نائن الیون حملوں میں سعودی شہزادے بھی ملوث تھے گرفتار زکریا موسوی کا دعویٰ
امریکا میں نائن الیون حملوں میں گرفتار واحد مجرم فرانسیسی شہری نے انکشاف کیا ہے کہ القاعدہ کی جانب سے کئے جانے والے حملوں میں سعودی شاہی خاندان کے شہزادے بھی ملوث تھے جنہوں نے تنظیم کی مالی معاونت کی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق نائن الیون حملوں میں سزا یافتہ فرانسیسی شہری زکریا موسوی نے امریکی وکلا کے سامنے اعتراف کیا کہ نائن الیون حملوں سے متعلق سعودی حکام اور القاعدہ چیف اسامہ بن لادن کے درمیان براہ راست معاملات طے پائے تھے جب کہ اس حوالے سے اس نے خود سعودی عرب جاکر خطوط کا تبادلہ کیا اور اس وقت کے انٹیلی جنس چیف شہزادہ ترکی الفیصل بھی اس سے آگاہ تھے۔ سزا یافتہ مجرم زکریا موسوی کا کہنا تھا کہ 1990 کی دہائی میں سعودی شاہی خاندان کے اہم عہدوں پر فائز افراد کے اسامہ بن لادن کے ساتھ قریبی تعلقات تھے اور القاعدہ کو انہی سعودی شاہی خاندان نے 2 سے 3 ملین ڈالرز کی مالی امداد فراہم کی تھی۔
زکریا موسوی نے 127 صفحات پر مشتمل دستاویز میں کہا کہ اس نے القاعدہ کی مالی معاونت کرنے والوں کا ڈیٹا بیس بھی تربیت دیا ہے جس میں سعودی شاہی خاندان کے افراد بھی شامل تھے جن میں خاص طور پر اس وقت کے امریکا میں تعینات سعودی سفیر شہزادہ بندر بن سلطان اور سابق انٹیلی جنس چیف شہزادہ ترکی بن سلطان شامل ہیں۔
دوسری جانب سعودی سفارت خانے نے زکریا موسوی کے الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ موسوی کے الزامات بے بنیاد ہیں جب کہ نائن الیون حملوں کی باریک بینی سے تحقیقات ہوئی تھی جس میں سعودی حکومت اور شاہی خاندان کے کسی فرد کے ملوث ہونے کے شواہد سامنے نہیں آئے ۔ سعودی سفارت خانے کا کہنا تھا کہ گرفتار مجرم موسوی کے وکلا بھی عدالت میں بیان دے چکے ہیں کہ وہ ذہنی مریض ہے لہٰذا اس کے بیانات کی کوئی اہمیت نہیں۔