وہ میرا یار
عطاء الحق قاسمی سے میرے تین رشتے علاقائی نوعیت کے ہیں اور دنیا میں علاقے اور نسل کا تعصب سب سے گہرا ہوتا ہے۔
عطاء الحق قاسمی صاحب سے میرا تعلق، دوستی اور محبت کا رشتہ چالیس سال سے بھی پرانا ہے۔ ان کے نام کے ساتھ میں نے صاحب کا لفظ حفظ مراتب یا احترام کی وجہ سے نہیں، بلکہ اپنی اور ان کی عمر میں پورے تیرہ سال کے فرق کی وجہ سے لگایا ہے۔ اس لیے کہ اس ساٹھ سالہ زندگی میں وقت نے تھپیڑے مار مار کے ایک حقیقت سے آشنا ضرور کیا ہے کہ ''بزرگی بہ عقل'' نہیں ہوتی بلکہ عقل مندی الٹا ذلت و رسوائی کا باعث بنتی ہے۔ اب رہ گئی ''بزرگی بہ سال''، تو کوشش کرتا ہوں کہ اپنے بڑوں کو عزت دوں کہ کل میں نے بھی بوڑھا ہونا ہے، ورنہ عطاء الحق قاسمی کے تعلق کے چالیس سال جس بے تکلفی، یارانہ پن اور پھکڑ گفتگو سے بھرپور ہیں اگر اس کا علم دنیا والوں کو ہو جائے تو عطاء الحق قاسمی تو شاید بچ نکلے، میں واجب القتل ہو جاؤں گا۔
عطاء الحق قاسمی سے میرے تین رشتے علاقائی نوعیت کے ہیں اور دنیا میں علاقے اور نسل کا تعصب سب سے گہرا ہوتا ہے۔ میرے دادا مولوی خدا بخش مرحوم 1908تک اسی مسجد خیردین امرتسر کے خطیب رہے ہیں جس کی خطابت کی کرسی پر قاسمی صاحب کے والد مولانا بہاؤ الحق قاسمی متمکن رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ نہ میرے دادا اور نہ ہی عطاء الحق قاسمی کے والد عالم بالا میں ہماری کرتوتوں سے خوش ہو رہے ہونگے۔ یہ تو وہ رپورٹس ہیں جو فرشتے ان تک روزانہ پہنچاتے ہیں ورنہ اگر ہم نے ایک دوسرے کی شکایتیں اپنے مرحوم بزرگوں تک پہنچانا شروع کر دیں تو بیشک ہم اپنی حرکتوں میں ایک لفظ بھی مبالغہ نہ کریں ہمیں ننگِ اسلاف کا تمغۂ حسن کارکردگی ضرور مل سکتا ہے۔
دوسرا رشتہ یہ کہ عطاء کے آباؤ اجداد بھی کشمیر کی وادیوں سے اتر کر امرتسر میں آباد ہو گئے تھے جب کہ میرے اجداد تو مسلسل اپنے مرشدوں کے حکم پر دعوتِ دین کی خاطر مختلف علاقوں کی خاک چھانتے کشمیر میں آ کر آباد ہو گئے اور پھر ان کے روحانی پیشواؤں نے انھیں میدانوں کا رخ کرنے کو کہا اور وہ بھی کشمیر سے براستہ سیالکوٹ، مکیریاں، امرتسر میں جا کر آباد ہو گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ عطاء الحق قاسمی ابھی تک نون لیگ کے مقبوضہ کشمیر میں رہائش پذیر ہے اور مجھے وزیرستان کے قبائلیوں کی صحبت میں آزاد کر دیا ہے۔
تیسری نسبت امرتسر ہے جسے ہم دونوں کے گھر والے امبرسر کہتے تھے۔ امبرسر ایسا شہر تھا جس کا طلسم میں نے اپنے گھر میں مدتوں دیکھا ہے۔ ہر کوئی اس جادو میں گرفتار۔ طلسم ہوشربا کی طرح ہمارے گھر میں اس شہر کی داستانیں سنائی جاتی تھیں۔ میرے والد تو گجرات سے لاہور آتے تو مجھے کھانا بھی اسی ہوٹل میں کھلاتے جس پر امرتسری دال چاول یا امرتسری ہریسہ لکھا ہوتا۔
یوں تو یہ تین تعلق ہی کسی شخص سے اپنا رشتہ جوڑنے کے لیے کافی ہیں بلکہ آج کے دور میں تو ''کشمیر'' کا تعلق ہی اتنا مضبوط ہے کہ باقی کسی بھی رشتے کا ذکر کرنا کفران نعمت بلکہ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہو گا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان دنوں کشمیریوں کے چراغِ رخ زیبا بھی گلی گلی عشاق کی تلاش میں سرگرداں پھر رہے ہیں۔ لیکن میرے ان رشتوں کا ذکر تک بھی کبھی میری اور عطاء الحق قاسمی کی دوستی کے چالیس سالوں میں نہیں آیا۔
مجھے تو اس دوستی کا وہ پہلا دن بھی یاد ہے جب 1972میں گجرات کے حلقۂ ارباب ذوق کے تحت عطاء الحق قاسمی کے ساتھ شام منانے کا اہتمام کیا گیا تو لاہور سے سواریوں والی بس میں ایک قافلہ گجرات آیا جس کی سرکردگی احمد ندیم قاسمی کر رہے تھے اور ان میں خالد احمد، گلزار وفا چوہدری اور دیگر کے ساتھ ساتھ امجد اسلام امجد بھی موجود تھے۔ میں نے امجد اسلام امجد کا نام اس لیے علیحدگی کے ساتھ لیا ہے کہ عطاء الحق قاسمی اور امجد اسلام امجد کی دوستی ان دنوں اتنی گاڑھی تھی کہ اسے آسانی سے شک کی نگاہ سے دیکھا جا سکتا تھا۔
یونان کے فلسفوں کے دور میں ہوتے تو شہر والے ان کے مجسمے بنا کر چوراہوں میں نصب کرتے اور بعد میں آنے والے فرائیڈ جیسے نفسیات دان اور جنسی مریض اس پاکیزہ دوستی سے بھی بے ہودہ نفسیاتی تھیوریاں نکال لیتے۔ امجد اسلام امجد نے جو مضمون گجرات میں عطاء کی شان میں پڑھا اس سے میں اس کے جس پہلو سے متاثر ہوا وہ لطیفہ بازی تھی۔ یوں میرا عطاء الحق قاسمی اور امجد اسلام امجد سے لطیفے بازی کا ایک ایسا رشتہ استوار ہوا جو شاعری سے زیادہ مستحکم اور دیرپا تھا۔
شاعری بھی اپنی بے نیازی میں خدائی صفت سے ہم آہنگ ہے۔ کتنے گمنام چلے جاتے ہیں اور کئی ہیں کہ مقبولیت ان کے دروازے سے ہٹتی ہی نہیں لیکن شاعری جس قدر عطاء الحق قاسمی کو راس آئی ہے ولی دکنی سے لے کر آیندہ آنے والی کئی صدیوں تک شاید کسی اور کو راس آئے۔ میر تقی میر تو ''اپنا دیواں بغل میں داب کے میرؔ'' کی دہائی دیتے رہے لیکن لکھنؤ سے دلی اور دلی سے لکھنؤ سے آگے کہیں اور نہ جا سکے لیکن عطاء الحق قاسمی نے جو دیوان بغل میں دابا تو پھر اس چھوٹی سی دنیا جسے کرۂ ارض کہتے ہیں اس کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں اردو سمجھنے والے بستے ہوں اور عطاء الحق قاسمی نے وہاں شعر نہ سنائے ہوں بلکہ یہ کرۂ ارض چھوٹا پڑ گیا اور اسے ایک ہی شہر میں بار بار اور صد بار جانا پڑا۔
اس قدر مختصر دیوان کی یہ معجزاتی کرامت شاید ہی کسی اور شاعر کو میسر آئی ہو۔ یوں لگتا ہے یہ دیوان نہیں ایک طلسماتی قالین ہے جس پر بیٹھ کر عطاء دنیا جہان میں گھوم آیا ہے۔ میرا اس سے تعلق مشاعروں کے حوالے سے بھی رہا ہے۔ وہ زمانہ تھا جب شاعری ہی میرا اوڑھنا بچھونا تھی۔
ہم نے ایک ساتھ کئی مشاعرے پڑھے اور پرانے ڈپٹی کمشنروں کی طرح میں نے کئی مشاعرے کروائے بھی لیکن اگر سچ بتاؤں تو اس سارے تعلق میں مشاعرے کے دوران پڑھی جانے والی شاعری کی حیثیت اسٹیج کی چند منٹ کی زبردستی کے سوا کچھ نہ تھی جب کہ مشاعرے سے پہلے اور اس کے بعد کی طویل نشستیں اور مشاعرے کے دوران بزرگ ترین شعرائے کرام اور نوآموز شعرأ کی اسٹیج پر کارکردگیاں ایک تفننِ طبع کا باعث بنتیں۔
ان حرکتوں سے عطاء الحق قاسمی کے فقرے پھوٹتے، لطیفے جنم لیتے اور ضبط کے عالم کی وہ ہنسی جو اسٹیج پر بمشکل چھپائی جا سکتی، آج بھی یادوں کے دریچوں سے جھانکتی ہے تو بے اختیار مسکرا اٹھتا ہوں بلکہ اردگرد دیکھے بغیر زوردار قہقہہ لگا دیتا ہوں۔ کیسا تعلق ہے کہ اگر محفل میں یاد آ جائے اور آدمی بے اختیار ہو جائے تو لوگ پکارنے لگیں ''پاگل ای اوئے''۔
میں سوچ رہا ہوں کہ میں ایک سنجیدہ سی تحریر لکھنے والا ہوں۔ اس لہجے میں کیوں لکھے جا رہا ہوں کہ جس طرز تحریر میں عطاء الحق قاسمی نے اپنا سکہ کئی دہائیوں سے منوا رکھا ہے۔ میں کوشش بھی کروں تو ان کی مزاحیہ تحریر جیسی ایک تحریر بھی نہ لکھ سکوں، حالانکہ میں انھیں بار بار پڑھ چکا ہوں اور لوگ کہتے ہیں کہ کسی کی تحریر پڑھنے سے اور بار بار پڑھنے سے آدمی ویسا ہی اسلوب اپنانے کے قابل ہو جاتا ہے لیکن میں جب بھی ان کے مزاح، سفرنامے یا ڈرامے پڑھتا ہوں تو ہر دفعہ ایک قسم کے احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہوں کہ یہ لکھتے لکھتے آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن ایسی تحریر نہیں لکھ پاتا۔
ہر بار انھیں پڑھنے پر اپنی کمزوری اور کمتری کا احساس مزید شدید ہو جاتا ہے۔ میں عموماً تقریبات میں فی البدیہہ گفتگو کرتا ہوں لیکن عطاء الحق قاسمی کے معاملے میں یہ تحریر اس لیے لکھی کہ احتیاط بہت ضروری تھی، کہیں ایسا نہ ہو جاتا کہ جوشِ خطابت میں کوئی ایسی بات منہ سے نکل جاتی اور اگلے دن اخبارات میں ہم دونوں قابل گردن زدنی قرار پاتے۔ ایسا دور تو ہم نے سوچا تک نہ تھا۔
کیسے کیسے اختلافات ہوتے تھے، ایک دوسرے کے نظریات کی بیخ کنی کرنے کے لیے دنیا جہان کا علم اکٹھا کیا جاتا تھا۔ بحثوں کا وہ عالم کہ یوں لگتا تھا ابھی پستول نکل آئیں گے لیکن اچانک پاک ٹی ہاؤس کی میز پر بیٹھے ہوئے کسی ایک شدید بحث کرنے والے شخص کی آواز گونجتی ''یار سنو! میں اس نکتے کا جواب تمہیں بعد میں دوں گا، پہلے یہ بتاؤ تمہارے کپ میں چینی کتنی ڈالوں۔''
(عطاء الحق قاسمی کی 72 ویں سالگرہ کی تقریب منعقدہ الحمراء حال میں پڑھا گیا)
عطاء الحق قاسمی سے میرے تین رشتے علاقائی نوعیت کے ہیں اور دنیا میں علاقے اور نسل کا تعصب سب سے گہرا ہوتا ہے۔ میرے دادا مولوی خدا بخش مرحوم 1908تک اسی مسجد خیردین امرتسر کے خطیب رہے ہیں جس کی خطابت کی کرسی پر قاسمی صاحب کے والد مولانا بہاؤ الحق قاسمی متمکن رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ نہ میرے دادا اور نہ ہی عطاء الحق قاسمی کے والد عالم بالا میں ہماری کرتوتوں سے خوش ہو رہے ہونگے۔ یہ تو وہ رپورٹس ہیں جو فرشتے ان تک روزانہ پہنچاتے ہیں ورنہ اگر ہم نے ایک دوسرے کی شکایتیں اپنے مرحوم بزرگوں تک پہنچانا شروع کر دیں تو بیشک ہم اپنی حرکتوں میں ایک لفظ بھی مبالغہ نہ کریں ہمیں ننگِ اسلاف کا تمغۂ حسن کارکردگی ضرور مل سکتا ہے۔
دوسرا رشتہ یہ کہ عطاء کے آباؤ اجداد بھی کشمیر کی وادیوں سے اتر کر امرتسر میں آباد ہو گئے تھے جب کہ میرے اجداد تو مسلسل اپنے مرشدوں کے حکم پر دعوتِ دین کی خاطر مختلف علاقوں کی خاک چھانتے کشمیر میں آ کر آباد ہو گئے اور پھر ان کے روحانی پیشواؤں نے انھیں میدانوں کا رخ کرنے کو کہا اور وہ بھی کشمیر سے براستہ سیالکوٹ، مکیریاں، امرتسر میں جا کر آباد ہو گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ عطاء الحق قاسمی ابھی تک نون لیگ کے مقبوضہ کشمیر میں رہائش پذیر ہے اور مجھے وزیرستان کے قبائلیوں کی صحبت میں آزاد کر دیا ہے۔
تیسری نسبت امرتسر ہے جسے ہم دونوں کے گھر والے امبرسر کہتے تھے۔ امبرسر ایسا شہر تھا جس کا طلسم میں نے اپنے گھر میں مدتوں دیکھا ہے۔ ہر کوئی اس جادو میں گرفتار۔ طلسم ہوشربا کی طرح ہمارے گھر میں اس شہر کی داستانیں سنائی جاتی تھیں۔ میرے والد تو گجرات سے لاہور آتے تو مجھے کھانا بھی اسی ہوٹل میں کھلاتے جس پر امرتسری دال چاول یا امرتسری ہریسہ لکھا ہوتا۔
یوں تو یہ تین تعلق ہی کسی شخص سے اپنا رشتہ جوڑنے کے لیے کافی ہیں بلکہ آج کے دور میں تو ''کشمیر'' کا تعلق ہی اتنا مضبوط ہے کہ باقی کسی بھی رشتے کا ذکر کرنا کفران نعمت بلکہ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہو گا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان دنوں کشمیریوں کے چراغِ رخ زیبا بھی گلی گلی عشاق کی تلاش میں سرگرداں پھر رہے ہیں۔ لیکن میرے ان رشتوں کا ذکر تک بھی کبھی میری اور عطاء الحق قاسمی کی دوستی کے چالیس سالوں میں نہیں آیا۔
مجھے تو اس دوستی کا وہ پہلا دن بھی یاد ہے جب 1972میں گجرات کے حلقۂ ارباب ذوق کے تحت عطاء الحق قاسمی کے ساتھ شام منانے کا اہتمام کیا گیا تو لاہور سے سواریوں والی بس میں ایک قافلہ گجرات آیا جس کی سرکردگی احمد ندیم قاسمی کر رہے تھے اور ان میں خالد احمد، گلزار وفا چوہدری اور دیگر کے ساتھ ساتھ امجد اسلام امجد بھی موجود تھے۔ میں نے امجد اسلام امجد کا نام اس لیے علیحدگی کے ساتھ لیا ہے کہ عطاء الحق قاسمی اور امجد اسلام امجد کی دوستی ان دنوں اتنی گاڑھی تھی کہ اسے آسانی سے شک کی نگاہ سے دیکھا جا سکتا تھا۔
یونان کے فلسفوں کے دور میں ہوتے تو شہر والے ان کے مجسمے بنا کر چوراہوں میں نصب کرتے اور بعد میں آنے والے فرائیڈ جیسے نفسیات دان اور جنسی مریض اس پاکیزہ دوستی سے بھی بے ہودہ نفسیاتی تھیوریاں نکال لیتے۔ امجد اسلام امجد نے جو مضمون گجرات میں عطاء کی شان میں پڑھا اس سے میں اس کے جس پہلو سے متاثر ہوا وہ لطیفہ بازی تھی۔ یوں میرا عطاء الحق قاسمی اور امجد اسلام امجد سے لطیفے بازی کا ایک ایسا رشتہ استوار ہوا جو شاعری سے زیادہ مستحکم اور دیرپا تھا۔
شاعری بھی اپنی بے نیازی میں خدائی صفت سے ہم آہنگ ہے۔ کتنے گمنام چلے جاتے ہیں اور کئی ہیں کہ مقبولیت ان کے دروازے سے ہٹتی ہی نہیں لیکن شاعری جس قدر عطاء الحق قاسمی کو راس آئی ہے ولی دکنی سے لے کر آیندہ آنے والی کئی صدیوں تک شاید کسی اور کو راس آئے۔ میر تقی میر تو ''اپنا دیواں بغل میں داب کے میرؔ'' کی دہائی دیتے رہے لیکن لکھنؤ سے دلی اور دلی سے لکھنؤ سے آگے کہیں اور نہ جا سکے لیکن عطاء الحق قاسمی نے جو دیوان بغل میں دابا تو پھر اس چھوٹی سی دنیا جسے کرۂ ارض کہتے ہیں اس کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں اردو سمجھنے والے بستے ہوں اور عطاء الحق قاسمی نے وہاں شعر نہ سنائے ہوں بلکہ یہ کرۂ ارض چھوٹا پڑ گیا اور اسے ایک ہی شہر میں بار بار اور صد بار جانا پڑا۔
اس قدر مختصر دیوان کی یہ معجزاتی کرامت شاید ہی کسی اور شاعر کو میسر آئی ہو۔ یوں لگتا ہے یہ دیوان نہیں ایک طلسماتی قالین ہے جس پر بیٹھ کر عطاء دنیا جہان میں گھوم آیا ہے۔ میرا اس سے تعلق مشاعروں کے حوالے سے بھی رہا ہے۔ وہ زمانہ تھا جب شاعری ہی میرا اوڑھنا بچھونا تھی۔
ہم نے ایک ساتھ کئی مشاعرے پڑھے اور پرانے ڈپٹی کمشنروں کی طرح میں نے کئی مشاعرے کروائے بھی لیکن اگر سچ بتاؤں تو اس سارے تعلق میں مشاعرے کے دوران پڑھی جانے والی شاعری کی حیثیت اسٹیج کی چند منٹ کی زبردستی کے سوا کچھ نہ تھی جب کہ مشاعرے سے پہلے اور اس کے بعد کی طویل نشستیں اور مشاعرے کے دوران بزرگ ترین شعرائے کرام اور نوآموز شعرأ کی اسٹیج پر کارکردگیاں ایک تفننِ طبع کا باعث بنتیں۔
ان حرکتوں سے عطاء الحق قاسمی کے فقرے پھوٹتے، لطیفے جنم لیتے اور ضبط کے عالم کی وہ ہنسی جو اسٹیج پر بمشکل چھپائی جا سکتی، آج بھی یادوں کے دریچوں سے جھانکتی ہے تو بے اختیار مسکرا اٹھتا ہوں بلکہ اردگرد دیکھے بغیر زوردار قہقہہ لگا دیتا ہوں۔ کیسا تعلق ہے کہ اگر محفل میں یاد آ جائے اور آدمی بے اختیار ہو جائے تو لوگ پکارنے لگیں ''پاگل ای اوئے''۔
میں سوچ رہا ہوں کہ میں ایک سنجیدہ سی تحریر لکھنے والا ہوں۔ اس لہجے میں کیوں لکھے جا رہا ہوں کہ جس طرز تحریر میں عطاء الحق قاسمی نے اپنا سکہ کئی دہائیوں سے منوا رکھا ہے۔ میں کوشش بھی کروں تو ان کی مزاحیہ تحریر جیسی ایک تحریر بھی نہ لکھ سکوں، حالانکہ میں انھیں بار بار پڑھ چکا ہوں اور لوگ کہتے ہیں کہ کسی کی تحریر پڑھنے سے اور بار بار پڑھنے سے آدمی ویسا ہی اسلوب اپنانے کے قابل ہو جاتا ہے لیکن میں جب بھی ان کے مزاح، سفرنامے یا ڈرامے پڑھتا ہوں تو ہر دفعہ ایک قسم کے احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہوں کہ یہ لکھتے لکھتے آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن ایسی تحریر نہیں لکھ پاتا۔
ہر بار انھیں پڑھنے پر اپنی کمزوری اور کمتری کا احساس مزید شدید ہو جاتا ہے۔ میں عموماً تقریبات میں فی البدیہہ گفتگو کرتا ہوں لیکن عطاء الحق قاسمی کے معاملے میں یہ تحریر اس لیے لکھی کہ احتیاط بہت ضروری تھی، کہیں ایسا نہ ہو جاتا کہ جوشِ خطابت میں کوئی ایسی بات منہ سے نکل جاتی اور اگلے دن اخبارات میں ہم دونوں قابل گردن زدنی قرار پاتے۔ ایسا دور تو ہم نے سوچا تک نہ تھا۔
کیسے کیسے اختلافات ہوتے تھے، ایک دوسرے کے نظریات کی بیخ کنی کرنے کے لیے دنیا جہان کا علم اکٹھا کیا جاتا تھا۔ بحثوں کا وہ عالم کہ یوں لگتا تھا ابھی پستول نکل آئیں گے لیکن اچانک پاک ٹی ہاؤس کی میز پر بیٹھے ہوئے کسی ایک شدید بحث کرنے والے شخص کی آواز گونجتی ''یار سنو! میں اس نکتے کا جواب تمہیں بعد میں دوں گا، پہلے یہ بتاؤ تمہارے کپ میں چینی کتنی ڈالوں۔''
(عطاء الحق قاسمی کی 72 ویں سالگرہ کی تقریب منعقدہ الحمراء حال میں پڑھا گیا)