امریکی شہر سیاٹل میں خوراک کے ضیاع پر شہریوں کو بدنام کرنے کا قانون نافذ
قانون کے تحت خوراک ضائع کرنے والے شہریوں کو ’ بدنام ‘ کرنے کیلیے انکے گھروں کے باہر رکھے ہوئے کچرے دان پر۔۔۔
دنیا بھر میں کھانے پینے کی اشیاء کا ضیاع بڑے پیمانے پر ہوتا ہے۔ برطانیہ کے انسٹیٹیوشن آف مکینیکل انجنیئرز ( آئی ایم ای) کی گذشتہ برس جاری کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ دنیا بھر میں سال میں جتنی اشیائے خوراک تیار ہوتی ہیں ان کی نصف مقدار ضائع ہوجاتی ہے۔
خوراک کے ضیاع کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے عالمی اور ملکوں کی سطح پر کئی ادارے کام کررہے ہیں، تاہم ان کی کوششوں کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے۔ انفرادی سطح پر بھی اس گمبھیر مسئلے کے بارے میں عوامی شعور بیدار کرنے کے لیے کوششیں ہوتی رہتی ہیں مگر حکومتی سطح پر اس کی مثال گذشتہ دنوں امریکی ریاست واشنگٹن کے شہر سیاٹل میں سامنے آئی ہے۔
یکم جنوری 2015ء سے سیاٹل میں ایک قانون نافذ کیا گیا ہے جس کے تحت خوراک ضائع کرنے والے شہریوں کو ' بدنام ' کرنے کے لیے ان کے گھروں کے باہر رکھے ہوئے کچرے دان پر چمک دار سُرخ ٹیگ لٹکا دیا جائے گا۔ کچرے دان پر سُرخ ٹیگ کی موجودگی اس بات کا مظہر ہوگی کہ گھر کے مکین قانون شکن ہیں، اور انھیں اشیائے خور و نوش کی اہمیت کا احساس بھی نہیں ہے۔
قانون کے مطابق جس کچرا دان میں دس فی صد سے زیادہ اشیائے خور و نوش ( فوڈ ویسٹ ) پڑی پائی گئیں،اس پر سُرخ ٹیگ لٹکا دیا جائے گا۔ سیاٹل میں مقامی حکومت کی جانب سے تمام گھروں کے باہر کچرے دان نصب کیے گیے ہیں۔ کچرا اٹھانے کا ٹھیکا ایک کمپنی کے پاس ہے۔ ہر صبح کمپنی کے ٹرک کچرا اٹھانے کے لیے گھروں کے باہر رُکتے ہیں۔
ڈرائیور اور ہیلپر ٹرک میں سے اُترتے ہیں اور کچرے سے بھرے ہوئے پلاسٹک کے تھیلے ٹرک میں ڈال لیتے ہیں۔ کچرادانوں پر ٹیگ لگانے کی ذمہ داری بھی مقامی حکومت نے ٹھیکیدار کمپنی کے سپرد کردی ہے۔ چناں چہ اب کمپنی کے ملازمین کوڑا کرکٹ سے بھرے تھیلوں کا جائزہ لیتے ہیں، اور ان میں مقررہ مقدارسے زائد خوراک موجود ہونے پر کچرے دان پر ٹیگ لگا دیتے ہیں۔
سیاٹل کو عوامی سہولیات کی فراہمی کے ذمہ دار ادارے ' سیاٹل پبلک یوٹیلٹیز' کے لگائے گئے تخمینے کے مطابق ہر گھر سالانہ دوسو کلوگرام خوراک ضائع کرتا ہے۔ نئے قانون کے نفاذ کا مقصد خورا ک کے ضیاع میں کمی کے ساتھ ساتھ شہر میں ری سائیکل ( ازسرنو قابل استعمال بنانا) کی جانے والی اشیاء کی مقدار میں اضافہ کرنا بھی ہے۔
ظاہر ہے کہ خوراک ری سائیکل نہیں ہوسکتی۔ پلاسٹک، لوہے، کاغذ اور شیشے وغیرہ سے بنی اشیاء ہی ری سائیکل ہوسکتی ہیں۔ خوراک کا ضیاع بڑھنے کی وجہ سے شہر میں ری سائیکل ہونے والے کچرے کی شرح میں کمی آئی ہے۔ خوراک کا ضیاع کم ہونے کی صورت میں ری سائیکلنگ کی شرح بڑھ جائے گی۔
شہری انتظامیہ کی جانب سے فی الحال صرف کچرادانوں پر ٹیگ ' سجانے ' پر اکتفا کیا جارہا ہے مگر جولائی سے قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں پر جُرمانہ بھی عائد کیا جانے لگے گا۔ جُرمانے کی مد میں گھروں سے ایک ڈالر اور رہائشی وتجارتی عمارات سے پچاس ڈالر تک وصول کیے جائیں گے۔
خوراک کے ضیاع کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے عالمی اور ملکوں کی سطح پر کئی ادارے کام کررہے ہیں، تاہم ان کی کوششوں کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے۔ انفرادی سطح پر بھی اس گمبھیر مسئلے کے بارے میں عوامی شعور بیدار کرنے کے لیے کوششیں ہوتی رہتی ہیں مگر حکومتی سطح پر اس کی مثال گذشتہ دنوں امریکی ریاست واشنگٹن کے شہر سیاٹل میں سامنے آئی ہے۔
یکم جنوری 2015ء سے سیاٹل میں ایک قانون نافذ کیا گیا ہے جس کے تحت خوراک ضائع کرنے والے شہریوں کو ' بدنام ' کرنے کے لیے ان کے گھروں کے باہر رکھے ہوئے کچرے دان پر چمک دار سُرخ ٹیگ لٹکا دیا جائے گا۔ کچرے دان پر سُرخ ٹیگ کی موجودگی اس بات کا مظہر ہوگی کہ گھر کے مکین قانون شکن ہیں، اور انھیں اشیائے خور و نوش کی اہمیت کا احساس بھی نہیں ہے۔
قانون کے مطابق جس کچرا دان میں دس فی صد سے زیادہ اشیائے خور و نوش ( فوڈ ویسٹ ) پڑی پائی گئیں،اس پر سُرخ ٹیگ لٹکا دیا جائے گا۔ سیاٹل میں مقامی حکومت کی جانب سے تمام گھروں کے باہر کچرے دان نصب کیے گیے ہیں۔ کچرا اٹھانے کا ٹھیکا ایک کمپنی کے پاس ہے۔ ہر صبح کمپنی کے ٹرک کچرا اٹھانے کے لیے گھروں کے باہر رُکتے ہیں۔
ڈرائیور اور ہیلپر ٹرک میں سے اُترتے ہیں اور کچرے سے بھرے ہوئے پلاسٹک کے تھیلے ٹرک میں ڈال لیتے ہیں۔ کچرادانوں پر ٹیگ لگانے کی ذمہ داری بھی مقامی حکومت نے ٹھیکیدار کمپنی کے سپرد کردی ہے۔ چناں چہ اب کمپنی کے ملازمین کوڑا کرکٹ سے بھرے تھیلوں کا جائزہ لیتے ہیں، اور ان میں مقررہ مقدارسے زائد خوراک موجود ہونے پر کچرے دان پر ٹیگ لگا دیتے ہیں۔
سیاٹل کو عوامی سہولیات کی فراہمی کے ذمہ دار ادارے ' سیاٹل پبلک یوٹیلٹیز' کے لگائے گئے تخمینے کے مطابق ہر گھر سالانہ دوسو کلوگرام خوراک ضائع کرتا ہے۔ نئے قانون کے نفاذ کا مقصد خورا ک کے ضیاع میں کمی کے ساتھ ساتھ شہر میں ری سائیکل ( ازسرنو قابل استعمال بنانا) کی جانے والی اشیاء کی مقدار میں اضافہ کرنا بھی ہے۔
ظاہر ہے کہ خوراک ری سائیکل نہیں ہوسکتی۔ پلاسٹک، لوہے، کاغذ اور شیشے وغیرہ سے بنی اشیاء ہی ری سائیکل ہوسکتی ہیں۔ خوراک کا ضیاع بڑھنے کی وجہ سے شہر میں ری سائیکل ہونے والے کچرے کی شرح میں کمی آئی ہے۔ خوراک کا ضیاع کم ہونے کی صورت میں ری سائیکلنگ کی شرح بڑھ جائے گی۔
شہری انتظامیہ کی جانب سے فی الحال صرف کچرادانوں پر ٹیگ ' سجانے ' پر اکتفا کیا جارہا ہے مگر جولائی سے قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں پر جُرمانہ بھی عائد کیا جانے لگے گا۔ جُرمانے کی مد میں گھروں سے ایک ڈالر اور رہائشی وتجارتی عمارات سے پچاس ڈالر تک وصول کیے جائیں گے۔