جوت سے جوت جگاتے چلو

یہ ایک ایسا قرض ہے جب آپ اچھی حالت میں آئیں تو کسی پریشان حال اور ضرورت مند کی مدد کر کے لوٹا دیجئے گا۔


ضمیر آفاقی February 02, 2015
یہ ایک ایسا قرض ہے جب آپ اچھی حالت میں آئیں تو کسی پریشان حال اور ضرورت مند کی مدد کر کے لوٹا دیجئے گا۔ فوٹو اے پی

انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے یہ قانون فطرت ازل سے قائم ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ آپ ببول کے درخت پر کبھی گلاب کے پھول اگتے نہیں دیکھیں گے اور نہ ہی آگ کی خاصیت یعنی جلانے کو بدل سکتے ہیں۔ نیکی کا بدلہ نیکی، اچھائی کا بدلہ اچھائی ایسی اخلاقی قدریں ہیں جن کی بنیادوں پر معاشروں اور ملکوں کی عمارتیں کھڑیں ہیں۔ اچھا سلوک بعض اوقات کسی کی زندگی بدل ہی نہیں دیتا بلکہ وہ انسان کی زندگی کے مشکل لمحوں کو شکست دینے میں بھی کام آتا ہے۔ تاریخ انسانی اس طرح کی مثالوں سے بھر پڑی ہے، فلموں اور ڈراموں میں اس موضوع کو زیر بحث لا کر معاشرے کی اصلاح بھی کی جاتی ہے۔

ہم اپنی زندگی میں کئی ایسے واقعات کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ بعض اوقات ہماری کوئی چھوٹی سی نیکی، کسی کے ساتھ ذرا سا اچھا برتاؤ، کوئی اچھائی، کسی کے مشکل وقت میں کام آنا، لوٹ کر ہماری زندگی میں آتا ہے۔ نیکی اور اچھائی وہ بار آوار بیج ہیں جن کی فصل اگتی بھی ہے اور رائیگاں بھی نہیں جاتی۔

میں نے ایک کہانی پڑھی تھی جس میں ایک مفلوک الحال بچہ کھلونوں کی دکان پر کھڑا کھلونے دیکھ رہا ہوتا ہے کہ دکان کا مالک اسے چور سمجھتے ہوئے مارنا شروع کر دیتا ہے۔ بچہ روتے ہوئے کہتا ہے میں چور نہیں ہوں، میں چور نہیں ہوں مگر سنگدل اور ظالم دکاندار کب اس معصوم کی فریاد سنتا ہے کہ اتنے میں ایک شخص اس منظر کو دیکھتا ہے اور آگے بڑھ کر دکاندار سے کہتا ہے اس معصوم کو کیوں مار رہے ہو جبکہ اس نے تمہارا کچھ چرایا بھی نہیں۔وہ بچے کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتا ہے اور پوچھتا ہے بیٹا کچھ لینا ہے؟ بچہ کہتا ہے ہاں، مجھے ایک گڑیا دلا دیجیے میری بہن کی سالگرہ ہے، میں اسے تحفہ دینا چاہتا ہوں۔

وہ شخص بچے کے جذبے سے متاثر ہوکر اسے گڑیا دلادیتا ہے ، بچہ کہتا ہے کہ آپ مجھے اپنا پتا دے دیں میں آپ کو اس گڑیا کے پیسے واپس کردوں گا۔ وہ شخص بچے سے کہتا ہے بیٹا یہ قرض تم نے یوں چکانا ہے کہ جب کبھی تم اپنے پیروں پر کھڑے ہوجاؤ تو کسی مشکل میں پھنسے انسان کی مدد کر دینا ۔

وقت کی تیز رفتاری میں چہرے دھندلا جاتے ہیں یادیں، بوسیدگی کا پیرہن پہن لیتی ہیں اور وہ بچہ اپنی محنت سے امیر آدمی بن جاتا ہے۔ ایک دن وہ بچہ انہیں پرانی گلیوں سے گزرتا ہے، وہ دیکھتا ہے کہا یک بوڑھا معذور شخص پریشانی کے عالم میں خود کو بیساکھیوں کے سہارے گھسیٹ رہا ہے۔ وہ بوڑھا اسے جانا پہچانا لگتا ہے، وہ اس بوڑھے کے پیچھے پیچھے خاموشی سے چلتا جاتا ہے، بوڑھا ایک گھر کے اندر داخل ہوتا ہے کہ اندر سے ایک نسوانی آواز آتی ہے بابا دوائی لے آئے؟ بوڑھے کو کھانسی کا دورہ پڑتا ہے اور کھانستے کھانسے گر پڑتا ہے، نسوانی چیخ کی آواز پر وہ گھر کے اندر داخل ہوتا ہے بوڑھے کو اٹھاتا ہے اور اسے اسپتال لے جاتا ہے۔

ڈاکٹر کو بوڑھے کی اچھی طرح دیکھ بھال اور علاج کرنے کا کہہ کر وہ اس کی بیٹی کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اپنی جیب سے نوٹوں کی ایک بھاری گڈی نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہتا ہے کہ جب آپ کے حالات اچھے ہوں تو کسی پریشان حال اور ضرورت مند کی مدد کر کے یہ قرض لوٹا دیجئے گا۔

یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا جاتا ہے، بوڑھے کو جب ہوش آتا ہے تو خود کو اسپتال میں زیرعلاج دیکھ کر کر بیٹی سے پوچھتا ہے بیٹی یہ کیا ماجرہ ہے؟ ہمارے گھر میں تو زہر کھانے کے بھی پیسے نہیں تھے پھر یہ سب؟ بیٹی بھرائی ہوئی آواز میں کہتی ہے بابا نیک لوگوں کی آج کے دور میں بھی کوئی کمی نہیں اور وہ سارا واقعہ باپ کو سنا دیتی ہے۔ باپ کو ایک دم اس بچے کا خیال آتا ہے جسے اس نے گڑیا لے کر دیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ یہ قرض تم کسی کی مدد کرکے چکا دینا تو بوڑھے کا سر خدا کے حضور جھک جاتا ہے اور کہتا ہے کہ تیرا کہا کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتا، نیکی کا اجر کبھی ضائع نہیں ہوتا بلکہ کئی گنا بڑھ کر ملتا ہے۔(بوڑھا اپنے وقت کا ایک مشہور وکیل اور امیر آدمی ہوتا ہے)

اس طرح کے واقعات ہمارے ارد گرد بکھرے پڑیں ہیں۔ ہمیں نیکی، اچھائی اور بھلائی کے کاموں میں سبقت لیتے ہوئے ضرورت مندوں، محتاجوں، بے سہاروں اور جن کی گردنیں کسی بھی مشکل، قرض بیماری یا بھوک کی وجہ سے پھنسی ہوئی ہوں اُن کو آزاد کرانے اور آگے بڑھ کر معاشرے کی ناہمواری کو ختم کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے۔

اب تو نیکی کے فلسفے کو سائنسدانوں نے بھی تسلیم کرلیا ہے۔ امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق دوسروں کی مدد کرنا دوسروں کیلئے تو فائدہ مند ثابت ہوتا ہی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مدد کرنے والے کی اپنی جسمانی اور نفسیاتی صحت کیلئے بھی انتہائی مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جب ہم کسی کی مدد کیلئے آگے بڑھتے ہیں تو ہمارے جینز میں انتہائی خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں اور جو لوگ دوسروں کی مدد کرنے میں مصروف رہتے ہیں ان کے اندر جراثیم سے لڑنے والے اینٹی باڈیز جینز کا نظام بھی انتہائی مضبوط ہوجاتا ہے۔ تحقیق میں کہا گیا کہ فقط اپنی ذات تک محدود رہنے والے لوگوں کے مقابلے میں کسی مقصد کے تحت زندگی گزارنے والوں کی قوتِ مدافعت بھی مضبوط ہوتی ہے۔ لہذا ہمیں کبھی کہیں کسی کی بھی مدد سے گزیر نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہی انسانیت کی معراج ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔