ہمارا کیا بنے گا

رشتے کی بات جہاں بھی چلتی اسی بات پر آکر رک سی جاتی کہ لڑکے کا کوئی خاص خاندان تو ہے نہیں.

رشتے کی بات جہاں بھی چلتی اسی بات پر آکر رک سی جاتی کہ لڑکے کا کوئی خاص خاندان تو ہے نہیں.

ISLAMABAD:
معاشی طور پر میں مستحکم ہوں، زرعی رقبہ بھی ہے، دیکھنے میں اتنا بھیانک نہیں ہوں اور پھر ادھیڑ عمری کے فیز میں بھی داخل نہیں ہوا ہوں، لباس کا ڈھنگ بھی ہے، کار بھی اچھے ماڈل کی ہے، رہنے کو فارم ہائوس میں چھوٹا سا گھر بھی بنایا ہوا ہے، جاہل بھی نہیں ہوں اور پھر سب سے بڑھ کر ایک عدد فارن نیشنیلٹی بھی رکھتا ہوں، ان سب کے باوجود اگر کہیں رشتے کی بات چلتی ہے تو بریک لگ جاتا ہے۔ آخر کیوں؟ رضی نے ایک ٹھنڈی آہ کے ساتھ میری طرف دیکھا۔

رضی کا شماران لوگوں میں ہوتا ہے جن کی زندگی ان کے اپنے ہاتھوں میں دے دی جاتی ہے کہ وہ چاہیں تو محنت کرکے اپنا مقام بنائیں یا پھر دھول میں گم ہوجائیں اور یہ لوگ اپنی ایک سمت متعین کرکے انتھک محنت اور لگن سے اعلی مقام بنا ہی لیتے ہیں۔ انہیں کچھ بھی تھالی میں رکھا ہوا نہیں ملتا ہے۔ میری اس سے پہلی ملاقات ایک وکیل کے چیمبر میں ہوئی جہاں وہ اپنی زمین کی رجسٹری کے سلسلے میں آیا ہوا تھا مگر جب سے بیٹھا سسٹم کا رونا ہی روئے جا رہا تھا کہ پاکستان میں کوئی بھی کام سیدھے طریقے سے ہوتا ہی نہیں ہے جبکہ بیرون ملک ایسا نہیں ہوتا، اگر آپ حق پر ہیں تو سرکار بھی آپ کو ہلا نہیں سکتی ہے مگر یہاں الٹا سرکار خود ڈولتی جھومتی رہتی ہے۔

میں نے کچھ دیر تو اس کی باتیں سنی اور پھر کہا کہ وہ ابھی نیا نیا پاکستان آیا ہے، اس لئے ایسا محسوس کررہا ہے، کچھ ماہ گزرنے کے بعد جب وہ اس سسٹم کا عادی ہوجائے گا اور یہی ملک اسے جنت لگنے لگے گا اور پھر ہوا بھی یہی وہ اتنی جلدی رنگ میں رنگ گیا کہ اب جب اُس کے سامنے کوئی کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی تعریف کرتا ہے تو وہ مدلل انداز سے اسے غلط ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتا اور پاک سر زمین کے گن گاتا۔ پھر کاروباری لحاظ سے بھی اس نے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرلی۔ پھر ایک دن اس کے دل نا مراد میں شادی کی امنگ کیا جاگی، پھربقول شاعر؛
چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

پہلا دروازہ شادی دفاتر کا کھٹکھٹایا جہاں ہر دروازے کی ایک الگ ہی داستان بنتی گئی۔ ان دفاتر میں سوشل سروسز کے نام پر لڑکا اور لڑکی ایک پروڈکٹ بنا دیئے جاتے ہیں اور ان سے تحفظ کے نام پر سیکیورٹی بھی طلب کی جاتی ہے۔ خاندان کو خاندان نہیں بلکہ دو کاروباری حریف بنا دئیے جاتے ہیں۔ میرا دوست اس انکار، اقرار، تکرار اور شوبازی کے کھیل سے تنگ آجاتا تو پھر دور چلتا پرانے اداس دکھی گانوں میں کھوجاتا۔ مگر زندگی تو بے رحم ہوتی ہے، پھر کوئی نہ کوئی نیا رشتہ آجاتا اور انجام ہر بار ایک سا ہی ہوتا۔ کہیں پر رضی انکار کردیتا اور کہیں پر لڑکی والے اور اِس بار بار کے انکار کی وجہ معاشی نہیں معاشرتی تھا۔


رشتے کی بات جہاں بھی چلتی اسی بات پر آکر رک سی جاتی کہ لڑکے کا کوئی خاص خاندان تو ہے نہیں، جو تائے، چاچے ہیں وہ تو اجڈ ، جاہل، گنوار اور پینڈو ہیں۔ رضی انہیں یقین دلاتا کہ اس کا ان سے ملنا جلنا واجبی سا ہے، اس پر اگلی پارٹی اور بدک جاتی کہ جب یہ ان کا نہیں بنا تو ہمارا کیا بنے گا؟

ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے لڑکے لڑکیاں ہونگے جن کے والدین کی وفات بچپن میں ہو جاتی ہے اور وہ محنت سے اپنا مقام بھی بنا لیتے ہیں، معاشرہ انہیں عزت دولت تو دیتا ہے مگر ایک خاص حد سے زیادہ اپنے اندر شامل نہیں کرتا اور نتیجہ یہ کہ انسان قانون فطرت کے ضابطہ حیات کے مخالف چلنا شروع کردیتا ہے۔ جس کے بعد زندگی میں جہاں بہت سی قباحتیں آجاتی ہیں اس کے ساتھ اخلاقیات بھی متاثر ہوتی ہیں اور پھر معاشرے میں بہت سی نا ہمواریاں جنم لینا شروع ہوجاتی ہیں۔ ہمیں اپنے اس دوہرے معیار کے معاشرے میں بہت سی بد رنگ کہانیاں، واقعات اور حادثات ملیں گے جن کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ہمیں بہت سے معمولی نکات ملیں گے جن کی وجہ سے صرف ایک زندگی ہی نہیں بلکہ بہت سے گھر متاثر ہوئے اور ساتھ ساتھ انسانی سوچ بھی منفی رخ اختیار کر گئی۔

معاشرے کی تشکیل میں فرد واحد کا بھی غیر معمولی کردار ہوتا ہے ہمیں اس پہلو کی طرف بھی توجہ دینا ہوگی کہ جو انسان اپنی قابلیت، محنت اور مضبوط کردار کے بل بوتے پر معاشی طور پر جگہ بناسکتا ہے، انہیں سماجی اور خاندانی نظام میں بھی شامل کیا جائے۔ شاید اس سے کسی ایک انسان کی زندگی سنور جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story