چین کو مثال بنائیں پہلاحصہ

پاکستان کا ہر شہری چین سے دوستی کا خواہاں ہے، اور وہ عملاً یہ سمجھتا ہے کہ چین ہمارے دکھ سکھ کا ساتھی ہے.


Doctor Nasir Mustehsan February 03, 2015

پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوجوچین کی دوستی کا دم نہ بھرتا ہو، پاکستان کا ہر شہری چین سے دوستی کا خواہاں ہے، اور وہ عملاً یہ سمجھتا ہے کہ چین ہمارے دکھ سکھ کا ساتھی ہے، جو ہمارے ہر برے وقت میں ہمارے کام آیا ہے۔

چین جب ایک آزاد و خودمختار ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر آیا تو پاکستان ہی وہ واحد ملک تھا جس نے سب سے پہلے چین کو اقوام متحدہ کے قوائد و ضوابط کے تحت ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم کیا، یہاں سے پاک چین دوستی کی بنیاد پڑی جو آج تک مضبوطی سے قائم ہے، آج چین کی طرف نظر کریں تو آپ کو ایک ایسا ملک نظر آئے گا جس نے اپنی محنت شاقہ سے، اپنی صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے استعمال کرتے ہوئے، اپنے عظیم لیڈروں ماؤزے تنگ اور چو این لائی کے فلسفے پر، ان کے فرمودات پر، اور ان کے احکامات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے چین کو اقوام عالم میں وہ بلند مقام دلا دیا ہے۔

جہاں دنیا کے طاقتور ترین ممالک اور ایک ایسا سپر پاور ملک امریکا جو ہر صبح اٹھ کر دنیا بھر کے لوگوں کے متعلق اپنے احکامات جاری کرتا ہے وہ بھی چین کے سامنے چپ کھڑا رہتا ہے اور اسی میں اپنی عافیت سمجھتا ہے، چین نے یہ مقام ایسے ہی حاصل نہیں کرلیا، چین کے حکمرانوں کے پاس وژن ہے، زبردست قائدانہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر، اپنے عوام کو مضبوط کرکے Empower کرکے اور سب سے اہم بات جس ملک میں جتنی غربت ہوگی وہاں ترقی و کامرانی کی راہیں بھی معدوم ہوجائیں گی، جس سے زرمبادلہ پر براہ راست اثر پڑے گا جس کی وجہ سے لازماً ملکی معیشت پر منفی اثر پڑے گا، چینی حکمرانوں نے اپنے اپنے نظریاتی اختلافات بھلاکر اپنے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں، متعدد اصلاحات کیں جس کے نتیجے میں 1959سے لے کر 1999 تک یعنی چالیس برسوں میں چین کے عوام میں غربت کے یقینی خاتمے کو ایک چیلنج سمجھتے ہوئے اس پر قابو پایا ان 40 برسوں میں چین کے 40کروڑ لوگ غربت کی سطح سے اٹھ کر ایک بہتر معاشی حالت میں آگئے۔

عوام کے لیے نت نئے روزگار کے مواقعے پیدا کیے جس سے کوئی شخص بیکار نہیں رہا اور عوام کی اس محنت کے نتیجے میں ملک کو ہر اعتبار سے فائدہ ہی ہوتا رہا۔ چین نے اپنے عوام کو ایک صفحے پر لاتے ہوئے کہا کہ آپ یعنی عوام حتی المقدور کوشش کریں گے کہ آپ اپنے ملک میں بنائی جانے والی مصنوعات بھی ایک وقت تک استعمال کریں گے اور کوشش کریں گے کہ بیرونی مصنوعات کو کم سے کم استعمال کیا جائے۔ ایسا کرنے سے ہمارا ملک بیرونی قرضوں سے بچا رہے گا چین کے عوام نے بھی اپنے ملک کی خوشحالی کے لیے دنیا بھر کی مصنوعات کو ترک کردیا اور وہ اپنے ہی ملک میں بنائی گئی چیزوں کو استعمال کرتے رہے ۔

جس سے چھوٹی چھوٹی گھریلو صنعتوں کا چین میں ایک جال بچھ گیا اور چین کی معاشی حالت بہتر سے بہتر اور پھر بہترین ہوگئی، یہ سب حکمرانوں کے وژن اور مضبوط مستقل حکمت عملیوں کے باعث ہوا ہے، اور کل کا ترقی پذیر ملک آج کا ترقی یافتہ ملک بن گیا۔ ایک وقت بلکہ وہ وقت جلد ہی آنے والا ہے جب چین کی اقتصادی قوت، امریکی معیشت کو حجم کے لحاظ سے بہت پیچھے چھوڑ دے گی۔

آج یہ عالم ہے اور آپ بھی اس بات پر تائیداً سر ہلائیں گے کہ دنیا بھر میں آج چاہے جزیروں پر مشتمل کوئی ملک ہو، یا براعظم آسٹریلیا، یا پھر افریقہ کے ریگزاروں اور افریقی ملکوں میں چائنا کی مصنوعات چھائی ہوئی ہیں، کس جگہ چینی مصنوعات کا لین دین نہیں ہوتا۔ جس قوم کو کبھی افیونچی کہا جاتا تھا پھر اسی قوم کے بارے میں یہ سنا کہ یہ قوم سویا ہوا شیر ہے یہ جب تک سویا ہوا ہے اسے سونے دو، یہ جب اٹھے گا تو دنیا کھا جائے گا اور آج ہم سنی سنائی باتوں سے نکل کر حقیقت میں ایسا ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔

آج چین 21 ویں صدی کا جدید ترین ملک ہے، آسمان سے باتیں کرتی بلڈنگز، عمارتیں، شاندار ہوٹلز، بڑے جدید اور خوبصورت ایئرپورٹس،منظم و مربوط بندرگاہیں، صاف ستھرے شہر اس کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہیں، گوکہ چین کی فوجی طاقت امریکا سے کچھ کم ہے لیکن جنوبی ایشیا میں اور پیسیفک ایشیا میں چین کو برتری حاصل ہے، جس قوم کے حکمرانوں کے پاس اپنے ملک کی ترقی کے لیے وژن ہو، فیوچرمینجمنٹ پلاننگز ہوں وہاں یہی سوچ ہوتی ہے کہ کس طرح اپنے ملک کو باقی ماندہ ممالک سے ممتازکیا جائے۔

قارئین! آپ چین کے موجودہ صدر کا چین کے متعلق یہ وژن دیکھیں کہ وہ چین کی اقتصادی ترقی کو نہ صرف بڑھانا چاہتے ہیں بلکہ اسے پائیدار ترقی میں بدلنے کے لیے بھی کوشاں ہیں، شی جن چاہتے ہیں کہ چین کو عالمی سطح پر ایک عظیم مملکت تسلیم کیا جائے یعنی اسے سپر پاور تسلیم کیا جائے ۔ایک زمانے میں دو ہی سپرپاور طاقتیں تھیں ، لیکن مسلمانوں نے ان دونوں سپرپاورز کو صفحہ ہستی ہی سے مٹا دیا۔ انھوں نے بعد میں بڑا زور مارا لیکن ایک بار کمر ٹوٹ گئی تو ٹوٹ گئی، آپ دیکھیں گے کہ چائنا اس زمانے میں بھی جب مملکت روم، بحیرہ روم پر قابض ہونے کے لیے کارتھیج کی جنگ میں مشغول تھی جس میں اسے منہ کی کھانی پڑی اور روم کا زوال مزید پسپائی میں گڈمڈ ہوگیا جسے ہم "Fall of the Roman Empire" کے نام سے جانتے ہیں۔

جس پر ہالی وڈ میں کئی فلمیں بھی بن چکی ہیں، اس زوال کے ساتھ ہی مشہور چینی فلسفی و مفکر کنفیوشس کی سماجی و اخلاقی تعلیمات کا دور شروع ہوا، کنفیوشس کی یہ تعلیمات ہی چین کو ایک منظم معاشرے کی صورت میں ڈھال گئیں اور 220ء میں بھی چین کو کئی ممالک پر اپنی انتظامی برتری سے فوقیت حاصل تھی، ساتویں صدی کے آتے آتے چین ایک سپرپاور کی حیثیت سے ابھرا، یہ وہی زمانہ ہے، جب اسلام کی روشنی سارے عالم میں پھیل رہی تھی۔ جیساکہ پہلے عرض کیا کہ چین کو دیگر ممالک پر فوقیت حاصل رہی تو اس کی دیکھا دیکھی چائنا کے آس پاس کے ممالک نے بھی ہاتھ پاؤں مارنے شروع کردیے۔

ان ممالک میں جاپان، ہندوستان، ویت نام اور برما وغیرہ شامل تھے۔ مارکوپولو نے اپنے ایک سفرنامے میں چین کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ''چین ان دنوں خوشحال ہی نہیں بلکہ ترقی کر رہا تھا اور چین کو اس خطے میں باقی تمام ملکوں پر برتری حاصل تھی وہ جو چیز بنانا چاہتا بنا لیتا۔'' ہماری ایشیائی تہذیب پر چینی کارگزاریوں نے گہرے نقوش مرتب کیے، آج چین حق کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے، صدیوں سے ہم ترقی کرتے آئے ہیں ہماری آج کی ترقی ہمارے لیے کوئی نئی شے نہیں ہے، جو قومیں محنت کرنے کی عادی ہوتی ہیں، وہ ہار کے بھی جیت جاتی ہیں، چین کو متعدد بار زوال بھی دیکھنے پڑے لیکن اس نے ان سے سبق حاصل کرتے ہوئے آج اپنے آپ کو کسی بھی طاقتور ملک کے سامنے اس ملک سے کہیں زیادہ طاقت رکھنے والے ملک کی حیثیت سے منوا لیا ہے۔

ایک زمانے میں چینی عوام امریکی و یورپی مصنوعات کو استعمال کرنے کے لیے جستجو میں لگے ہوئے تھے کہ کسی صورت ان کو وہ مل جائے تاکہ وہ بھی ساری دنیا کی طرح ان سے فیض یاب ہوسکیں، سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں چین یورپ سے کہیں پیچھے تھا۔ اس لیے اس کو کبھی کبھار کمزور معیشت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ لیکن اپنی ہمت و جواں مردی سے اس نے آنے والے وقت کا مقابلہ کرتے ہوئے سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیے۔

جاپان ایک زمانے تک چین کے متعدد علاقوں پر قابض رہا۔ اور غالباً 19 ویں صدی کے وسط میں برطانیہ نے چین کو افیون کی جنگوں میں شکست دی اور ہانگ کانگ پر اپنا تسلط قائم کرتے ہوئے اس کو برٹش کالونی بنالیا، جاپان نے بھی چین کو للکارتے ہوئے اس کو شکست دی۔ 1890 میں ماؤزے تنگ اور چو این لائی نے بکھرے ہوئے چین کو منظم کرنا شروع کیا، اور ڈینگ ژیاؤ پنگ کی قیادت نے چین کو ایک مرتبہ پھر سارے عالم میں مضبوطی کے ساتھ کھڑا کیا، پنگ کی قیادت میں چین میں صنعتوں کو فروغ ملا، جس سے اقتصادی مضبوطی عمل میں آئی اور پھر آج تک چین نے 1979کے بعد پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا اور ترقی کا وہ دور شروع ہوا جس کے بل بوتے پر آج چین خود کو سپر پاور کہہ رہا ہے، چین نے Dynasty بادشاہت کو عوام دشمن قرار دیا۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں