جمہوریت چلتی جائے ۔۔۔۔
اِس حکومت کی کارکردگی گواہ ہے کہ کوئی وقت ایسا نہیں گزرا جب ملک و قوم کو کوئی بحران درپیش نہ ہو۔
چند لوگوں کے لیے جو شاید ہماری کل آبادی کا محض ایک فیصد ہوں، انتہائی خوش نصیبی کی بات ہے کہ 2008 کے انتخابات کے بعد سے جمہوریت کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے بلا تعطل جاری و ساری ہے۔
جمہوریت کا یہ تسلسل ہماری حالیہ جمہوری تاریخ کا ایک ایسا عظیم کارنامہ ہے کہ زرداری صاحب آج تک اس کا کریڈٹ لیتے نہیں تھکتے۔ ماضی کو ذہن میں رکھتے ہوئے مستقبل کی بات کی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ زرداری صاحب کے پوتے اور پرپوتے ہماری آئندہ نسلوں کو یہ بتا بتا کران کے کان کھائیں گے کہ ہمارے دادا ایک عظیم ترین جمہورئیے تھے اور یہ وہی تھے جنہوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اقتدار ایک جمہوری حکومت سے دوسری حکومت کو منتقل کیا تھا اور انہی کی قائدانہ صلاحیتوں کے طفیل ہی پہلی بار ایک منتخب حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی تھی۔
پیپلز پارٹی کا دورِحکومت بھی خوب تھا۔ زرداری صاحب ایوانِ صدر میں اپنی محفلیں جمایا کرتے، یوسف رضا گیلانی ایوانِ صدر میں تشریف فرما اپنے خاندان اور آنے والی سات نسلوں کے حالات تبدیل کرنے کی کوششوں میں مصروف یہ بھول چکے تھے کہ دوام ہے تبدیلی کو زمانے میں۔ رہے نام اللہ کا۔ وزراء کرام بھی اچھے شاگردوں کی طرح اعلیٰ سیاسی قیادت کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی اپنی دیہاڑیاں کھری کرنے میں مصروف تھے۔ ملک میں بجلی نایاب ہونے لگی۔ لوڈ شیڈنگ کے نئے نئے ریکارڈ بننا شروع ہوگئے۔
چھوٹے میاں صاحب نے اپنی سیاست ان دنوں خوب چمکائی۔ انہوں نے مینار پاکستان کے پارک کے ایک کونے میں اپنا خیمہ لگا لیا، دفتری بابو اپنی اپنی فائلیں لے کر وہاں پہنچ جاتے۔ میاں صاحب ایک دستی پنکھا پکڑ کر نہ صرف گرمی دور بھگاتے بلکہ ٹی وی اور اخباروں کے بھوکے کیمروں کو بھی خوراک فراہم کرتے۔ ہمارے ہاں ہر دور میں دانشوروں کی بہتات رہی ہے اور یہ اس دور میں بھی تھی۔ ہمارے یہ دانشور اور نابغے قوم کو بتایا کرتے کہ ہر حکومت اپنے جانے کے بعد اپنی کسی اچھی یا بری بات کی وجہ سے جانی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر جب مشرف کے عہد حکومت کی بات آئے گی تو لال مسجد کا ذکر ہوگا اور کالے کوٹوں کا بھی۔ اسی طرح جب پیپلز پارٹی کی حکومت کا ذکر ہوگا تو کہا جائے گا کہ اس دور میں ملک اندھیروں میں ڈوب گیا۔ ایک ایٹمی قوت کے شہریوں کے پاس ایک بلب جلانے کے لیے بجلی بھی نہ تھی۔ لیکن پیپلز پارٹی کے وزراء اس قسم کے اندیشہ ہائے دور دراز سے یکسر بے نیاز، بس مال بنانے میں مصروف تھے۔ ان کی یہ بے نیازی در حقیقت ایک طرح کی خود اعتمادی تھی۔ اس خود اعتمادی کا راز اس دور کے دانشوروں پر تو نہ کُھل سکا، مگر آج یہ راز بچہ بچہ پر منکشف ہوچکا۔
پیپلز پارٹی کی حکومت اس بات سے بخوبی آگاہ تھی کہ جو گل وہ جی بھر کر کِھلا رہے ہیں اس کے بعد انہیں فوری طور پر مرکز میں تو باری نہ ملے گی۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ پہلی باری بھی دراصل بی بی کی شہادت کا صدقہ تھا۔ بے نظیر شہید نے اپنی جان کا صدقہ دے کر اپنی پارٹی کے لیے حکومت کی راہ ہموار کر دی۔ لیکن آفرین ہے بی بی کے خاندانی اور سیاسی وارثوں پر، پورے پانچ سال حکومت کی مگر مجال ہے جو بی بی کے قاتلوں کا کھرا ناپنے کی کوئی سچی کوشش کی ہو۔ شائد اس پہلوتہی کے پیچھے کوئی راز ہو۔ شائد وہ مال بنانے میں اس قدر مصروف تھے کہ بی بی کے قاتلوں کی نشاندہی اور گرفتاری کے لیے وقت ہی نہ مل سکا۔
2013 کے انتخابات میں کچھ پیپلز پارٹی کی کارکردگی کے صدقے اور کچھ دھاندلی کے طفیل میاں صاحبان کی لاٹری نکل آئی۔ شائد جلاوطنی کے دوران ان کی عبادتیں اور دعائیں رنگ لے آئیں۔ میاں صاحبان ایک بار پھر ایوان اقتدار میں آ گئے۔ اس وقت سے لے کر آج تک عمران خان یہی دہائی ڈال رہے ہیں کہ یہ انتخابات چرانے کی ایک منظم اور کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ پاکستان میں آج تک کون سی سازش بے نقاب ہوئی ہے جو یہ ہوگی؟ البتہ میاں صاحبان کو اقتدار میں آتے ہی کوئی غلط فہمی ہوگئی۔
وہ روزِ اول سے آج تک ایک عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ شائد کسی جعلی پیر نے ان کو یہ بتا دیا ہے کہ کسی پھپھے کٹنی نے ان پر کالا جادو کروادیا ہے۔ انہیں ہر وقت یہی محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان ان کا کالر پکڑ کر حکومت سے نکالنے والا ہے۔ جب عمران کے بھوت سے ذرا نجات ملتی ہے تو یہ خیال ستاتا رہتا ہے کہ کہیں فوج ان کو جدے کا راستہ نہ دکھا دے۔ اب یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اس بار فوج کم از کم جدے کا راستہ تو نہیں دکھائے گی۔ اس ساری صورت حال کا نقد نتیجہ یہ نکلا ہے کہ میاں صاحبان نے اپنے سیاسی گرو جناب زرداری صاحب کی راہ پر چلنے کا فیصلہ کیا ہے۔
حکومت کیا ہے؟ میاں صاحبان کے خاندان کا دوسرا نام اور حکومت کا ہر فرد مال بنانے میں مصروف رہا ہے۔ آج کے پاکستان میں کم از کم شریف خاندان کی حد تک کوئی بھی بے روزگار نہیں۔ سنتے ہیں کہ کیپٹن صفدر صاحب بھی دھندے پر لگے ہوئے ہیں۔ جہاں تک معاملات حکومت کا تعلق ہے تو اللہ کے سہارے چلے جارہے ہیں۔ بحران پیدا ہوتے ہیں، اپنی زندگی پوری کرتے ہیں اور ایک نئے بحران کی جگہ خالی کرکے رخصت ہوجاتے ہیں۔ چونکہ بقول میاں نواز شریف، ان کی حکومت تجربہ کار اور مستقل مزاج واقع ہوئی ہے یہ سلسلہ یونہی چلنے کی امید کی جاسکتی ہے۔
اِس حکومت کی کارکردگی گواہ ہے کہ کوئی وقت ایسا نہیں گزرا جب ملک و قوم کو کوئی بحران درپیش نہ ہو۔ کبھی کراچی میں امن و امان کا مسئلہ، آپریشن کا آغاز، دھرنوں کا پھوٹ پڑنا، پٹرول کی عدم دستیابی، پٹرول بحران کے ذمہ داروں کا عدم تعین، پھر ملک بھر کا اندھیروں میں ڈوب جانا، پھر تیل کی قیمتوں میں کمی اور تیل کا پٹرول پمپوں سے غائب ہوجانا۔ آج کل خبریں ہیں کہ اب چینی چور شکر کا بحران پیدا کرنے کے لیے سر جوڑ چکے ہیں اور حکومتی نابغوں نے اس بحران سے متوقع آمدنی کا حساب کتاب کرنے کے لیے کیلکولیٹر پکڑ لیے ہیں۔
یہ ماننے کو دل نہیں کرتا مگر مانے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں کہ پیپلز پارٹی کے رہنما ہماری توقعات سے زیادہ دور اندیش واقع ہوئے تھے۔ زرداری صاحب میاں صاحبان کو ہم سے زیادہ جانتے تھے۔ گیلانی صاحب کو پتہ تھا کہ اگلی حکومت میاں صاحب کی ہوگی اور وہ ایک کاریگر حکومت ہوگی۔ انہیں پتہ تھا کہ مستقبل کی تجربہ کار حکومت صرف چھ ماہ میں ہی عوام کی توبہ توبہ کروادے گی اور عوام محض چھ ماہ بعد ہی ہماری حکومت کو مس کرنا شروع کردیں گے۔
ایمانداری کی بات ہے کہ آج جب ہم پیپلزپارٹی کی حکومت اور موجودہ حکومت کی کارکردگی کا مقابلہ اور موازنہ کرتے ہیں تو ایک بات ماننا پڑتی ہے کہ چاہے نااہل تھی، نکمی تھی، کرپٹ تھی، لیکن بہرحال ایک حکومت تھی۔ دنیا چاہے زرداری صاحب کو کسی بھی عینک سے دیکھے، صدر کا عہدہ اتنا بے وقار نہیں تھا۔ ہم ایک عدد وزیراعظم بھی رکھتے تھے اور ہمارا وزیرخارجہ بھی ہوا کرتا تھا۔ کچھ کچھ نہ پرفارمنس بہرحال تھی۔ عدالتیں فعال تھیں۔ آج کی طرح کی اندھیرنگری نہ تھی۔ آج حال یہ ہے کہ حکومت کا وجود ڈھونڈنے سے بھی مشکل سے ملتا ہے۔ ملک چل رہا ہے، لیکن کیسے چل رہا ہے، سمجھ نہیں آتی۔ کب تک ایسا چلے گا؟ کسی کو معلوم نہیں۔ آج اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک جیتا جاگتا معجزہ بن چکا ہے جسے دیکھنے کے بعد ماننا پڑتا ہے کہ کوئی تو ہے جو نظام مملکت چلا رہا ہے۔ ہمارے تبلیغی بھائی غیر مسلموں کو ہمارے ملک کا یہ حال دکھا کر انہیں یقین دلاسکتے ہیں کہ خدا ہے۔ میاں برادران مذہبی لوگ ہیں۔ شائد اس ملک کا یہ حال کرنے سے ان کا مقصود اسلام کی خدمت ہو۔ دلوں کے حال تو بہر حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
بس یہ حالات دیکھ کر خیال آتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ جمہوریت میں ہماری غریب عوام کے لیے کچھ نہیں رکھا؟ لیکن ایک بات تو بہرحال کہی جا سکتی ہے کہ جمہوریت کی جوشکل ہمارے ہاں رائج ہے یہ ہمارے مسائل کا حل فراہم نہیں کر سکتی۔ کیوں نہ ایک تجربہ صدارتی طرزِ جمہوریت کا بھی کر لیا جائے!
جمہوریت کا یہ تسلسل ہماری حالیہ جمہوری تاریخ کا ایک ایسا عظیم کارنامہ ہے کہ زرداری صاحب آج تک اس کا کریڈٹ لیتے نہیں تھکتے۔ ماضی کو ذہن میں رکھتے ہوئے مستقبل کی بات کی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ زرداری صاحب کے پوتے اور پرپوتے ہماری آئندہ نسلوں کو یہ بتا بتا کران کے کان کھائیں گے کہ ہمارے دادا ایک عظیم ترین جمہورئیے تھے اور یہ وہی تھے جنہوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اقتدار ایک جمہوری حکومت سے دوسری حکومت کو منتقل کیا تھا اور انہی کی قائدانہ صلاحیتوں کے طفیل ہی پہلی بار ایک منتخب حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی تھی۔
پیپلز پارٹی کا دورِحکومت بھی خوب تھا۔ زرداری صاحب ایوانِ صدر میں اپنی محفلیں جمایا کرتے، یوسف رضا گیلانی ایوانِ صدر میں تشریف فرما اپنے خاندان اور آنے والی سات نسلوں کے حالات تبدیل کرنے کی کوششوں میں مصروف یہ بھول چکے تھے کہ دوام ہے تبدیلی کو زمانے میں۔ رہے نام اللہ کا۔ وزراء کرام بھی اچھے شاگردوں کی طرح اعلیٰ سیاسی قیادت کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی اپنی دیہاڑیاں کھری کرنے میں مصروف تھے۔ ملک میں بجلی نایاب ہونے لگی۔ لوڈ شیڈنگ کے نئے نئے ریکارڈ بننا شروع ہوگئے۔
چھوٹے میاں صاحب نے اپنی سیاست ان دنوں خوب چمکائی۔ انہوں نے مینار پاکستان کے پارک کے ایک کونے میں اپنا خیمہ لگا لیا، دفتری بابو اپنی اپنی فائلیں لے کر وہاں پہنچ جاتے۔ میاں صاحب ایک دستی پنکھا پکڑ کر نہ صرف گرمی دور بھگاتے بلکہ ٹی وی اور اخباروں کے بھوکے کیمروں کو بھی خوراک فراہم کرتے۔ ہمارے ہاں ہر دور میں دانشوروں کی بہتات رہی ہے اور یہ اس دور میں بھی تھی۔ ہمارے یہ دانشور اور نابغے قوم کو بتایا کرتے کہ ہر حکومت اپنے جانے کے بعد اپنی کسی اچھی یا بری بات کی وجہ سے جانی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر جب مشرف کے عہد حکومت کی بات آئے گی تو لال مسجد کا ذکر ہوگا اور کالے کوٹوں کا بھی۔ اسی طرح جب پیپلز پارٹی کی حکومت کا ذکر ہوگا تو کہا جائے گا کہ اس دور میں ملک اندھیروں میں ڈوب گیا۔ ایک ایٹمی قوت کے شہریوں کے پاس ایک بلب جلانے کے لیے بجلی بھی نہ تھی۔ لیکن پیپلز پارٹی کے وزراء اس قسم کے اندیشہ ہائے دور دراز سے یکسر بے نیاز، بس مال بنانے میں مصروف تھے۔ ان کی یہ بے نیازی در حقیقت ایک طرح کی خود اعتمادی تھی۔ اس خود اعتمادی کا راز اس دور کے دانشوروں پر تو نہ کُھل سکا، مگر آج یہ راز بچہ بچہ پر منکشف ہوچکا۔
پیپلز پارٹی کی حکومت اس بات سے بخوبی آگاہ تھی کہ جو گل وہ جی بھر کر کِھلا رہے ہیں اس کے بعد انہیں فوری طور پر مرکز میں تو باری نہ ملے گی۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ پہلی باری بھی دراصل بی بی کی شہادت کا صدقہ تھا۔ بے نظیر شہید نے اپنی جان کا صدقہ دے کر اپنی پارٹی کے لیے حکومت کی راہ ہموار کر دی۔ لیکن آفرین ہے بی بی کے خاندانی اور سیاسی وارثوں پر، پورے پانچ سال حکومت کی مگر مجال ہے جو بی بی کے قاتلوں کا کھرا ناپنے کی کوئی سچی کوشش کی ہو۔ شائد اس پہلوتہی کے پیچھے کوئی راز ہو۔ شائد وہ مال بنانے میں اس قدر مصروف تھے کہ بی بی کے قاتلوں کی نشاندہی اور گرفتاری کے لیے وقت ہی نہ مل سکا۔
2013 کے انتخابات میں کچھ پیپلز پارٹی کی کارکردگی کے صدقے اور کچھ دھاندلی کے طفیل میاں صاحبان کی لاٹری نکل آئی۔ شائد جلاوطنی کے دوران ان کی عبادتیں اور دعائیں رنگ لے آئیں۔ میاں صاحبان ایک بار پھر ایوان اقتدار میں آ گئے۔ اس وقت سے لے کر آج تک عمران خان یہی دہائی ڈال رہے ہیں کہ یہ انتخابات چرانے کی ایک منظم اور کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ پاکستان میں آج تک کون سی سازش بے نقاب ہوئی ہے جو یہ ہوگی؟ البتہ میاں صاحبان کو اقتدار میں آتے ہی کوئی غلط فہمی ہوگئی۔
وہ روزِ اول سے آج تک ایک عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ شائد کسی جعلی پیر نے ان کو یہ بتا دیا ہے کہ کسی پھپھے کٹنی نے ان پر کالا جادو کروادیا ہے۔ انہیں ہر وقت یہی محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان ان کا کالر پکڑ کر حکومت سے نکالنے والا ہے۔ جب عمران کے بھوت سے ذرا نجات ملتی ہے تو یہ خیال ستاتا رہتا ہے کہ کہیں فوج ان کو جدے کا راستہ نہ دکھا دے۔ اب یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اس بار فوج کم از کم جدے کا راستہ تو نہیں دکھائے گی۔ اس ساری صورت حال کا نقد نتیجہ یہ نکلا ہے کہ میاں صاحبان نے اپنے سیاسی گرو جناب زرداری صاحب کی راہ پر چلنے کا فیصلہ کیا ہے۔
حکومت کیا ہے؟ میاں صاحبان کے خاندان کا دوسرا نام اور حکومت کا ہر فرد مال بنانے میں مصروف رہا ہے۔ آج کے پاکستان میں کم از کم شریف خاندان کی حد تک کوئی بھی بے روزگار نہیں۔ سنتے ہیں کہ کیپٹن صفدر صاحب بھی دھندے پر لگے ہوئے ہیں۔ جہاں تک معاملات حکومت کا تعلق ہے تو اللہ کے سہارے چلے جارہے ہیں۔ بحران پیدا ہوتے ہیں، اپنی زندگی پوری کرتے ہیں اور ایک نئے بحران کی جگہ خالی کرکے رخصت ہوجاتے ہیں۔ چونکہ بقول میاں نواز شریف، ان کی حکومت تجربہ کار اور مستقل مزاج واقع ہوئی ہے یہ سلسلہ یونہی چلنے کی امید کی جاسکتی ہے۔
اِس حکومت کی کارکردگی گواہ ہے کہ کوئی وقت ایسا نہیں گزرا جب ملک و قوم کو کوئی بحران درپیش نہ ہو۔ کبھی کراچی میں امن و امان کا مسئلہ، آپریشن کا آغاز، دھرنوں کا پھوٹ پڑنا، پٹرول کی عدم دستیابی، پٹرول بحران کے ذمہ داروں کا عدم تعین، پھر ملک بھر کا اندھیروں میں ڈوب جانا، پھر تیل کی قیمتوں میں کمی اور تیل کا پٹرول پمپوں سے غائب ہوجانا۔ آج کل خبریں ہیں کہ اب چینی چور شکر کا بحران پیدا کرنے کے لیے سر جوڑ چکے ہیں اور حکومتی نابغوں نے اس بحران سے متوقع آمدنی کا حساب کتاب کرنے کے لیے کیلکولیٹر پکڑ لیے ہیں۔
یہ ماننے کو دل نہیں کرتا مگر مانے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں کہ پیپلز پارٹی کے رہنما ہماری توقعات سے زیادہ دور اندیش واقع ہوئے تھے۔ زرداری صاحب میاں صاحبان کو ہم سے زیادہ جانتے تھے۔ گیلانی صاحب کو پتہ تھا کہ اگلی حکومت میاں صاحب کی ہوگی اور وہ ایک کاریگر حکومت ہوگی۔ انہیں پتہ تھا کہ مستقبل کی تجربہ کار حکومت صرف چھ ماہ میں ہی عوام کی توبہ توبہ کروادے گی اور عوام محض چھ ماہ بعد ہی ہماری حکومت کو مس کرنا شروع کردیں گے۔
ایمانداری کی بات ہے کہ آج جب ہم پیپلزپارٹی کی حکومت اور موجودہ حکومت کی کارکردگی کا مقابلہ اور موازنہ کرتے ہیں تو ایک بات ماننا پڑتی ہے کہ چاہے نااہل تھی، نکمی تھی، کرپٹ تھی، لیکن بہرحال ایک حکومت تھی۔ دنیا چاہے زرداری صاحب کو کسی بھی عینک سے دیکھے، صدر کا عہدہ اتنا بے وقار نہیں تھا۔ ہم ایک عدد وزیراعظم بھی رکھتے تھے اور ہمارا وزیرخارجہ بھی ہوا کرتا تھا۔ کچھ کچھ نہ پرفارمنس بہرحال تھی۔ عدالتیں فعال تھیں۔ آج کی طرح کی اندھیرنگری نہ تھی۔ آج حال یہ ہے کہ حکومت کا وجود ڈھونڈنے سے بھی مشکل سے ملتا ہے۔ ملک چل رہا ہے، لیکن کیسے چل رہا ہے، سمجھ نہیں آتی۔ کب تک ایسا چلے گا؟ کسی کو معلوم نہیں۔ آج اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک جیتا جاگتا معجزہ بن چکا ہے جسے دیکھنے کے بعد ماننا پڑتا ہے کہ کوئی تو ہے جو نظام مملکت چلا رہا ہے۔ ہمارے تبلیغی بھائی غیر مسلموں کو ہمارے ملک کا یہ حال دکھا کر انہیں یقین دلاسکتے ہیں کہ خدا ہے۔ میاں برادران مذہبی لوگ ہیں۔ شائد اس ملک کا یہ حال کرنے سے ان کا مقصود اسلام کی خدمت ہو۔ دلوں کے حال تو بہر حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
بس یہ حالات دیکھ کر خیال آتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ جمہوریت میں ہماری غریب عوام کے لیے کچھ نہیں رکھا؟ لیکن ایک بات تو بہرحال کہی جا سکتی ہے کہ جمہوریت کی جوشکل ہمارے ہاں رائج ہے یہ ہمارے مسائل کا حل فراہم نہیں کر سکتی۔ کیوں نہ ایک تجربہ صدارتی طرزِ جمہوریت کا بھی کر لیا جائے!