
اس کتاب کو دیکھتے ہی دیکھتے اتنی کامیابی ملی کے اس کا دوسرا ایڈیشن بھی چند ماہ میں ہی مارکیٹ میں آگیا، لیکن اس کی کامیابی میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب اس کتاب کی اشاعت کے کچھ دنوں بعد ہی اسے ایک بار اثر سیاسی شخصیت نے اپنی طاقت کے زور پر مارکیٹ سے اٹھا لیا۔ بس جیسے ہی یہ خبر عام ہوئی تو ملک بھر کے نامور صحافیوں کی توجہ اس کتاب کی جانب مبذول ہوگئی۔ جب صحافیوں نے اس کتاب کو پڑھا تو انہوں نے اس کے بارے میں اپنے نظریے سے عوام کو آگاہ کیا، ساتھ ہی ہاشوانی صاحب کی جانب سے کئے جانے والے اقدام نے اس کتاب کی مقبولیت میں تب مزید اضافہ کیا کہ جب انہوں نے ملک کے تمام مشہور اخباروں میں اشتہارات دے دیے کہ کتابیں مارکیٹ سے اٹھائے جانے کے بعد آپ کتاب کا آرڈر آن لائن دے سکتے ہیں، جس کے بعد اس کتاب کی شہرت بلندیوں کو چھونے لگی۔
یہ کتاب ایک حقیقت پر مبنی سچ کا سفر ہے، ایک ایسا سفر جس میں پے در پے رکاوٹیں اور خاردار تاریں ہیں جنہیں خود اپنوں نے ہی راستوں میں بچھایا ہے۔ یہ کتاب 4 حصوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا پہلا حصہ ہاشوانی صاحب کے آباؤ اجداد سے متعلق ہے۔ صدر الدین حسین ہاشوانی کا اپنے سات بہن بھائیوں میں چھٹا نمبر ہے۔ یہ اچھے طالب علم نہیں تھے اس لئے زیادہ تعلیم حاصل نہ کرسکے، ان کی والدہ نے ان کی عدم دلچسپی کو بھانپ لیا اور انہیں کاروبار کے لئے ان کے بہنوئی کے ساتھ کام پر لگوا دیا، یہ ان کی زندگی کا ٹرنگ پوائنٹ تھا، انہوں نے اس میں غیر متوقع طور پر شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتھک محنت کی۔ صدرالدین نے اس باگ دوڑ میں زندگی کے نشیب و فراز کو بہت قریب سے دیکھ لیا تھا، مگر ان کے بہنوئی نے ان پر ایک غلط الزام لگادیا، جس کے بعد صدرالدین نے پھر کبھی اپنے بہنوئی کے دفترکا رخ نہیں کیا۔
اس کتاب کا دوسرا حصہ ان کی کاروباری زندگی پر مبنی ہے، انہوں نے اپنے بہنوئی کے کاروبار سے کنارہ کش ہونے کے بعد ہمت نہیں ہاری، ملازمت کے دوران حاصل ہونے والے تجربے کو اپنا سہارا بنایا اور اپنی کمپنی کی بنیاد رکھی، جس سے وہ مختلف کمپنیوں کو کپاس کی گانٹھیں باندھنے کی پٹیاں فراہم کرتے، اس کے بعد یہ کپاس اور چاول کے بزنس میں آئے اور اس کاروبار کو بھی اپنی انتھک محنت، بھروسے اورزبان کی پختگی کی بنیاد پربلندیوں تک پہنچا دیا۔ ان کا کاروبار پاکستان سے نکل کر دنیا کی مختلف ریاستوں میں پھیل گیا، کامیابیوں کا سفر اسی طرح چلتا رہا۔ انہوں نے اپنی کتاب میں اپنی محبت کا بھی زکر کیا، یہ بھی کمال کا تذکرہ ہے لیکن اس معاملے میں صدرالدین کی قسمت نہیں چلی اور یہ محبت میں ناکام ہوگئے اور اپنی زندگی کے سفر کواس درد دل کے ساتھ ہی جاری رکھا۔
اس کتاب کا تیسرا حصہ انتہائی حساس ہے جو اس کتاب کی وجہ شہرت بھی ہے، اگر یہ کہا جائے کہ اس حصے کی مناسبت سے اس کتاب کا نام''سچ کا سفر'' رکھا گیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ اس کتاب میں پاکستان کے سیاست دانوں کا وہ چہرہ دکھایا گیا ہے جو ایک مکروہ مسکراہٹ کے پیچھے درندہ صفت انسان کا ہوتا ہے۔ ہاشوانی صاحب بار بار بتاتے ہیں کہ حکومت تبدیل ہونے سے ہمارا سارا نظام تبدیل ہوجاتا ہے، جنرل ایوب خان نے ملک میں کاروباری ماحول پیدا کیا لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے آکر صنعتوں کو قومیا لیا اور یوں کاروباری صنعت کو ریورس گیئر لگ گیا۔ ملک کے درجنوں صنعتی اور کاروباری گروپ صفر ہو گئے، لوگ سرمایہ سمیٹ کر ملک سے باہر چلے گئے اور قوم آج تک بھٹو صاحب کے اس غلط فیصلے کا تاوان ادا کررہی ہے۔
یہ بار بار بتاتے ہیں حکومتیں کاروباری گروپوں کو نقصان پہنچانے کے لیے انتہائی نچلی سطح پر چلی جاتی ہیں۔ یہ ٹیکس کے جھوٹے مقدمے بناتی ہیں اور کاروباری شخصیات کو جیلوں میں بھی پھینک دیتی ہیں۔ ان ہتھکنڈوں سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچتا ہے۔اس حصے میں گھنائونی سازشوں کا آپ کو ایک جال بھی نظر آئے گا۔ بہت سے حکمران ان سے ناراض ہوگئے، جس کے نتیجے میں ہاشوانی صاحب کے خلاف کارروائیاں شروع کی گئیں۔ یہ گرفتار بھی ہوئے، حوالات میں بھی رکھے گئے اور ان کے خلاف لمبے چوڑے مقدمے بھی قائم ہوئے، ان کے گھر پر چھاپے بھی مارے گئے، ان پر بغاوت کے الزامات لگانے کی بھی کوشش کی گئی لیکن وہ ایک ایک کر کے ہر الزام سے بری ہوتے چلے گئے۔
اس کتاب کا چوتھا حصہ پاکستان سے محبت اور مستقبل سے وابستہ امیدوں کے متعلق ہے۔ اس حصے میں نوجوانوں کی حوصلہ افرائی کی گئی ہے، انہیں نوجوانوں سے پاکستان کے روشن مستقبل کا مکمل یقین ہے، اور یہ اس کے لئے دعاگو بھی رہتے ہیں۔ انہوں نے اس حصے میں انسانی خدمت کرنے والے اپنے ہاشو گروپ کا بھی ذکر کیا ہے جس میں وہ تعلیم اور غربت کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔
یہ کتاب یقیناً شاندار کتاب ہے، اسے جو بھی پڑھنا شروع کرے گا تو مکمل کئے بغیر چھوڑ نہیں سکتا۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کتاب ہرعام وخاص کے لئے لکھی گئی ہے لیکن اسے متنازعہ بنایا جارہا ہے۔ لیکن یاد رہے Truth Always Prevails سچ ہمیشہ غالب رہتا ہے۔
نا م: سچ کا سفر
پبلیشئر : جمہوری پبلیکیشن (15نومبر2014)
صفحات: 224
قیمت : 590 (اردو)
قیمت: 1195 (انگلش)
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے بُک ریویو لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔