وقت کی ضرورت

یہ بھی حقیقت ہے کہ کرپشن صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں یہ محترمہ اپنے رنگ بکھیرے ہوئے ہیں۔


Shehla Aijaz February 05, 2015
[email protected]

ISLAMABAD: کچھ عرصہ قبل ہی کرپشن سے پاک معاشرے کی صدائیں بلند ہوتی سنی تھیں بہت اچھی محسوس ہوئی تھیں کہ اب ہمارے ملک میں کرپشن کو زہر سمجھنے کا عمل شروع ہو چکا ہے اسی دوران اس مہم کے سلسلے میں بھی کچھ ایسا سنا گیا کہ سمجھ نہیں آیا کہ اسے کرپشن کہا جائے یا اس کی کوئی نئی ایجاد۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ کرپشن صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں یہ محترمہ اپنے رنگ بکھیرے ہوئے ہیں، بس فرق اتنا ہے کہ کہیں زیادہ تو کہیں کم لیکن ہمارے ملک میں اس نے جتنے کارنامے کر ڈالے ہیں اور جتنے کارنامے ابھی پائپ لائنوں میں مقید ہیں ذرا انتظار فرمائیے کہ ان کی آمد کب ہوتی ہے؟

کچھ عرصہ قبل ہی ایک بل موصول ہوا جس پر واجبات کی مد میں خاصی رقم تھی جب یہ بل اور سابقہ ادا کیا ہوا بل لے کر متعلقہ محکمے کے پاس جایا گیا تو جس پہلے شخص نے متعلقہ محکمے کے ذمے دار رکن ہونے کی حیثیت سے جواب دیا وہ خاصا قابل تحسین تھا، پوچھا گیا کہ بھئی! یہ بل اتنا کیوں ہے حالانکہ پچھلا بل وقت پر ادا کردیا گیا تھا اور اس دوران کوئی بل موصول نہیں ہوا تھا،

جب کہ اب جو نئی سہولت کے ساتھ نئے اندراج کرائے گئے ہیں اس کے بجائے پرانے اندراج کے کھاتے میں ہم بل کیوں ادا کریں اس میں ہمارا کیا قصور؟ جواب ملا۔ بالکل درست اس بل کے بعد آپ کو کوئی بل نہ ملا اس میں ادارے کا قصور ہے لیکن اسے بھریں گے آپ۔ ''جی''۔ جی اس کا خمیازہ عوام کو ہی بھگتنا ہوگا۔ انھوں نے خاصے اطمینان سے جواب دیا۔ اب اس میں ان کا طنز پنہاں تھا یا ان کا انداز گفتگو ہی ایسا تھا خدا جانے۔

لاہور ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس میاں اللہ نواز نے 2008 میں اس وقت اس آئینی پیکیج کا شق وار جائزہ لیا اور ایک طویل مقالہ تحریرکیا تھا۔ اس مقالے میں انھوں نے ملک کی آئین سازی کی تاریخ کا مختصراً جائزہ آسان الفاظ میں بیان کیا کہ کس طرح ہمارے رہنماؤں نے ملک کے آئین کو بے آئین بنانے میں کس طرح اپنے اپنے منفی کردار ادا کیے یہ ایک دلچسپ مقالہ ہے جسے پڑھنے کے بعد دماغ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ آخر کب تک ہم 'میں' کے بت میں بند رہیں گے اس میں سے نکل کر ہم کب بنیں گے بقول اکبر الٰہ آبادی :

خوشی کیا ہو جو میری بات وہ بت مان جاتا ہے
مزا تو بے حد آتا ہے مگر ایمان جاتا ہے

ایمان جانے اور مزہ آنے کا سلسلہ شاید کبھی تو بند ہو۔ بات کہاں سے کہاں جا نکلی۔ میاں اللہ نواز اپنے مقالے میں بڑے دلچسپ انداز میں لکھتے ہیں ''مختصراً یہ کہ 1954 کے اعلان نے کمبائن'' کے رجحانات اور میلانات کو لاقانونیت کے اصول کی بنیاد پر ادارتی شکل دے دی۔ نتیجے کے طور پر 1954 اور 1958 کے درمیانی عرصے کو علم سیاسیات کی زبان میں برطانوی آقاؤں کی میراث کی نوآبادیاتی حکمرانی کا ظہور ثانی قرار دیا جاسکتا ہے، اس شعبدے نے مطلق العنانیت اور آمریت کے دور کا آغاز کردیا اور ریاستی وسائل کی لوٹ مار شروع ہوئی یہی وہ دور تھا جب احتساب کی عدم موجودگی اور مطلق العنانیت کی چھتری تلے kleptocratic رجحانات کی نشوونما ہوتی رہی۔

اس دور کو kleptrocracy کی حکمرانی کا دور بھی کہا جاسکتا ہے۔ اوپر سے لے کر نیچے تک ہر طبقے کی نسوں میں خبط سرقہ کا زہر رچ بس گیا۔ اس رویے کو بالادستی حاصل ہوگئی اور اس نے معاشرے کے ہر طبقے پر تسلط جما لیا حتیٰ کہ ان رجحانات نے تاجروں وصنعتکاروں، کاشتکاروں تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا چلا گیا ، لہٰذا باآسانی کہا جاسکتا ہے کہ اس اعلان نے ہمارے معاشرے کے ہر طبقے میں ''چوری'' کو حکمران بنا دیا۔ اسلام کے سنہری اصول، انصاف، مساوات اور شفافیت صرف الفاظ کی حد تک لوگوں کے ہونٹوں تک محدود رہ گئے اور معاشرے کی عملی حرکیات مفقود ہوگئیں۔''

میاں اللہ نواز کا یہ مقالہ ایسے ایسے بھید کھولتا ہے کہ جس سے ہماری سیاسی بالادستی اور بہت سی دوسری بالادستی تو سمجھ آتی ہے لیکن جو اہم بات اس میں کہی گئی ہے اس سے ویسے تو ہم سب واقف ہی ہیں لیکن آئینی وقانونی پیچیدگیوں سے ایک عام انسان ناواقف ہے لیکن اس عوام پر کی جانے والی حکمرانی ہی تو تمام شاخوں کو ایک جگہ مرتکز کرتا ہے لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ اس عوام پر نہ صرف ہمارے رہنما بلکہ خود عوام بھی اپنے آپ سے مخلص نہیں، ہم اپنے سیاسی رہنماؤں کو فیس بک اور ٹوئیٹر پر جی کھول کر برا بھلا کہتے ہیں اس لیے کہ ان کی برائیاں، خامیاں ہمیں اخبارات، رسائل اورٹی وی چینلز کے ذریعے ملتی رہتی ہیں ہم گلہ کرتے ہیں کہ انھیں پکڑنے والا کوئی نہیں لیکن ہم اپنے اردگرد ہونے والی کرپشن میں ملوث کتنے کرداروں کو ان کے انجام تک پہنچا چکے ہیں۔

ہم چوری دیکھنے، کروانے اور برتنے کے عادی ہوگئے ہیں، یہ ہمارے لیے معمول کی بات بن چکی ہے صرف چند جملے چند فقرے کچھ جذباتی مکالمے دکھ افسوس اور بس اس سے آگے ہماری حد ختم ہوجاتی ہے۔ اپنے بڑوں سے ہم سنتے آئے ہیں کہ پرانے زمانے میں لوگ اتنے بے ایمان نہیں ہوتے تھے جتنے آج کل کے زمانے میں کھلے عام بے ایمانیاں ہوتی ہیں لیکن جب لاقانونیت قانون کا درجہ حاصل کرلے اور حقدار فالتو اور کاٹھ کباڑ لگنے لگے اس صورتحال کو جو بھی کہا جائے اس سے معاشرے میں انتشار اور ناہمواری جنم لیتی ہے۔

ہمارے یہاں بدقسمتی سے ایسا ہوتا آیا ہے اپنی مجبوریوں، پسندیدگیوں اور اقربا پروری کو مختلف ناموں اور تہذیب کے خانوں میں رکھ کر اپنے ملک میں طبقات کی تقسیم کرتے چلے آئے ہیں، جس نے آج ایک بے ہنگم صورت اختیار کرلی ہے۔ آج ہمارے معاشرے کے ہر طبقے میں چوری حکمرانی بن چکی ہے جو کبھی مختاراں مائی کے کیس کو جنم دیتی ہے تو کبھی جہانزیب قتل کے کیس کو ، کبھی چوہدری افتخار حسین پر تو کبھی پرویز مشرف پر۔ اس میں قصور کس کا ہے۔ انگلیاں اٹھانے والے کون ہیں اور جن پر انگلیاں اٹھتی ہیں وہ کون ہیں؟

کیا ہم اتنے ہی پیچیدہ، دشوار اور کٹھن راہ پر نکل آئے ہیں۔ اس کا حل تو ہے ہمارے پاس ہر گھر ہر دفتر میں ہر اسکول، ہر مسجد و مدرسے میں، صاف کھلی اور واضح نشانیوں والی خدا تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن مجید جسے اب بہت احترام سے چوم کر کسی اونچے مقام پر رکھ کر کپڑا ڈالنے کے بجائے اٹھاکر پورے عقل و شعور کے ساتھ توجہ سے پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ پڑھنے کے لیے ہی نہیں بلکہ یہ تو عمل کرنے کے لیے ایک مفید اور مجرب کتاب ہے آخر ہم اس سے فائدہ اٹھاکر کیوں نہیں دیکھتے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔