رانگ نمبر
خودساختہ مذہبی ٹھیکیدار ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں، جولوگوں کی توہم پرستی کا فائدہ اٹھا کر ان کو دھوکا دیتے ہیں
خودساختہ مذہبی ٹھیکیداروں کے حوالے سے حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ''پی کے'' بالی وڈ میں بزنس کے تمام ریکارڈ توڑ کر اپنی مقبولیت کے جھنڈے گاڑنے کے ساتھ بھارت میں ہندو مت کے ماننے والوں کے درمیان موضوع بحث بھی بنی ہوئی ہے۔
''پی کے'' نے ہندوستانی معاشرے میں بھونچال برپا کر دیا ہے۔ جہاں انتہائی مقدس سمجھے جانے والے مذہبی طبقے پر سوال اٹھانا بہت بڑے ''جرم'' کے زمرے میں آتا ہے، ''پی کے'' نے اس طبقے پر بہت سے سوال اٹھا کر یہ ''جرم'' کیا ہے، جس کے باعث بھارت میں نہ صرف عامر خان پر بڑی لے دے ہو رہی ہے، بلکہ ''پی کے'' کے خلاف زبانی احتجاج سے لے کر پرتشدد احتجاج تک کیا گیا ہے۔ کئی ہندو تنظیموں کا کہنا ہے کہ ''پی کے'' میں ہندو مذہب کے تقاضوں اور روایات پر تلخ تبصرے کیے گئے ہیں، جو کسی صورت برداشت نہیں کیے جا سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ''پی کے'' کسی مذہب پر نہیں، بلکہ مذہب کو بدنام کرنے والے نام نہاد مذہبی پیشواؤں پر تنقید کرتی ہے۔
خودساختہ مذہبی ٹھیکیدار ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں، جولوگوں کی توہم پرستی کا فائدہ اٹھا کر ان کو دھوکا دیتے ہیں اور مذہب کو تجارت اور منافعے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مجبور اور مسائل میں جکڑے سادہ لوح عوام سے بھاری بھرکم دولت سمیٹ کر ان کی پریشانی و تکلیف میں مزید اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ خدا ایسی باتوں کا حکم نہیں دیتا، جس سے اس کی مخلوق کو تکلیف پہنچے، بلکہ ایسے تما م احکامات زمین پر موجود وہ لوگ دیتے ہیں، جو اپنے آپ کو مذہب کا ٹھیکیدار قرار دیتے ہیں۔
حقیقت میں یہ نام نہاد پیشوا مذہب کی اصل روشن و دائمی تعلیمات سے نابلد ہوتے ہیں اور مذہب کی روح کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔ ان کا مقصد تو مفادات سمیٹنا ہوتا ہے۔ اس قسم کے خودساختہ پیشواؤں کی تعداد معاشرے میں کچھ زیادہ نہیں ہے لیکن اپنی چالاکی، ہوشیاری اور لوگوں کی مجبوری و مغلوب نفسیات کا فائدہ اٹھا کر سادہ لوح انسانوں کو زیر کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔
حقائق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مذہب عرفان و ادراک اور سلامتی سے بھرپورہوتا۔ انسان کی بے لوث بھلائی مذہب کا بنیادی مقصد ہوتا ہے، لیکن سلامتی کے محور کو بے لوث بھلائی کی بجائے مفادات کی بھینٹ چڑھانا آج ایک مشغلے کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ اگر مذہبی پیشوا مخلص اور خداترس ہوں تو مفادات سمیٹنے سے انھیں کوئی سروکار نہیں ہوتا، لیکن اگر سوئے اتفاق مذہبی پیشواؤں میں مکروفریب اور حرص مال و شہرت ہو تو پھر وہی پیشوا مختلف دھوکے بازوں کے روپ میں سامنے آتے ہیں اور ملک و مذہب کے لیے ناسور ہی نہیں، بلکہ دونوں کے مفاد اور وقار کے لیے بھی ایک چیلنج بن جاتے ہیں۔
معاشرے میں اس قسم کے مفاد پرست پیشواؤں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، لیکن ان کی حرکتوں کی وجہ سے پورے مذہبی طبقے پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں اور سچے علماء کو بھی مطعون کیا جاتا ہے۔ مفاد پرست مذہبی رہنما، نیک سیرت و بے داغ دامن مذہبی رہنماؤں کی بھی بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔حقیقی علماء ان ہی طریقوں پرکاربند ہوتے ہیں، مذہب جس کا حکم دیتا ہے، لیکن اگر مذہب کی مسند پر مفاد پرست اور جاہل پیشوا متمکن ہو جائیں اور سادہ لوح عوام میں عقیدت بھی نقطۂ عروج پر ہو تو پھر سادہ لوح انسانوں کو لٹ جانے اور مفاد پرست مذہبی پیشواؤں کو لوٹنے سے کون روک سکتا ہے؟ آئے روز ملک میں مذہب کا نام استعمال کرنے والے خود ساختہ مذہبی پیشوا جعلی پیروں اور عاملوں کے حوالے سے ایسے بھیانک واقعات رونما ہورہے ہیں، جنھیں سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
گزشتہ سال مبینہ طور پر ایک ظالم ماموں نے معصوم بھانجوں کو ایک ''عامل'' کے کہنے پر اپنی مراد پانے کے لیے سفاکیت کے ساتھ ذبح کر دیا تھا، جب کہ اس واقعے سے ایک روز قبل ہی ملتان میں بھی ایک نوجوان جعلی پیر کے ''فرمان'' پر عمل کرتے ہوئے ''مدفون خزانے'' کو زمین سے نکالنے کے چکر میں اپنی جان گنوا بیٹھا تھا، اس قسم کے بیسیویں واقعات آئے روز ہمارے معاشرے میں رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ان کے علاوہ جعلی پیروں اور عاملوں کے ہاتھوں خواتین کی بے حرمتی کے واقعات بھی روز اخبارات میں شایع ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے حالات میں خودساختہ طریقوں کو چھوڑ کر مذہب کا علم حاصل کرنا اور براہ راست خدا سے تعلق قائم کرنا انسان کے لیے انتہائی ضروری ہے، کیونکہ جب براہ راست خدا سے تعلق مضبوط اور مذہب کی تعلیمات کا علم ہو گا تو کھرے اور کھوٹے مذہبی پیشواؤں کی پہچان کرنا انتہائی آسان ہو گا۔
مذہب خدا سے ذاتی تعلق کا نام ہے، یہ تعلق لوگوں کو بہتر انسان بناتا ہے، لیکن جب لوگ اسے ایک ایجنڈے یا دیگر لوگوں کو دبانے کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں تو وہ اس تعلق کو کمزور اور مذہب کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں، جو کہ سراسر مذہب کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
مذہب لوگوں کے لیے بھلائی اور سکون کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے ماننے والوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنی ہر حاجت کو برارہ راست اپنے خدا کے سامنے پیش کرو اور اسی سے مانگو، لیکن ہوتا یہ ہے کہ جب سادہ لوح افراد خدا تک اپنی بات پہنچانے کے لیے مذہبی پیشواؤں کا سہارا لیتے ہیں تو بہت سے خودساختہ مذہبی ٹھیکیدار نہ تو خود اپنی بات خدا تک پہنچانے کا ڈھنگ جانتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کی بات پہنچا سکتے ہیں، لیکن لوگوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر مفادات سیمٹنا اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس طرح یہ نام نہاد ٹھیکیدار اور مینیجرز سادہ لوح لوگوں کو لاحق پریشانی میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔
کسی کے طرز زندگی سے اس کے ایمان کی تعریف نہیں کی جا سکتی، بلکہ طرز زندگی کا تنوع تو انسانی فطرت کا حصہ ہے، جس کے تحت زندگی گزارنا انسان کی مجبوری ہے، لیکن بہت سے خودساختہ مذہبی پیشوا کسی خاص طریقے کو ہی حق گردانتے ہوئے باقی سب کو باطل ٹھہراتے ہیں۔ مذہب کا لیبل لگا کر چونکہ سادہ لوح انسانوں کو بے وقوف بنانا قدرے آسان ہوتا ہے، اس لیے یہ لوگ صرف اپنے مفادات کے لیے سادہ لوح انسانوں کو مذہب کے نام پر مختلف طریقوں سے استعمال کرتے ہیں۔ صرف اپنے مسلک و فرقے پر حق و سچ کا خودساختہ ٹھپا لگا کر دوسروں پر فتوؤں کے ذریعے کفر کا ٹھپا لگاتے ہیں۔
مختلف مذہبی فرقوں اور گروہوں کے درمیان چپقلش و لڑائی کو ہوا دیتے ہیں۔ مختلف فرقوں کے پیشوا مقابلہ بازی میں مذہب کی نئی نئی تشریحات پیش کر کے انسانوں میں نفرتیں اور مخالفتیں بڑھانے کا سبب بنتے ہیں اور منبروں سے زہریلی نفرت اگلتے ہیں۔ اپنی حمایت میں اضافے کے لیے فرقہ وارانہ اور مذہبی بنیادوں پر اس نفرت کو بھڑکاتے ہیں اور مسلمانوں کے آپسی قتل و قتال کا سبب بنتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ یہ سب کچھ مذہب کے نام پر ہوتا ہے۔ حالانکہ مذہب ہی ایک ایسی چیز ہے، جس کو ہر قسم کی خرابی سے پاک ہونا چاہیے۔ مذہب ہی ہر قسم کی جعل سازی و دھوکا دہی کو مسترد کر کے انسان کی بھلائی کا بہترین نمونہ فراہم کرتا ہے، لیکن بعض نام نہاد مذہبی پیشواؤں نے اپنے مفادات کی خاطر مذہب کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے، جو یقینا رانگ نمبر ہے۔