عبداللہ دیوانے
دنیا کے نقشے پہ نظر دوڑائیں تو اردن کسی درویش کے نیم بریدہ جبے کی مانند دکھائی دیتا ہے
دنیا کے نقشے پہ نظر دوڑائیں تو اردن کسی درویش کے نیم بریدہ جبے کی مانند دکھائی دیتا ہے جس کی پھیلی ہوئی آستین کا رخ عراق کی طرف، کندھے پہ شام، بغل میں سعودیہ اور دائیں پہلو میں اسرائیل کسی خنجر کی طرح پیوست ہے۔ پاکستان کے رقبے کو آٹھ سے تقسیم کریں تو اس چھوٹے سے ملک کا رقبہ حاصل ہو گا۔
1946ء سے یہاں ہاشمی خاندان کی حکومت ہے۔ وہی بنو ہاشم جسے نبی کریم ﷺ کا خاندان ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ویسے تو ہم سب ہی اللہ کے حقیر بندے ہیں لیکن اردن میں شاہ عبداللہ اول اور موجودہ شاہ عبداللہ ثانی ہی نہیں وزیراعظم بھی عبداللہ ہی ہیں۔ اس نکتے کو یاد رکھئے گا۔ کالم کا عنوان سمجھنے میں آسانی ہو گی۔
۱۹۴۹ میں قائم کی جانے والی نیٹو کے اٹھائیس ممبر ممالک کو جب غنچہ چینی کرتے تنگیء داماں کی شکایت ہوئی اس نے کچھ چھوٹے باغبانوں کو نان نیٹو ممالک کا درجہ دیا اور اپنے دامن کا طول و عرض بڑھا لیا۔ ان نان نیٹو ممالک میں اردن بھی شامل ہے جسے یہ رتبہ بل کلنٹن نے دیا۔ خیر یہ رتبہء بلند ملا جس کو مل گیا۔ یہ بتانا غیر ضروری ہے کہ نان نیٹو ممالک کو دفاع کی مد میں کچھ مراعات حاصل ہوتی ہیں۔
اردن اپنے چھوٹے رقبہ، کمزور معیشت، منقسم آبادی، سیاسی نظام اور غیر معمولی محل وقوع کی وجہ سے امریکا کی خاص توجہ کا مرکز بھی ہے اور طویل عرصے سے قابل بھروسہ بھی۔ یہ چھوٹا سا ملک اپنے دامن میں چھ لاکھ سے زائد شامی مہاجرین کو پناہ دیے ہوئے ہے۔ بیس لاکھ سے زائد فلسطینی پناہ گزین اس کے علاوہ ہیں۔ اردن کی معیشت کا تمام تر دارومدار امریکی اور عالمی مالیاتی اداروں کی امداد پر ہے۔ اس چھوٹے سے ملک میں مقامی پیداوار صرف ۴ فیصد ہے جب کہ ۹۶ فیصد درآمدات ہیں۔ یہاں قدرت بھی ایسی مہربان نہیں جیسی ہم پہ ہے۔ قدرتی وسائل محدود ہیں البتہ آئل کے چوتھے بڑے ذخائر یہاں موجود ہیں۔
اسرائیل کے بڑھتے ہوئے رقبے اور تعلقات نے اندرونی طور پہ ہمیشہ اس ملک کو خلفشار میں مبتلا رکھا لیکن حرام ہے جو اس مرد با صفا نے وفا پہ آنچ آنے دی ہو۔ حال ہی میں اسرائیل کے ساتھ قدرتی گیس کے ایک معاہدے پہ دستخط کیے گئے ہیں۔ 2013ء میں پانی کی قلت کے باعث red-dead sea معاہدہ بھی اسرائیل کے ساتھ ہو چکا ہے جس میں فلسطینی حکومت بھی فریق ہے۔ عملا یہاں بادشاہت ہے۔
جس میں ایک ڈھیلی ڈھالی پارلیمنٹ بھی بظاہر حکومت کے مزے لوٹ رہی ہے لیکن تمام تر اختیارات شاہ کو حاصل ہیں۔ اردن ان' مثالی' حالات میں امریکا اور مغرب کا اہم اتحادی ہے۔ اسے مکمل تزویراتی حمایت مہیا کرتا ہے اور اس کے بدلے میں مناسب حد تک معاشی اور فوجی فوائد حاصل کرتا ہے۔ حال ہی میں اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) کے خلاف جاری امریکی مہم جوئی میں اردن ایک اہم فریق ہے البتہ ہمیشہ کی طرح اسے اندرونی طور پہ شدید مخالفت کا سامنا ہے۔
حال ہی میں دس عرب ممالک کے ساتھ اردن نے بھی اسلامک اسٹیٹ کو آخری حد تک جا کر نیست و نابود کرنے کے اعلامیہ جاری کیا ہے۔ شاہ عبداللہ واحد عرب لیڈر ہیں جنہوں نے ۵ ستمبر کو ویلز میں ہونے والی نیٹو سمٹ میں شرکت کی اور اوباما سے ملاقات کی۔ اردن میں اخوان المسلون کے ترجمان نے اس اتحاد پہ شدید احتجاج کیا اور کہا کہ ہمیں ایک ایسی جنگ میںایک بار پھر جھونکا جا رہا ہے جو ہماری نہیں ہے۔
ایک سابقہ وزیر نے نام نہ بتانے کی شرط پہ کہا کہ اسلامی اسٹیٹ کے خلاف یہ تعاون ہمارے لیے مشکلات کھڑی کرے گا خاص طور پہ ایسی صورت میں جب ہزاروں اردنی سلفی، آئی ایس کے ساتھ لڑائی میں مصروف ہیں۔ البتہ ہمارے پاس کوئی اور راستہ بھی نہیں۔
اس کے علاوہ ۲۱ پارلیمینٹیرینز نے ایک پٹیشن پہ دستخط کیے ہوئے ہیں جس میں حکومت کو اس اتحاد میں شامل ہونے کے مضمرات سے خبردار کیا گیا ہے۔ ممبر پارلیمنٹ خلیل عطی نے کہا کہ اردن کو دوسروں کی جنگ میں فریق نہیں بننا چاہیے۔ غور کیجیے یہ دوسرے کون ہیں جن کی امداد پہ آپ کی معیشت کا انحصار ہے۔ ایسی بھی کیا بے مروتی۔ انھوں نے کہا کہ ہم شام اور عراق نہیں ہیں۔ ہماری اپنی افواج موجود ہیں اور ہماری سرحدوں کا دفاع کرنا جانتی ہیں۔ صرف اسلامی اپوزیشن ہی نہیں بلکہ چھ سیکولر پارٹیوں نے بھی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اسلامی اسٹیٹ کے خلاف جنگ کا حصہ بن کے ہم نقصان اٹھائیں گے۔
غالبااس موقعے پہ انھوں نے سو جوتے اور سو پیاز والا محاورہ عربی میں ترجمہ کیا ہو گا۔ بہرحال اردنی حکومت امریکا کے ساتھ عشق کے اس مقام پہ ہے جہاں ایسی نصیحتیں الٹا اثر کرتی ہیں۔ لہذا خو د امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک بیان کے مطابق حکومت امریکا کی عسکری اور تزویراتی سپورٹ کے ساتھ ساتھ جس میںـ ''معتدل'' سنی گروپوں کو فوجی تربیت دینا بھی شامل ہے، اسلامی اسٹیٹ کے حامیوں کے خلاف آپریشن بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اب تک ساٹھ سے زائد حامیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ابو سیاف جو اردن میں سلفی جہادی تحریک کے سربراہ ہیں نے واضح طور پہ خبردار کیا ہے کہ یہ اتحاد شاہ کی بادشاہت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔
یہی خطرہ بادشاہت کو دولۃ کی طرف سے بھی ہے لہٰذا یہ اتحاد بہرحال شاہ عبداللہ کی مجبوری ہے۔ یوں کہئے کہ پرائے کی شادی میں عبداللہ بلا وجہ ہی دیوانے نہیں ہو رہے۔ اس مخالفت میں اضافہ اس وقت ہوا جب گزشتہ دنوں اردنی پائلٹ معاذ الکسابہ کو اسلامی اسٹیٹ نے یرغمال بنا لیا اور جلا کر قتل بھی کر دیا۔ نوجوان اردنی پائلٹ نہ صرف پنج وقتہ نمازی تھا بلکہ حج بھی کر چکا تھا۔ اسے علم تھا کہ وہ پکڑا گیا تو بچے گا نہیں اور یہی ہوا۔
جب اس کی تصاویر منظر عام پہ آئیں تو شاہ عبداللہ نے ان جہادیوں کی شدید مذمت کی جو پائلٹوں کو جن کی نئی نئی شادی ہوئی ہو، قید کر کے اسلام کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ لیکن کساسبہ کے اپنے گاوں کرک کچھ نوجوانوں نے امریکا اور اپنی حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا۔ ادھر شاہ کا کہنا ہے کہ گو بدقسمتی سے یہ دو نوں طرف مسلمان ہیں لیکن یہ ہے تو ہماری ہی جنگ۔ اور اپنی حد تک وہ ٹھیک ہی کہہ رہے تھے اور بدقسمت پائلٹ کا بھائی جواد الکسابہ بھی ٹھیک ہی کہہ رہا تھا کہ اس جنگ سے نکل آؤ یہ جنگ ہماری نہیں ہے۔
ابھی ان کی جنگ شروع ہوئی ہے۔ پرائی شادیوں میں دیوانے عبداللہ قوموں کو وہاں لے جاتے ہیں جہاں سول اور فوجی جانوں کے نقصان کے بعد بھی لوگ ایک دوسرے کو یقین دلا رہے ہوتے ہیں کہ یہ جنگ ہماری ہی ہے بس ذرا اور طرح لڑی جا رہی ہے۔