انھوں نے یہی کیا ہے۔''صرف گجرات کے بارے میں گڈکری نے ایسی باتیں کیں جو آف دی ریکارڈ تھیں لیکن اس کے ساتھ ہی اس کا دعویٰ تھا کہ وزیراعلیٰ نریندر مودی ایک بار پھر اسمبلی کا انتخاب بھاری اکثریت سے جیت جائیں گے کیونکہ یہ ریاست تعمیر و ترقی کے حوالے سے پورے ملک میں سب سے آگے ہے۔اس سے قبل تین سال پہلے میری گڈکری سے صرف ایک ملاقات ہوئی تھی جب ہم دونوں ایک مراٹھی اخبار کی افتتاحی تقریب میں شریک ہوئے تاہم وہ اخبار جلد ہی بند ہو گیا۔ ائر پورٹ کی انتظار گاہ میں مجھے دیکھ کر اس نے فوراً پہچان لیا اور میری خیر خیریت دریافت کی۔
یہ کانگریس کے بیشتر لیڈروں کے رویے سے یکسر مختلف بات تھی حالانکہ ان میں سے بیشتر کے ساتھ میری اچھی خاصی جان پہچان بھی ہے لیکن جب میں ان سے کسی مسئلے پر بات کرنا چاہوں تو وہ خالی خالی نظروں سے مجھے دیکھتے رہ جاتے۔ یہ درست ہے کہ وہ سیاسی طور پر بہت طاقتور ہیں لیکن ان میں غرور، تکبر اور با اختیار ہونے کے احساس کا غلبہ نظر آتا ہے۔گڈکری بہت پرجوش تھا اور میرے ساتھ آدھ گھنٹے تک بات چیت کرتا رہا۔
مجھے وہ منکسر مزاج شخص نظر آیا جو نظریاتی طور پر مجھ سے طویل فاصلے پر تھا مگر اپنے نظریات کے بارے میں اس کا انداز قطعاً جارحانہ نہیں تھا۔ حتٰی کہ وہ اپنا موقف بیان کرتے ہوئے اپنی آواز بھی زیادہ بلند نہیں کرتا تھا۔ اس کی آنکھوں کی چمک اس کے الفاظ سے کہیں زیادہ متاثر کن ہوتی۔ بی جے پی کے دیگر لیڈروں کو بھی گڈکری کی اس خصوصیت کا علم ہونا چاہیے۔ میں نے اسے بی جے پی کی دوسری مدت کے لیے سربراہی پر مبارک دی۔''لیکن میں نے تو کسی کو نہیں کہا تھا اور نہ ہی میں کسی قطار میں کھڑا ہوا تھا۔
یہ منصب مجھے خود بخود ہی مل گیا ہے''۔اس نے جواب دیا۔بی جے پی چیف پاکستان کے ساتھ بہترین تعلقات کا خواہاں ہے۔ ''میں نے پاکستانیوں کو بتا دیا ہے کہ ہمیں اچھے پڑوسیوں کی مانند امن و آشتی سے رہنا چاہیے اور غربت کے خلاف مشترکہ طور پر جدوجہد کرنی چاہیے۔ ''وہ اسلحہ کی خریداری میں اپنی دولت ضایع کر رہے ہیں۔ آپ خود اندازہ کریں اگر دونوں ملک یہ دولت کاشتکاری کے لیے استعمال کریں اور اس سے توپیں' ٹینک اور گولا بارود خریدنے کے بجائے کاشتکاری کے جدید آلات اور ٹیکنالوجی حاصل کریں تو دونوں ملکوں کی فصلیں کس قدر بھرپور ہوں گی۔ گڈکری کا کہنا تھا کہ دنیا کے سب سے بڑے دشمن بنیاد پرست ہیں اور اسے پاکستان میں اس کے بڑھتے ہوئے اثرات سے افسوس ہو رہا ہے۔
گڈکری کو چین پسند نہیں ہے حتٰی کہ ان کے ملک کا دورہ کر کے بھی اسے خوشی نہیں ہوئی۔ وہاں بھارت دشمنی کے تبصروں سے اسے تکلیف ہوئی۔ ''ہم پاکستان کے دوست بن سکتے ہیں مگر چین کے نہیں کیونکہ اس کے عزائم لامحدود ہیں''۔ 1962ء میں بھارت چین جنگ کے بعد جب لال بہادر شاستری نے بھارتی وزیر داخلہ کی حیثیت سے چین کا دورہ کیا تھا تو انھوں نے بھی تقریباً اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ اس وقت میں ان کا پریس آفیسر تھا۔طیارہ دہلی ائرپورٹ پر اتر چکا تھا چنانچہ مجھے بی جے پی چیف کے ساتھ اپنی بات چیت ختم کرنا پڑی۔ گڈکری نے رخصت ہوتے وقت کہا ''تم جب بھی چاہو مزید بات چیت کے لیے میں تمہارے گھر آ جائوں گا۔''
(ترجمہ! مظہر منہاس)