کھیل اور جنگ
جب بھی پاک بھارت کرکٹ میچ ہوتے ہیں، ایک ایسا تاثر پاکستان میں دیا جاتا ہے جیسے یہ کفر و اسلام کی جنگ ہے
گزشتہ کالم میں مجھے مجبوراً میڈیا کی روش پر تنقید کرنی پڑی کہ وہ اپنی ذمے داریوں کو محسوس کرے اور ہر اس راہ پر قوم کو لگانے کی کوشش کرے جو ترقی اور کامرانی کی راہ ہو، ہر شعبۂ علم و فن کو اجاگر کرنے اور ایجادات اور سائنس کے علوم عوام النّاس میں پھیلائے جائیں۔
کسی بھی شے کا ذوق یا اس کا ذائقہ بنانے سے بنتا ہے۔ ایسے شعبہ جات کی نہ صرف نمایندگی ہونی چاہیے بلکہ اس سے منسلک لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ تشدد، اعصابی جنگ، سنسنی خیزی پھیلا کر عوام کی توجہ کا مرکز تو بنایا جاسکتا ہے مگر اس کا آخری نتیجہ ایک نسل کی ایسی تربیت ہوتی ہے جو بے لگام اور اپنی ذمے داریوں سے ناآشنا ہو۔ سنسنی خیزی، دشنام طرازی، شدّت پسندی ہمارے معاشرے میں گھر کرچکی ہے۔
دہشت گرد وہی نہیں جو بم باندھ کر خود کو اور دوسروں کو ہلاک کردیتا ہے بلکہ اصل دہشت گرد وہ ہے جو اس کے دماغ کی تربیت کرتا ہے اور بعد از موت کے خوبصورت اور شاندار سپنے دکھاتا ہے اور وہ ہماری فکری اور نظری گرفت سے دور ہے۔ معاشرے کی تربیت کرنا جہاں ایک طرف اس دور کے ادیب، دانشور اور شاعروں کا فرض ہے جن کو میڈیا نظرانداز کرتا ہے بلکہ خود میڈیا کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ذہنی اور فکری تربیت کرے، ورنہ آنے والی نسل کے پاس اس جدید دنیا میں مقابلے کے لیے کچھ نہ ہوگا۔
جب ہم مسلمانوں کی ترقی کے ادوار کی طرف جاتے ہیں تو معلوم ایسا ہوتا ہے کہ گزشتہ ساڑھے 6 صدیوں سے مسلمانوں کے پاس جو علم و دانش کا خزانہ تھا، وہ جاتا رہا۔ مسلمان نہ صرف فنِ حرب کے ماہر تھے بلکہ ریاضی، سائنسی علوم، علمِ نجوم، ادب اور سماجی علوم کے بھی مالک تھے۔ اس دور کی ترقی یافتہ قوم تھے جو اس دور کے تقاضے تھے، وہ ان کے ماہر تھے۔ اس لیے وہ اپنی حکومت کا دائرہ بڑھاتے رہے۔ ایک طرف ان کی مادّی علوم پر دسترس تو دوسری جانب صوفیائے کرام کی تبلیغ جہاں جیسی ثقافت تھی، اس میں رچ بس کر اسلام کی تبلیغ۔ اگر ہم کتنا بھی شور مچائیں۔
مگر ہم اپنے ناقدوں اور دشمنوں کا کچھ نہیں کرسکتے، کیونکہ ہماری ہر چیز مستعار ہے اور یہاں تک کہ سامانِ حرب میں بھی ہم ان کے محتاج ہیں۔ ابھی پاکستان میں جو بھی نیوی کے یا ایئربیس پر جو حملے ہوئے تو خبروں میں یہی بتایا گیا کہ غیر ملکی فنی ماہرین محفوظ رہے۔ گویا ہماری سرزمین پر غیر ملکی ماہرین ہی ایئر کرافٹ اور دیگر چیزوں میں مہارت پیدا کرنے کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ ہمارا جدید باب جب شروع ہوگا کہ جب ہمارے فنی ماہرین اپنے علم و فن دنیا میں لے جا کر ملک کا نام روشن کریں، ان سب چیزوں کو پیدا کرنے کے لیے ایک ماحول بنانا پڑتا ہے، زمین ہموار کرنی پڑتی ہے۔
زمین ہموار کرنے کے لیے عرق ریزی اور ان عالموں کی ضرورت ہے جو سماجی، معاشی، سائنسی اور سیاسی علوم پر دسترس رکھتے ہوں۔ ادب اور فکشن کا چولی دامن کا ساتھ ہے، آرٹسٹ ادیب سوچتا ہے اور سائنس دان یا بڑا فنی ماہر اس کو کر دِکھاتا ہے مگر جب میڈیا اپنی اس ذمے داری کو چھوڑ دیتا ہے تو عوام النّاس میں سطحی لوگ نامور ہوتے ہیں اور ایسا معاشرہ محض ایک سطحی معاشرہ ہوتا ہے، جس کی ہر چیز یہاں تک کہ ہر خیال مستعار ہوتا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ قیام پاکستان سے پہلے کی معاشرتی زندگی کا مطالعہ کریں تو مولانا محمد علی جوہر کا اخبار، حسرت موہانی، محمد علی جناح، علامہ اقبال، سبھاش چندر بوس، کانگریس میں گاندھی جی اور پنڈت جواہر لعل نہرو یہ برصغیر کی شخصیات تھیں جنھوں نے معاشرے کو نہیں گرمایا بلکہ اس وقت جو ترقی پسند ادب تھا اس نے بدلتی دنیا کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے کہانی، افسانوں، نظموں، مشاعروں سے قوم میں حرارت پیدا کی۔
آخرکار برصغیر میں ایک آزاد مسلمان ریاست قائم ہوئی مگر اس وقت الیکٹرانک میڈیا نہ تھا، نہ فون کی یہ سہولتیں ، پھر بھی لوگ منظم ہوئے، یہ قلم کی طاقت تھی اور سچّی، انصاف پسند آواز مگر جب الیکٹرانک میڈیا کے دور میں صاحبانِ علم کو پسِ پشت ڈال دیا جائے گا تو پھر یہ قافلہ کیوں کر آگے بڑھے گا، دور کیوں جائیے، حال ہی کی بات ہے پاکستان میں پاک بھارت کرکٹ میچ کو سیاسی، مذہبی رنگ دے دیا جاتا ہے، جس سے میچ کی اصل روح جاتی رہتی ہے، کھیل تو کھیل ہے اس کو سیاست کی نذر کرنا کیا معنی ہیں۔ اس کی وجہ سے پاکستان کو کافی ہزیمت اٹھانی پڑتی ہے۔
جب بھی پاک بھارت کرکٹ میچ ہوتے ہیں، ایک ایسا تاثر پاکستان میں دیا جاتا ہے جیسے یہ کفر و اسلام کی جنگ ہے؟ اس کا اصل مقصد اشتعال انگیزی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اگر اس طرح لوگوں کی تربیت کی جائے گی تو اس کے نتائج کیا آئیں گے۔ آئیے میں بلاتفریق ان خبروں کو سناتا چلوں، کل شاہین فاختائوں پر حملہ کریں گے، پاکستانی ٹیم بھارتی سورمائوں کا بھرکس نکال دے گی۔ ایک طرف ایسی اشتعال انگیز فضا سے ملکوں کے عوام کے درمیان خلیج بڑھتی ہے تو دوسری جانب خود ملک کے ناسمجھ چھوٹے بچّوں کو دماغی طور پر مفلوج کردیا جاتا ہے کہ بس کسی ملک کو شکست دینے کا ایک ہی راستہ ہے۔
وہ ایک بیٹ اور ایک بال، چھ وکٹوں سے یہ ہدف پورا ہوجائے گا۔ درحقیقت کھیل اور دیگر ایسے ہی ثقافتی رابطے امن کے سفیر کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ راستہ سب سے پہلے ہنری کسنجر کی وزارت خارجہ میں امریکا نے اپنایا اور چین سے پنگ پانگ ڈپلومیسی کا آغاز ہوا، ورنہ چین کے بجائے امریکا تائیوان کو چین کا نمایندہ تسلیم کرتا تھا اور مائوزے تنگ کے بجائے چیانگ کائی شیک کو اصل چین کا رہنما تصور کرتا تھا۔ غرض کھیلوں سے بڑے تعمیری کام لیے جاسکتے ہیں۔
ابھی بھارت سے مزید میچوں کی راہیں ہموار ہوں گی تو اس کا کیا مطلب ہوگا کہ ہمارا نظامِ زندگی تہہ و بالا ہوجائے گا۔ کھیل پھر کھیل ہے، اس کو اسی نظر سے ہی دیکھنا اور دِکھانا چاہیے، اس شور و غل سے خود پاکستانی ٹیم کو اعصابی دبائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں ان کی بیٹنگ لائن تباہ ہوجاتی ہے، انھیں سوچنا پڑتا ہے کہ اگر اچھا نہ کھیلے تو واپس وطن جا کر کیا منہ دِکھائیں گے۔ اس طرح ان کے اعصاب شکستہ اور ذہنی دبائو کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کی پرفارمنس تباہ ہوجاتی ہے۔
جیت سے قبل جیت کا نعرہ کس قدر بچکانہ ہے اور وہ جملے جو کھیل میں اپنی مقابل ٹیم کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، ہرگز شعارِ ادب نہیں۔ پھر اگر ایسی صورت میں ٹیم کو شکست کا سامنا ہوتا ہے تو عوام میں مایوسی کی لہر دوڑ جاتی ہے توڑ پھوڑ، نعرے بازی اور پھر اپنی ہی ٹیم کے خلاف جذبات ابھر آتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان دونوں کی ٹیمیں تقریباً برابر کی پرفارمینس رکھتی ہیں مگر جب بھارت کے مقابلے میں پاکستانی ٹیم جاتی ہے تو یہ میڈیا کے شوروغل سے خوف کا شکار ہوجاتی ہے اور اپنی پرفارمینس کا لوہا نہیں منوا پاتی۔
یہ کام میڈیا کا ہے کہ کرکٹ کے علاوہ دوسرے کھیل بھی ہیں ان پر بھی توجہ دی جائے۔ کرکٹ برطانوی نو آبادی کا ایک اچھا اور سستا کھیل ہے اس لیے ہمارے ملک میں مقبول ہے اور میڈیا کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ ذرا غور کیجیے فٹ بال دنیا کی کثیر آبادی کا کھیل ہے۔ جرمنی، جاپان، چین، امریکا یہاں تو کرکٹ کا کوئی مقام نہیں تو ہم محض کرکٹ پر کیوں توجہ دیتے ہیں۔ جب تک کھیل میں کوئی زاویۂ نگاہ نہ ہوگا، کھیل کے مطلوبہ نتائج نہیں آسکتے۔ یہ ملکوں کے ملاپ کا میڈیم ہے۔ یہاں تمام ممالک کا احترام دوستی کی فضا میں ہی ہونا چاہیے ورنہ اس کا نتیجہ توانائی کے ضایع کرنے کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
موجودہ کرکٹ میچ دیکھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ پاکستان میں ایک ایسی لابی سرگرم ہے جو میچ جیسے موقع پر بھی جنگ کا سماں کھینچتی ہے جو دونوں ملکوں کے تعلقات کو دوستانہ بنیادوں پر قائم کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ دوم یہ کہ میچ سے قبل میچ کے نتائج کا اعلان ایک ایسا عمل ہے جس سے میڈیا کو گریز کرنا چاہیے تاکہ نسل کی تربیت ہو اور اس اصطلاح کا پابند ہو جس کو اسپورٹس مین اسپرٹ کہتے ہیں۔ 1960 کی بات ہے کہ صدر ایمپریس مارکیٹ کے سامنے جہانگیر پارک کراچی میں پاکستانی ٹیم پریکٹس کرتی تھی، جہاں حنیف محمد اور ان کے بڑے بھائی تربیت دیتے تھے۔
اسٹوڈنٹس لائف میں اسکول سے حنیف محمد کے پاس گیا تو انھوں نے بیٹ پکڑا اور اسپورٹس مین اسپرٹ کا درس دیا، گو کہ میں اس راستے سے جلد ہی الگ ہوگیا مگر ان کا درس آج بھی یاد ہے کہ دونوں ٹیمیں دوست ہیں، کبھی وہ فاتح تو کبھی ہم فاتح ، اس کو کھیل کے جذبے سے ہی دیکھنا چاہیے لہٰذا کھیل تو کھیل ہے، اس کو جنگ کا درجہ نہ دینا چاہیے۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ عشق اور جنگ میں سب جائز ہے مگر یہ نہ عشق ہے اور نہ جنگ۔