اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں

کیسا عجیب معاملہ ہے کہ محمد عامرجب اپنے جرم کی سزاپوری کرلیتا ہے تو اُس وقت بھی یہاں لوگ اُسے مجرم ٹھہرانے پر تلے ہیں۔

ہم ملکی خزانے لوٹنے والوں کو دوسرا موقع تو دے سکتے ہیں لیکن غلطی کی سزا پانے کے باوجود 17 سالہ کھلاڑی کو کھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتے کہ اِس طرح ملکی وقار اور تشخص خطرے میں پڑجاتا ہے ۔۔۔۔۔ شاباش ہے ہم پر۔ فوٹو: فائل

سنا ہے سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر ہوگئی ہے کہ کرکٹر محمد عامر پہ تاحیات پابندی لگائی جائے کیونکہ اس کی وجہ سے ملکی وقار کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ یادرہے کرکٹر محمد عامر کو 2010 میں انگلینڈ سے میچ کے دوران بدنام زمانہ برطانوی اخبار دی نیوزآف ورلڈ نے سٹے بازی کے مقدمے میں پھنسوایا تھا۔

اسپاٹ فکسنگ کے اس مقدمے میں سزا مکمل کرنے پر گزشتہ ہفتے آئی سی سی کی بورڈ میٹنگ میں کرکٹر محمد عامر پر عائد پابندی اُٹھانے اُٹھانے کا فیصلہ کیا گیا مگر یہ شرط رکھی گئی کہ اگلے چھ ماہ تک عامر صرف ڈومیسٹک کرکٹ کھیل سکتے ہیں۔ یہ اجازت ملنے سے پہلے آئی سی سی کے اینٹی کرپشن یونٹ نے محمد عامر سے تفصیلی انٹرویو بھی کیا۔

تمام تر اختلافات کے باوجود آئی سی سی کی جانب سے محمد عامر پر عائد پابندی ہٹانا ایک اچھا شگون تھا۔ کیونکہ جس وقت عامر اسپاٹ فکسنگ کے جرم میں ملوث ہوا اُس وقت اُسکی عمر صرف 17 برس تھی۔ وہ نہایت قابل فاسٹ بالر تھا اور شاید اب بھی ہے۔ وہ ناجانے پاکستان کو کتنے میچ جتوانے کے سپنے آنکھوں میں بسائے ہوئے تھا جب اسکو ورغلایا گیا ۔۔۔ جی ہاں میں اسے ورغلانہ ہی کہوں گا۔

خود سوچئیے ایک 17 سال کا نوجوان کرکٹ کا سپر سٹار بن جائے اور پھر ہمارے پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے کھلاڑیوں کی اخلاقی تربیت کا بھی فقدان ہو۔ ایسے میں محمد عامر کا بہک جانا ایک فطری عمل تھا۔ محمد عامر تو پھر عالمی قوانین کے تحت بچوں میں بھی شمار ہوتا تھا کیونکہ اسکی عمر اٹھارہ سال سے کم تھی لیکن دنیا کے بہت سے کھلاڑیوں پر سپاٹ فکسنگ کے الزامات لگے لیکن انکے ممالک نے اپنے کھلاڑیوں کی بھرپور حمایت کی جس کی سب سے بڑی مثال ہمسایہ ملک بھارت ہے، جب مہندرا سنگھ دھونی پر الزام لگا تو پوری بھارتی قوم اپنے کھلاڑی کی حمایت میں اسکے ساتھ کھڑی تھی مگر دوسری طرف پاکستان کا کرکٹر محمد عامر جب اپنے جرم کی سزا پوری کرلیتا ہے تو اُس وقت بھی یہاں لوگ اُسے مجرم ٹھہرانے پر تلے ہیں۔

میرے خیال میں یہ رویہ ٹھیک نہیں ہے۔ کرکٹر محمد عامر کوایک موقع ضرور ملنا چاہیئے۔ جب میں نے یہ خبر سنی کہ کرکٹر محمد عامرسے پابندی ہٹ گئی ہے تو سن کر اچھا لگا کہ چلو پاکستان کا ٹیلنٹ ضائع ہونے سے بچ گیا مگر پھر پتا چلا کہ کسی نے محمد عامر پہ تاحیات پابندی کے لیے درخواست دے دی ہے۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ یہ لاازماً دشمن ملک ہندوستان سے کرکٹر محمد عامر کی واپسی ہضم نہیں ہورہی لیکن پھر پتا چلا اس میں دشمنوں کا کوئی ہاتھ نہیں ہے بلکہ پاکستان سے ہی کچھ ملک وقوم کے ہمدردوں نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے کہ کرکٹر محمد عامر پہ تاحیات پابندی لگا دی جائے۔


یہ خبر سن کر برسوں پرانا ایک لطیفہ یاد آگیا کہ جنت سے چند افراد نے درخواست کی کہ وہ جہنم کا دورہ کرنا چاہتے ہیں۔ دروغہ جہنم انہیں لے کر جہنم کے دورہ پہ پہنچے تو جنتی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ جہنم کے ہر دوروازے پر ایک فرشتہ کھڑا تھا جو جہنم سے نکلنے کی کوشش کرنے والوں کو واپس دھکیل دیتا تھا لیکن جہنم کے جس کمرے میں پاکستانی قید تھے وہاں کوئی دروغہ نہیں تھا۔ اہل جنت نے حیران ہوکر پوچھا یہاں پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں ہے؟ کیا پاکستانی جہنم سے فرار ہونے کی کوشش نہیں کرتے؟ تو داروغہ جہنم نے طویل سانس لیتے ہوئے جواب دیا کہ جب بھی کوئی پاکستانی جہنم سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے یہ خود ہی اسکی ٹانگ کھینچ لیتے ہیں لہذا یہاں پر فرشتہ کھڑا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

مطلب تصور کریں کہ ہم اُس ملک میں رہتے ہیں جدھر چوروں ڈاکووں لٹیروں کے پارلیمنٹ میں پہنچ جانے سے ملکی تشخص اور وقار کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، چور بازاری، بجلی چوری، گیس چوری کی انتہاوں کو چھو لینے کے باوجود ملکی وقار سلامت رہتا ہے۔ سیاستدان رہتے پاکستان میں ہیں لیکن سوئس بنکوں میں انکی دولت کے انبار دیکھ کر سوئس بنک کے ڈائریکٹر تک کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ سوئس بنکوں میں پاکستان کی اتنی دولت پڑی ہے کہ اگر وہ پاکستان واپس چلی جائے تو نہ صرف سارا قرضہ اترسکتا ہے بلکہ 20 سال تک بیروزگاری بھی ختم ہوسکتی ہے۔ اتنا اہم اور شرمناک انکشاف ہونے کے باوجود ملکی وقار پر کوئی آنچ نہیں آتی ہے۔ ڈاکٹر مریضوں کے پیٹ میں تولیے بھول جاتے ہیں، تھر میں قیامت بپا ہوجاتی ہے، ملک میں آٹا، گھی، چینی، پٹرول غائب ہوجاتا ہے، جعلی دوائیں سرعام بکتی ہیں، روزانہ گدھوں اور کتوں کے مردہ گوشت سے لدھے سینکڑوں ٹن گوشت کے ٹرک پکڑے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود ملکی وقار سلامت رہتا ہے۔

ان تمام باتوں کے باوجود اس تمام لایعنی، بے ٖڈھنگی ملکی صورتحال کے باوجود ملکی وقار سلامت رہتا ہے لیکن جی ہاں اگر ملکی تشخص اور وقار کو نقصان پہنچتا ہے تو اس وجہ سے کہ کرکٹر محمد عامر کو اگر دوبارہ کھیلنے کی اجازت مل گئی تو ملک کا وقار تباہ و برباد ہو جائے گا۔ کچھ خدا کا خوف کرو یار ۔۔۔ تم ملکی خزانے لوٹنے والوں کو دوسرا موقع دے دیتے ہو لیکن ایک سترہ سال کی عمر میں پابندی کا شکار ہونے والا کرکٹر جو اپنے کیے پر شرمندہ ہے جس کا جرم بھی شاید کچھ بھی نہیں ہے۔ جو اپنی سزا مکمل کرچکا ہے ۔۔۔ لیکن اِس کے باوجود اُسے دوسرا موقع دیتے ہوئے تمھیں وقار یاد آجاتا ہے ۔۔۔شاباش ہے تم پہ


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story