بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات ۔۔۔ لمحہ فکریہ

صحت مند معاشرے اُس وقت بنتا ہے جب ہر شخص اپنے فرائض پر عمل پیرا ہو، حکومتیں شہریوں کی رائے کو اہمیت دینا شروع کردیں۔


فرخ شہباز وڑائچ February 02, 2015
جب ہم اپنے ملک کے قانون کو خاطر میں نہیں لاتے، قواعد و ضوابط کو ہوا میں اڑا دیتے ہیں تو ایسا کرکے ہم اپنا ہی نہیں اپنے ملک کا بھی نقصان کررہے ہوتے ہیں۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD:

پاکستان بھر میں دن بدن ٹریفک حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح لمحہ فکریہ ہے، جس میں لاتعداد قیمتی جانیں تسلسل کے ساتھ لقمہ اجل بن رہی ہیں۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا جہاں ٹریفک حادثات کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہرسال اوسطاً 30 ہزار کے لگ بھگ افراد ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہوتے ہیں جبکہ بعض رپورٹوں کے مطابق تقریباً 17 ہزار سے زائد افراد ہر سال حادثات کا شکار ہوکر جاں بحق ہوجاتے ہیں اور 40 ہزار سے زائد لوگ زخمی ہوتے ہیں۔


صرف صوبہ پنجاب میں گزشتہ سال 1 لاکھ 67 ہزار حادثات میں 11 ہزار کے قریب افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 9 ہزار کے قریب لوگ معذور ہوئے۔ ہر جگہ ہمیں نہ صرف حادثات کثیر تعداد میں نظر آرہے ہیں وہیں اُن کی وجوہات بھی یکساں ہوتی ہیں۔ پاکستان میں ٹریفک حادثات کا ہونا تو اب معمول کا حصہ ہوتا جارہا ہے جس کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر کوئی خاطر خواہ انتظامات دیکھنے میں نہیں آرہے۔


وفاق المدارس نے ٹریفک قوانین کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا احاطہ ایک مضمون میں کیا ہے۔ یہ مضمون مولانا محمد تقی عثمانی کا تحریر کردہ ہے۔ مضمون نگار کے خیال میں ٹریفک قوانین کو دین سے الگ کوئی چیز سمجھنا اور انکی پاسداری نہ کرنا غلط سوچ ہے، اس لئے کہ یہ قوانین انسانی مصلحت پر مبنی ہوتے ہیں اور اس اعتبار سے انکی پابندی شرعاً واجب ہوتی ہے۔ ٹریفک قوانین کی پابندی نہ کرنے والا اسلامی نقطہ نظر سے قانون شکنی، وعدہ خلافی، ایذارسانی اور سڑک کے ناجائز استعمال جیسے چار بڑے گناہوں کا ارتکاب کررہا ہوتا ہے اور اس قسم کی بے قاعدگی فساد فی الارض کی تعریف میں آتی ہے اس لئے ٹریفک قوانین کی پابندی کرنی چاہیے کیونکہ یہ باتیں ہمارے دین نے ہمیں سکھائی ہیں۔ ہمیں ان زریں اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہونا چاہیے اور بیرون ممالک رہنے والے احباب بتاتے ہیں اُن ممالک میں ٹریفک قوانین نہایت سخت ہیں اور اُن پرعمل کرنا ہر ایک کے لیے لازم ہے۔


مگر افسوس کہ ہرشعبے کی طرح یہاں بھی کوئی توجہ دینے والا نہیں۔ ایسے میں ادارہ علوم ابلاغیات کے طلباء کی جانب سے ٹریفک حادثات میں کمی لانے کے لیے اچھی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ یقیناً حکومت یہ اقدامات کرکے روزانہ کی بنیاد پر ضائع ہوتی قیمتی انسانی جانیں بچا سکتی ہے۔

1۔ ٹریفک قوانین کی پابندی ڈرائیور حضرات کو ٹریفک قوانین کی پابندی پر سختی سے مجبور کیا جائے اور خلاف ورزی کرنے والے کو ہر قیمت پر سزا دی جائے۔


2۔ جب بھی کوئی گاڑی سڑک پر آئے تو وہ فنی طور پر فٹ ہونی چاہئے۔ ناقص، سست رفتار اور خستہ حال گاڑیوں کو سڑکوں پر آنے سے روکا جائے۔


3۔ ڈرائیور کا لائسنس یافتہ اور تجربہ کار ہونا ضروری ہے۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ کم سن بچے گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں چلا رہے ہوتے ہیں اور ان کے والدین اور بزرگ بڑے فخر کے ساتھ ان کے ہمراہ بیٹھے ہوتے ہیں۔


4۔ موٹر سائیکل رکشوں کے نابالغ اور نومولود ڈرائیوروں کے پاس کسی طرح کا لائسنس یا گاڑی کے کاغذات نہیں ہوتے جبکہ ٹریفک وارڈنز ان موٹر سائیکل رکشوں کے ڈرائیوروں سے کوئی تعرض نہیں کرتے ٹریفک کنٹرول کرنے والے اداروں کو اس لاقانونیت کا نوٹس لینا چاہئے اور سواریوں کو بھی اس رویہ کی حوصلہ شکنی کرنا چاہئے۔


5۔ سڑکوں پر ٹریفک کی روانی کے دوران گاڑیوں کا ایک دوسری کو غلط طور پر کراس کرنا عام ہے جو حادثات کی وجہ بنتا ہے۔ بڑی اور سست ٹریفک خاص طور پر ٹریکٹر ٹرالی سڑک کے درمیان چلتے ہیں اور تیز رفتار ٹریفک کو راستہ نہیں دیتے جس کی وجہ سے انہیں غلط طور پر کراس کرنا پڑتا ہے۔ راستہ نہ دینے اور غلط طرف سے دوسری گاڑی کو کراس کرنے والے دونوں ہی جرم کا ارتکاب کرتے ہیں روک تھام کے لیے لائحہ عمل طے ہونا چاہئے۔


6۔ ٹریفک پولیس یا ٹریفک کو کنٹرول کرنے والے اداروں کے افراد کی تعداد ایک حد تک ہی بڑھائی جاسکتی ہے۔ حکومت کو ٹریفک کنٹرول کرنے کیلئے عملے کو بہتر ٹریننگ اور جدید طریقہ کار اپنا کر ان کی صلاحیتوں کا بہتر استعمال کرنا چاہئے۔


7۔ موجودہ مشینری کے دور میں گدھا گاڑیوں، گڈوں، تانگوں یا پیٹر انجن سے وجود میں آنے والی گاڑیوں کی بھرمار ٹریفک میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں۔ ان کو روکنے کا کوئی طریقہ کار نہیں۔ ضرورت ہے کہ ایسی ٹریفک کو بھی قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں سزا دی جائے اور ان سے متعلقہ قوانین پر عملدرآمد کیا جائے۔


8۔ سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی گاڑیوں اور ٹرکوں وغیرہ کے ڈرائیور نہایت تیز رفتار اور بے ہنگم انداز میں ڈرائیونگ کرتے ہیں اور روڈ پر موجود دوسری چھوٹی ٹریفک کو ناجائز طور پر ہراساں اور پریشان کرتے ہیں۔ کارکردگی کو مانیٹر کرنے کیلئے بھی اقدامات کرنا ضروری ہیں۔


9۔ حکومت فراخ دلی سے نئی سڑکیں تعمیر کررہی ہے مگر پہلے سے تعمیر شدہ سڑکوں کی مرمت پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی اگر سڑکوں کو شکست و ریخت کے ساتھ ہی فوری مرمت کی جائے تو نہ صرف حادثات اور گاڑیوں کی توڑ پھوڑ سے بچا جا سکتا ہے بلکہ سڑکوں کی عمر بڑھا کر ایک کثیر سرمایہ بچا کر دوسرے کاموں میں صرف کیا جا سکتا ہے اور عوام کے مسائل کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔


10۔ ٹریفک پولیس کے اہلکارں کی ٹریننگ کے لیے ماضی میں کلاسز شروع کی گئیں تھیں جن میں عوام سے اچھے اخلاق سے پیش آنے کی تاکید ہوتی تھی، وہ سلسلہ پھر سے شروع ہونا چاہیے۔ عوام اور ٹریفک پولیس میں کمیونکیشن گیپ دور ہونا چاہیے۔


جہاں ان اقدامات پرلائحہ عمل بنانے کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے، وہیں شہریوں کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے وہ قانون کا احترام کریں۔ آپ ترقی یافتہ ممالک پر نظر دوڑائیں تو آپ کو وہاں حکومت سے زیادہ اس ملک کے باسی اپنے قانون کے ساتھ مخلص نظر آئیں گے۔ یہی وہ نقطہ آغاز ہے جسے ہم سمجھ نہیں پارہے۔ جب ہم اپنے ملک کے قانون کو خاطر میں نہیں لاتے، قواعد و ضوابط کو ہوا میں اڑا دیتے ہیں تو ایسا کرکے ہم اپنا ہی نہیں اپنے ملک کا بھی نقصان کررہے ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کسی بھی ملک کا نظم و نسق ہی اس کی بنیاد ہوتی ہے۔ جب ہر شخص اپنے فرائض پر عمل پیرا ہو، حکومتیں شہریوں کی رائے کو اہمیت دینا شروع کردیں، صحت مند معاشرے کا قیام عمل میں آتا ہے۔ اب اس بات کا انحصار آپ پر ہے کہ آپ معاشرے کو صحت مند دیکھنا چاہتے ہیں کہ نہیں۔۔۔۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |