ماضی سے نکل آؤ
ہمارا ماضی ایک ہے۔ اور وہ پیار اور محبت کا ہے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ زمین اپنی ہیئت آہستہ آہستہ بدل رہی ہے۔
جہاں محبتیں بوئی جاتی تھیں اور جن گلیوں سے عشق کے قافلے نکلتے تھے وہاں نفرتوں کا جنگل آباد کیا جا رہا ہے۔ جس دھرتی پر شاہ کی ''کافی'' کو لوگ مذہب اور مسلک کا فرق مٹا کر سنتے اور پڑھتے ہیں وہاں ایسی کون سی چنگاری بھڑکائی جا رہی ہے جو سب کچھ تہس نہس کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ جہاں کی تہذیب ہزاروں سالوں سے انسان کو انسان سے جوڑتی آئی ہے وہاں کون سی بدروح دلوں کی خلیج کو بڑھا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔
جہاں سچل کی مستی میں آنکھیں جھومتی رہتی ہیں وہاں کون اپنا دربار لگا کر ہماری وراثتوں کو چولہے میں جلا دینا چاہتا ہے اور اپنی فتح کا جشن ہمارے جنازوں پر کرنے کا شوقین ہے کوئی ہمیں بتانا نہیں چاہتا کہ آخر کیوں مہران کی وادی میں خونی نفرتوں کا کھیل شروع ہوا ہے۔ ایک سیانے نے میرے کان میں مجھ سے کہا کہ تم ہمیں سمجھاؤ کہ کیوں بلوچستان میں جب لاپتہ لوگوں کا ڈھول بجا تو عین اُسی وقت امام بارگاہوں اور مساجد پر حملے شروع ہوئے اور اب کیوں سندھ میں لاپتہ لوگوں کی معلوم لاشوں کا سلسلہ شروع ہوا تو یہاں بھی نامعلوم دہشت گردوں نے بم دھماکوں کی لائن لگا دی۔
چند سال پہلے سندھ کے ایک ''شاہ'' سے میں نے کہا تھا کہ بڑی بڑی دیواروں والے قلعے آپ کے یہاں بننا شروع ہو گئے ہیں تو انھوں نے مجھے بھٹائی کا ایک شعر سُنا کر کہا تھا کہ یہ دھرتی صوفیوں کی ہے جہاں صرف پیار ہے اور میں نے کہا تھا کہ مجھے یہ نشان بہت دور جاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اُسی ''شاہ'' کے شکارپور دھماکے کے بعد ایک کال آئی اور کہنے لگے تم ٹھیک کہتے تھے۔
مسئلہ آسان سا ہے ہم حال میں ہونے والی تبدیلیوں کو اپنی جیب میں رکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ آہستہ آہستہ ہماری رگوں میں اترنے والے زہر کو ہمارا ماضی نگل جائے گا۔ کچھ لوگ ماضی میں ہی رہنا چاہتے ہیں نہ وہ یہ سمجھتے ہیں اور نہ جاننا چاہتے ہیں کہ اُن کا دشمن کتنی آہستگی اور شائستگی سے ہماری رگوں میں اپنا خون شامل کرتا ہے۔ ہمارا ماضی ایک ہے۔ اور وہ پیار اور محبت کا ہے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ زمین اپنی ہیئت آہستہ آہستہ بدل رہی ہے۔ لہلاتے دل اب خون آلود ہیں۔ کیا اس کا حل یہ ہی ہے کہ ماضی میں ہی زندہ رہا جائے اور سارے تبصرے اور تجزیہ ایسے ہی دیے جائیں کہ جناب یہ تو باہر کے لوگ ہیں ہماری زمین میں تو ایسا ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ یا پھر سچے دل سے اسے تسلیم کرتے ہوئے اس کا حل بھی ڈھونڈا جائے۔
یہا ں ہر خبر کو اپنی پرانی معلومات، ماضی کی پرچھائیوں اور مضبوط تشہیری یا ہر زبان پر عام خیال سے ہی پرکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کیوں ہم یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ کبھی کبھی کھوٹے سکے بھی کام کر جاتے ہیں۔ کیا دنیا بھر میں اور خاص طور پر اس خطے میں پھیلی بے چینی سے سندھ جدا رہ سکے گا۔؟ وہاں کے قوم پرستوں کی ہر بات اور ہر دلیل کو آپ اس لیے پیروں تلے روند ڈالتے ہیں کہ وہ آپ کی نظر میں محب وطن نہیں ہیں اور ان کے لیے غداری کا فتوی عام ہے۔
تو اُن کو چھوڑ دیجیے اُن کی سُن لیجیے جو آپ کے بہت قریب ہیں اور آپ اُن کو ہر وقت اپنے سر پر بیٹھا کر رکھتے ہیں۔ آپ MQM کی بھی مت سنیے جو کہتی رہی کہ کراچی اور سندھ میں فرقہ واریت بڑھ رہی ہے یہاں دہشت گردوں کے مضبوط ٹھکانے ہیں۔ کیوں اُن کی تو عادت ہے۔
وہ تو بولتے رہتے ہیں۔ اور آپ اس بات کا تہیہ کر کے بیٹھے ہیں کہ کچھ بھی ہو جائے ان کی نہیں سُننی ہے کیونکہ آپ کی عینک کے مطابق یہ لوگ بھی اپنے مفاد کے لیے یہ پروپیگینڈا کر رہے ہیں۔ تو پھر اُن کی بات پر کان کھول لیجیے جو اس وقت سندھ میں حکومت کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ لیکن کیا معلوم وہ بھی آج تک آپ کی GOOD BOOK میں نہیں آ سکیں۔
دہشت گردی کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان کے قبائلی علاقوں کا حال بھی کوئی دیگچی میں بند نہیں جس کے جلنے کی بو آپ تک نہ آئی ہو۔
جہاں انھیں جانی اور مالی نقصان ہوا ہے وہاں اس کا سماجی نظام بھی بری طرح متاثر ہوا ہے اور اُس کے بعد خیبرپختوانخوا۔ اور اس کے بعد سب سے زیادہ نقصان کراچی کو ہوا جہاں بسنے والوں کو مالی خسارہ ہوا وہاں انھیں اپنے پیاروں کی لاشیں بھی اٹھانی پڑی ہیں۔ مگر جو سماجی اور معاشرتی تبدیلی کراچی میں رونما ہو چکی ہے اُس پر سب لوگوں نے آنکھیں بند کر لی ہیں اور شاید کوئی اس پر بات بھی نہیں کرنا چاہتا۔ یہاں ٹی وی چینلز کسی کے قتل اور دھماکوں کی خبر چلا کر اگلے دن کسی اور طرف چلے جاتے ہیں مگر کراچی کو جو نقصان ہوا اور جو ہو رہا ہے اُس پر سب نے سب کچھ دیکھنے کے باوجو د جان بوجھ کر آنکھیں بندکی ہوئی ہیں۔
کراچی میں جہاں آزادی سے پہلے ہر مذہب اور ہر فرقے کے لوگ آباد تھے جہاں آج بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ پرانے شہر میں ہندوں کا مندر، چرچ، مسجد، امام بارگاہ اور یہودیوں کی عبادت گاہ ایک ہی لائن میں تھی۔ جہاں پاکستان بننے سے قبل کبھی بھی مذہبی بنیادوں پر تشدد نہیں ہوا۔ آج اس شہر میں فرقوں کی بنیاد پر آبادیاں بسنا شروع ہو چکی ہیں۔ ایک واضح تفریق نظر آنے لگی ہے۔ کہ کون کہاں آباد ہے۔ شہروں کی آبادیاں، سہولتوں اور آسائشوں کے مطابق تقسیم ہوتی ہیں۔ لیکن کراچی شہر فرقوں اور لسانی بنیادوں پر تقسیم ہو چکا ہے۔ اور یہ تقسیم اب ہر روز بڑھتی جا رہی ہے۔
سندھ کے دیہی علاقوں میں کچھ جگہوں پر قبائلی تقسیم ضرور موجود ہے لیکن وہاں پر فرقہ اور مذہب کی بنیاد پر تقسیم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پہلے وہاں خاص طور پر ہندو برادری کو جدا کیا گیا۔ لڑکیوں سے شادی کے نام پر اور کہیں پر اُن کی جائیداد پر قبضہ کے لیے۔ شہروں میں زبان کی بنیاد پر تقسیم کچھ حد تک موجود تھی۔ مگر اب اُن کے اندر بھی فرقوں کی بنیاد پر تفریق دیکھی جا رہی ہے۔ یہ بات سو فیصد سچ ہے کہ سندھ کے باسی بغیر کسی فرقے، مذہب، اور زبان کے اولیاء کرام کی مزارات پر حاضری دیتے ہیں مگر اب اُن کی بھی تلاشی لینے کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ نہ میں چاہوں گا اور نہ ہی کوئی اس دھرتی سے محبت کرنے والا یہ پسند کریگا کہ اس طرح کی تفریق ہو سکے۔
جب کچھ عرصے قبل ایک مزار پر بم دھماکا ہوا تو اُس پرکانوں میں انگلیاں ٹھونس لی گئیں۔ خیرپور، شکارپور، لاڑکانہ، جیکب آباد اور حیدرآباد کی گلیوں میں یہ تفریق پھیلائی جا رہی ہے۔ اگر کسی کے ذہن میں یہ تصور ہے کہ وہ ماضی کی یادوں پر ہی اپنا مسقبل قائم رکھ سکتے ہیں تو انھیں اب نیند سے جاگ جانا چاہیے۔ اور اپنے سیاسی مخالفین کی باتوں کو کچرا سمجھ کر آگ لگا دینی ہے کہ کہیںوہ ہم سے آگے نہ بڑھ جائے تو یاد رکھیں کہ وہ وقت دور نہیں جب آپ کی سیاست بھی بچ نہیں پائے گی۔ مثال کڑوی ضرور ہے لیکن لیاری کی ہے جسے آپ نے نظر انداز کیا تو آپ کو وہاں پھر گینگ کی حمایت لینی پڑی۔
اور اب جب آپ وہاں پر خلا پُر نہیں کر رہے تو اپنی پولیس اور وہاں بچ جانے والے اپنے کارکنان سے ضرور پوچھیے گا کہ اب وہاں کون سی قوت ابھر رہی ہے اور جو اب بلوچوں میں موجود ایک خاص عقیدے کو ماننے والوں کو کراچی اور بلوچستان میں کس طرح تنگ کر رہے ہیں۔ سندھ میں سیاسی خلا کو نہ بھرا گیا تومجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ وہاں بھی ایک تقسیم ہو نے والی ہے۔ جیسے کراچی میں الگ آبادیاں بن چکی ہے۔ اور ویسے بھی ایک سیاسی دعوت آپ سب کو جلد دھچکا دینے والی ہے جس کی دیگ تیار ہو چکی ہے اور اس کی خوشبو پیروں اور سیدوں کے ہاتھ میں ہے۔