ثابت کرو تم مجرم نہیں
ذکر ہمیشہ تہذیب یافتہ، ترقی یافتہ اقوام کا کرنا ضروری ہے ورنہ مضمون میں جان نہیں پڑے گی
یہ نہ کہنے کی بات ہے، نہ سمجھانے کی بلکہ یہ سامنے کی بات ہے، جو ہمیں نظر نہیں آتی۔ وجہ یہ ہے کہ ہم دیکھنا نہیں چاہتے۔ ہم نے لفظ ''صرف نظر'' کو بھرپور انداز میں اپنی زندگی میں داخل کرلیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ریت میں سر دینے سے شاید قضا جو ہم پر''پرواز'' کر رہی ہے وہ دھوکا کھا جائے گی اب قضا کو ہر معنوں میں آپ سمجھ سکتے ہیں۔ معاشی قضا، سیاسی قضا، سماجی قضا، اخلاقی قضا کیونکہ یہ سب ہمارے یہاں ''بدرجہ اتم'' موجود ہیں۔
کیونکہ ذکر ہمیشہ تہذیب یافتہ، ترقی یافتہ اقوام کا کرنا ضروری ہے ورنہ مضمون میں جان نہیں پڑے گی تو بات وہیں آجاتی ہے کہ دوسروں کے گھر کا چراغاں دیکھنے کی کیا ضرورت ہے کہ اپنے گھر کو پھونک کے تماشا دیکھا جائےRole Model کے چکر میں۔
خیر پھر بھی کچھ اچھی باتوں کا ذکر مستعار ضروری ہے۔ یہ ہر اچھے معاشرے کا اصول ہے کہ وہاں اداروں کو مضبوط کیا جاتا ہے کہ وہ آپ کو سہولیات فراہم کرتے ہیں، آپ کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں اور آپ کو بہتر راستہ دکھاتے ہیں۔
آپ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں اور معاشرے میں آپ کو ہر طرح سہولت فراہم کی جائے گی آپ کو تمام معلومات ملیں گی۔ اب تو وہ ویب سائٹ پر رکھ دیتے ہیں کہ آپ کو جانے کی بھی ضرورت نہیں آپ Click کریں اور دیکھ لیں۔ اتفاق نہیں ہے۔ اس سےComments لکھیں اور عدم اتفاق کا اظہار کریں وہ محکمہ پابند ہے کہ آپ کی تسلی کرے آپ کو مطمئن کرے کہ آپ کی شکایت اگر درست ہے تو دور کردی گئی ہے۔
اگر وہ شکایت دور نہیں کی گئی ہے تو آپ سے مہلت کی درخواست ہوگی کہ معاملات کو چیک کرکے شکایت دور کردی جائے گی اور رویہ تمام تر اس Process کے دوران انتہائی معذرت خواہانہ ہوگا جیساکہ ہمارے یہاں موبائل فون کمپنیوں کا Message کی صورت ہوتا ہے اور عام طور پر اس کے برعکس اگر over billing ہوگئی ہے تو معذرت کے ساتھ اسے درست کردیا جائے گا۔ کچھ کم رہ گیا ہے تو آپ سے ادب سے گزارش کی جائے گی کہ آپ اسے جمع کروا دیں تاکہ آپ کو زحمت نہ ہو اور سروس جاری رکھی جاسکے وغیرہ وغیرہ۔
یہ سب کیوں؟ دراصل ان لوگوں نے جو اس معاشرے کے کرتا دھرتا ہیں انسانی ذہن کو بہت اچھی طرح Read کرلیا ہے۔ وہ اس کے دونوں پہلوؤں خیر اور شر سے واقف ہوگئے ہیں اور انھیں یہ بھی علم ہوگیا ہے کہ شر کو Promote کرنے سے Society کو نقصان پہنچتا ہے اور اس سوسائٹی میں نقصان پہنچانے والا اور جس کو نقصان پہنچے دونوں رہتے ہیں اس کے ممبر ہیں اور ممبر کا نقصان پوری Society کا نقصان ہے اور وہ اس رجحان کو ختم کرنے کی سر توڑ کوششیں کرتے ہیں اور کرتے رہتے ہیں۔ یہ ان کا مسلسل کام ہے۔ یہاں تک کہ وہ جیل جانے والے قیدیوں کو بھی معاشرے کا کارآمد شہری بنانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں اور یہ بھی کوشش کرتے ہیں کہ مزید مجرم پیدا نہ ہوں۔
میں اپنے ملک کی برائی نہیں کرنا چاہتا۔ میں اس کے سسٹم سے نالاں ہوں۔ جس کا حصہ میں بھی ہوں آپ بھی ہیں۔ ظلم کرنا ایک بات، ظلم سہنا دوسری بات اور ظلم دیکھتے رہنا تیسری بات۔ یہ تینوں باتیں انتہائی غلط ہیں نہ ظلم کرنا کوئی قابل تعریف بات ہے بلکہ ظالم سے نفرت کرنا اس کے ظلم کی حد تک بہت اچھی بات ہے مظلوم نہ بننا سب سے اچھا اور اگر بن جائے تو ظلم کا مقابلہ کرنا اس سے بھی اچھی بات۔ اور اگر ظلم ہوتے دیکھے اور خاموش رہنے کے بجائے اس کے خلاف آواز اٹھائے، مظلوم کے ساتھ کھڑا ہو تو بہترین بات ہے اور یہی بات انسان کو وہ درجہ دیتی ہے کہ وہ اشرف المخلوقات کہلاتا ہے۔
مگر افسوس سے یہ کہتا ہوں خود میں بھی اس میں شامل ہوں ، ایسا ہے نہیں ہر شخص خوفزدہ ہے۔ کیوں کیا وجہ ہے۔ وجہ ہے قانون پر عملدرآمد میں ناکامی، یہ ناکامی صرف اس وجہ سے ہے کہ اگر اس پر عمل کیا گیا تو مراعات یافتہ طبقہ بھی اس کی زد میں آئے گا اور وہی اس ملک کے بڑے بڑے عہدوں اور مقامات کے مالک ہیں۔
بڑے بڑے اداروں کی باتیں نہیں چھوٹے اور پرائیویٹ اداروں کو دیکھتے اور ان کی دیدہ دلیری ملاحظہ کیجیے۔ موبائل کمپنیوں نے جب ملک میں کام شروع کیا تو بقول شخصے ''ٹکے ٹکے کے بھاؤ'' سم کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے برصغیر میں شروع میں چائے اور بناسپتی گھی کا تعارف مفت تقسیم سے ہوا تھا اور باقاعدہ چائے بناکر اسٹال لگا کر لوگوں کو مفت پلائی جاتی تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نہ جانے کتنا زر مبادلہ اب چائے کی درآمد پر خرچ ہوتا ہے ہمارے پیارے پاکستان میں۔ انگریز کے اس تحفے کو ہم نے شکم سے لگا کر رکھا ہوا ہے۔
خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا، بات ہو رہی ہے موبائل کمپنیوں کی، ہر شہر میں باقاعدہ روڈ پر یہ سمیں فروخت ہوئیں۔ کسٹمر سروس سینٹرز نے بھی فروخت کیں لاکھوں کی تعداد میں اچانک چند سال بعد حکومت کو خیال آیا ''خواب خرگوش'' کے بعد کہ ان کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ ہونا چاہیے۔ لہٰذا پچھلے زمانے سے اسے نافذ کردیا گیا اور تمام کسٹمر سینٹرز کو پابند کیا گیا کہ وہ باقاعدہ ریکارڈ پیش کریں کہ سم کس کو فروخت کی گئی ہے اور شناختی کارڈ بھی ساتھ فراہم کریں کہ کس کے شناختی کارڈ پر SIM ایشو کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ فروخت ہونے والی سموں میں بڑی تعداد ایسی سموں کی تھی جو بغیر کسی شناختی کارڈ کے فروخت ہوئی تھیں۔ لہٰذا اس قوم کے افراد کے ذہن زرخیز نے یہ کام کیا کہ الف کے نام کی شناختی کارڈ کی کاپی کی 50 فوٹو اسٹیٹ کروا کے لگا دیں ایسی سموں کے ساتھ۔
سموں کی خرید پر کوئی پابندی نہیں تھی جتنی چاہے خرید لو اس کا فائدہ اٹھاکر ان کسٹمر سروس سینٹرز نے یہ کام کیا۔ بجائے اس کے کہ حکومت یہ چیک کرتی کہ جو فارم بھرا گیا ہے اس پر دستخط شناختی کارڈ کے حامل ہیں یا نہیں اور اس جرم کی سزا کسٹمرز سینٹر کو ملتی سزا کسٹمر کو ملی۔ اعلان کردیا گیا کہ پانچ سے زیادہ سم کوئی اپنے نام نہیں رکھ سکتا اور باقی وہ کینسل کروا کے یعنی کسٹمر جس نے خریدی ہی نہیں ہیں اور اس کا شناختی کارڈ فوٹو اسٹیٹ کسٹمر سینٹر والوں نے وہاں لگادیا ہے۔
668 ایک نمبر دیا گیا کہ اس پر آپ شناختی کارڈ کا نمبر لکھ کر ارسال کریںMessage تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ کتنی سمیں آپ کے نمبر پر ہیں۔ اب یہ بھی اس شخص کا کام ہے کہ وہ کسٹمر سینٹر جائے اور وہاں فارم بھرے کہ اس کے پاس کتنی سمیں ہیں تو دو ماہ کے بعد ریکارڈ درست ہوجائے گا۔ دو ماہ کے بعد! اگر ہو جائے؟
اور تعجب یہ ہے کہ اس پر بھی عمل نہیں ہو رہا۔ میرے نام پر سات سمیں چل رہی ہیں جب کہ میرے پاس صرف دو ہیں سوا سال مجھے فارم بھرے ہوگیا مگر تاحال ریکارڈ وہیں کا وہیں ہے اور میں دو سم رکھنے کے باوجود سات سم کا مالک ہوں ریکارڈ میں اور اجازت صرف پانچ سموں کی ہے۔ اس ملک میں قانون کو الٹا چلایا جاتا ہے شریف آدمی سے کہا جاتا ہے کہ تم ثابت کرو کہ تم مجرم نہیں ہو۔
کرایہ خرچ کرکے کسٹمر مارا مارا پھرے ادھر سے ادھر کہ میرے نام پر سے وہ سم ختم کرو جو میں نے نہیں خریدی ہیں اور اسے ادھر ادھر دوڑایا جا رہا ہے کیوں ایک فون پر جو کسٹمر کردے کہ یہ میرا نمبر ہے صرف۔ باقی سمیں کینسل نہیں کی جاسکتیں کیونکہ کام کرنا پڑے گا اور کام کرنا ہم چاہتے نہیں ہیں۔ جرائم ہوں گے ہو رہے ہیں۔ بے گناہ لوگ سم کے چکر میں پکڑے جائیں گے ان کی کوئی نہیں سنے گا۔ پولیس کے مزے ہو جائیں گے اور ہو رہے ہیں۔ سینگ ہرن کو ہی چھڑانے پڑیں گے شکاری کو جس نے جال بچھایا کون کچھ کہے گا کہ یہاں اوپر سے نیچے تک شکاریوں کی قطار ہے۔
کیونکہ ذکر ہمیشہ تہذیب یافتہ، ترقی یافتہ اقوام کا کرنا ضروری ہے ورنہ مضمون میں جان نہیں پڑے گی تو بات وہیں آجاتی ہے کہ دوسروں کے گھر کا چراغاں دیکھنے کی کیا ضرورت ہے کہ اپنے گھر کو پھونک کے تماشا دیکھا جائےRole Model کے چکر میں۔
خیر پھر بھی کچھ اچھی باتوں کا ذکر مستعار ضروری ہے۔ یہ ہر اچھے معاشرے کا اصول ہے کہ وہاں اداروں کو مضبوط کیا جاتا ہے کہ وہ آپ کو سہولیات فراہم کرتے ہیں، آپ کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں اور آپ کو بہتر راستہ دکھاتے ہیں۔
آپ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں اور معاشرے میں آپ کو ہر طرح سہولت فراہم کی جائے گی آپ کو تمام معلومات ملیں گی۔ اب تو وہ ویب سائٹ پر رکھ دیتے ہیں کہ آپ کو جانے کی بھی ضرورت نہیں آپ Click کریں اور دیکھ لیں۔ اتفاق نہیں ہے۔ اس سےComments لکھیں اور عدم اتفاق کا اظہار کریں وہ محکمہ پابند ہے کہ آپ کی تسلی کرے آپ کو مطمئن کرے کہ آپ کی شکایت اگر درست ہے تو دور کردی گئی ہے۔
اگر وہ شکایت دور نہیں کی گئی ہے تو آپ سے مہلت کی درخواست ہوگی کہ معاملات کو چیک کرکے شکایت دور کردی جائے گی اور رویہ تمام تر اس Process کے دوران انتہائی معذرت خواہانہ ہوگا جیساکہ ہمارے یہاں موبائل فون کمپنیوں کا Message کی صورت ہوتا ہے اور عام طور پر اس کے برعکس اگر over billing ہوگئی ہے تو معذرت کے ساتھ اسے درست کردیا جائے گا۔ کچھ کم رہ گیا ہے تو آپ سے ادب سے گزارش کی جائے گی کہ آپ اسے جمع کروا دیں تاکہ آپ کو زحمت نہ ہو اور سروس جاری رکھی جاسکے وغیرہ وغیرہ۔
یہ سب کیوں؟ دراصل ان لوگوں نے جو اس معاشرے کے کرتا دھرتا ہیں انسانی ذہن کو بہت اچھی طرح Read کرلیا ہے۔ وہ اس کے دونوں پہلوؤں خیر اور شر سے واقف ہوگئے ہیں اور انھیں یہ بھی علم ہوگیا ہے کہ شر کو Promote کرنے سے Society کو نقصان پہنچتا ہے اور اس سوسائٹی میں نقصان پہنچانے والا اور جس کو نقصان پہنچے دونوں رہتے ہیں اس کے ممبر ہیں اور ممبر کا نقصان پوری Society کا نقصان ہے اور وہ اس رجحان کو ختم کرنے کی سر توڑ کوششیں کرتے ہیں اور کرتے رہتے ہیں۔ یہ ان کا مسلسل کام ہے۔ یہاں تک کہ وہ جیل جانے والے قیدیوں کو بھی معاشرے کا کارآمد شہری بنانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں اور یہ بھی کوشش کرتے ہیں کہ مزید مجرم پیدا نہ ہوں۔
میں اپنے ملک کی برائی نہیں کرنا چاہتا۔ میں اس کے سسٹم سے نالاں ہوں۔ جس کا حصہ میں بھی ہوں آپ بھی ہیں۔ ظلم کرنا ایک بات، ظلم سہنا دوسری بات اور ظلم دیکھتے رہنا تیسری بات۔ یہ تینوں باتیں انتہائی غلط ہیں نہ ظلم کرنا کوئی قابل تعریف بات ہے بلکہ ظالم سے نفرت کرنا اس کے ظلم کی حد تک بہت اچھی بات ہے مظلوم نہ بننا سب سے اچھا اور اگر بن جائے تو ظلم کا مقابلہ کرنا اس سے بھی اچھی بات۔ اور اگر ظلم ہوتے دیکھے اور خاموش رہنے کے بجائے اس کے خلاف آواز اٹھائے، مظلوم کے ساتھ کھڑا ہو تو بہترین بات ہے اور یہی بات انسان کو وہ درجہ دیتی ہے کہ وہ اشرف المخلوقات کہلاتا ہے۔
مگر افسوس سے یہ کہتا ہوں خود میں بھی اس میں شامل ہوں ، ایسا ہے نہیں ہر شخص خوفزدہ ہے۔ کیوں کیا وجہ ہے۔ وجہ ہے قانون پر عملدرآمد میں ناکامی، یہ ناکامی صرف اس وجہ سے ہے کہ اگر اس پر عمل کیا گیا تو مراعات یافتہ طبقہ بھی اس کی زد میں آئے گا اور وہی اس ملک کے بڑے بڑے عہدوں اور مقامات کے مالک ہیں۔
بڑے بڑے اداروں کی باتیں نہیں چھوٹے اور پرائیویٹ اداروں کو دیکھتے اور ان کی دیدہ دلیری ملاحظہ کیجیے۔ موبائل کمپنیوں نے جب ملک میں کام شروع کیا تو بقول شخصے ''ٹکے ٹکے کے بھاؤ'' سم کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے برصغیر میں شروع میں چائے اور بناسپتی گھی کا تعارف مفت تقسیم سے ہوا تھا اور باقاعدہ چائے بناکر اسٹال لگا کر لوگوں کو مفت پلائی جاتی تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نہ جانے کتنا زر مبادلہ اب چائے کی درآمد پر خرچ ہوتا ہے ہمارے پیارے پاکستان میں۔ انگریز کے اس تحفے کو ہم نے شکم سے لگا کر رکھا ہوا ہے۔
خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا، بات ہو رہی ہے موبائل کمپنیوں کی، ہر شہر میں باقاعدہ روڈ پر یہ سمیں فروخت ہوئیں۔ کسٹمر سروس سینٹرز نے بھی فروخت کیں لاکھوں کی تعداد میں اچانک چند سال بعد حکومت کو خیال آیا ''خواب خرگوش'' کے بعد کہ ان کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ ہونا چاہیے۔ لہٰذا پچھلے زمانے سے اسے نافذ کردیا گیا اور تمام کسٹمر سینٹرز کو پابند کیا گیا کہ وہ باقاعدہ ریکارڈ پیش کریں کہ سم کس کو فروخت کی گئی ہے اور شناختی کارڈ بھی ساتھ فراہم کریں کہ کس کے شناختی کارڈ پر SIM ایشو کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ فروخت ہونے والی سموں میں بڑی تعداد ایسی سموں کی تھی جو بغیر کسی شناختی کارڈ کے فروخت ہوئی تھیں۔ لہٰذا اس قوم کے افراد کے ذہن زرخیز نے یہ کام کیا کہ الف کے نام کی شناختی کارڈ کی کاپی کی 50 فوٹو اسٹیٹ کروا کے لگا دیں ایسی سموں کے ساتھ۔
سموں کی خرید پر کوئی پابندی نہیں تھی جتنی چاہے خرید لو اس کا فائدہ اٹھاکر ان کسٹمر سروس سینٹرز نے یہ کام کیا۔ بجائے اس کے کہ حکومت یہ چیک کرتی کہ جو فارم بھرا گیا ہے اس پر دستخط شناختی کارڈ کے حامل ہیں یا نہیں اور اس جرم کی سزا کسٹمرز سینٹر کو ملتی سزا کسٹمر کو ملی۔ اعلان کردیا گیا کہ پانچ سے زیادہ سم کوئی اپنے نام نہیں رکھ سکتا اور باقی وہ کینسل کروا کے یعنی کسٹمر جس نے خریدی ہی نہیں ہیں اور اس کا شناختی کارڈ فوٹو اسٹیٹ کسٹمر سینٹر والوں نے وہاں لگادیا ہے۔
668 ایک نمبر دیا گیا کہ اس پر آپ شناختی کارڈ کا نمبر لکھ کر ارسال کریںMessage تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ کتنی سمیں آپ کے نمبر پر ہیں۔ اب یہ بھی اس شخص کا کام ہے کہ وہ کسٹمر سینٹر جائے اور وہاں فارم بھرے کہ اس کے پاس کتنی سمیں ہیں تو دو ماہ کے بعد ریکارڈ درست ہوجائے گا۔ دو ماہ کے بعد! اگر ہو جائے؟
اور تعجب یہ ہے کہ اس پر بھی عمل نہیں ہو رہا۔ میرے نام پر سات سمیں چل رہی ہیں جب کہ میرے پاس صرف دو ہیں سوا سال مجھے فارم بھرے ہوگیا مگر تاحال ریکارڈ وہیں کا وہیں ہے اور میں دو سم رکھنے کے باوجود سات سم کا مالک ہوں ریکارڈ میں اور اجازت صرف پانچ سموں کی ہے۔ اس ملک میں قانون کو الٹا چلایا جاتا ہے شریف آدمی سے کہا جاتا ہے کہ تم ثابت کرو کہ تم مجرم نہیں ہو۔
کرایہ خرچ کرکے کسٹمر مارا مارا پھرے ادھر سے ادھر کہ میرے نام پر سے وہ سم ختم کرو جو میں نے نہیں خریدی ہیں اور اسے ادھر ادھر دوڑایا جا رہا ہے کیوں ایک فون پر جو کسٹمر کردے کہ یہ میرا نمبر ہے صرف۔ باقی سمیں کینسل نہیں کی جاسکتیں کیونکہ کام کرنا پڑے گا اور کام کرنا ہم چاہتے نہیں ہیں۔ جرائم ہوں گے ہو رہے ہیں۔ بے گناہ لوگ سم کے چکر میں پکڑے جائیں گے ان کی کوئی نہیں سنے گا۔ پولیس کے مزے ہو جائیں گے اور ہو رہے ہیں۔ سینگ ہرن کو ہی چھڑانے پڑیں گے شکاری کو جس نے جال بچھایا کون کچھ کہے گا کہ یہاں اوپر سے نیچے تک شکاریوں کی قطار ہے۔