قیامت کی گھڑی
ہم یہ نہیں کہتے کہ بہت دیر ہو گئی ہے، یا یہ کہ اب کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ہمارا خیال ہے کہ ابھی دیر نہیں ہوئی۔
ابھی پشاورکے معصوم بچوں کا غم تازہ ہی تھا کہ ایک اورقیامت گزرگئی۔شکارپور لکھی در امام بارگاہ میں نمازِ جمعہ کے وقت ہونے والا بم دھماکایقینا قیامت کی گھڑی تھا۔60 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔یہ وہ قیامتیں ہیں جو ارضِ پاک کے مکینوں پر گزرے چلی جا رہی ہیں۔ الم کی سیاہ رات ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتی۔
ہم آج کے کالم میں قیامت کی اُس گھڑی کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیںجسے جوہری سائنس دانوں نے علامتی طورپر مقررکر رکھا ہے۔یہ تصور کیا گیا کہ قیامت بیچ رات کو بارہ بجے یا00:00زیرو آور پر قائم ہوگی۔پھر جوہری سائنس دانوں نے قیامت کی اِس گھڑی کو قیامت سے چند منٹ کی دوری پر سیٹ کردیا۔گزشتہ برس تک یہ 5منٹ کی دوری پر تھی۔ 22جنوری کو سائنس دانوں نے اِسے 2 منٹ آگے کھسکا دیا ۔''اب یہ قیامت سے محض 3منٹ کی دوری پر ہے۔''
یہ اعلان کیا کینیٹ بینیڈکٹ نے آپ ''بلیٹین اوف دی ایٹمک سائنٹسٹس'' کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور پبلشر ہیں۔گویا زمین کی تباہی اور قیامت نزدیک ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیاں اور جوہری ہتھیاروں کے خطرات انسانی ترقی کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔یہ خطرات یقینی طور پر قیامت خیز ہیں۔آج یہ انسانیت اور کرہِ ارض کو مکمل تباہی کے دہانے پر لے آئے ہیں۔اِن خطرات سے ہمیں مسلسل آگاہ کرنے والے کوئی اور نہیں دنیا کے بڑے سائنس دان اور نوبل انعام یافتہ محققین ہیں۔
یہ 1947کی بات ہے جب ''بلیٹین اوف دی ایٹمک سائنٹسٹس'' کے سائنس اور سیکیورٹی بورڈ کے اراکین نے دنیا کو لاحق جوہری خطرات سے آگاہ کرنے کے لیے ایک علامتی گھڑی بنائی تھی۔جب سے اب تک اِس میں18مرتبہ تبدیلی آئی ہے1953میں یہ محض 2منٹ کی دوری پر رہ گئی تھی۔جب کہ زیادہ سے زیادہ دوری پر یہ 1991میں تھی یعنی کہ صرف 17 منٹ۔ قیامت کی یہ علامتی گھڑی اصلاً بھی امریکا میں یونی ورسٹی اوف شکاگو کی دیوار پر آویزاں ہے۔
بلیٹین کے شریک بانی یوجِن رابنو وچ نے کہا تھا کہ،''قیامت کی علامتی گھڑی کا اقتدار اور اختیار کی عالمی رسہ کشی سے کوئی تعلق نہیں۔یہاں صرف اُن بنیادی خطرات کا اظہار مقصود ہے جوموجودہ جوہری دور میں انسانیت کو در پیش ہیں۔'' 2007سے قبل تک یہ محض جوہری جنگ کے نتیجے میں کرہ ِارض کی تباہی تک محدود تھی۔2007میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ماحولیاتی تبدیلیاں اور تباہیاں بھی زمین کو خاتمے کی طرف لے جا رہی ہیں لہٰذا اب یہ ہر دو طرح کی تباہی کو ظاہر کرتی ہیں۔
بینیڈکٹ کہتی ہیں کہ''آج کی بے روک ماحولیاتی تبدیلیوں اورجدید اور مہلک ترین جوہری ہتھیاروں کی بے محابا دوڑ نے بقائے انسانی کے لیے غیر معمولی اور ناقابلِ تردید خطرات کو جنم دیا ہے۔عالمی رہ نما دنیا کو تباہی کے دہانے تک پہنچنے سے روکنے میں ناکام رہے ہیں۔سائنس دانوں کا عوام سے کہنا ہے کہ وہ اپنے اپنے رہ نماؤں پر زور دیں اور انھیں مجبور کریں کہ کسی طرح رکازی ایندھن (فوسل فیول) کے استعمال اور آلودگی میں کمی لائیں،نیز جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکا جائے۔''
آپ نے مزید کہا کہ''ہم یہ نہیں کہتے کہ بہت دیر ہو گئی ہے، یا یہ کہ اب کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ہمارا خیال ہے کہ ابھی دیر نہیں ہوئی، مثبت سمت میں فوری عمل کا وقت ابھی نہیں نکلا۔عوام کو بھی سُستی سے نکالنے کی اشد ضرورت ہے۔قبل اِس کے کہ اندھیر ہوجائے،ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جن سے گرین ہاؤس گیسز کا اخراج خاص سطح تک آجائے۔وہ سطح جو ماقبل صنعتی انفجار تھی'' گروپ کے سائنس دانوں نے کہا۔
رچرڈ سومر وِل،آپ ''بلیٹین'' کے سائنس اینڈ سیکیورٹی بورڈ کے رُکن ہیں۔ متقاعد (امریطس) پروفیسر، نیز اسکرپس انسٹیٹیوٹ اوف اوشین گرافی، یونی ورسٹی اوف کیلے فورنیا، سین ڈیگو میں ریسرچ پروفیسر ہیں ۔آپ کا کہنا ہے کہ''حدت کو روکنے والی گیسوں کے اخراج میں کمی لانے میں دنیا قطعی طور پر ناکام رہی ہے۔یہ زمینی ماحولیات کو بُری طرح سے تباہ کیے دے رہا ہے۔''اگرکاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر خطرناک قسم کی گرین ہاؤس گیسز کا اخراج فوری طور پرکم نہیں کیا گیا تواِس صدی کے اختتام سے قبل ہی ہم زمین اور انسانیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا دیں گے۔
لاکھوں افراد ماحولیاتی تبدیلی کا شکار ہو جائیں گے۔اگر دنیا کو تباہی سے بچانا ہے تو دنیا کو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج نیز دیگر حرارت زدہ گیسوں کے اخراج سے بچانا ہوگا۔آپ نے بتایا کہ 2014 جدید دور کا گرم ترین سال تھا۔یہ حرارت اور حدت جسے ہم صنعتی آگ اورگاڑیوں کا دھواں اُگل اُگل کر زمین کے گرد جمع کر رہے ہیں،انسانیت کو دَم گھونٹ کر مارنے کے لیے کافی سے زیادہ ثابت ہونے والی ہے۔ابھی وقت ہاتھ سے نہیں نِکلا۔ اگر تیزی سے کوئی کارروائی عمل میں نہ لائی گئی تو بعد میں ہم صرف لکیر پیٹتے رہ جائیں گے۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ماحولیات کو تباہی سے بچانے کے لیے سیاست کار اور صنعت کار تو کچھ نہیں کرنے والے، اب لے دے کے کچھ اُمید عام افراد سے رہ جاتی ہے اگر وہ اپنی عمومی زندگی میں سادگی کو اپناتے ہوئے، برقی آلات و جدید ذرایع نقل وحمل کے استعمال میں کمی لا سکیں، نیزاپنی اپنی سطح پر اپنے رہ نماؤں پر اور صنعت کاروں پر ماحولیات میں سُدھار لانے کے لیے دباؤ ڈالیں تو شاید ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کچھ کر پائیں۔ وگرنہ تو ہم آنے والی نسلوں کو اپنی خواہشات کی صلیب پر ٹانگ ہی چُکے ہیں۔
جدید جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور پھیلاؤ بھی دنیا کے لیے ایک شدید ترین خطرہ ہے۔باوجود چند نمائشی قسم کے اقدامات کے جوہری ہتھیاروں کے عدم ِ پھیلاؤ، تحدید اور اتلاف کے لیے بہت کچھ کرنا ابھی باقی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا جوہری طاقتیں وقت کی اِس آواز کو سننے کے لیے،ماننے کے لیے اور اس پر کسی درجے بھی عمل درآمد کرنے کے لیے تیار بھی ہیں۔یقیناً نہیں۔تب دنیا کا مستقبل کیا ہونے کو ہے؟جلد آنے والی ایک عظیم تباہی؟ اِس کے سوا ہو بھی کیا سکتا ہے؟آنکھیں مُوند لینے سے خطرات نہیں ٹَلا کرتے۔
''بینیڈکٹ'' کہتی ہیں کہ آج دنیا بھر میں کم از کم 16,300جوہری ہتھیار ہیں۔آپ کا خیال ہے کہ یہ بہت زیادہ سے بھی زیادہ ہیں۔شیرن اسکواسنی، بلیٹین اوف ایٹمک سائنٹسٹ کی سائنس اینڈ سیکیورٹی بورڈ کی ایک اور رُکن ہیں۔نیزآپ ڈائریکٹر ہیںسینٹر فار اسٹریٹیجک انیڈ انٹرنیشنل سینٹر کے پرالی فریشن پری وینشن پروگرام کی آپ کا کہنا ہے کہ اگرچہ آج امریکا اور روس کے پاس سرد جنگ کے دور سے کم ہتھیار ہیں لیکن آج بھی امریکا اپنے جوہری ہتھیاروں کی تجدید کے لیے355بلین ڈالر خرچ کر رہا ہے۔
اِسی طرح کے عزائم روس کے ہیں۔برطانیہ نے2012کے بعد سے اپنے جوہری ذخائر نصف تو کیے لیکن وہ اپنی جوہری آب دوزوں پر مسلسل پیسے بہائے جا رہا ہے۔فرانس مسلسل اپنے زمین سے فضا میں مار کرنے والے جوہری میزائل پروگرام رواں رکھے ہوئے ہے۔ چین ایک نئی کلاس کی جوہری بیلسٹک میزائلوں والی آب دوزوں کی تیاریوں میں مصروف ہے۔بھارت اپنے جوہری آب دوزوں کے بیڑے بڑھانے میں لگا ہے۔
پاکستان نے ''پلوٹونیم''کا تیسرا ری ایکٹر شروع کردیا ہے نیز کم فاصلے کے جوہری میزائلوں کے کام یاب تجربات کررہا ہے۔اسرائیل اپنے غیر علانیہ جوہری پروگرام پر تیزی سے عمل پیرا ہے۔شمالی کوریاکے جوہری عزائم بھی سب ہی پر عیاں ہیں۔اِن حالات میںسوچا جا سکتا ہے کہ دنیا کا انجام کیا ہونے والا ہے۔ہمارے ترقی یافتہ ممالک اور ہم نیّا پار لگانے جا رہے ہیں یا ڈبونے؟
اِس امر میں شک نہیں کہ دنیا کے مایہ ناز سائنس دانوں نے بڑی اہم ،سچی اور کھری باتیں کیں اور ہمیں خاص کر قیامت کی گھڑی کے حوالے سے جھنجھوڑنے کی کوشش کی۔لیکن ایک کمی کا احساس ہمیں رہ رہ کر ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اصلاح کا آغاز ہمیشہ اپنے آپ سے اور اپنے گھر سے ہوتا ہے۔محترم سائنس دان حضرات آپ کا فرمانا بجا،آج زمین کا جو حال ہے اور آج جو انسانیت کو خطرات لاحق ہیں وہ درست ہیں لیکن ذرا یہ بھی تو فرما دیجیے کہ یہ کِس کے عنایت کردہ ہیں۔
کیا یہ جدید سائنس اورآپ سائنس دانوں کی عطا نہیں؟ کیاآپ نے اپنی غلطی تسلیم کی؟کیا آپ تائب ہوئے؟آج آپ مصنوعی گھڑیوں کے بازو آگے پیچھے کرکے دنیا کو دہلا رہے ہیں کیا آپ ہی کا ادارہ''مین ہٹن پروجیکٹ''کا بانی نہیں تھا؟ جِس نے وہ جوہری بم بنائے جو ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر برسائے گئے۔د وسروں کو نصیحت اور خود میاں فضیحت؟ آج آپ حضرات کو جو شکایات ،عالمی رہ نماؤں، صنعت کاروں اور عام افراد سے ہیں مجھے وہ تمام شکایات خود آپ سے ہیں۔خدارا اپنی اصلاح فرما لیجیے، تائب ہو جائیے دنیا کو لاحق خطرات خود ختم ہو جائیں گے۔افسوس کہ انسان بھی کتنا سادہ ہے، وہ اپنے کرنے کے کام کا مطالبہ اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں سے کرنے لگتا ہے۔