صدر اوباما کی حالیہ بھارت یاترا

جس وقت بھارت میں جشن یوم جمہوریہ منایا جا رہا تھا اس وقت دنیا بھر میں کشمیری عوام یوم سیاہ منا رہے تھے۔

S_afarooqi@yahoo.com

اگرچہ امریکی صدر بارک اوباما کی بھارت یاترا کو کئی روز گزر چکے ہیں لیکن اس کی بازگشت ابھی تک سنائی دے رہی ہے کیونکہ یہ دورہ کئی اعتبار سے تاریخی اہمیت کا حامل تھا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارت کے یوم جمہوریہ کی تقریبات میں حصہ لینے والے وہ پہلے امریکی صدر تھے۔

اس کے علاوہ بحیثیت صدر امریکا یہ ان کی دوسری بھارتی یاترا تھی۔ اس ملک کی یاترا جو اپنی آزادی کے روز اول سے ہی امریکا کے بدترین مخالف سوویت بلاک کا سب سے بڑا حمایتی اور سرگرم ترین رکن تھا اور جس کے روس (سابق سوویت یونین) کے ساتھ دفاعی معاہدے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ صدر اوباما کی بھارت یاترا کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ انھوں نے امریکا کے سب سے پرانے اور وفادار حلیف پاکستان کو یکسر نظرانداز کرکے اس کے ازلی دشمن بھارت کا دورہ کرنے کو ترجیح دی۔

یہ وہی بارک اوباما تھے جن کے سر پر کبھی سائبان بھی نہیں تھا اور وہ نیویارک کے فٹ پاتھ پر سویا کرتے تھے اور بے یارومددگار ہونے کے نامساعد حالات میں ایک پاکستانی نے سینیٹ کی نشست حاصل کرنے میں ان کی مالی اعانت کے طور پر اپنے ہم وطنوں کے تعاون سے ان کے لیے 3 ہزار امریکی ڈالر کی رقم اکٹھا کی تھی۔ افسوس صد افسوس کہ اوباما نے اس حسن سلوک کو بھی فراموش کردیا اور احسان فراموشی کی انتہا کردی۔

25 جنوری کو نئی دہلی کے راج پتھ نامی شاہراہ پر واقع نظام حیدرآباد کے ٹاؤن ہاؤس کے اندر کا منظر بڑا عجیب و غریب تھا جہاں بھارت کے 15ویں پردھان منتری نریندر مودی امریکا کے 44 ویں صدر کو تمام آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنا چائے والے کا اوریجنل رول ادا کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے کافی پیش کرتے ہوئے بڑا فخر محسوس کر رہے تھے اور خوشی کے مارے آپے سے باہر ہوئے جا رہے تھے۔

عین اس وقت جب وزیر اعظم نریندر مودی بھارت کی راجدھانی میں امریکا کی خاتون اول مشعل اوباما کا سواگت کر رہے تھے اور ان پر فریفتہ ہوئے جا رہے تھے تب ان کی دھرم پتنی جشودابین میلوں کوسوں دور شمالی گجرات کے اپنے گاؤں برہمواڑی سے 120 کلومیٹر دور ایک شادی میں جانے کے لیے تیاری میں مصروف تھیں۔ مودی کی حرکتیں دیکھ کر شاید وہ اپنے دل ہی دل میں کہہ رہی ہوں:

گھر کی سیتا چھوڑ آج کے رام بھٹکتے گلی گلی

مشعل اور بارک اوباما کے ساتھ اپنے پتی دیو کو ٹی وی پر دیکھ کر انھوں نے بے ساختہ کہا کہ مجھے پتا ہے کہ اس وقت مجھے بھی دہلی میں ہونا چاہیے تھا لیکن صاحب (مودی) ایسا نہیں چاہتے، لیکن مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے لیے یہی بہت ہے کہ انھوں نے پچھلے سال مجھے اپنی بیوی مان لیا۔ جشودا کی مودی کے ساتھ شادی 17 سال کی عمر میں 1968 میں ہوئی تھی۔ بھارت کے گزشتہ عام چناؤ سے کچھ عرصہ قبل مودی نے انھیں اپنی بیوی تسلیم کیا تھا۔

وہ ایک ریٹائرڈ اسکول ٹیچر ہیں اور 14 ہزار روپے ماہانہ کی پنشن پر گزارا کر رہی ہیں۔ مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد گجرات کی صوبائی حکومت نے ان کے گھر کے باہر 4 کمانڈوز تعینات کردیے تھے جس کی وجہ سے گاؤں میں لوگ یہ کہہ کر ان کا مذاق اڑاتے ہیں کہ دیکھو مودی کی بارات جا رہی ہے۔ جشودا نے اوباما مشعل کا استقبال ٹی وی پر دیکھا تو انھیں اس بات پر بڑا دکھ اور افسوس ہوا کہ ان کے نام کے ساتھ مودی کا نام نہیں لکھا ہوا تھا۔

وزیر اعظم نواز شریف نے امریکی صدر اور بھارتی وزیر اعظم کی پریس کانفرنس اپنی دیگر مصروفیات کو چھوڑ کر لاہور میں جاتی عمرہ کی رہائش گاہ پر خاص طور پر دیکھی۔ میاں صاحب کے چند قریبی رفقا بھی اس موقعے پر ان کے ہمراہ موجود تھے۔ وزیر اعظم نے امریکی صدر اور بھارتی وزیر اعظم کی باڈی لینگویج کو خاص طور سے نوٹ کیا اور پریس کانفرنس کے بعد فون پر بعض اہم اور ذمے دار لوگوں سے اس حوالے سے فون پر بات چیت بھی کی اور چند ہدایات بھی جاری کیں۔


جس وقت بھارت میں جشن یوم جمہوریہ منایا جا رہا تھا اس وقت دنیا بھر میں کشمیری عوام یوم سیاہ منا رہے تھے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت مخالف ریلیاں نکالی گئیں اور احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور جلسے منعقد کیے گئے۔ کاروباری مراکز بند رہے اور پہیہ جام ہڑتال کی گئی۔ مظلوم کشمیریوں نے دنیا بھر پر یہ واضح کردیا کہ وہ بھارتی ظلم و تشدد اور بربریت کی انتہا کے باوجود اپنے موقف سے ذرا بھی نہیں ہٹیں گے اور ہر حالت میں اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

وہی مودی جسے امریکا اپنے یہاں داخل ہونے کی اجازت دینے کے لیے بھی تیار نہیں تھا امریکا کے صدر اسی کے ساتھ بغل گیر ہو رہے تھے۔ ادھر مودی کا حال یہ تھا کہ بہ زبان غالب:

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا

صدر اوباما کے حالیہ دورہ بھارت کے دوران سول نیوکلیئر معاہدہ بھی طے پاگیا جو 2005 سے کھٹائی میں پڑا ہوا تھا۔ اس موقعے پر اس عظیم سانحہ بھوپال کو بھی بھلا دیا گیا جو دسمبر 1984 میں رونما ہوا تھا اور جس کے نتیجے میں ایک امریکی گیس کمپنی کی نااہلی کے باعث 3,787 ہندوستانی شہری لقمہ اجل بن گئے تھے۔ اس سول ایٹمی معاہدے سے ایٹمی ماہرین میں زبردست تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ پاکستان کے ممتاز ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے ذریعے امریکا نے بھارت کو کھلی چھٹی دے دی ہے۔ انھوں نے یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ ٹریکنگ سسٹم کی عدم موجودگی کی وجہ سے جوہری مواد کا غلط استعمال بھی ہوسکتا ہے۔

اگر بھارت نے ری پروسیسنگ کی اور امریکا نے اس کو بھی نہ دیکھا تو یہ ہمارے لیے بہت خطرناک ہوجائے گا کیونکہ بھارت کو بہت سارا نیوکلیئر میٹریل ادھر سے مل جائے گا۔ امریکا اور بھارت کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئے میل جول کے نتیجے میں یہ امکان بھی بعیدازقیاس نہیں ہے کہ بھارت اپنے بری، بحری اور فضائی اڈے امریکا کے لیے کھول دے گا جس کے بعد امریکی جہاز بھارتی اڈوں کو ری فیولنگ اور دیگر مقاصد کے لیے بھی استعمال کرسکیں گے اور دونوں ممالک خفیہ معلومات کا تبادلہ بھی کرسکیں گے۔ اس کے علاوہ جنگ کی صورت میں امریکا بھارت کا ساتھ بھی دے سکے گا۔

امریکا کی اس تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی حکمت عملی سے خطے کے دیگر ممالک کو فطری طور پر بڑی تشویش لاحق ہوگئی ہے اور وہ نئی صورتحال پر محض خاموش تماشائی بن کر نہیں رہ سکتے۔یہی وجہ ہے کہ بھارت کے بعد اس خطے کے دوسرے سب سے بڑے ملک اور جوہری قوت پاکستان کے چین کے ساتھ روابط مزید وسیع اور مستحکم ہو رہے ہیں اور دونوں دوست ممالک کے درمیان اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے ہو رہے ہیں۔

اس سلسلے میں یہ بات قابل غور ہے کہ جس وقت امریکی صدر بھارت کی یاترا کر رہے تھے ٹھیک اسی وقت پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل راحیل شریف چین کا انتہائی اہم دورہ کر رہے تھے۔ دوسری جانب اگر بھارت امریکا کے ساتھ پینگیں بڑھا رہا ہے تو ادھر پاکستان اور روس کے درمیان ماضی کے سرد تعلقات کی برف بھی پگھلنا شروع ہوگئی ہے۔ اس تناظر میں ہمیں روس کے ایک سابق معروف سیاسی رہنما نکیتا خرشچیف کے الفاظ یاد آرہے ہیں جنھوں نے کہا تھا کہ ''سیاست ایک بے رحم کاروبار ہے'' جب کہ جیوپالیٹکس کی بے رحمی کی تو کوئی حد ہی نہیں ہے۔

امریکا کی حکمت عملی یہ ہے کہ اس خطے میں چین کی ابھرتی ہوئی قوت کو روکنے کے لیے بھارت کو اس کے مدمقابل کھڑا کردیا جائے اور اگر ممکن ہوسکے تو ان دونوں قوتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بھڑا کر ایک تیر سے دو شکار کرلیے جائیں۔ مگر چین کی دوراندیش قیادت امریکی اور بھارتی دونوں ہی عزائم سے بخوبی آگاہ ہے۔

چینی قیادت کو اس خطے میں پاکستان کی جیوپولیٹیکل لوکیشن کا بھی پوری طرح احساس و ادراک ہے اور اس کا کہنا ہے کہ پاکستان چین کا ایسا دوست ہے جس کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا۔ خطے کے تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے حالات کا اولین تقاضا ہے کہ ہماری وزارت خارجہ کا قلم دان جو عرصہ دراز سے خالی پڑا ہے اور جس کی اضافی ذمے داری وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے کندھوں پر اٹھائی ہوئی ہے وہ کسی کل وقتی وزیر خارجہ کے حوالے کیا جائے اور وطن عزیز کی خارجہ پالیسی کو نئے حالات سے پوری طرح ہم آہنگ کرنے کے لیے بلاتاخیر سر جوڑ کر بیٹھا جائے۔
Load Next Story