دوسرا سانحہ پشاور
پاکستان میں اس قسم کے المیوں کی اہمیت اس لیے نہیں رہی کہ یہ ہماری زندگی کا حصہ بن گئے ہیں۔
KARACHI:
شکارپور کی امام بارگاہ کربلا معلی میں لگ بھگ 600 نمازی جمعے کا خطبہ سن رہے تھے کہ خودکش دھماکا کر دیا گیا، اس خوفناک دھماکے سے 40 نمازی موقعے پر ہی اور 18 اسپتالوں میں طبی امداد حاصل کرتے ہوئے جاں بحق ہو گئے۔ ان شہدا میں 5 بچے بھی شامل تھے۔
16/12 کے سانحہ پشاور کے بعد یہ دوسرا بڑا سانحہ ہے جس میں 58 افراد جاں بحق اور 55 زخمی ہو گئے۔ ملک کے حکمرانوں، اپوزیشن اور مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے روایت کے مطابق مذمتی بیانات میڈیا میں آئے اور روایت ہی کے مطابق سانحے کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا۔ شیعہ تنظیموں کی جانب سے اس سانحے کے خلاف تین روزہ اور حکومت کی جانب سے ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا۔
سوگ کے بعد عوام اس سانحے کو بھلا دیں گے اور اپنی زندگی کی مصروفیات میں الجھ جائیں گے۔ پاکستان میں اس قسم کے المیوں کی اہمیت اس لیے نہیں رہی کہ یہ ہماری زندگی کا حصہ بن گئے ہیں۔ ہمارے حکام بالا اور سیاستدان بار بار یہ اعلان فرما رہے ہیں کہ ''ہم حالت جنگ میں ہیں'' اور جو ملک جو قومیں حالت جنگ میں ہوتی ہیں وہ جنگ کے خاتمے تک ہائی الرٹ رہتی ہیں جس کی وجہ سے مجرموں کو مزید کارروائیوں میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں عموماً دو تین دن تک ہائی الرٹ کی کیفیت رہتی ہے پھر زندگی نارمل ہو جاتی ہے۔
شکارپور کی امام بارگاہ میں سیکیورٹی کا انتظام تھا؟ اگر تھا تو خودکش حملہ آور امام بارگاہ میں داخل ہونے میں کس طرح کامیاب ہو گیا؟ اگر سیکیورٹی نہیں تھی تو اس غفلت کی ذمے داری کس پر عائد ہو گی؟ ان سوالوں کے جواب اس لیے ضروری ہیں کہ دہشت گردی کے وقفے وقفے سے پیش آنے والے واقعات کا براہ راست ہمارے حفاظتی انتظامات سے ہے اگر حفاظتی انتظامات ناقص رہیں گے تو 16/12 اور 30/1 بار بار پیش آتے رہیں گے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ جب یہ تسلیم کر رہا ہے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں تو پھر احتیاطی تدابیر کیوں نہیں کی جا رہی ہیں؟
چونکہ دہشت گردی ہماری زندگی کا ایک المناک حصہ بن کر رہ گئی ہے اور ''حالت جنگ'' غیر معینہ مدت تک برقرار رہنے کے آثار ہیں تو پھر ہمیں اسی تناظر میں اپنی تیاریاں اور امدادی سرگرمیوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ دہشت گردی میں جاں بحق ہونے والوں کے ورثا میں بچے بھی شامل ہوتے ہیں جو اپنے سرپرستوں کے بچھڑ جانے سے کئی نفسیاتی اور مالی مسائل سے دو چار ہو جاتے ہیں۔
اگر جاں بحق ہونے والوں کے بچے زیر تعلیم ہوں تو سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ان بچوں کی تعلیم کو جاری رکھنے کا اہتمام کیا جائے۔ دوئم جاں بحق ہونے والے کے خاندان میں سے کسی ایک فرد کو بلاتاخیر ملازمت فراہم کی جائے یہ کام جنگی بنیادوں پر ہی ہونا چاہیے کیوں کہ ہم بہر حال حالت جنگ میں ہیں۔ ورثاء میں سے کسی ایک وارث کو ملازمت کی فراہمی کے لیے نجی اور سرکاری اداروں میں کوٹہ مقرر ہونا چاہیے تا کہ ورثا کے گزر بسر اور بچوں کی تعلیم میں خلل نہ پڑ سکے۔
دہشت گردی کے اصل اہداف میں ایک اہم ہدف فرقہ واردیت ہے۔ اس کا گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے باضابطہ اس حقیقت کی نشان دہی کی جا رہی ہے کہ بعض مسلم اور مغربی ملکوں کی طرف سے سرپرستی اور بڑے پیمانے پر فنڈنگ کی جا رہی ہے اور اگر ہم اس جنگ کے پھیلائو نظم وضبط وغیرہ پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جنگ لڑنے والے بھاری سرمائے کے بغیر یہ جنگ نہیں لڑ سکتے۔
باہر کے ملک میں دو مسلم ملک سر فہرست ہیں، اس امداد کو ہر حال میں رکوانا ضروری ہے۔ فرقہ واریت کے اسباب و محرکات کے علاوہ اس کی سرپرستی کے مقاصد کا گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے او آئی سی کی خدمات بھی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ لیکن اس مسئلے کے حل کے لیے دنیا بھر کے ان مذہبی اسکالرز کی خدمات حاصل کرنا ضروری ہے جو جدید دنیا کے تقاضوں کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔
ہماری روایتی مذہبی قیادت نہ صرف جدید علوم جدید دنیا کے تقاضوں سے ناواقف ہے بلکہ ان طاقتوں کے ہاتھوں کا کھلونا بنی ہوئی ہے جو مسلک کے نام پر مسلم امہ کی یکجہتی کے دشمن ہیں ، ایک واضح مثال یہ ہے کہ دہشت گردوں کا ایک بڑا ہدف بچوں کے اسکول ہیں، بچوں کو تعلیم سے محروم کر کے اور نئی نسلوں کے دلوں میں جدید علوم سے نفرت پیدا کر کے مسلم دنیا کو ترقی سے محروم کرنا سامراجی ملکوں کی ضرورت بن گئی ہے اور اس منصوبے پر عملدرآمد خود مسلمان کر رہے ہیں۔
دہشت گردی کی کامیابی اور پھیلائو کی دو بڑی وجوہات ہیں ایک بے معنی نظریاتی شدت پسندی دوسرے وسائل کی بھرمار۔ خودکش حملوں میں جن معصوم بچوں کو استعمال کیا جا رہا ہے وہ دینی علوم سے تو محروم ہیں لیکن دینی قیادت پر ان کا اعتقاد اس قدر پختہ ہے کہ وہ ان کے حکم پر اپنے جسم کے ساتھ ساتھ سیکڑوں معصوم اور بے گناہ انسانوں کے جسم کے چیتھڑے اڑا دیتے ہیں اس حوالے سے دوسرا محرک دولت ہے۔
دہشت گرد ایسے بیروزگار اور جرائم پیشہ افراد کو اعتماد میں لے کر انھیں قتل و غارت کے لیے بھاری معاوضے کی پیشکش کرتے ہیں اور بے کاری غربت کے مارے ہوئے اور عادی جرائم پیشہ لوگ بھاری معاوضہ پر دھماکے اور سبوتاژ کی دوسری کارروائیاں کرتے ہیں۔
اس بد بختانہ سلسلے کو روکنے کے لیے بیرونی ملکوں سے آنے والے بھاری فنڈنگ کو روکنا ضروری ہے جس کے بارے میں ذمے دار حکمران کہہ رہے ہیں کہ بعض مسلم ملک دہشت گردوں کو بھاری مالی امداد دے رہے ہیں یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے کہ حکمران طبقہ نہ صرف دہشت گردی میں استعمال ہونے والی بیرونی امداد سے واقف ہے بلکہ اسے روکنے کی کوشش کر رہا ہے اگر ہمارے حکمران کسی امتیاز اور تعلقات کی خرابی کو اہمیت نہ دیتے ہوئے بیرونی فنڈنگ روکنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو سانحہ پشاور سانحہ شکار پور جیسے سانحات سے نجات حاصل ہو سکتی ہے۔