جرم و سزا کی نئی جہتیں
وکلاء کی توجہ اسی بات پر مرکوز ہے کہ پاکستانی آئین کے مطابق ہمارے صدر کا استثنیٰ کہاں سے شروع ہو کر کہاں ختم ہوتا ہے
اتنا بڑا واقعہ ہوگیا اور کسی نے اس پر توجہ ہی نہ دی۔ عورتوں کے حقوق کی خود ساختہ یا غیر ملکی امداد سے چلائی گئی تنظیمیں خاموش ہیں۔ آئین اور قانون کی باریکیاں ٹی وی اسکرینوں پر بغیر کسی معاوضے کے سمجھانے اور سلجھانے والے بھی اور سب سے بڑھ کر ہمارے وہ اخلاق ساز کالم نگار جنہوں نے گزشتہ چند مہینوں سے اس ملک کے شہریوں کو پارسا بنانے کا عزم کر رکھا ہے، سب خاموش ہیں۔
کسی چھوٹی عدالت میں نہیں، پشاور ہائیکورٹ کے روبرو ایک خاتون کا مقدمہ پیش ہوا۔ اس پر اپنے گھر کو ''غلط کاموں'' کے لیے استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ ایک ایسے اخبار میں لکھتے ہوئے جسے خاندان کے تمام افراد تک رسائی ہوا کرتی ہے، مجھے کسی خاتون کا اپنے گھر کو ''غلط کاموں'' کے لیے استعمال کرنے والے الزام کی وضاحت کرنا ضروری نہیں۔ عقل مند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوا کرتا ہے۔
اگرچہ اس سے سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ ہمارے بڑے شہروں کے بہت سارے خوشحال گھروں میں رات کو جو محفلیں سجائی جاتی ہیں اور ان میں اگر صرف مرد ہی موجود ہوں تو بھی مشروبات وغیرہ کے ضمن میں کچھ غلط قسم کے کام بھی ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن میں نے آج تک کبھی ایسی خبر نہیں پڑھی جس میں پولیس نے کسی گھر پر چھاپہ مار کر اس کے مرد مالک اور اس کے مہمانوں کو ایسے کاموں میں ملوث ہونے کے جرم میں دھر لیا ہو۔ گھروں یا ہوٹلوں پر جو چھاپے مارے جاتے ہیں ان میں منہ چھپاتی تصویریں صرف ''رنگ رلیاں'' منانے والے خواتین و حضرات کو رنگے ہاتھوں گرفتار کرنے کے دعوے کیا کرتی ہیں۔
بہر حال پشاور ہائیکورٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کے سامنے لائے گئے مقدمہ میں ملوث خاتون کو بجائے سزا دینے کے فی الحال رہا کر دیا جائے۔ اپنی رہائی پانے کے بعد مذکورہ خاتون کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ پورے ایک ماہ تک روزانہ ایک گھنٹہ ایک مخصوص مسجد کے امام کے پاس حاضر ہو اور ان سے ہدایت لے کر اپنے اطوار کو درست کرنے کی کوشش کرے۔ ایک ماہ گزر جانے کے بعد فیصلہ ہو گا کہ وہ راہِ راست پر آئی ہے یا نہیں۔
ہائی کورٹ سے یہ فیصلہ آنے کے بعد پشاور کے چند صحافیوں نے مذکورہ امام مسجد سے رابطہ کیا۔ انھوں نے واضح الفاظ میں یہ فرمایا کہ ابھی تک ان سے کسی عدالتی یا سرکاری اہل کار نے متعلقہ مقدمے کے ضمن میں کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔ ایک بات انھوں نے قطعی طور پر ضرور کہہ دی کہ انھیں عدالتی حکم کی تعمیل میں کوئی تعرض نہ ہو گا بشرطیکہ مذکورہ خاتون اکیلی نہیں بلکہ کسی محرم کے ہمراہ ان کے پاس ایک ماہ تک روزانہ ایک گھنٹہ ہدایت حاصل کرنے آتی رہے۔
مجھے خبر نہیں کہ متعلقہ امام مسجد صاحب سے ابھی تک کسی سرکاری یا عدالتی اہل کار نے رابطہ کیا ہے یا نہیں اور مذکورہ خاتون کو راہ راست پر لانے کی مشق کا آغاز بھی ہو گیا ہے یا نہیں۔ تاہم یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ مذکورہ خاتون سے متعلقہ فیصلہ اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ ہے۔ اس پر مثبت عمل درآمد ہوا تو خواتین و حضرات کے درمیان فرق کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک نظیر قائم ہو سکتی ہے جس کی روشنی میں مختلف الزامات کے تحت جیلوں میں برسوں سے اپنے مقدمات کے قطعی فیصلے ہوئے بغیر محبوس لوگوں کی رہائی اور بھلائی کے ہزار ہا امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ آئین اور قانون اور جرم و سزا کی باریکیوں اور اُلجھنوں سے بے خبر میرا ذہن تو ایسے امکانات کا کھلے دل سے خیر مقدم کرے گا۔ سوال مگر یہ ہے کہ اسی معاملے سے متعلق براہ راست نہیں بلکہ بالواسطہ فریقین ان امکانات کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔
سب سے پہلا سوال تو مفتیانِ دین بھی اُٹھا سکتے ہیں۔ میری ناقص فہم کے مطابق ان کے ہاں تو اکثر جرائم اور خاص کر وہ جرم جس کی نظر بظاہر مذکورہ خاتون مرتکب پائی گئی ہے، کسی بھی صورت سزا سے بچ ہی نہیں سکتے۔ توبہ اور اصلاح کا عمل سزا پانے کے بعد شروع ہونا چاہیے۔ میں اپنے تئیں اس تصور کی نفی کرنے کی جرأت ہی نہیں رکھتا۔ زیادہ بہتر ہے کہ ہمارے وہ اخلاق ساز کالم نگار جنہوں نے گزشتہ چند مہینوں سے اس ملک کے شہریوں کو پارسا بنانے کا عزم کر رکھا ہے آگے بڑھیں۔ دلائل و براہین سے اس بحث کو آگے بڑھائیں۔ ہماری رہنمائی فرمائیں کہ کون کون سے جرائم ایسے ہیں جن کا ارتکاب اگر ہو بھی جائے تو بجائے فوری سزا دینے کے زیادہ بہتر یہی ہو گا کہ ان میں ملوث افراد کو ہدایت دینے کے لیے آئمہ کرام کے حوالے کر دیا جائے۔ اس طرح ایک بڑی ٹھوس علمی بحث کے ذریعے ہمارے عام لوگوں کو جرم و سزا کی نئی جہتیں دریافت کرنے میں بڑی آسانی ہو گی۔
ہمارے وکلاء کی اکثریت بھی آج کل سماج سدھار مہم میں مبتلا دکھائی دے رہی ہے۔ ابھی تک ان میں سے میڈیا پر نظر آنے والے افراد نے مگر ساری توجہ اسی بات پر مرکوز رکھی ہے کہ پاکستانی آئین کے مطابق ہمارے صدر کا استثنیٰ کہاں سے شروع ہو کر کہاں ختم ہوتا ہے۔ توہین عدالت کیا ہے اور اس کے ارتکاب کرنے پر سزا دینے کا قانون و رواج کس طرح ہمارے ووٹوں سے منتخب ہو جانے والے ''چور اور لٹیرے'' حکمرانوں کو لگام ڈالنے کا وسیلہ بن سکتا ہے۔ اب بحث کے دائرے کو مزید پھیلانے کی ضرورت ہے اور جرم و سزا سے متعلقہ معاملات کو گہرائی اور وسعت فراہم کرنے کی۔
یقینا کسی زمانے میں ہمارے برطانوی آقائوں کے بنائے تعزیراتی قوانین کے حامی حضرات یہ دعوے کرتے پائے جائیں گے کہ عدالتوں کا کام محض اتنا ہے کہ فیصلہ کریں کہ کسی فرد نے وہ جرم کیا ہے یا نہیں جس کا اس پر الزام لگایا گیا ہے۔ اگر جرم ثابت ہوتا ہے تو سزا دیں ورنہ چاہے شک کا فائدہ دے کر ہی سہی ملزم کو رہا کر دیں۔ ایسی باتیں کرنے والے مگر اقلیت میں پائے جاتے ہیں۔ سماج سدھار کا نعرہ ہماری قوم کی منزل بن چکا ہے اور ہماری آزاد و بے باک عدلیہ اس کام میں ہر اوّل دستہ کا مقام حاصل کر چکی ہے۔ پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو اس ضمن میں ایک تاریخی نظیر بن جانا چاہیے۔
خود ساختہ یا غیر ملکی امداد کے بل بوتے پر عورتوں کے حقوق وغیرہ کی محافظ تنظیموں کے بارے میں البتہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مجھے خبر نہیں کہ انھیں پشاور ہائیکورٹ کے اس فیصلے کا علم ہے بھی یا نہیں۔ اگر علم ہے تو ان کا ردعمل کیا تھا؟ کم از کم میں اس کے بارے میں لاعلم ہوں۔ ان کے گراں قدر خیالات کا صرف انتظار ہی کر سکتا ہوں۔ اگرچہ مجھے خدشہ ہے کہ ہمارے Express Tribune میں اس معاملے پر بدھ کی صبح چھپے اداریے کے بعد چند پڑھی لکھی اور حساس خواتین اس موضوع کے بارے میں کچھ نہ کچھ موقف ضرور اختیار کریں گی۔ جب تک ان کا موقف سامنے نہ آئے مجھے خاموش ہی رہنا چاہیے۔ دو بیٹیوں کا باپ ہوتے ہوئے جو انٹرنیٹ وغیرہ پر کافی وقت صرف کرتی ہیں میں اپنے اوپر Male Chauvinist ہونے کا الزام لگوانے کی جرأت ہی نہیں کر سکتا۔