پاکستان میں رجسٹرڈ انجینئرز کی تعداد ایک لاکھ 70 ہزار
رجسٹرڈ انجینئرز ایک ضابطہ کار کے تحت ملک کے طول عرض میں اپنی پیشہ وارانہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔
پاکستان انجینئرنگ کونسل عالمی معیار کے مطابق چیک اینڈ بیلنس سسٹم کے تحت لائسنس جاری کرتا ہے جس کا منہ بولتا ثبوت اب عالمی سطح پر واشنگٹن اکارڈ میں مستقل نمائندگی کیلیے اقدامات ہیں جن کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔
پی ای سی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے ایکسپریس سے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ ملکی سطح پر انجینئرنگ کے معیارکو بہتر بنانے کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک کے انجینئرزکے مساوی حیثیت منوانے کیلیے اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں، رواں برس واشنگٹن اکارڈ میں مستقل رکنیت سازی کیلیے کوششیں اہم سنگ میل ہیں، پی ای سی کے ریکارڈ کے مطابق ایک لاکھ 70 ہزار کے قریب انجینئرز رجسٹرڈ ہیں جو ایک ضابطہ کار کے تحت ملک کے طول عرض میں اپنی پیشہ وارانہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔
اسی طرح 65 ہزارکے قریب ادارے رجسٹرڈ ہیں جو پی ای سی کے ضابطہ اخلاق کے تحت کام کر رہے ہیں، اس تمام سسٹم کو مانیٹرکرنے کیلیے چیک اینڈ بیلنس کا باقاعدہ سسٹم موجود ہے جس کے تحت کئی کمپنیوںکو بلیک لسٹ اور درجنوں انجینئرزکے لائسنس معطل کیے ہیں، تاہم ان کو مخصوص وقت یا قانونی کارروائی کے بعد بحال کر دیا گیا ہے، وہ انجینئر اور اداروںکی فہرست میڈیا میں نہیں دیتے البتہ ویب سائٹ پر ان فرمز یا افراد کو رسائی حاصل ہے کہ جن کی وہ خدمات لے رہے ہیں وہ پہلے بلیک لسٹ یا معطؒل تو نہیں رہ چکے، کسی قانونی کارووائی کی صورت میں بائیو ڈیٹا ایف آئی اے کو دیا جاتا ہے۔
ماضی میں کراچی میں شیر شاہ پل تعمیرکرنے والی فرم اورحبیب رفیق کو بلیک لسٹ کرنے کی مثالیں موجود ہیں، ہر ہفتے ڈھائی سوکے قریب کیسز آتے ہیں جن پر غورکرنے کے بعد رجسٹریشن سمیت دیگر امورکو حتمی شکل دی جاتی ہے، اس وقت بہت کم انجینئرز ایسے ہیں جن کو معطل کیا گیا ہو اور اداروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم اس قدر موثر ہے کہ انجینئر اور ادارے اپنی نیک نام کو داغ نہیں لگنے دیتے۔
پی ای سی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے ایکسپریس سے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ ملکی سطح پر انجینئرنگ کے معیارکو بہتر بنانے کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک کے انجینئرزکے مساوی حیثیت منوانے کیلیے اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں، رواں برس واشنگٹن اکارڈ میں مستقل رکنیت سازی کیلیے کوششیں اہم سنگ میل ہیں، پی ای سی کے ریکارڈ کے مطابق ایک لاکھ 70 ہزار کے قریب انجینئرز رجسٹرڈ ہیں جو ایک ضابطہ کار کے تحت ملک کے طول عرض میں اپنی پیشہ وارانہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔
اسی طرح 65 ہزارکے قریب ادارے رجسٹرڈ ہیں جو پی ای سی کے ضابطہ اخلاق کے تحت کام کر رہے ہیں، اس تمام سسٹم کو مانیٹرکرنے کیلیے چیک اینڈ بیلنس کا باقاعدہ سسٹم موجود ہے جس کے تحت کئی کمپنیوںکو بلیک لسٹ اور درجنوں انجینئرزکے لائسنس معطل کیے ہیں، تاہم ان کو مخصوص وقت یا قانونی کارروائی کے بعد بحال کر دیا گیا ہے، وہ انجینئر اور اداروںکی فہرست میڈیا میں نہیں دیتے البتہ ویب سائٹ پر ان فرمز یا افراد کو رسائی حاصل ہے کہ جن کی وہ خدمات لے رہے ہیں وہ پہلے بلیک لسٹ یا معطؒل تو نہیں رہ چکے، کسی قانونی کارووائی کی صورت میں بائیو ڈیٹا ایف آئی اے کو دیا جاتا ہے۔
ماضی میں کراچی میں شیر شاہ پل تعمیرکرنے والی فرم اورحبیب رفیق کو بلیک لسٹ کرنے کی مثالیں موجود ہیں، ہر ہفتے ڈھائی سوکے قریب کیسز آتے ہیں جن پر غورکرنے کے بعد رجسٹریشن سمیت دیگر امورکو حتمی شکل دی جاتی ہے، اس وقت بہت کم انجینئرز ایسے ہیں جن کو معطل کیا گیا ہو اور اداروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم اس قدر موثر ہے کہ انجینئر اور ادارے اپنی نیک نام کو داغ نہیں لگنے دیتے۔