چائے کی پیالی میں طوفان
حقیقت تو یہ ہے کہ کانگریس کے دور حکومت میں سیکولرازم کو بہت نقصان پہنچا کیونکہ کانگریس اپنے اصل راستے سے بھٹک چکی تھی۔
وزیراعظم اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کے دوران اپنی آمرانہ حکومت میں جو صرف ایک ہی اچھا کام کیا تھا وہ یہ تھا کہ آئین کے دیباچے میں سیکولرازم اور سوشلزم کے الفاظ شامل کرا دیے۔ مسز گاندھی کے بعد مرار جی ڈیسائی نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا جنہوں نے آئین میں کی جانے والی تمام تبدیلیاں منسوخ کر دیں لیکن دیباچے کی ترمیم قائم رہنے دی۔
جن سنگھ بی جے پی کی ابتدائی شکل تھی جو جنتا پارٹی میں ضم ہو گئی۔ ایل کے ایڈوانی اور اٹل بہاری واجپائی جو جن سنگھ کے چوٹی کے لیڈر تھے انھوں نے جنتا پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ یہ بڑے پر جوش لیڈر تھے جو آئین کے دیباچے میں سیکولرازم اور سوشلزم کے الفاظ قائم رکھنا چاہتے تھے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اب وزارت اطلاعات و نشریات نے جو سرکاری اشتہار جاری کیا ہے اس میں یہ دونوں الفاظ نہیں ہیں لیکن ممکن ہے کہ حکومت کی حقیقی منشا یہ نہ ہو کیونکہ وزارت نے اپنی غلطی تسلیم کرلی ہے۔ لہٰذا اس معاملے کو وہیں ختم ہو جانا چاہیے۔ لیکن جس صورت حال نے اس تنازعے کو زندہ رکھا ہے اس کی وجہ بی جے پی کے سربراہ امیت شاہ ہیں۔
انھوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ آئین کا پرانا دیباچہ ہی اصلی تھا۔ تاہم اطلاعات اور نشریات کے وزیر ارون جیٹلے نے کہا کہ دیباچے کی نئی طباعت میں سوشلزم اور سیکولرازم کے الفاظ شامل نہیں تھے۔ اس الجھائو کو وزیر قانون و انصاف روی شنکر پرشاد نے یہ کہہ کر مزید گنجلک بنا دیا ہے کہ سیکولرازم اور سوشلزم کے الفاظ کا حذف کیا جانا دراصل اس معاملے پر ایک نئی بحث شروع کرنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ لیکن یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ وزیر قانون آئین کے تقدس کا احساس رکھے بغیر اس قسم کی بات کر رہے ہیں حالانکہ اس قسم کے آزاد خیال شخص کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ یہ سب نہایت قابل مذمت ہے کیونکہ اس معاملے پر پہلے ہی مکمل بحث ہو چکی تھی جس کے بعد یہ دو الفاظ دیباچے میں شامل کیے گئے۔
اس سارے معاملے سے صرف ایک ہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ آر ایس ایس (راشٹریہ سیوک سنگھ) جو بی جے پی کی رہنمائی کرتی ہے وہ چاہتی ہے کہ سیکولرازم اور سوشلزم کے الفاظ خارج کر دیے جائیں اور دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس معاملے پر ملک بھر میں شور و غوغا ہو رہا ہے مگر بی جے پی نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ شاید وزیراعظم نریندر مودی نے، جو برسرعام تو خاموش رہے ہیں، پارٹی کو یہ تلقین کی ہو کہ ملک اس وقت سیکولرازم اور سوشلزم کے الفاظ نکالنے پر تیار نہیں۔ آر ایس ایس نے غالباً اس کو اپنی شکست نہیں بلکہ وقتی مراجعت سمجھا ہے اور وہ حالات کو سازگار دیکھ کر پھر اپنے ایجنڈے کے ساتھ واپس آ جائے گی۔
یہ درست ہے کہ کانگریس کی مقبولیت میں کمی کے باعث جو کہ نظریاتی طور پر سیکولر جماعت ہے سیکولرازم پر بہت منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں لیکن اس پارٹی کا عمل اور اس کے نظریات آپس میں میل نہیں کھاتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کانگریس کے دور حکومت میں سیکولرازم کو بہت نقصان پہنچا کیونکہ کانگریس اپنے اصل راستے سے بھٹک چکی تھی۔ یہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے اسقدر بیتاب تھی کہ اس نے اپنے نظریات کو پس پشت ڈال دیا۔
کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے پارٹی کے نظریات پر قائم رہنے کے عزم کا اظہار کیا تھا جس پر کوئی شک و شبہ نہیں تھا اور نہ ہی ان کے بیٹے راہول گاندھی پر کوئی شک تھا لیکن بہت سے ریاستی لیڈر ایسے ہیں جو تقسیم در تقسیم کا راستہ اختیار کرنے سے ذرہ بھر نہیں ہچکچاتے کیونکہ ان کا مقصد صرف ووٹ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ سونیا خود مبینہ طور پر اس بات پر ناخوش ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتیں کیونکہ ان لوگوں کے پارٹی سے بے دخل کیے جانے پر پارٹی کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
کانگریس اس وقت زمینی حقائق کا جائزہ لے رہی ہے اور اس کے لیڈر آنند شرما کے مطابق مارچ تک ان کی پارٹی رپورٹ تیار کر لے گی لیکن جس بات کا اسے احساس نہیں کہ اس نے اپنے کارکنوں سے رابطہ کھو دیا ہے اور وہ مایوسی کا شکار ہو گئے ہیں کیونکہ کانگریس نے بھی ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنے کی خاطر سیکولرازم اور سوشلزم کا وعدہ فراموش کر رکھا ہے۔
مہاتما گاندھی اب بھی عظمت کی علامت ہیں لیکن اس پارٹی میں ایسے عناصر داخل ہو گئے ہیں جو مہاتما گاندھی کو گولی مار کر ہلاک کرنے والے نتھو رام گوڈسے کو خراج عقیدت پیش کرنے کی خاطر اس کی یادگار قائم کرنا چاہتے ہیں۔
گوڈسے کا نام ماضی قریب میں کسی کو یاد نہیں تھا لیکن کچھ روز پہلے راجھستان کے علاقے الوانہ کے ایک انڈرپاس کو گوڈسے کے نام سے موسوم کر دیا گیا ہے۔ کانگریس اور دوسری سیکولر تنظیموں کو جن میں کہ بائیں بازو کی پارٹیاں بھی شامل ہیں انھیں اب اپنے اعمال کا تجزیہ کرنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ اپنے پروگرام پر کس انداز سے عمل درآمد کر رہی ہیں کیونکہ گوڈسے بھی ہندو توا کے نظریے کی نمایندگی کر رہا تھا جب کہ مہاتما گاندھی اس کے حد سے زیادہ خلاف تھے۔
جواہر لعل نہرو کی زندگی میں سوشلزم کی شکل قدرے تبدیل ہو گئی تھی کیونکہ نہرو نے محسوس کیا تھا کہ اس نظریے پر حرف بحرف عمل کرنا مشکل ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ نظریہ اس حد تک تحلیل ہو گیا کہ سرکاری شعبے نے بھی اپنے وعدے فراموش کر دیے۔ گزشتہ سالوں کے دوران مختلف سیاسی پارٹیوں کی طرف سے نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے کیونکہ صنعت کار انتخابات کے لیے پیسے دیتے ہیں اور یہ کام اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا جب تک کہ انقلابی نوعیت کی انتخابی اصلاحات نہ کی جائیں تا کہ انتخابات میں دولت کا عمل دخل کم کیا جا سکے۔
جہاں تک عوامی بہبود کا تعلق ہے تو اس کا انحصار سوشلزم نافذ کرنے پر نہیں بلکہ معاشرے میں مساوات نافذ کرنے پر ہے۔ اگر صنعتوں اور کاروبار کو وسعت ملے گی تو اس سے دولت میں اضافہ ہو گا لیکن سیاست دانوں اور افسر شاہی کا گٹھ جوڑ زیادہ تیز رفتاری سے تعمیر و ترقی نہیں چاہتا۔ سرخ فیتے کے علاوہ قدم قدم پر رشوت اس قوت کو بے اثر بنا دیتی ہے جس کی مدد سے معاشرہ ترقی کر سکتا ہے۔
ہمارے ملک کا اصل مسئلہ فرقہ واریت ہے۔ قوم کے سخت ردعمل نے ''گھر واپسی'' کی تحریک کو روک دیا ہے۔ عیسائی اب بھی ہدف بنے ہوئے ہیں لیکن ان کی تعداد کم ہے جن کی انتخابی سیاست میں کوئی خاص اہمیت نہیں ورنہ بی جے پی حکومت کرسمس کی تقریب کو ''گڈ گورننس ڈے'' میں تبدیل کرنے کی جرأت نہیں کر سکتی تھی۔ دہلی کے آرچ بشپ نے کہا ہے کہ ایسے اقدامات نفرت پھیلانے کی مہم کا حصہ ہیں۔
مسلمانوں کو، جن کی تعداد ملک میں 15% کے قریب ہے، اپنا جائز حصہ نہیں ملا، خاص طور پر ملازمتوں میں۔ لیکن وہ خود کو دیوار کے ساتھ لگانے کی کوششوں کا بخوبی مقابلہ کر رہے ہیں۔ ان کے ووٹ ان کی اہمیت کا باعث ہیں۔ اگر وہ اکبرالدین اویسی کے دام میں پھنسنے سے بچ جائیں جو کہ مسلمانوں کو مذہب کے نام پر متوجہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ سیکولرازم اپنی جگہ پکڑنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
قوم کو اس معاملے پر بڑی سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا کہ وہ فرقہ واریت سے کس طرح بچ سکتی ہے جو کہ تحریک آزادی کے دوران کیے گئے وعدوں سے انحراف ہے۔ آج ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو مولانا ابوالکلام آزاد اور خان عبدالغفار خان کا نام جانتے ہیں جنھیں سرحدی گاندھی بھی کہا جاتا تھا۔ وہ مسلم لیگ کی تحریک کے دوران بڑی جرأت سے کھڑے ہوئے تھے۔ وہ بصیرت افروز لوگ تھے۔ موجودہ لیڈروں جیسے نہیں تھے اور بھارت کو کثیر الثقافتی اور کثیر المذہبی معاشرہ بنانا چاہتے تھے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)