رِٹ یا رَٹ

جمہوریت کی رَٹ لگائی جا رہی ہے مگر جمہوریت کی بنیادی رِِٹ پر عمل نہیں۔

anisbaqar@hotmail.com

اردو زبان کا ایک لفظ ہے رَٹ جس کے معنی کسی ایک بات کو بار بار دہرانے کے ہیں ، یعنی کیا رٹ لگا رکھی ہے، جب کہ انگریزی زبان کا ہم آواز دوسرا لفظ زیر کی آواز میں ہے۔ رِٹ (WRIT) مگر اس کے معنی حاکمیت اور عمل داری کے ہیں جو آج کل اردو زبان میں مستعمل ہے۔ اگر آپ غور کریں تو حکومت کی جانب سے حاکمیت بس برائے نام رہ گئی ہے،سرکلر ریلوے لائن پر عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں، امید تھی کہ جاپان کراچی میں سرکلر ریلوے چلائے گا اور عام لوگوں کو سہولت سے سفر کرنا میسر ہوگا، بھلا ایسا کیوں ہو گا۔

سفر کرنے والے جن ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہیں جا بجا نوکیں نکلی ہیں، ٹوٹے شیشے والی بسیں، جا بجا ٹین کی نوکیں نکلے رکشہ جو کپڑے پھاڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، بسوں میں فرنٹ سیٹ لیڈیز کے حصے میں، سی این جی (Front Seat) کا سلنڈر پاؤں پھیلانے کی جگہ نہیں، 2 افراد کی سیٹ پر ڈیڑھ افراد کی گنجائش تا کہ درمیان میں دو لائن لگانے کی جگہ، کنڈیکٹر کے پاس ٹکٹ کا کوئی نظام نہیں۔ بہت عرصہ کی بات نہیں 1970-74 تک کراچی میں بسوں کا کوئی اصول تھا، کنڈیکٹر کے گلے میں ٹکٹ بیگ ہوتا تھا۔

ہر فرد کو ٹکٹ ملتا تھا، بسوں میں صرف دس افراد کھڑے ہو کر سفر کرتے تھے، بس اسٹینڈ پر قطاریں لگتی تھیں، رکشہ کے میٹر ہوتے تھے اور ٹیکسی کے بھی میٹر ہوتے تھے۔ آپ دنیا کے کسی ملک چلے جائیں، بغیر میٹر کے آٹو رکشہ، بسیں، بغیر ٹکٹ کا کوئی تصور نہیں مگر روبہ زوال معاشرت زندگی کے ہر شعبے میں اثر انداز ہے، ابھی پٹرول اور ڈیزل کے نرخ کم ہوئے ہیں مگر کرایوں کی مد میں اگر آپ بیان پڑھیں تو افسوسناک صورت حال ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ کرایوں میں کمی کے امکانات ہیں گویا قوانین اور اصولوں پر عملدرآمد کرانے والا کوئی محکمہ نہیں ہے، کوئی عمل کرانے والا نہیں، جیسے افغانستان کے سیاسی حالات نے جہاں کلاشنکوف کلچر ورثے میں دے دیا ویسے ہی بسوں کا بھی کلچر تحفہ میں عوام کو دے دیا، ابتدا میں تو ان بسوں کی اونچائی بھی بمشکل 4 ½ فٹ ہوتی تھی کہ آدمی سیدھا بس میں کھڑا نہ ہو سکے۔ بقول فیضؔ

چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

مزدوروں کو سفر کرنے کی آسانیاں نہ دی جائیں گی یا طلبا کو اسکول کالج جانے کی آسانیاں نہ ہوں گی، تو پھر ان کی کارکردگی کیا ہو گی؟ مگر حکمرانوں کے بیانات کا اندازہ لگائیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر حکم پر عمل ہو رہا ہے، بس یہی رَٹ کہ رِٹ پر عمل جاری ہے مگر اس کو دیکھنا ہے تو بے عملی کا نمونہ ہر طرف نظر آئے گا۔

چند منٹوں میں پچاس ساٹھ افراد جل کے راکھ کا ڈھیر بن گئے مگر کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں اور کہاں عمل ہوا۔ آپ اگر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اسمبلی کی نشستوں کا عالم یہ ہے کہ کورم پورا نہیں ہوتا، ماسوائے تصادم کی فضا ہو اور نورا کشتی کے نظارے ہوں۔ ملک میں دو انتخابات ہوئے مگر میونسپل الیکشن اس لیے نہ ہونے پائے کہ تقسیم زر کا مسئلہ اور پانی، سڑک اور ترقیاتی منصوبوں پر کس کی دسترس ہو گی۔

آج کے دور میں میونسپل الیکشن نہ ہونا جمہوریت کی کون سی منزل ہے، جمہوریت کی رَٹ لگائی جا رہی ہے مگر جمہوریت کی بنیادی رِِٹ پر عمل نہیں۔ پھر یہی کہنا پڑتا ہے کہ ہر چیز اور ہر عمل کو رٹنا لیڈران کی عادت ہے کیونکہ حکمرانوں کا تجزیہ ہے کہ بار بار دہرانے سے محکوم یہ سمجھتے ہیں کہ واقعی کام ہو رہا ہے، اسی لیے زرداری حکومت لوکل باڈی الیکشن کا ورد کرتی رہی، اس طرح پانچ برس گزر گئے، لوکل باڈی انتخابات نہ ہوئے، یہی ورد (ن) لیگ کا بھی جاری ہے، اس پر عمل درآمد نہ ہوا مگر رَٹ آج بھی جاری ہے۔


آج کل کراچی شہر میں پانی اور بجلی کا ورد جاری ہے، ہائیڈرنٹ مسمار ہوں گے تو عوام کو لائن میں پانی ملے گا، نتیجہ کیا ہوا ہائیڈرنٹ مسمار ہوئے، ٹینکر مافیا جو ٹینکر 3000 کا دیا کرتے تھے اب 7000 میں فروخت کر رہے ہیں جو ٹینکر لوگ مل ملا کر خرید لیا کرتے تھے وہ بھی اب 7000 فی ٹینکر خریدنے کے قابل نہ رہے کیونکہ پانی کے ٹینکر متوسط طبقے کی قوت خرید سے بھی زائد ہو گئے۔ یہاں بھی روزانہ پانی کی عام لوگوں کے لیے دستیابی کی رَٹ ہے مگر رِٹ پر عمل نہیں۔ گویا رِٹ اور رَٹ کا تصادم جاری ہے۔

اب آئیے لیڈر شپ کے مسئلے پر، 1970کی دہائی کے اسٹوڈنٹ لیڈر ابھی تک بعض حلقوں میں لیڈری کر رہے ہیں، یہ ان دنوں کی بات ہے جب طلبا یونین ہوتی تھیں، ان کی کالجوں میں منتخب انجمنیں ہوتی تھیں مگر پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ امید تھی کہ وہ طلبا انجمنیں بحال کریں گے، وزیراعظم گیلانی سے توقع تھی، کئی بار برسر اقتدار اور نجی محفلوں میں انھوں نے عندیہ دیا تھا۔ مگر برسر اقتدار آنے کے بعد یہ امید بھی جاتی رہی اور عوام کی امیدیں خاک میں مل گئیں۔

اب تو کسی بھی پارٹی کی لیڈر شپ یہ نہیں کہتی کہ اسٹوڈنٹس یونین بحال کرو کیونکہ نوجوان کسی بھی پارٹی کا ہو عام طور پر پرجوش اور دیانت دار ہوتا ہے اور اپنے منشور اور پارٹی کے نظریات پر نہ صرف عمل کرتا ہے بلکہ عمل کرواتا ہے اور جمہوری روایات کو آگے بڑھاتا ہے، جب کالجوں میں الیکشن ہوتے ہیں تو طلبا کو مباحثوں اور مباحثوں کی روایت سے دلچسپی ہوتی ہے اور تکلم میں قوت برداشت کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے۔

سیاست کے علاوہ فنون لطیفہ کی مختلف شاخیں بھی ان طلبا انجمنوں سے پیدا ہوتی ہیں، پی ٹی وی کی فنکارانہ صلاحیتیں بھی اکثر و بیشتر ان طلبا یونینوں کی مرہون منت ہیں، لیڈرشپ تو ایک براہ راست اس انجمن کا عطیہ ہے، گزشتہ کئی برس سے طلبا لیڈر شپ سامنے ہی نہیں آ رہی ہے۔ طلبا انجمنیں تو موجود ہیں مگر تعلیمی اداروں میں لیڈر شپ پروان نہیں چڑھ رہی ہے اور غیر نصابی تعلیمی سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں۔ جن طلبا کو ان سرگرمیوں میں دلچسپی ہے وہ مختلف ثقافتی انجمنوں آرٹس کونسلوں میں سرگرم ہیں، مگر نیم سیاسی تربیت کہیں پر موجود نہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ خاندانی سیاست اور جمہوریت فروغ پا رہی ہے۔

ایک دور تھا جب 1952 سے لے کر 1972 تک مسلسل طلبا تحریکیں ملک کو قیادت دیتی رہیں مگر جب سے طلبا تحریک پر قدغن لگائی گئی ہے ملک کو تحریک کے لیے نیا ایندھن میسر نہیں اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ حکومت کا یہ فیصلہ دانش مندی کا ہے تو پھر اس دوران طلبا میں مثبت اثرات موجود ہوتے اور طلبا تنظیموں میں آپس میں دراندازی ختم ہو چکی ہوتی۔غریب غریب کی صدا ہر سیاسی آستانے سے آتی ہے، روٹی کپڑا اور مکان، جمہوریت کی باتیں، مگر جمہوریت پر عملدرآمد اس کے بنیادی اصولوں پر عمل پیرا ہونا! ہرگز نہیں۔

البتہ غریب غریب کی رٹ لگانا پاکستانی لیڈروں کی فریب کاری ہے وہ طلبا اداروں میں کبھی بھی طلبا انجمنیں بحال نہیں کریں گے، گو طلبا انجمنیں بحال ہیں مگر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں انتخابات ہرگز نہیں۔ کیونکہ اس طرح طلبا کی سیاسی تربیت بحال ہو گی اور خاندانی جمہوریت کے لیے یہ ایک زہر ہلاہل ہے، کیونکہ اس طرح رِٹ اور رَٹ کا ہر پہلو نمایاں ہوتا جائے گا۔

یہ رَٹ اس لیے لگائی جاتی ہے کہ عوام میں ہیجان پیدا نہ ہو اور وہ سمجھیں کہ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اور حکمرانوں کو وقت حکمرانی ملتا رہے گا۔ اس فلسفہ حکمرانی پر پاکستان کے لیڈر متحد ہیں اور عوام ان کے دام میں اسیر۔ لیکن امکانات سے مایوس نہیں ہونا ہے، بقول ن م راشد:

آسماں دور ہے لیکن یہ زمیں ہے نزدیک
آ اسی خاک کو ہم جلوہ گہہ راز کریں
Load Next Story