مری کی برفباری میں

صبح کی روشنی، آسمان سے اترتی برف، سبز درخت اور پہاڑوں کی چوٹیاں یہ چار عناصر مل کر کائنات کو وسیع پینٹنگ بنا دیتے ہیں۔

www.facebook.com/javed.chaudhry

اتوار کی صبح مری میں برفباری شروع ہو گئی، آسمان سے برف کے گالے زمین پر اتر رہے تھے، ہوٹل کی کھڑکی وادی کی طرف کھلتی تھی، درخت سفید ہو چکے تھے، سڑک پر دور دور تک سفیدی بچھی تھی، گاڑیاں برف میں دفن ہو چکی تھیں، مکانوں کی چھتیں سفید تھیں، درختوں کی شاخوں سے برف کے دھاگے لٹک رہے تھے، تاحد نظر سفیدی ہی سفیدی تھی، برفباری دنیا کے خوبصورت ترین مناظر میں شمار ہوتی ہے۔

برف سے قبل فضا میں ایک مقدس سکوت طاری ہو جاتا ہے، کائنات رک سی جاتی ہے، ٹھہراؤ کے اس عالم میں آسمان سے سفید دودھیا روشنی اترتی ہے، آپ کو اس لمحے پوری کائنات دودھیا محسوس ہوتی ہے اور پھر کائنات انگڑائی لیتی ہے اور آسمان سے سفید روئی الہام بن کر زمین پر نازل ہونے لگتی ہے، آسمان سے اترتی برف اسٹریٹ لائیٹس کی روشنی میں پریوں کے پر محسوس ہوتی ہے، آپ کو اگر برف باری کے دوران صبح صادق کا منظر نصیب ہو تو آپ اللہ کا لاکھ شکر ادا کیجیے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ یہ منظر اپنے پسندیدہ بندوں کو عنایت کرتا ہے، صبح کی روشنی، آسمان سے اترتی برف، سبز درخت اور پہاڑوں کی چوٹیاں یہ چار عناصر مل کر کائنات کو وسیع پینٹنگ بنا دیتے ہیں۔

آپ خود کو نظر کے آخری سرے تک پھیلی پینٹنگ کا حصہ سمجھنے لگتے ہیں اور اتوار کی صبح تاحد نظر یہ پینٹنگ تھی اور میں اس پینٹنگ کے سرے پر نقطہ بن کر کھڑا تھا، آسمان سے برف کا الہام اتر رہا تھا، درخت برف کا کفن پہن کر خاموش کھڑے تھے، سڑک پر نرم برف کا سفید قالین بچھا تھا، فضا میں مقدس سکوت تھا اور صبح کی نرم سفید روشنی دائیں بائیں ہلکورے لیتی دھند کے ساتھ دست و گریباں تھی، میرے دائیں ہاتھ چرچ کی سو سال پرانی عمارت تھی اور بائیں ہاتھ چھوٹی سی مسجد اور سفید سڑک پر پاؤں کے تازہ نشان اور میں نشانوں کے درمیان بت بن کر کھڑا تھا، میرے اوپر برف برس رہی تھی۔

میں خود کو اس وقت ''سنومین'' محسوس کر رہا تھا، میری چھوٹی بیٹی برف کے گولے بنا کر میرے اوپر پھینک رہی تھی، وہ باریک آواز میں قہقہے بھی لگا رہی تھی، یہ قہقہے اور برف کے یہ چھوٹے چھوٹے گولے کائنات کی اس وسیع پینٹنگ کے واحد متحرک عناصر تھے، باقی ہر چیز منجمد، ہر منظر ساکن تھا، ایک سکوت تھا جو سڑک سے درختوں اور آسمان سے میرے وجود تک پھیلا تھا اور میں اس سکوت، اس سکتے کا ایک حصہ بن کر سڑک کے عین درمیان کھڑا تھا، سارا مری شہر اس وقت کھڑکیوں اور بالکونیوں میں کھڑا تھا۔

آپ راولپنڈی اور اسلام آباد سے ایک گھنٹے میں مری پہنچ جاتے ہیں، یہ قربت مری کے لیے عذاب سے کم نہیں،ملک میں عید ہو، دو تین چھٹیاں اکٹھی آ جائیں، بارش ہو جائے، راولپنڈی اسلام آباد میں گرمی پڑ جائے، دھرنا ہو جائے یا پھر برف باری کا امکان ہو ، مری ''چوک'' ہو جاتا ہے، مری میں کُل تین ہزار گاڑیاں کھڑی کرنے کی گنجائش ہے مگر یہاں اکثر اوقات چالیس چالیس ہزار گاڑیاں آ جاتی ہیں، شہر میں کل 220 ہوٹل ہیں، کُل چار ہزار لوگ ٹھہر سکتے ہیں مگر ہوٹلوں کی گنجائش سے دس گنا لوگ پہنچ جاتے ہیں، ہم نے آج تک اس صورتحال سے نبٹنے کے لیے کوئی سسٹم نہیں بنایا، میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف نے مری میں اپنے گھر بنا رکھے ہیں ۔

یہ مہینے میں دس بارہ دن مری میں بھی گزارتے ہیں لیکن حکمرانوں کے اس قیام کا مری کو زیادہ فائدہ نہیں ہوا،سیاحوں کو مری میں گند بھی نظر آتا ہے، بے ہنگم ہجوم بھی اور بے ترتیب ٹریفک بھی لیکن ہم اس کے باوجود مری انتظامیہ کی تعریف نہ کریں تو یہ زیادتی ہو گی، آپ پاکستان کے کسی ایسے شہر کو ایک دن کے لیے کنٹرول کر کے دکھا دیجیے جس میں گنجائش سے دس گنا زیادہ لوگ اور بیس گنا زیادہ گاڑیاں آ جاتی ہوں، مری میں ہر ہفتے یہ صورتحال ہوتی ہے، مری کے ٹریفک وارڈن بہت مستعد اور ''سیلف لیس'' ہیں، میں ہفتے کی شام مری پہنچا، اتوار کی صبح ،،سنو فال،، شروع ہوئی، میں سنو فالنگ کے دوران سڑک پر تھا، میں نے ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کو سڑکوں پر دیکھا، میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا، یہ بے چارے برف میں ہونڈا 125 اور 250 چلا رہے تھے۔


یہ عام پولیس یونیفارم میں ملبوس تھے، جسم پر کوٹ، گرم ٹوپی اور برف میں استعمال ہونے والے بوٹ بھی نہیں تھے، برف پر ہونڈا 125 اور 250 چلانا خطرناک ہوتا ہے، میں نے ان کو برف میں موٹر سائیکل چلاتے دیکھا تو میں نے ایک ٹریفک وارڈن کو روک کر پوچھا ''آپ لوگوں کے پاس سنو ڈریس نہیں ہیں'' وہ بے چارہ پریشان ہو گیا، میں نے اسے یقین دلایا'' میں آپ کی نوکری کی ذمے داری لیتا ہوں، آپ سچ بولیں'' وہ بے چارہ پھٹ پڑا، معلوم ہوا مری میں سو ٹریفک وارڈنز ہیں، حکومت نے انھیں سنو ڈریس، سنو کیپ، سنو کورٹس اور سنو بوٹس فراہم نہیں کیے، مری کے ٹریفک وارڈنز کو سنو بائیکس، فوربائی فور جیپیں اور کرینیں بھی درکار ہیں لیکن حکومت نے آج تک انھیں یہ فراہم نہیں کیں، یہ لوگ ہوٹلوں میں رہتے ہیں، سرکاری رہائش گاہ دستیاب نہیں ہے۔

کھانے کا بندوبست نہیں، یہ لوگ ہارڈ ایریا (مشکل علاقوں) میں کام کرتے ہیں لیکن انھیں ہارڈ ایریاز الاؤنس نہیں ملتا، یہ صبح نو بجے سے رات بارہ بجے تک پندرہ پندرہ گھنٹے کام کرتے ہیں، برف میں چلتے ہیں، برف میں رہتے ہیں اور لوگوں کی گالیاں کھاتے ہیں،، میں نے اس سے پوچھا ''کیا حکومت آپ کے مسائل سے آگاہ ہے''۔ جواب دیا '' برف باری سے پہلے حمزہ شہباز نے مری میں میٹنگ بلائی، میٹنگ میں20 اعلیٰ عہدیدار بھی شریک تھے۔

میٹنگ میں فیصلہ ہوا، مری کے ٹریفک وارڈنز کو برف باری سے قبل تمام ضروری آلات اور لباس فراہم کر دیے جائیں گے، فنڈز ریلیز کرنے کا حکم جاری ہو گیا لیکن سامان نہیں ملا، حمزہ شہباز نے ٹریفک وارڈنز کو چھ ہزار روپے فی کس ہارڈ ایریاز الاؤنس دینے کا اعلان بھی کیا مگر یہ اعلان بھی آج تک عملی جامہ نہیں پہن سکا چنانچہ یہ لوگ منفی درجہ حرارت میں برف میں کام کر رہے ہیں، یہ موٹر سائیکلوں پر کبھی ادھر جاتے ہیں اور کبھی ادھر'' میں اس ہمت اور اس فرض شناسی پر انھیں سلام پیش کرنے پر مجبور ہو گیا۔

میری وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب سے درخواست ہے، آپ چند لمحوں کے لیے اپنے گھر سے باہر بھی جھانک کر دیکھئے، آپ کو ایسکارٹ کرنے اورآپ کے گھر کی حفاظت کرنے والے لوگ واقعی مشکل میں ہیں، آپ شاید بھول گئے ہیں، 27 جنوری کو ایک ٹریفک وارڈن آپ کے گیٹ کے سامنے سڑک پر گر گیا، اس بیچارے کا سانس بند ہو گیا، وہ نا مناسب کپڑوں میں گھنٹوں سے برف میں کھڑا تھا، اس نے اگر گرم ٹوپی، گلے میں مفلر اور بدن پر گرم کوٹ پہنا ہوتا اور اس نے گرم بوٹ پہنے ہوتے تو یہ بیچارہ اس صورتحال کا شکار نہ ہوتا، اللہ نے کرم کیا ،وزیراعظم ہاؤس کی ایمبولینس اس وقت وہاں موجود تھی چنانچہ ڈاکٹروں نے ٹریفک وارڈن کو آکسیجن دے کر بحال کر دیا ورنہ دوسری صورت میں بیچارے کی جان چلی جاتی، مری کے تمام وارڈن اس وقت اسی صورتحال کا شکار ہیں چنانچہ وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ مہربانی فرمائیں، فنڈ ریلیز ہو چکے ہیں آپ فوری طور پر ان لوگوں کو سنوبائیکس اور سنو ڈریس فراہم کر دیں تاکہ یہ زندہ حالت میں ڈیوٹی ادا کر سکیں۔

مری کے نوجوان اے سی طاہر فاروق بھی تعریف کے لائق ہیں، میں نے ان کو بھی سڑکوں پر انتظامات کی نگرانی کرتے دیکھا، ہم ذہنی طور پر گندے لوگ ہیں، ہم جگہ جگہ کچرا پھینک کر اپنی گندی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہیں، مری میں برف میں کچرا پڑا تھا ، طاہر فاروق یہ کچرا اٹھوا رہے تھے، یہ ٹریفک کی نگرانی بھی کر رہے تھے، مری کا جی پی او برٹش دور سے شہر میں گھنٹہ گھر کی حیثیت رکھتا ہے، ہم میں سے شاید ہی کوئی شخص ہو گا جس نے بچپن یا جوانی میں مری کے جی پی او کے سامنے تصویر نہ بنوائی ہو، یہ عمارت برسوں قبل سو سال پورے کر چکی تھی اور انہدام کا شکار تھی، یہ عمارت پرانے اسٹائل میں دوبارہ بن رہی ہے، میں نے عمارت کے اندر گھس کر کام دیکھا، کام بہت اچھا ہو رہا تھا، یہ عمارت انور گوندل نام کے ڈیویلپر بنا رہے ہیں۔

میں نے چوکیدار سے ان کا نمبر لیا اور اسلام آباد پہنچ کر ان کو تعریفی فون کیا، مری کا حلیہ بہتر ہو رہا ہے لیکن اس کے باوجود ابھی بہت گنجائش باقی ہے، مری میں نئے ہوٹل بننے چاہئیں، یہ شہر ٹریفک فری بھی ہونا چاہیے، گاڑیاں ایکسپریس وے کے آخر میں پارک ہونی چاہئیں اور سیاحوں کو شٹل سروس کے ذریعے شہر تک پہنچنا چاہیے، صفائی پر مزید توجہ کی ضرورت ہے، شہر میں ہیٹنگ کا مناسب بندوبست نہیں، بھکاریوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے، ویو پوائنٹس بھی کم ہیں، حکومت اگر چند جگہوں پر معلق پل بنادے، یہ پل لوہے کی تاروں کے ذریعے فضا میں معلق ہوں تو لوگ زیادہ انجوائے کر سکتے ہیں، مری میں سردیوں کی اسپورٹس کا بندوبست بھی ہونا چاہیے، گورنر ہاؤس کی پشت پرا سکینگ گراؤنڈ بنایا جا سکتا ہے، یہ گراؤنڈ مری کی لُک میں اضافہ کر دے گا لیکن یہ شاید دہشت گردیوں جیسے ایشوز میں پھنسی حکومتوں کے لیے ممکن نہ ہو!

مری تھا، آسمان سے برستی برف تھی اور تاحد نظر پھیلی سفید پینٹنگ تھی اور میں اس سفید پینٹنگ میں ایک نقطہ بن کر کھڑا تھا اور میری بیٹی میرے اوپر برف کے گولے پھینک رہی تھی اور باریک آواز میں قہقہے لگا رہی تھی، زندگی ٹھہر سی گئی، ہوا میں تیرتے پرندوں کے پروں کی طرح ٹھہر سی گئی۔
Load Next Story