حقیقی دوست
دنیائے اسلام کے اکابرین نے شاہ سلیمان کے اس بے باکانہ کردار کو خلفائے راشدین کے عہد زریں سے تعبیر کیا۔
KARACHI:
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ پیش آنے والے بعض واقعات اور حیران کن لمحات مستند حوالہ بن کر تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک غیر معمولی اور تاریخ ساز واقعہ اس وقت دنیا نے دیکھا جب واحد عالمی طاقت امریکا کے سربراہ باراک حسین اوباما سعودی عرب کے شاہ عبداﷲ مرحوم کی تعزیت کے لیے ریاض پہنچے تو عرب کے نئے فرمانروا خادم الحرمین الشریفین شاہ سلیمان بن عبدالعزیز نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی روایات کو زندہ کرتے ہوئے امریکی صدر کی استقبالیہ تقریب کے دوران نماز کی ادائیگی کے لیے بلا تردد تیز قدموں کے ساتھ مسجد کی جانب روانہ ہو گئے اور ان کی پیروی میں سعودی ولی عہد، وزیر خارجہ اور وزیر دفاع بھی نماز کے لیے مسجد کی طرف چل دیے، یہ تاریخی منظر امریکی و سعودی عرب سمیت دنیا بھر کے چینلز نے براہ راست دکھایا۔
دنیائے اسلام کے اکابرین نے شاہ سلیمان کے اس بے باکانہ کردار کو خلفائے راشدین کے عہد زریں سے تعبیر کیا۔ شاہ سلیمان اور ان کے رفقا کار کی نماز کی ادائیگی کے دوران امریکی صدر اور خاتون اول مشعل اوباما ان کے انتظار میں استقبالیہ میں مسلسل کھڑے رہے۔ وہاں موجود سفارتی نمایندوں کے مطابق باراک اوباما نے شاہ سلیمان کے دین سے اس قلبی لگاؤ کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا، سعودی عرب کے نئے فرمانروا نے بلا شبہ مسلم دنیا کے حکمرانوں کو ایک آئینہ دکھایا ہے۔
انھوں نے اسلامی حمیت و مضبوط کردار کا عملی مظاہرہ کر کے شاندار مثال قائم کی ہے جس کی تقلید دنیا کے حکمرانوں کے لیے چیلنج سے کم نہیں۔ شاہ عبداﷲ مرحوم بھی امریکی دباؤ کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، انھوں نے امریکا کو ایک حد تک رکھا شاہ عبداﷲ ایک طاقت ور مسلم حکمران کے طور پر پہچانے جاتے تھے، ان کا دس سالہ اقتدار اصلاحات کا دور کہلاتا ہے پاکستان کے ساتھ وہ خصوصی محبت رکھتے تھے۔ ہر مشکل وقت میں شاہ عبداﷲ نے آگے بڑھ کر پاکستان کی مدد کی۔
مئی 1998 کے ایٹمی دھماکے ہوں یا مسئلہ کشمیر وہ پاکستانی موقف کی حمایت میں کھڑے رہے، شاہ عبداﷲ امریکا اور مغرب کے مشرق وسطی میں قدم جمانے کے سخت ناقد تھے۔ 1991میں جب عراق نے کویت پر حملہ کیا تو شاہ عبداﷲ نے بحیثیت ولی عہد سعودی عرب میں امریکی فوجوں کی تعیناتی کی سخت مخالفت کی تھی۔ اگرچہ ان کی وفات کے بعد عالم اسلام ایک مدبر اور جری مسلم رہنما اور پاکستان اپنے ایک دیرینہ مخلص اور سچے دوست سے محروم ہو گیا ہے۔
تاہم اطمینان بخش امر یہ ہے کہ ان کے پیش رو شاہ سلیمان بن عبدالعزیز نے شاہ عبداﷲ کی پالیسیوں کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ مشرق وسطی اور عالم اسلام کے لیے حوصلہ افزا بات ہے اور امریکی صدر باراک اوباما کی استقبالیہ تقریب میں شاہ سلیمان نے امریکا اور مغرب کو ''سعودی پیغام'' پہنچا دیا ہے کاش کہ عالم اسلام کے تمام حکمران بالخصوص واحد مسلم ایٹمی قوت پاکستان کے حاکم بھی شاہ سلیمان جیسی جرأت اور اسلامی حمیت و غیرت کا مظاہرہ کریں تو کچھ بعید نہیں کہ مسلم امہ اپنی کھوئی ہوئی میراث حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم غلامانہ ذہنیت سے باہر نکلنے اور فرمانبرداری کا خول توڑنے پر آمادہ نہیں۔ ہماری قومی و اسلامی حمیت ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے ہم بار بار دھوکہ کھاتے ہیں اور اسی بے وفا پر اعتبار کرنے پر مجبور ہیں اسی کی دوستی کا دم بھرتے ہیں اور اسی ہرجائی سے اپنے درد کا درمان کرنے کی التجائیں کرتے ہیں۔ امریکی حکمرانوں سے ہماری دوستیاں کھلی کتاب کی طرح ہیں جو چھ دہائیوں پر مشتمل ہے اس طویل عرصے میں مد و جزر کے کئی جاہ گسل مراحل سے ہمیں گزرنا پڑا لیکن افسوس کہ ہم آج تک امریکا کا کامل اعتبار حاصل کرنے میں کھلی طور پر کامیاب نہ ہو سکے جب کہ ہمارا پڑوسی بھارت جو کبھی روس کا حقیقی پارٹنر تھا آج اپنی خارجہ پالیسی اور کامیاب سفارتکاری کے طفیل امریکا کا قابل اعتماد دوست بننے جا رہا ہے۔
جس کا اندازہ امریکی صدر باراک حسین اوباما کے حالیہ دورہ بھارت سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ بھارت کا وہ متعصب وزیراعظم نریندر مودی جو گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہونے کے باعث امریکی ویزے سے محروم قرار پایا تھا آج امریکی صدر کو جھپیاں ڈال رہا ہے اور باراک اوباما نے نریندر مودی پر نوازشات کی ایسی بارش کر دی ہے کہ ہمارے ارباب اقتدار انگشت بدنداں ہیں۔ بھارتی وزیراعظم اپنی چاپلوسی کی بدولت امریکی صدر کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ نتیجتاً جو دوطرفہ معاہدے طے پائے ان کے تحت امریکا و بھارت کے درمیان اربوں ڈالر کے سول ایٹمی معاہدے پر اختلافات ختم ہو گئے۔
امریکا نے بھارتی مطالبات تسلیم کر لیے اور جوہری مواد کی نگرانی کے مطالبے سے دستبرداری کا اعلان کر کے بھارت کو کلی طور پر آزاد کر دیا۔ ڈرون کی مشترکہ تیاری سمیت دفاع و تجارتی تعلقات کے فروغ کے معاہدے کیے گئے، امریکا نے سرمایہ کاری اور قرضوں کی مد میں بھارت کو چار کھرب روپے دینے کا بھی اعلان کیا مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت استصواب رائے سے روگردانی کر کے عالمی ادارے کی توہین کا مرتکب ہوئے، بھارت کو امریکا کے صدر نے سلامتی کونسل کی رکنیت دلانے کے لیے حمایت کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ جب کہ اپنے دیرینہ اتحادی پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دی گئی قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت کو افغانستان میں اپنا سب سے زیادہ قابل اعتماد و با اثر قرار دیا ہے بھارت پر امریکی نوازشات کے حوالے سے سیاسی مبصرین اور تجزیہ کار یہ کہتے ہیں کہ امریکا نے خطے میں پاکستان کے مفادات کو نظر انداز کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکا کو صرف اپنے مفادات سے غرض ہے آپ امریکا کی تاریخ دیکھ لیجیے اپنے مفادات کا ہر قیمت پر تحفظ اس کی خارجہ پالیسی کا بنیادی عامل ہے۔ افغانستان سے نکلنے کے بعد پاکستان کے ساتھ امریکی مفادات کی اہمیت اب ثانوی ہو گئی ہے جب کہ خطے میں ابھرتی ہوئی دوسری طاقت چین کے مقابل آنے کے لیے اسے چین کے دیرینہ و مخلص دوست پاکستان کی نہیں بلکہ بھارت کی ضرورت ہے، حالانکہ دہشت گردی کے خلاف شروع ہونے والی امریکی جنگ میں پاکستان نے 70 ہزار جانوں کی قربانی دی اور 100 ارب ڈالر کے معاشی و اقتصادی نقصانات برداشت کیے یہاں تک کہ اس جنگ نے اب ہمارے دامن کو جھلسانا شروع کر دیا ہے۔
دہشت گردی کے عفریت نے پورے پاکستان کو اپنے خونی پنجوں میں جکڑ رکھا ہے ابھی آرمی پبلک اسکول کے المناک سانحے کے زخم مندمل بھی نہ ہوئے تھے کہ جمعے کو شکارپور میں امام بارگاہ میں بم دھماکا کر کے 50 سے زائد نمازیوں کو شہید کر دیا گیا۔ 18 کروڑ عوام ایک بار پھر سوگ اور آنسوؤں میں ڈوب گئے پاک فوج ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردوں کے خلاف سخت گیر آپریشن کر کے ان کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہے لیکن دہشت گرد عناصر ہمارے بچوں کے لہو سے ہولی کھیل رہے ہیں، امریکا، بھارت اور افغانستان سب اس صورت حال سے اچھی طرح آگاہ ہیں لیکن تعاون کے بجائے مشرقی و مغربی سرحدوں پر منفی سرگرمیوں سے صورت حال کو تشویشناک بنایا جا رہا ہے تا کہ پاک فوج پر دباؤ برقرار رہے حد تو یہ ہے کہ امریکا آج بھی پاکستان سے ''ڈومور'' کے مطالبے سے کم بات کرنے پر آمادہ نہیں کیا دوستی کے یہی تقاضے ہیں؟
دوستی کا ہنر سیکھنا ہے تو چین سے سبق لیجیے جو پاکستان کا سب سے قابل اعتماد دوست اتحادی ہے ہر مشکل وقت میں چین نے پاکستان کا آگے بڑھ کر ساتھ نبھایا آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے حالیہ دورہ چین نے پاک چین دوستی کے رشتے کو مزید وقت مستحکم کیا ہے چینی قیادت نے پاکستان کو اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا اور واضح طور پر کہا کہ پاکستان کے خدشات ہمارے خدشات ہیں، دونوں ملکوں کے منازل ایک ہیں ہم ہر سطح پر ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ کاش کہ ہمارے ارباب اقتدار دوست اور دشمن کی پہچان کا ہنر سیکھ لیں امریکی دباؤ سے نکل آئیں اور چین جیسے مخلص و حقیقی دوست کے کیمپ میں شامل ہو جائیں۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ پیش آنے والے بعض واقعات اور حیران کن لمحات مستند حوالہ بن کر تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک غیر معمولی اور تاریخ ساز واقعہ اس وقت دنیا نے دیکھا جب واحد عالمی طاقت امریکا کے سربراہ باراک حسین اوباما سعودی عرب کے شاہ عبداﷲ مرحوم کی تعزیت کے لیے ریاض پہنچے تو عرب کے نئے فرمانروا خادم الحرمین الشریفین شاہ سلیمان بن عبدالعزیز نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی روایات کو زندہ کرتے ہوئے امریکی صدر کی استقبالیہ تقریب کے دوران نماز کی ادائیگی کے لیے بلا تردد تیز قدموں کے ساتھ مسجد کی جانب روانہ ہو گئے اور ان کی پیروی میں سعودی ولی عہد، وزیر خارجہ اور وزیر دفاع بھی نماز کے لیے مسجد کی طرف چل دیے، یہ تاریخی منظر امریکی و سعودی عرب سمیت دنیا بھر کے چینلز نے براہ راست دکھایا۔
دنیائے اسلام کے اکابرین نے شاہ سلیمان کے اس بے باکانہ کردار کو خلفائے راشدین کے عہد زریں سے تعبیر کیا۔ شاہ سلیمان اور ان کے رفقا کار کی نماز کی ادائیگی کے دوران امریکی صدر اور خاتون اول مشعل اوباما ان کے انتظار میں استقبالیہ میں مسلسل کھڑے رہے۔ وہاں موجود سفارتی نمایندوں کے مطابق باراک اوباما نے شاہ سلیمان کے دین سے اس قلبی لگاؤ کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا، سعودی عرب کے نئے فرمانروا نے بلا شبہ مسلم دنیا کے حکمرانوں کو ایک آئینہ دکھایا ہے۔
انھوں نے اسلامی حمیت و مضبوط کردار کا عملی مظاہرہ کر کے شاندار مثال قائم کی ہے جس کی تقلید دنیا کے حکمرانوں کے لیے چیلنج سے کم نہیں۔ شاہ عبداﷲ مرحوم بھی امریکی دباؤ کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، انھوں نے امریکا کو ایک حد تک رکھا شاہ عبداﷲ ایک طاقت ور مسلم حکمران کے طور پر پہچانے جاتے تھے، ان کا دس سالہ اقتدار اصلاحات کا دور کہلاتا ہے پاکستان کے ساتھ وہ خصوصی محبت رکھتے تھے۔ ہر مشکل وقت میں شاہ عبداﷲ نے آگے بڑھ کر پاکستان کی مدد کی۔
مئی 1998 کے ایٹمی دھماکے ہوں یا مسئلہ کشمیر وہ پاکستانی موقف کی حمایت میں کھڑے رہے، شاہ عبداﷲ امریکا اور مغرب کے مشرق وسطی میں قدم جمانے کے سخت ناقد تھے۔ 1991میں جب عراق نے کویت پر حملہ کیا تو شاہ عبداﷲ نے بحیثیت ولی عہد سعودی عرب میں امریکی فوجوں کی تعیناتی کی سخت مخالفت کی تھی۔ اگرچہ ان کی وفات کے بعد عالم اسلام ایک مدبر اور جری مسلم رہنما اور پاکستان اپنے ایک دیرینہ مخلص اور سچے دوست سے محروم ہو گیا ہے۔
تاہم اطمینان بخش امر یہ ہے کہ ان کے پیش رو شاہ سلیمان بن عبدالعزیز نے شاہ عبداﷲ کی پالیسیوں کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ مشرق وسطی اور عالم اسلام کے لیے حوصلہ افزا بات ہے اور امریکی صدر باراک اوباما کی استقبالیہ تقریب میں شاہ سلیمان نے امریکا اور مغرب کو ''سعودی پیغام'' پہنچا دیا ہے کاش کہ عالم اسلام کے تمام حکمران بالخصوص واحد مسلم ایٹمی قوت پاکستان کے حاکم بھی شاہ سلیمان جیسی جرأت اور اسلامی حمیت و غیرت کا مظاہرہ کریں تو کچھ بعید نہیں کہ مسلم امہ اپنی کھوئی ہوئی میراث حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم غلامانہ ذہنیت سے باہر نکلنے اور فرمانبرداری کا خول توڑنے پر آمادہ نہیں۔ ہماری قومی و اسلامی حمیت ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے ہم بار بار دھوکہ کھاتے ہیں اور اسی بے وفا پر اعتبار کرنے پر مجبور ہیں اسی کی دوستی کا دم بھرتے ہیں اور اسی ہرجائی سے اپنے درد کا درمان کرنے کی التجائیں کرتے ہیں۔ امریکی حکمرانوں سے ہماری دوستیاں کھلی کتاب کی طرح ہیں جو چھ دہائیوں پر مشتمل ہے اس طویل عرصے میں مد و جزر کے کئی جاہ گسل مراحل سے ہمیں گزرنا پڑا لیکن افسوس کہ ہم آج تک امریکا کا کامل اعتبار حاصل کرنے میں کھلی طور پر کامیاب نہ ہو سکے جب کہ ہمارا پڑوسی بھارت جو کبھی روس کا حقیقی پارٹنر تھا آج اپنی خارجہ پالیسی اور کامیاب سفارتکاری کے طفیل امریکا کا قابل اعتماد دوست بننے جا رہا ہے۔
جس کا اندازہ امریکی صدر باراک حسین اوباما کے حالیہ دورہ بھارت سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ بھارت کا وہ متعصب وزیراعظم نریندر مودی جو گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہونے کے باعث امریکی ویزے سے محروم قرار پایا تھا آج امریکی صدر کو جھپیاں ڈال رہا ہے اور باراک اوباما نے نریندر مودی پر نوازشات کی ایسی بارش کر دی ہے کہ ہمارے ارباب اقتدار انگشت بدنداں ہیں۔ بھارتی وزیراعظم اپنی چاپلوسی کی بدولت امریکی صدر کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ نتیجتاً جو دوطرفہ معاہدے طے پائے ان کے تحت امریکا و بھارت کے درمیان اربوں ڈالر کے سول ایٹمی معاہدے پر اختلافات ختم ہو گئے۔
امریکا نے بھارتی مطالبات تسلیم کر لیے اور جوہری مواد کی نگرانی کے مطالبے سے دستبرداری کا اعلان کر کے بھارت کو کلی طور پر آزاد کر دیا۔ ڈرون کی مشترکہ تیاری سمیت دفاع و تجارتی تعلقات کے فروغ کے معاہدے کیے گئے، امریکا نے سرمایہ کاری اور قرضوں کی مد میں بھارت کو چار کھرب روپے دینے کا بھی اعلان کیا مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت استصواب رائے سے روگردانی کر کے عالمی ادارے کی توہین کا مرتکب ہوئے، بھارت کو امریکا کے صدر نے سلامتی کونسل کی رکنیت دلانے کے لیے حمایت کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ جب کہ اپنے دیرینہ اتحادی پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دی گئی قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت کو افغانستان میں اپنا سب سے زیادہ قابل اعتماد و با اثر قرار دیا ہے بھارت پر امریکی نوازشات کے حوالے سے سیاسی مبصرین اور تجزیہ کار یہ کہتے ہیں کہ امریکا نے خطے میں پاکستان کے مفادات کو نظر انداز کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکا کو صرف اپنے مفادات سے غرض ہے آپ امریکا کی تاریخ دیکھ لیجیے اپنے مفادات کا ہر قیمت پر تحفظ اس کی خارجہ پالیسی کا بنیادی عامل ہے۔ افغانستان سے نکلنے کے بعد پاکستان کے ساتھ امریکی مفادات کی اہمیت اب ثانوی ہو گئی ہے جب کہ خطے میں ابھرتی ہوئی دوسری طاقت چین کے مقابل آنے کے لیے اسے چین کے دیرینہ و مخلص دوست پاکستان کی نہیں بلکہ بھارت کی ضرورت ہے، حالانکہ دہشت گردی کے خلاف شروع ہونے والی امریکی جنگ میں پاکستان نے 70 ہزار جانوں کی قربانی دی اور 100 ارب ڈالر کے معاشی و اقتصادی نقصانات برداشت کیے یہاں تک کہ اس جنگ نے اب ہمارے دامن کو جھلسانا شروع کر دیا ہے۔
دہشت گردی کے عفریت نے پورے پاکستان کو اپنے خونی پنجوں میں جکڑ رکھا ہے ابھی آرمی پبلک اسکول کے المناک سانحے کے زخم مندمل بھی نہ ہوئے تھے کہ جمعے کو شکارپور میں امام بارگاہ میں بم دھماکا کر کے 50 سے زائد نمازیوں کو شہید کر دیا گیا۔ 18 کروڑ عوام ایک بار پھر سوگ اور آنسوؤں میں ڈوب گئے پاک فوج ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردوں کے خلاف سخت گیر آپریشن کر کے ان کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہے لیکن دہشت گرد عناصر ہمارے بچوں کے لہو سے ہولی کھیل رہے ہیں، امریکا، بھارت اور افغانستان سب اس صورت حال سے اچھی طرح آگاہ ہیں لیکن تعاون کے بجائے مشرقی و مغربی سرحدوں پر منفی سرگرمیوں سے صورت حال کو تشویشناک بنایا جا رہا ہے تا کہ پاک فوج پر دباؤ برقرار رہے حد تو یہ ہے کہ امریکا آج بھی پاکستان سے ''ڈومور'' کے مطالبے سے کم بات کرنے پر آمادہ نہیں کیا دوستی کے یہی تقاضے ہیں؟
دوستی کا ہنر سیکھنا ہے تو چین سے سبق لیجیے جو پاکستان کا سب سے قابل اعتماد دوست اتحادی ہے ہر مشکل وقت میں چین نے پاکستان کا آگے بڑھ کر ساتھ نبھایا آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے حالیہ دورہ چین نے پاک چین دوستی کے رشتے کو مزید وقت مستحکم کیا ہے چینی قیادت نے پاکستان کو اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا اور واضح طور پر کہا کہ پاکستان کے خدشات ہمارے خدشات ہیں، دونوں ملکوں کے منازل ایک ہیں ہم ہر سطح پر ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ کاش کہ ہمارے ارباب اقتدار دوست اور دشمن کی پہچان کا ہنر سیکھ لیں امریکی دباؤ سے نکل آئیں اور چین جیسے مخلص و حقیقی دوست کے کیمپ میں شامل ہو جائیں۔