ٹرین کے سفر کا سحر اب بھی ہے

ریلوے کا نظام سندھ میں تو بالکل ہی ختم ہوچکا ہے کیوں کہ کافی لائنیں بند کردی گئی ہیں۔

لاڑکانہ جنکشن تھا اور انجن کا رخ بدلنے کے لیے وہاں پر ایک لوکو شیڈ بنا ہوا تھا جہاں پر انجن کو لے کر اس کا طرف گھمایا جاتا تھا۔ اس کے برابر ایک چھوٹا سا پلیٹ فارم بنا ہوا تھا جہاں پر جب اسپیشل ٹرین بڑے لوگوں کو لے کر آتی تو اسے وہاں پر Land کروایا جاتا تھا۔

ٹرین میں اکثر صدر ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، شہنشاہ ایران اور بہت سارے ممالک کے سربراہ یا Ambassadors آتے تھے جہاں سے انھیں موئن جو دڑو گھمانے لے جاتے تھے یا پھر کوئی وزٹ کرنے کے لیے جاتے تھے۔ ریلوے سیلون میں رہنے، کھانے پینے کی ساری سہولتیں موجود ہوتی تھی اس لیے یہ بڑے لوگ اس میں ہی رہنا پسند کرتے تھے۔ شام ہوتے ہی لاڑکانہ کے لوگ ریلوے اسٹیشن پر چلے آتے تھے اور خاص طور پر گرمیوں کے موسم میں جہاں انھیں کچھ ہوا ملتی تھی۔

سیاسی، سماجی، ادبی اور بزنس والے لوگ ٹرین میں سفر کرنا پسند کرتے تھے اور انھیں اپنی فیملی کے ساتھ ٹرین میں سفر کرتے ہوئے اچھا لگتا تھا۔ امن تھا، سچائی تھی، سہولتیں کم تھیں مگر ٹرین کا کرایہ بہت ہی تھوڑا تھا، ٹرین میں سفر کرنا ایک کلچر تھا جس کا تذکرہ ہم اکثر کتابوں میں بھی پڑھتے تھے اور خاص طور پر پرائمری میں کتاب میں ایک Lesson تھا کہ گاڑی کے بابو سیٹی خوب بجا، ہری جھنڈی دکھا پر گاڑی کو رکوانے کے لیے لال جھنڈی دکھا۔ انجن چھک چھک کرآئے گی کئی خوشیاں لائے گی۔

جب ذوالفقار علی بھٹوکی حکومت آئی تو ملک میں ترقی کا ایک انقلاب آگیا جس میں چاروں طرف کمیونیکیشن کا جال بچھایا گیا۔ ہر شہر اور ہر گائوں کو ملایا گیا۔ اب بسیں، ٹیکسیاں، کوچز، ویگن چلانا شروع ہوگئیں ، لوگ ٹرین کا سفر کرنا کم کرنے لگے جس کی وجہ سے کچھ وقت کے لیے ٹرین کا سفر کچھ کم ہوا اس کو مزید نقصان ان لوگوں نے بھی پہنچایا جنھوں نے ٹرین میں سفر مفت کرنا شروع کیا اور نعرہ لگایا ''جئے بھٹو بھاڑو چھٹو'' (جئے بھٹو کرایہ ختم) اس کو دیکھ کر اب ریلوے پولیس اور دوسرے عملے نے بھی کم پیسے لے کر لوگوں کو ٹرین میں بٹھانا شروع کیا جس سے ریلوے کو خسارہ ہونا شروع ہوگیا۔

اس کے علاوہ موئن جو دڑو پر پی آئی اے کی پروازوں میں اضافہ ہوا اور بزنس کلاس نے اپنی ذاتی گاڑیوں میں سفر کرنا شروع کیا۔ ایک مرتبہ جب میں جامشورو سے لاڑکانہ آرہاتھا تو میں ٹکٹ لینے کے لیے جیسے ہی کھڑکی پر گیا تو مجھے پولیس والے نے کہا صاحب آپ میرے ساتھ چل کر بیٹھیں اور آدھا کرایہ دیں مگر میں نے اسے واپس کردیا۔

کوئلے پر چلنے والی انجن کی جگہ ڈیزل پر چلنے والے انجن آگئے جن کا خرچہ بھی بڑھ گیا آہستہ آہستہ چاروں طرف سے ریلوے کی اکانومی کو لوگ نقصان پہنچاتے رہے جس سے اس کی حالت خراب ہوتی رہی جس سے ریلوے کی کارکردگی متاثر ہوئی، لوگوں کو پریشانی اٹھانی پڑی۔ بہت سی ٹرینیں بند ہوگئیں، گاڑیوں کے اوقات میں تاخیر ہونے لگی، گاڑی کے کمپارٹمنٹ میں بجلی، پانی، سیٹ، صفائی کی سہولتیں بدتر ہوتی چلی گئیں جس کی وجہ سے ریلوے کا نظام ابتر ہوگیا یہ حالت پورے پاکستان میں نظر آنے لگی جس کی وجہ سے مجبوراً لوگ بسوں اور کوچز میں سفر کرنے پر مجبور ہوگئے۔


کچھ عرصے کے لیے جب ممتاز علی بھٹو ریلوے کے وزیر بنے تھے تو کافی بہتری آئی تھی مگر ان کے جانے کے بعد پھر وہی حال ہوگیا، تقریباً ایک سال پہلے میرا لاڑکانہ ریلوے اسٹیشن جانا ہوا جہاں سے معلوم ہوا کہ ایک مرتبہ گزشتہ سال میں شاید ممتاز بھٹو لاڑکانہ سے کراچی بائی ٹرین سفر کرنے کے لیے آئے تو انھیں بتایاگیا کہ اب ٹرین کا وہ معیار نہیں ہے مگر وہ پھر بھی فیملی کے ساتھ سفر کرنے پر بضد تھے جب وہ کراچی ٹرین کے سفر کے ذریعے پہنچے تو اس کے بیٹے نے ایک انگریزی اخبار میں ایڈیٹوریل پیج پر ریلوے کی کارکردگی کے بارے میں لکھ ڈالا۔

یہ حقیقت ہے کہ لوگ آج بھی ٹرین کے سفر کو پسند کرتے ہیں اور میرے سامنے کی بات ہے کہ میں جب تک ٹکٹ گھر لاڑکانہ ریلوے اسٹیشن پر بیٹھا رہا لوگ آتے رہے اور سیٹ اور ٹکٹ نہ ملنے پر مایوس ہوکر واپس چلے گئے۔ میرے پوچھنے پر انھوں نے بتایاکہ ٹرین کے سفر کا ایک الگ مزا ہے ایک تو کرایہ کم ہے اور دوسرا یہ کہ بندہ اس میں تھک جائے تو گھوم پھرسکتا ہے، واش روم استعمال کرسکتا ہے اور فیملی کے لیے علیحدہ پرائیویسی ہے حکومت کی بے دھیانی کی وجہ سے لاڑکانہ کی قمبر، شہداد کوٹ ریلوے لائن بند ہوگئی ہے۔

ریلوے کوارٹرز اور ریلوے پارک پر قبضہ ہوچکا ہے ریلوے دفاتر تباہ ہوچکے ہیں اور اس کے چاروں طرف گندا پانی کھڑا نظر آرہاہے لوگ ریلوے ٹریک کی پٹڑیاں اکھاڑ کر لے گئے ہیں وہاں پر کام کرنے والے قلی چائے اور کھانا بیچنے والے اخبار بیچنے والے بے روزگار ہوگئے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن پر جائو تو ایک ویرانے کا منظر پیش کرتا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے یہاں کوئی برسوں سے نہیں آیا ہو۔ اس حالت زار سے سندھ کا ٹرین کے سفر کا کلچر ختم ہورہاہے۔

ریلوے کا نظام سندھ میں تو بالکل ہی ختم ہوچکا ہے کیوں کہ کافی لائنیں بند کردی گئی ہیں۔ ایم آر ڈی تحریک اور بے نظیر بھٹو کی شہادت میں ریلوے اسٹیشن کو جو نقصان پہنچا ہے اسے بھی مرمت کرکے ٹھیک کرکے دوبارہ فعال بنایاجائے۔ ریلوے کی املاک پر جو قبضہ ہے اسے چھڑا کر بحال کیاجائے اور خاص طور پر ریلوے کے ایریاز میں جو ہوٹلز، شادی ہال اور دکانیں بنائی گئی ہیں ان سے کرایہ وصول کرکے ریلوے کو دیا جائے جو رقم ریلوے کے ملازمین کی فلاح و بہبود اور ریلوے نظام کو بہتر بنانے پر خرچ کی جائے۔

ریلوے نظام بہتر ہونے سے ٹرینوں کی آمد و رفت کھویا ہوا رومانس واپس آجائے گا کیوں کہ ریلوے ٹرین کے ذریعے کئی خاندان ایک دوسرے کو خوش آمدید کہنے اور انھیں الوداع کہنے آتے ہیں اور وہاں پر کافی جذباتی مناظر نظر آتے ہیں۔ اس دوران شادیوں کی خوشیاں بھی نظر آتی ہیں اور حج پر جانے اور وہاں سے آنے والے بھی اپنے رشتے داروں کے ہجوم میں کتنے پرمسرت ہوتے ہیں۔ یہاں پر بچھڑنے اور ملنے کے مناظر کو دیکھ کر کئی شاعروں اور رائٹرز نے اپنی نظمیں اور تحریریں لکھی ہیں۔ یہاں پر اب انسانوں کے بجائے جانور گھومتے بھی نظر آتے ہیں جسے دیکھ کر دل رونے کو چاہتا ہے۔

حکومت سے گزارش ہے کہ لاڑکانہ اور سندھ کے دوسرے علاقوں سے آنے جانے والی ٹرین کو بحال کیاجائے، ریلوے اسٹیشن کی چہل پہل بحال کی جائے، ٹرین کے سفر کا سحر اور رومانس واپس لایاجائے، بزنس کرنے والوں کی سہولت کے لیے لاڑکانہ سے پنجاب کی طرف ٹرین چلائی جائے۔

سامان کی رسد کے لیے ویگن مہیا کی جائے، ریلوے ڈرائی پورٹ جو ختم ہوگیا ہے اسے بحال کیاجائے۔ قمبر، شہداد کوٹ اور دوسرے ریلوے املاک سے قبضہ ختم کروایا جائے۔ ٹرین چل جانے سے اسٹوڈنٹس اور بزنس کرنے والوں کے علاوہ عام آدمی کو فائدہ اور خوشی ہوگی۔ کمپارٹمنٹ میں لوئر اے سی او اور سلیپرز (Sleepers) کا کوٹہ بڑھایا جائے اور اس کے ساتھ اس کی لائف کو اپ گریڈ کردیاجائے جس سے ریلوے کو بھی معاشی فائدہ ہوگا۔
Load Next Story