سینیٹ کے آئندہ الیکشن کا انعقاد خطرے میں پڑنے کا خدشہ
الیکشن کمیشن اور وزارت خزانہ کے درمیان کشیدگی کے باعث سینیٹ کے آئندہ الیکشن کا انعقاد خطرے میں پڑسکتا ہے
مالی خود مختاری کے معاملے پر پاکستان الیکشن کمیشن اور وزارت خزانہ کے درمیان کشیدگی کے باعث سینیٹ کے آئندہ الیکشن کا انعقاد خطرے میں پڑسکتا ہے کیونکہ ادارے کے بڑی تعداد میں سول ملازمین نے جن میں اعلی عہدیدار بھی شامل ہیں نے مالی خود مختاری نہ ملنے کے باعث آئندہ سینیٹ الیکشن میں احتجاجاً الیکشن ڈیوٹی دینے سے انکار کردیا ہے۔ قانون کے تحت3 مارچ ہو نے والے 52 سینیٹروں کے انتخاب کے لیے چاروں صوبائی اسمبلیوں اور پارلیمنت کے دونوں ایوانوں میں کوئی دوسرا محکمہ انتخابی عملے کے بجائے سینیٹ الیکشن کی نگرانی نہیں کرسکتا۔ انتخابی عملے اور وزارت خزانہ کے درمیان رسہ کشی ن لیگ کے برسراقتدار آنے کے بعد الیکشن کمیش کے ملازمین کو تنخواہوں میں20 فیصد الاؤنس بند کیے جانے بعد پیدا ہوئی۔ 2013ء میں عام انتخابات سے ایک ماہ قبل 7مارچ کوچیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر)فخرالدین جی ابراہیم نے الیکشن کمیشن کے عملے کوتنخواہوں میں20 فیصد الاؤنس منظور کیا تھا۔ جس کی اس وقت کے نگراں وزیرخزانہ سلیم مانڈی والا نے جو اجلاس کا حصہ تھے اس اضافے کی توثیق اور نگران وزیر اعظم نے سمری 4اپریل کو منظور کی تھی،اکتوبر 2013ء میں وزارت خزانہ کے ریگولیشن ونگ نے اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان کو بند کرنے کی ہدایت کی اور دعویٰ کیا اس سے حکومت کے دوسرے محکموں کے ملازمین کی نتخواہوں کا اسٹرکچر تبدیل ہو جائے گا۔ نہ صرف الاؤنس بند کیا گیا بلکہ بجٹ2014-15 سے قبل متنازع رقم انتحابی عملے کی ماہانہ تنخواہوں سے قسطوں میں منہا کرلی گئی۔ جو آئین کے تحت الیکشن کمیشن کو دی گئی خود مختاری کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ علاوہ ازیں الیکشن کمیشن کا عملہ یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی لے گیا جہاں یہ کیس تا حال التوا کا شکار ہے اور نئے الیکشن کمشنر کے پاس بھی لے گیا اور ان سے الاؤنس بحال کرنے کی استدعا کی۔ ذرائع کے مطابق بلوچستان سے تعلق رکھنے والے الیکشن کمیشن کے ملازمین نے 30 جنوری کو کمیشن سے کہا کہ وہ 3 مارچ کو بلوچستان اسمبلی میں 12 سینیٹروں کے الیکشن کا بائیکاٹ کرینگے۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن پشاور کے عملے کی درخواست پر 30جنوری کو پشاور ہائی کورٹ نے ملازمین کے حق میں فیصلہ دے دیا تاہم اے جی پی آر کی جانب سے وزارت خزانہ سے ہدایت نہ ملنے کے باعث معاملہ لٹکا ہوا ہے۔سندھ ، پنجاب اور ہیڈکوارٹر کے ای سی عملے نے بھی انصاف کے لیے متعلقہ حکام سے رجوع کیا ہوا ہے۔ بعض ملازمیں اپنا مقدمہ پریس میں پیش کیا ہے اور اپنی اور دیگر محکموں کی پے سلپ بھی لگائی ہیں جس کے مطابق سپریم کورٹ کا ایک ڈرائیور الیکشن کمیشن کے گریڈ 17سے زیادہ تنخواہ حاصل کرتا ہے۔ بظاہر ملازمین کی یہ جنگ ان کی تنخواہوں کے گرد زیادہ گھومتی ہے تاہم 2000 میں جاری کردہ سرکاری نوٹی فیکیشن جس کے تحت الیکشن کمیشن کو خود مختاری دی گئی تھی اور الیکشن کمشنر کو مالی فیصلوں سمیت کمیشن سے متعلق اختیارات دیے گئے تھے۔ وزارت خزانہ کے اقدام کے بعد سوالیہ نشان بن گئے ہیں۔