لوک فنکار جب مرتے ہیں آخری حصہ
مائی بھاگی کا تھری زبان کا لازوال گیت ’’کھڑی نیم کے نیچے‘‘ کہتے ہیں ایک صوفیہ خاتون کا کلام تھا ۔
لیاری میں محمد جاڑوک جیسا بے مثال اور شیریں دہن بلوچ گلوکار بھی تھا۔اس کا کوئی ثانی نہ تھا، بے شمارگانے اورآڈیو کیسٹ ان کی یاد دلاتے ہیں۔ وہ بلوچوں کا مہدی حسن تھا، لیکن غربت دامن گیر ہوئی تو وہ بیوی بچوں کے لیے گلی گلی ساگو دانے کی ملائی فروخت کرتا رہا اس کی موت غربت وگمنامی میں ہوئی۔
تعلیم یافتہ عزیز بلوچ کسی کو یاد نہیں ۔ سندھ گورنمنٹ پریس کے بہترین فٹبالر تھے، ان کے بڑے بھائی محمد حسن کے پی ٹی فٹبال ٹیم کی طرف سے کھیلتے تھے،ان کے گھر کے ساتھ میوزک کلب تھا،اس کا درجہ اکیڈمی کے برابر تھا ۔ممتاز موسیقار شفیع، ستار بھلادیے گئے،ان کی مشترکہ دھنیں عطا شاد ، مبارک قاضی ، ظفر علی ظفر اور بانل دشتیاری کے اولین کلام ''حاترا تئی گا دلے درداں دلا داراں '' کو تابندہ کرگئیں۔ یہ نظم والدہ صاحبہ راقم کے نام کرگئی تھیں۔کوئی شک نہیں کہ اسی دردناک لوک فنکار دشمنی کا رویہ جاری رہا تو نور محمد نورل اور دیگر لوک فنکاروں کا بھی یہی حشر ہوگا۔
سیاہ فام بلاول بیلجئیم سے بڑھ کر ایشیا نے کوئی بینجو نواز پیدا نہیں کیا، وہ اپنا سر منڈل تخلیق کر کے بینجو پر کلاسیکی راگ پیش کرتا تھا، زیڈ اے بخاری اس کے دیوانے تھے، اسی کے ساتھ لسبیلہ کا ادرو ڈاڈا عرف استاد ادریس گلوکاری اورطبلے کے فن میں حیران کن صلاحیتوں سے مالا مال تھا۔ 70 کی دہائی میں اس نے ایک محفل میں ''آؤں کو جانڑا پند کیچ جو'' سنایا تو تالیوں سے پورا پنڈال گونج اٹھا ، جس نے استاد شوکت علی خان کی سنگت میں طبلہ بجایا ہو اور فریدہ خانم کی محفل کا ساتھی ہو، وہ کیسا ہونہار ہوگا ۔
کچھ نہ پوچھیے سیاہ رات میں اس کی آواز کے کتنے جگنو چمکے تھے جب اس نے مہدی حسن کی گائی ہوئی غزل ''ہمیں کوئی غم نہیں تھا غم عاشقی سے پہلے'' کلاسیکی انداز میں کافی دیر تک چھیڑی۔ اس وقت اس کے سارے دانت جھڑ چکے تھے۔ وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا۔ دونوں مایہ ناز فنکارگمنامی کی موت مرگئے۔ کسی کو خبر نہیں کہ بلاول بلجیم کا بینجو نیلامی میں کتنے پیسے میں بکا، کسی نے بیچا بھی یا میراں ناکہ کا کوئی کباڑی لے گیا۔
مائی بھاگی کا تھری زبان کا لازوال گیت ''کھڑی نیم کے نیچے'' کہتے ہیں ایک صوفیہ خاتون کا کلام تھا ۔20 روپے فی ریکارڈ ان کو ابتدا میں معاوضہ ملا، مادر ِ تھر کی آواز میں جادو تھا یا اس کے ہم وطنوں کا درد مشترک ، نوحہ غم تھا یا ایک پکار جو دلوں کو چیر ڈالتی تھی۔ شادی کا گیت گاتی تو سکھیاں جھوم جھوم اٹھتیں۔ تھر کے بچے روز مر رہے ہیں کسی کا ضمیر نہیں جاگتا تو مائی بھاگی کو یاد کرنے کے لیے کس کے پاس وقت ہے۔
ضیا آمریت کی دھوپ جلی اور صحرائے تھر کی ریت پھانکتی مائی بھاگی دنیا سے رخصت ہوئی ۔ ''ساڈھا چڑیاں دا چنبا'' فیم لوک فنکار طفیل نیازی کا مقدر بھی مختلف نہیں تھا، کیا پرسوز اور دبنگ آوازتھی اونچے سر تھے۔حکمرانوں کو خبر نہیں ہوئی جب وہ معاشی تنگ دستی کے باعث دودھ فروش کا ملازم ہوگیا۔ پٹھانے خان نہ رہا ۔ منیر سرحدی چلا گیا ۔ ایک لمبی فہرست ہے، استاد ابراہیم ، محمد جمن، سینگھار علی سلیم، علی نواز شہنائی ماسٹر ، ڈھولن فقیر، زرینہ بلوچ، منظور علی خان، قدرت اﷲ ، منصور ملنگی ، اعجاز حسین حضروی ،اقبال باہو،اختر زہری، مرید بلیدی ، لیجنڈری سچو خان سرود نواز، سائیں ظہور، اک تارہ نواز سائیں مرنا، الن فقیر، عبدالغفور ، مٹھو کچھی، اور ملک بھر کے ایسے ان گنت لوک گمنام فنکار ہوں گے جن کی زندگی کے آخری لمحات کی اذیتوں سے ہم واقف نہیں ۔اس لیے جن لوک فنکاروں نے عمرعزیز ہنسی خوشی اور سکھی ہوکر کاٹی وہ کیا خوش نصیب تھے۔ عابدہ پروین ایک الگ موضوع ہے۔
برصغیر کے مشہور ادیب اور ترقی پسند دانشور دیوندر ستھیارتھی اپنے بیوی بچوں کو لے کر گھر سے نکلا اور نگری نگری گھوم کر اس نے لوگ گیت جمع کیے۔پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ۔ سندھ کے نابغہ روزگار الغوزہ نواز مصری خان جمالی کا قصہ سنیے۔ کیا باغ و بہار شخص تھا، جیسا وہ حسین ویسا ہی اس کا خوبصورت الغوزہ ۔ یارو! وہ صرف الغوزہ کہاں تھا ، رنگ برنگ ڈوریوں ، جھالروں، سنہری جھلمل کرتی زنجیروں اور موتی پروئے لڑیوں سے لدی پھندی سجی سجائی دلہن جیسا اس کا سنگھار تھا ۔ مصری خان کی شفاف دھیمی گفتگو ، مقابل اس کا ہم عصر خمیسو خان ،الغوزہ وہ مشکل ساز ہے۔
جس کے لیے فنکار کی سانس نہیں ٹوٹتی اور سرقائم رہتا ہے ، دونوں سندھ دھرتی کی نغمگی کا چہکتا گنگناتا شاہکار ورق تھے۔ پھاڑ کے پھینک دیے گئے ، فن اور ثقافت کے سرکاری ٹھیکیداروں اور اشرافیہ نے جو ثقافت کی سرپرستی کے جھوٹے دعویدار بنے ہوئے ہیں۔
دونوں کے الغوزے ان کی شخصیت کی طرح رنگا رنگ تھے، دونوں اپنے فن میں یکتا اور بے مثل تھے، خمیسو خان کا ''لہرو'' اور مصری خان جمالی کی وہ دھن جس کی ایک جھلک سیل فون کی رنگ ٹیون میں بھی ہے ۔وہ بھیرویں یا پہاڑی سر کا الاپ اٹھاتے تو یقین کرنا چاہیے کہ طاہران لاہوتی بھی فضاؤں میںجھوم اٹھتے ہونگے ۔ انڈیا میں عظیم شہنائی نواز بسم اﷲ کی قدر و منزلت اور سرکاری سرپرستی کئی عشروں تک جاری رہی۔ مگر ہمارے یہ دونوں عالمی شہرت یافتہ فنکار اکیسویں صدی کے سائنسی اور میڈیا انقلاب میں گم ہوگئے۔ اب واقعی دل ہی نہیں ''کانوں کے لیے موت مشینوں کی حکومت'' والا زمانہ آگیا ہے، ستار کے سارے تار ٹوٹ گئے ہیں گٹار کی بادشاہی ہے۔ ہمارے کان ایک قسم کی جناتی موسیقی کے مغربی شور سے بہرے ہوگئے، بے سروں نے دلکش سروں کا وہ ستیاناس مارا ہے کہ اچھے اچھے کلاسیکل اور لوک سنگرز کے لیے چینلز پر پرائم ٹائم میں جگہ نہیں بنتی۔
مزے کا قصہ سنیے ۔ یہ جنرل ضیا کے دور آمریت کا اختتامی دورانیہ تھا۔ میں پی ٹی وی پرکوئی پروگرام دیکھ رہا تھا۔ بے ہنگم اشتہار بازی کے بعد مصری خان جمالی سے بات چیت کا ٹیپ چلا ، لگتا تھا کہ یہ پروگرام پہلے بھی دیکھا جا چکا ہے ۔ گفتگو جاری تھی ۔ مصری خان جمالی لہک لہک کر اپنے حالات و واقعات کا ورق الٹتے جاتے تھے کہ اچانک ایک سوال پر ان کا جواب سے پہلے چہرہ دمک اٹھا اور والہانہ انداز میں کہنے لگے '' اﷲ بھٹو سائیں کو سلامت رکھے۔
احسان ہے اس کا...!'' بس اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی ۔ اسکرین پر سے مصری خان جمالی یوں غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ الٹی سیدھی دھاریاں چلنے لگیں ، پھر پتا چلا کہ پروڈیوسر بیچارے معطل و معتوب ہوئے ۔ ضیا کی بادشاہی میں بھٹو کی تعریف اف میرے اﷲ ۔ راوی کہتا ہے کہ اصل پروگرام موصول نہیں ہوا تو ''اسٹاپ گیپ ارینجمنٹ'' کے طور پر مصری خان جمالی کا ٹیپ دیکھے بغیر چلادیا ۔اور پروڈیوسر کا ''چالان'' ہوگیا ۔
الن فقیر کو ''اتنے بڑے جیون ساگر میں تو نے پاکستان دیا او اللہ... ہمّا ہمّا کر بھیا '' کہتے کس نے نہیں سنا، محمد علی شہکی کے ساتھ اس کی جوڑی دنیا بھر میں اپنی الگ شناخت بناگئی۔ قلندر شہباز کا مرید ۔ خوش لباس من موجی اور مست و مست صوفی فنکار تھا۔ پھر کیا ہوا۔2000 ء میں اپنی فقیری میں ہی سین سے ہٹا دیا گیا۔کوئی نہیں جانتا بعد ان کے اہل خانہ پر کیا گزری۔ زرسانگا سابق صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا ) کی مشہور و معروف پشتو لوک فنکارہ تھیں۔ پختونوں کی مائی بھاگی تھیں ۔
1960-70قبائلی لڑکی تھی ، بچپن سے گانے کا شوق تھا، رفتہ رفتہ اس کی آواز کا سفر انھیں ''وائس آف کوہستان'' کے درجہ تک لے گیا ، ایک فرانسیسی ریڈیو پروڈیوسر نے ان کا گانا سنا تو فریفتہ ہوگئیں انھیں فرانس مدعو کیا اور پھر اہل فرانس کے با ذوق سامعین اور ان کی اشرافیہ نے زرسانگا کو سنا۔بہت محظوظ ہوئے۔ انعامات سے نوازا۔ آج زرسانگا قبر میں سو رہی ہے۔
آپ میں سے بہت سارے لوک موسیقی بیزار لوگ یا مذکورہ لوک فنکاروں سے واقف قارئین ان سطور کو پڑھ کے شاید یہ سوچتے ہوں کہ کیا ان فنکاروں کے لیے حکومتوں کو سونے چاندی کے محل تعمیر کرکے دینے چاہیے تھے، ان کے لواحقین اور اولاد کو بینک بیلنس، گاڑیاں، وزارتیں یا سفارتیں دینا لازمی تھا۔یا ارباب اختیار کے لیے ملک بھر میں ان فنکاروں کے بعد از موت مجسمے نصب کرنے ضروری تھے۔
یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر حکومت نے ان کی سہولت اور ان کی خاطر مدارات اور قدر افزائی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ، یہ جواز بھی پیش کیا جاتا ہے کہ سب کچھ ملنے کے باوجود کئی فنکار اپنی ذاتی غلطیوں ، مستقبل سے بے خبری کے باعث برباد ہوئے۔ بہت سارے سوال ہیں، مگر ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ اب لوک فنکاروں کی بے مثال اور صابر نسل پھر پیدا نہیں ہوگی۔اب زمانہ کمرشل ازم سنگنگ اور ہوس ناک گلیمر کا ہے۔ہم سیاست کے بعد لوک ثقافت میں بھی دیوالیہ پن کا شکار ہوگئے۔ مبارک ہو۔