آج آپ اسکول نہیں جاؤگے
گلشن اقبال بلاک 7 میں نامعلوم افراد اسکول پر کریکر پھینک کر فرار ہوگئے۔ حملے کے بعد دہشت گردوں کی جانب سے اسکول کے اطراف دھمکی آمیز پمفلٹ بھی پھینکے گئے جس میں حکومت کو دھمکی دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پھانسیاں بند کرو ورنہ مزید حملے کئے جائیں گے۔
فوٹو؛ شفق عتیق
فوٹو؛ عثمان نعیم ٹویئٹر
خبر سنتے ہی میرے ہاتھ سے سمیع کا لنچ باکس گر گیا، یاااللہ خیر! تاہم حملے سے کسی بھی قسم کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
ماما آپ نے تو میرا پورا لنچ گرا دیا، اب میں اسکول میں کیا کھاؤں گا؟ پیپ پیپ۔۔۔۔ ماما جلدی کریں وین والے انکل بھی آگئے ہیں۔ پیپ پیپ پیپ۔۔۔
نہیں سمیع آج آپ اسکول نہیں جاؤگے بلکہ ماما کے ساتھ گھر میں گیمز کھیلوگے۔
یاہو۔۔۔ سمیع خوشی سے بھاگتا ہوا اپنے کمرے میں چلاگیا لیکن میرے قدم وہیں جم گئے۔ چینخیں، سسکیاں، آنسو، خون اور معصوم بچوں کے جنازے۔ آج بھی میری نگاہیوں کے سامنے وہ مناظر گھومتے ہیں تو روح کانپ اٹھتی ہے۔ ابھی تو ان 140 معصوموں کا کفن بھی میلا نہیں ہوا اور ایک بار پھر مستقبل کے معماروں کے سروں پر موت کے سوداگروں کا سایا لہرانے لگا۔ اپنی کیفیت کو بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں تھے۔
میرے گھر کا معمول ہے کہ صبح نکلنے سے پہلے ہر شخص خبروں کا بلیٹن ضرور سنتا ہے، کبھی کبھی مجھے سخت الجھن ہوتی تھی، میں اکثر ہی کہتی تھی کہ صبح صبح خبریں دیکھ کر دل برا ہوجاتا ہے، کیا ضرورت ہے خبروں کا ناشتہ کرنے کی؟ لیکن آج میں خود شکر ادا کررہی تھی کہ بروقت مجھے اسکول پر حملے کی خبر کا پتا چل گیا، اگر آج میرا بیٹا اسکول چلا جاتا اور خدانخواستہ اس کے اسکول پر۔۔۔ نہیں اس سے آگے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔ ظاہر ہے دنیا میں ایک ماں کو اولاد سے بڑھ کر کوئی اور چیز عزیز نہیں ہوتی۔
فوٹو؛ ریڈیو پاکستان
اس موقع پر میرے ذہن میں بہت سے سوالات ابھرنے لگے، جن میں سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا یہ حملہ کرنے والے طالبان یا دیگر کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد ہیں؟ مانا کہ تحریک طالبان پاکستان نے ملک کی تاریخ کی بدترین سفاکانہ کارروائی کی ذمہ داری قبول کی تھی، لیکن دوسری جانب افغان طالبان نے سانحہ پشاور کی مذمت کرتے ہوئے بے گناہ بچوں کے قتل کو اسلامی تعلیمات کے خلاف قرار دیا تھا۔ ساتھ ہی تحریک طالبان سے علیحدہ ہونے والے دھڑے جماعت الحرار نے بھی افغان طالبان کے سانحہ پشاور سے متعلق بیان کی تائید کی تھی۔ لہذا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دہشت گردوں کی آڑ میں بھتہ مافیا، دیگر جرائم پیشہ افراد یا پھر کوئی شخص آپس کی دشمنی کا بدلہ لینے کے لئے خوف و ہراس پھیلا رہا ہو۔
کچھ عرصہ قبل میں نے ایک بھارتی فلم دیکھی جس میں نوجوانوں کا ایک گینگ کرپشن کے خلاف مختلف کارروائیوں میں ملوث ہوتا ہے، ان کا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ حکمرانوں کو عوام کے مسائل سے آگاہ کرنا تھا۔ لیکن اسی گینگ کی آڑ میں ایک لڑکا ملک میں مختلف کارروائیاں شروع کردیتا ہے۔ نقصان نہ ہی اس گینگ کا ہوتا ہے اور نہ لڑکے کا بلکہ الٹا گینگ لوگوں میں مقبول ہوجاتا ہے، لوگ انہیں پسند کرنے لگتے ہیں۔ اس کے باوجود گینگ کے افراد حیران و پریشان ہیں کہ آخر یہ لڑکا کون ہے اور کیا چاہتا ہے۔ قصہ مختصر وہ اس لڑکے کو ڈھوںڈ لیتے ہیں۔ یہاں اس فلم کا ذکر کرنے کا مقصد صرف اور صرف حکمرانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں تک یہ پیغام پہنچانا ہے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ دیگر عناصر دہشت گردوں کے آڑ میں جنگ وجدل کا بازار گرم کرنے پر تلے ہوئے ہوں۔
مجھے یاد ہے جب سردیوں کی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد میری ایک دوست کا فون آیا۔ باتوں باتوں میں وہ کہنے لگی، عینی تمہیں پتا ہے نا کہ کراچی کے ایک مشہور اسکول کی برانچ میں بچوں کے کفن آئے ہیں؟
میں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کب؟ کہاں؟ کیسے؟ ٹی وی یا اخبار میں تو کوئی ایسی خبر نہ دیکھی نہ سنی۔
اوہو عینی تم بھی کتنی بھولی ہو، اسکول والے اس خبر کو پھیلا کر اپنے اسکول کی بدنامی کیوں کریں گے؟ اس بات کو دبا دیا گیا ہے، ورنہ اسکول میں یقینا تالے لگ جاتے۔
فون رکھ کر مجھے اپنی بہن کی بات یاد آگئی، وہ بھی مجھے بتا رہی تھی کہ چند شرپسند عناصر کی جانب سے کسی اسکول میں سرخ رنگ کی سیاہی میں ڈوبے یونیفارم اسکول انتظامیہ کو موصول ہوئے ہیں۔ اس وقت میں نے اس کی بات پر توجہ نہیں دی تھی، بلکہ الٹا کہا تھا کہ کسی طالب علم نے چھٹیاں بڑھانے کے لئے یہ مزاق کیا ہوگا۔ لیکن آج ہونے والے حملے کے بعد مجھے یہ تمام افواہیں سچ لگ رہی ہیں۔
آخر وہ کون سے عناصر ہیں جو ہمارے آنگن کے پھولوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہوتے انہیں منوں مٹی تلے دبانا چاہتے ہیں؟ جن آنکھوں نے ابھی مستقبل کے روشن خواب بُننا بھی شروع نہیں کہیں آخر کون موت کی اندھیری وادی میں دھکیلنے کے در پہ ہیں؟ خدارا ہمارے بچوں کو اس جنگ میں مت گھسیٹئےاچھا ۔ آج کا حملہ حکمرانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے واضح پیغام ہے کہ دہشت گرد اب خاموش نہیں بیٹھنے والے، لہذا حکومت کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر شرپسند عناصر کے خلاف عملی اقدامات کرتے ہوئے مستقبل میں ایسے حملوں کی روک تھام ممکن بنائے ۔
ماما آپ کیا سوچ رہی ہیں، آئیں نا کرکٹ کھیلتے ہیں، سمیع ہاتھ میں بال بیٹ لئے میرے سامنے کھڑا تھا۔ میں نے بے اختیار بڑھ کر اسے گود میں اٹھالیا اور پیار کرنے لگی۔
ماما آپ کیوں رو رہی ہیں؟
کچھ نہیں میری جان آؤ چلو کھیلتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔