عہد جدید کا اہم تقاضا
ہماری سائنسی ترقی کا ماضی دنیا کی تاریخ کا روشن ترین عہد ہے۔
آج مغرب جدید ترین سائنس و ٹیکنالوجی اور عیش و عشرت سے مالا مال ہے، لہٰذا یہی وجہ ہے کہ آج تقریباً ہرنوجوان کی یہ دیرینہ خواہش ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح ان ترقی یافتہ مغربی ممالک تک رسائی حاصل کرنے اور اپنی تمام زندگی ٹھاٹ باٹ کے ساتھ بسر کرے۔ ایک ایسی زندگی جوکہ تیسری دنیا کے مسائل و مصائب سے مستثنیٰ و مبرا ہو۔ درحقیقت یہ وہ خواہش ہے جو مسلمانوں کے ترقی یافتہ دور میں یورپی ومغربی اقوام کی ہوا کرتی تھی۔
مغرب کی یہ خواہش جو ہمارے تقریباً نوے فی صد نوجوانوں کے دلوں میں پیدا ہورہی ہے۔ دراصل شدید ذہنی غلامی اور احساس کمتری کا نتیجہ ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مسلمان آج اسلامی قوانین اور غیر اسلامی قوانین کے درمیان پھنس کر رہ گئے ہیں۔ لیکن اگر ہم تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو ہمیں اس بات کا شدید احساس ہوگا کہ جب تک ہم نے اﷲ عز وجل اور اس کے مذہب ''دین اسلام'' کے زریں اصولوں کے تحت زندگی بسر کی اس وقت تک کامیابی کامرانی نے ہر مقام پر ہمارے قدم چومے اور مسلمان ترقی کی منازل طے کرتے گئے۔ مسلمانوں کے اس دور عظیم میں ایسے ایسے نادر و نایاب اصول دریافت کیے گئے جو کبھی انسانی تاریخ میں دریافت نہیں ہوئے تھے۔ اس زمانے میں کئی سربستہ رازوں کا پردہ چاک کیا گیا۔ کئی دریافتیں سامنے آئیں اور کئی سربستہ ترقی کے زریں اصول دریافت کیے گئے۔
ہماری سائنسی ترقی کا ماضی دنیا کی تاریخ کا روشن ترین عہد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے قدیم مسلمان سائنس دان (بوعلی سینا،البیرونی، فارابی، الزہراوی، الخوارزمی وغیرہ) جدید سائنس کے بانی ہیں۔ سائنس کا اسلوب، سائنسی عمل اور نقطہ نگاہ سائنس کی رو سے عالمی اور انسانی مسائل کا حل کرنا اور اطلاقی سائنس میں میکانیکی ، تیکنیکی اور قدرتی وسائل کا استعمال یہ سب کچھ ان ہی کا عطیہ ہے۔
ان کے600 سالہ دور کو یورپی سرمایہ داروں اور ملوکیت نے دنیا کی نگاہوں سے بوجھل رکھا۔ اگر حقیقت میں مسلمان سائنس دانوں کے ہر کارنامے پر باری باری روشنی ڈالی جائے تو کئی سو کتابیں بھر جائیں اور ان کے کارنامے گنوائے نہیں جاسکتے یہی وہ عظیم کارنامے ہیں جن کی بدولت ہمیں اس بات کا حقیقی احساس ہوتا ہے کہ جدید سائنس کس قدر مسلمانوں کی احسان مند ہے آج کی سائنس مسلمانوں کی جس قدر احسان مند ہے اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ آج کی سائنس جتنی اونچی اور رفیع الشان نظر آتی ہے وہ در حقیقت ہمارے اسلاف کے کارناموں پر ہی کھڑی ہے اور ہمارے اسلاف کے ہی کارناموں کے طفیل یہ سائنس آج اس عظیم مقام تک پہنچی ہے۔
بریفالٹ اپنی کتاب ''تشکیل انسانیت'' میں لکھتا ہے کہ اگر مسلمان سائنس کی اولین بنیادیں قائم نہ کرتے تو یورپ کی وہ ترقی جو آج ہمیں نظر آرہی ہے، قطعی ناممکن تھی اور یوں جگماتی روشنیوں کا یورپ اسلامی سائنس کا مرہون منت ہے جو آج یورپی مصنف مسلمانوں کے علم جراحی کی ان الفاظ میں تعریف کرتا ہے کہ ''یورپ کے ان تمام سرجنوں کا جو چودھویں صدی عیسوی کے بعد گزرے ہیں، الزہراوی کی تصانیف پر دار ومدار تھا۔ یہ مایہ ناز سرجن اور طبیب تھا اور آج بھی یورپی سائنس دان اسے علم جراحت کا بانی مانتے ہیں۔ الزہراوی دنیا کا پہلا سرجن تھا جس نے انسانی اعضا کی تحقیق کے لیے پوسٹ مارٹم کی اہمیت پر زور دیا۔''
ہمارا ماضی کتنا شاندار تھا، ہماری عظمت رفتہ کا اندازہ ہمارے بزرگوں کے کارناموں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اس زمانے میں تقریباً ہر پیدا ہونے والا بچہ اپنی ماں کے بطن سے ہی ایک زبردست علامہ بننے کا شوق اور جذبہ ، جنون لے کر پیدا ہواکرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں کافی تعداد میں پائے کے زبردست ذہن و فکر رکھنے والے سائنس دان پائے جاتے تھے۔
بریفالٹ لکھتا ہے کہ ''حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ یورپی مرد جس نے پہلے پہل عربوں کے انکشافات پر نگاہ ڈالی، ان پر وہ اس انداز سے جھپٹ پڑا جیسے وہ اس کے اپنے کارنامے ہوں۔''
اس کے علاوہ روس کی بھی کچھ انصاف پسند عظیم شخصیات نے مسلمانوں کو ان اعزازات سے نوازا کہ انھوں نے فارابی کو نیوٹن کا پیش رو قرار دیا۔ سارٹن نے جابر بن حیان کو کیمیا کے بوعلی سینا کو اور زکریا رازی کو طب کے، الرازی اور ابن رشد کو ہیئت کے الخوارزمی، عمر خیام اور نصیر الدین طوسی کو ریاضی کے ان سربراہوں میں شمار کیا جنھیں شہرۂ دوام حاصل رہے گا۔ سرولیم جینس نے ابن الہیشم کو موجودہ فزکس کا بانی قراردیا۔
لمحہ ٔ فکریہ ہے کہ آخر ہمارا حال کس طرح سے دوبارہ بہتر ہوگا اور ساتھ ساتھ یہ کہ ہمارا آنے والا مستقبل کیسا ہوگا؟ کیا ہمارا مستقبل بھی مغرب کا غلام ہوگا؟ اس کو بھی ان ہی مسائل سے دوچار ہونا پڑے گا؟ جن مسائل میں آج ہمارا عالم اسلام سائنسی دنیا میں کم تری کی بدولت گھرا ہوا ہے! یہ وہ سوالات ہیں جو ہر مسلمان کے دل میں جاگنے چاہیں اور ہمیں سوچنا چاہیے ہم سب کو متحد ہوکر پورے عزم واستقلال کے ساتھ ملک وقوم کی ترقی و عروج کی خاطر کام کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی ساری قوم کے لیے سائنس کے نئے اندازوں کی بنا پر اور نئے حالات و کیفیات کے پیش نظر ایک عظیم پیمانے پر فوری یا وقتی اور طویل المدت منصوبے بنانے ہوںگے۔
لیکن یہ انقلاب کون لائے گا؟ اور کس طرح بپا ہوگا؟ اس انقلاب میں پہلا قدم یقینا اسلامی ممالک کی حکومتوں کی جانب سے ہی اٹھنا چاہیے، افراد ہوں یا حکومتی ادارے یا چند سائنسی شعبہ جات، سیاسی تحریکیں ہوں یا سماجی و معاشرتی تنظیمیں، ان کے پروگرام محدود اور ان کی قوتیں کم، ان کی تشکیل و تنظیم محدود اور ان کی لائحہ عمل پابندیوں کے شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ عظیم انقلاب وہ لوگ لاسکتے ہیں جو تمام تر پابندیوں سے بالاتر ہوکر ساری قوم کے ذہن اور قلب پر اثر انداز ہوسکیں۔ جن میں انتہائی ذمے داری کا احساس ہو، جو بے غرضی کے ساتھ اور تنگ نظری سے بلند و بالاتر ہوکر مسلسل جد وجہد کرسکیں، ایسے عظیم مفکرین اب عالم اسلام میں مفقود ہیں۔
یہ انقلاب مسلمان قوم کے ہر طبقے میں بیک وقت برپا ہونا چاہیے، بیک وقت پورے عالم اسلام کو اس انقلاب کی نعمت سے فیض یاب ہونا چاہیے، خاص طور پر اس انقلاب کو تمام اسلامی ممالک کے مکتب اور مدرسوں میں ایک ہمہ گیر تحریک کی شکل میں ظاہر ہونا چاہیے۔ ریسرچ اور تحقیق کے اسٹیج پر اس کے مفکرین کی تربیت اور صلاحیت کا ایک بڑا پروگرام بن جانا چاہیے اور بالغوں، نوجوانوں اور فنی پیشوں میں اس مثبت اور مفید پروگرام پر عمل ہونا چاہیے۔ اس کے لیے ہمارے اسکول، کالجوں، مسجدوں، مدرسوں، کارخانوں، پولی ٹیکنیک اداروں اور یونیورسٹیوں میں اسلامی و سائنسی رجحانات اور عملی انداز فکر رونما ہونا چاہیں۔ یہی انقلاب سائنس، عصر حاضر کے تناظر میں عالم اسلام و امت مسلمہ کے لیے وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔