جہنم

ہماری نسل نے جوکرناتھاکرگزری۔ مگر امیدکی واحد کرن ہمارے ملک کی نوجوان نسل ہے ۔

raomanzarhayat@gmail.com

انسان خوش کیسے رہ سکتاہے؟بنیادی طورپرکسی بھی انسان پرمعاشرے کے مثبت پہلواسے پُرسکون راہ کی طرف لیجاتے ہیں۔بعینہ انتشاراورخلفشاراسی انسان کو منفی رویے کی جانب گامزن کردیتے ہیں۔اس وقت کیاحالات ہیں اورہم کس جانب گامزن ہیں۔

یہ وہ بنیادی سوال ہے جوہرذی شعورشہری کے ذہن میں ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں آگے کاسفرکس طرح جاری رکھاجائے۔پوراملک چندہزار لوگوں نے یرغمال بنارکھا ہے۔وہ ہرچیزکومحض اپنی ذات کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔ سوچ کا صرف ایک زاویہ ہے' وہ یہ کہ آپ ہمارے بندے ہیں یا دشمن۔کسی بھی غیرجانبدار سیاستدان یاسرکاری افسرکے لیے کوئی جگہ نہیں۔ آمریت اورجمہوری نظام میں محض نام کافرق ہے۔ گزشتہ چار پانچ دہائیوں سے ہمارے پاس کس درجہ کی قیادت ہے۔کیا اس میں اتنی اہلیت ہے کہ وہ قومی مسائل کوحل کرسکے؟ میری دانست میں جواب آپ کوبھی معلوم ہے۔

ہماری نسل نے جوکرناتھاکرگزری۔ مگر امیدکی واحد کرن ہمارے ملک کی نوجوان نسل ہے ۔ وہ حالات کو بہتری کی جانب لے جانے میں کامیاب ہوںگے۔ توجہ طلب اَمرہے کہ نوجوان نسل کے مسائل کودیکھنے اورسننے کے لیے کوئی موجودنہیں۔پاکستان کے ہر گھرمیں کوئی نہ کوئی نوجوان لڑکایالڑکی بے روزگاری کے جہنم میں جل رہے ہیں۔ نوجوان بچے اور بچیاں صرف اس وجہ سے فارغ بیٹھے ہوئے ہیں کہ نجی یا سرکاری شعبے میں ان کی کوئی کھپت نہیں۔عدیل کاتعلق فیصل آبادسے ہے۔اس کے والدملازمت پیشہ انسان تھے۔ محدودوسائل اورعدیل کو لندن میں پڑھنے کا شوق تھا۔ والد نے اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کراسے لندن میں پڑھانے کاخواب پورا کردیا۔یہ پچیس برس پہلے کا دورتھا۔

جب سرکاری نوکری عزت میں اضافہ کرتی تھی۔ خیرعدیل جب لندن سے ایم بی اے کی ڈگری لے کر پاکستان آیاتووہ بہت خوش تھا۔اسکاخیال تھا کہ اب اس کے پاس اتنی تعلیم ہے کہ وہ کوئی بھی سرکاری نوکری میرٹ پر حاصل کر سکتاہے۔اس نے ایک محکمہ میں خالی آسامیوں کا اشتہارپڑھا۔امتحان اور انٹرویوبہت آرام سے پاس کرلیے۔ غیررسمی طورپر بتادیا گیا کہ وہ امتحان میں کامیاب ہوچکا ہے۔ اس نے باقاعدہ دوستوں اورعزیزوں سے مبارک بادیں بھی وصول کرلیں۔ مگر اس کے تمام اندازے غلط نکلے۔سرکاری محکمے کانتیجہ روک دیاگیا۔

لازم ہے کہ کسی طاقتورشخص نے اپنے کسی قریبی عزیزکونوکری پر لگاناتھا۔عدیل عدالت میں چلا گیا۔ بدقسمتی سے اس نوجوان کو ہمارے ملک کے نظام انصاف اور دھکوں کاکوئی ادراک نہ تھا۔ بڑی مشکل سے کیس سناگیا۔ عدالت نے فیصلہ دیاکہ وہ حق پر ہے لہذا اسے نوکری پررکھا جائے۔مگروہ ادارہ اپیل میں چلا گیا۔ایک عدالت کے بعد دوسری عدالت۔وہ دس سال عدالتوں میں دھکے کھاتا رہا۔وہ گزشتہ بیس پچیس سال سے بیکارہے۔

شکیل لودھراں کارہنے والاہے۔اس کے والدپنجاب سیکریٹریٹ میں سپرینڈنٹ تھے۔ریٹائرہونے سے چندماہ پہلے انھیں سیکشن افسربنادیاگیا۔وحدت کالونی لاہور میں وہ سرکاری گھرمیں رہتاتھا۔اس کے والدنے بڑی مشقت سے اسے لاہور کے اچھے اسکولوں میں تعلیم دلوائی تھی۔والدکے انتقال کے بعد ساری ذمے داری اس کے سرپرآگئی۔وہ بی اے کرچکاتھا۔اس نے سیکڑوں جگہ اشتہاردیکھ کرملازمت کے لیے کوشش کی۔

اسے کسی جگہ معمولی سے معمولی نوکری بھی نہ مل سکی۔اس نے کاروبار کرنے کافیصلہ کیا۔والدصاحب کے بقایاجات سے اسے چھ سات لاکھ کے لگ بگ پیسے ملے تھے۔لاہورمیں اس نے اپنے ایک دوست کے ساتھ کلیئرنگ اورفارورڈنگ ایجنٹ کے طورپرکام کرناشروع کردیا۔ لاہور مزنگ پرچھوٹا سا دفتر بنایا۔پانچ چھ ماہ بہت محنت کی۔ کاروبار تھوڑاساجمنے لگا۔ مگر تھوڑے سے عرصے میں اس نے ناتجربہ کاری کی بدولت چند کاروباری فیصلے کرلیے۔اسکاتمام کام بربادہوگیا۔شکیل یہ سب کچھ برداشت نہ کرپایا۔وہ لاہورسے لودھراں منتقل ہوگیاکیونکہ وہاں اس کے پاس ایک چھوٹا ساآبائی مکان تھا۔آج کل وہ بیس سال سے اسی آبائی گھر میں زندگی گزاررہاہے۔ شکیل دو دہائیوں سے بے روزگار ہے۔ اب بے حدتوہم پرست ہوچکا ہے۔ تنگدستی کی بدولت وہ شادی تک نہیں کرسکا۔


حسین پشاورمیں رہتاہے۔وہ یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کرچکاہے۔ اس کا خیال تھاکہ وہ اتنامحنتی اورقابل ہے کہ کسی بھی امتحان میں باآسانی کامیاب ہوجائیگا۔ایک دن وہ تقریباً دو پہردوبجے حیات آبادکے نزدیک ایک مارکیٹ سے گزررہاتھا کہ ایک خودکش حملہ آورنے بازار کے عین درمیان دھماکا کردیا۔پچیس لوگ لقمہ اَجل ہوگئے اورچالیس سخت زخمی ہوگئے۔حسین بدقسمتی سے شدید زخموں کا شکارہوگیا۔ بے ہوشی کے عالم میں اسپتال لایاگیا۔بڑی شدیدتگ و دوکے بعداس کی زندگی بچائی گئی۔اس کی دونوں ٹانگیں کاٹ دی گئیں۔وہ پوری زندگی کے لیے معذور ہوگیا۔کبھی سوچ بھی نہیں سکتاتھاکہ وہ ایک دن محتاجی کاشکار ہوجائیگا۔

اس نے پھربھی ہمت نہیں ہاری۔ وہ زندہ رہناچاہتا تھا۔اسے اس حقیقت کاشعورہی نہیں تھاکہ زندگی اس قدرکٹھن ہوجائیگی۔اب وہ زندہ توتھامگرموت سے بھی قدرے بدتر۔ خیر اس نے ایک سرکاری محکمہ میں معذوروں کے کوٹہ پرنوکری کے لیے درخواست دیدی۔تقریباًچارپانچ مہینہ کے عرصے بعداسے امتحان کی کال آئی۔اس نے پورے جوش اور جذبے کے ساتھ امتحان دیا۔اس نے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔اسے محکمہ کے ایک سینئرافسرنے بتادیاکہ وہ پاس ہوچکا ہے۔ مگرتھوڑے ہی عرصے بعدجب نتیجہ آیا تو کامیاب اشخاص کی فہرست میں اسکانام موجودنہیں تھا۔اپنی معذوری کے باوجودبیساکھیوں کا سہارا لے کراس ادارہ کے سینئرافسرکے پاس پہنچا۔

کوئی اسے ملنے کے لیے تیارنہیں تھا۔کسی کے پاس دراصل کوئی جواب نہیں تھا۔ سب کواندرسے معلوم تھاکہ وہ امتحان میں پاس ہوچکا تھا۔ میرٹ پرپانچویں نمبرپرتھا۔ایک ماہ سے زیادہ اسی بلڈنگ میں دھکے کھاتا رہا۔ ہرافسراسے ایک سے دوسری جگہ بھیج دیتا تھا۔ تنگ آکروہ اس شعبہ کے وزیرسے ملا۔حسین اپنے مقامی ایم پی اے کے ہمراہ گیا۔لہذااس کی وزیرموصوف سے ملاقات ہوگئی۔یہ ملاقات کچھ زیادہ خوشگوارنہیں تھی۔حسین کے علم میں آچکاتھاکہ ان آسامیوں پرجتنے بھی امیدوارکامیاب ہوئے تھے،وہ اسی وزیر کے کہنے پر ناکام قراردیے گئے۔وہ حقیقت میں بہت تلخ ہوچکاتھا۔اس نے گلہ کیاکہ وہ معذوروں کے کوٹہ میں نمایاں کامیابی حاصل کر چکاتھا۔

وزیر صاحب نے انتہائی بدتمیزی سے اس سے پوچھاکہ رزلٹ آنے سے پہلے اسے کیسے گمان ہوگیاکہ وہ کامیاب ہوچکا ہے۔خیرجب وہ دفترسے باہر نکلا تو اسے عملہ کا ایک کلرک ملا۔ کلرک نے اسے ایک فہرست فراہم کی جس میں دولوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے امتحان تک نہیں دیاتھا۔انکوجعلی طورپرپہلے کی تاریخوں میں امتحان دلوایا گیا تھا۔ہرشخص سے اس نوکری کے لیے رقم دی تھی۔ حسین کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے۔اس کلرک کی بہت منت سماجت کی کہ وہ رشوت کاریٹ کم کردے مگراسے علم نہیں تھاکہ اس معاملے میں کسی قسم کی کوئی رعائت نہیں ہوتی۔اس بازارمیں ریٹ صرف ایک تھا۔پوری محنت کے باوجودحسین پیسے اکٹھے نہیں کرسکا۔

نتیجہ بالکل واضح تھا۔اسے اس ادارہ میں نوکری نہ مل سکی۔وہ اپنے حق کے لیے ہربڑے آدمی سے ملا۔ مگر ساری باتوں کے جمع خرچ کے بعدحاصل کچھ نہ ہوتاتھا۔ایک سال اپنی معذوری کے باوجودایک دفترسے دوسرے دفتردھکے کھاتا رہا۔ اسی تگ ودومیں انتہائی جسمانی تکلیف کا شکار ہوچکا تھا۔ اس کے جسم کے ہرحصہ میں شدیدتکلیف کی لہریں اٹھتیں تھیں۔اسے سالوں کی تگ ودوکے باوجودنوکری نہ مل سکی۔ پیسے کے بازارمیں مکمل طورپرہارچکاتھا۔اپنی ناکامی برداشت نہ کرسکا۔ اسکاجسم توپہلے ہی آدھارہ چکاتھامگراب اس کے ذہن میں بھی شدیدگھاؤ لگے۔

ڈپریشن کا شکار ہوگیا۔ اتنی ذلت برداشت نہ کرپایا۔اب ہروقت اپنے کمرے میں بند رہتاہے۔اپنے آپ سے باتیں کرتارہتاہے۔اس کے گھر والے اس کی حالت پرمکمل بے بس ہیں، مگرکچھ بھی نہیں کرسکتے۔ ان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے۔اس طرح کے اَن گنت لوگ اس ملک میں سانس لینے پر مجبور ہیں۔ مگر صاحبان فہم!صرف اورصرف سانس لینے پر!

ہماری نوجوان نسل کس مشکل میں گرفتارہے اسکااندازہ نہیں کیاجاسکتا!ان کی تمام صلاحیت بے بسی کے بازارمیں نیلام ہورہی ہے مگروہ کچھ نہیں کرسکتے!ان کی آوازکوئی نہیں سنتا!ان میں سے اکثریت کامستقبل کیاہوگا،انھیں یہ بھی معلوم نہیں! بلکہ کسی کوبھی معلوم نہیں!ہمارے نظام میں کسی بھی طرح کاکوئی میرٹ نہیں!اس وقت لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں نوجوان بچے اوربچیاں صلاحیت ہونے کے باوجودبے روزگارہیں!وہ تمام انسان بے روزگاری کے جہنم میں جلنے پرمجبورہیں!کوئی بھی انھیں اس عقوبت گاہ سے باہرنہیں نکال سکتا!کوئی بھی!
Load Next Story