گوادر ماضی حال اور مستقبل پہلاحصہ
گوادر کے معنی ’’ہوا کا دروازہ‘‘ گوا کے معنی ہوا اور در کا مطلب دروازہ ہے۔
لاہور:
60 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی والے شہرگوادر میں اکیسویں صدی کی ضرورتوں سے آراستہ جدید بندرگاہ کی تکمیل سے آنے والے وقت میں پاکستان،چین،افغانستان اورایشیا کے ممالک کی بحری تجارت کا زیادہ تردارومدار اسی بندرگاہ پر ہوگا۔گوادر اوراس کے گردونواح کی تاریخ بہت پرانی ہے یہ علاقہ وادی کلانچ اوروادی دشت بھی کہلاتا ہے اس کا زیادہ رقبہ بے آباد اور بنجر ہے۔
تاریخی روایت کے مطابق حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں جب قحط پڑا تو وادی سینا سے بہت سے افراد کوچ کرکے وادی مکران کے علاقے میں آگئے۔ مکران کا یہ علاقہ ہزاروں سال تک ایران کا حصہ رہا ہے۔ 325 قبل مسیح میں سکندر اعظم جب برصغیر سے واپس یونان جارہا تھا تو اس نے یہ علاقہ اتفاقاً دریافت کیا اس کی بحری فوج کے سپہ سالار ADMIRAL NEARCHOS نے اپنے جہاز اس بندرگاہ پر لنگر انداز کیے اور اپنی یاداشتوں میں اس علاقے کے اہم شہروں کو قلمات، گوادر،پشوکان اور چاہ بہار کے ناموں سے لکھا ہے۔
اہم سمندری راستے پر واقع ہونے کی وجہ سے سکندراعظم نے اس علاقے کو فتح کرکے اپنے ایک جنرل SELEUKOS NIKATOR کو یہاں کا حکمران بنادیا جو 303 قبل مسیح تک حکومت کرتا رہا۔ 303 ق م میں برصغیر کے حکمران چندرگپتا نے حملہ کرکے یونانی جنرل سے یہ علاقہ چھین لیا اور اپنی حکومت میں شامل کرلیا مگر ایک سوسال بعد 202 ق م میں پھر یہاں کی حکمرانی ایران کے بادشاہوں کے پاس چلی گئی۔
711 عیسوی میں مسلمان جنرل محمد بن قاسم نے یہ علاقہ فتح کرلیا۔ ہندوستان کے مغل بادشاہوں کے زمانے میں یہ علاقہ مغلیہ سلطنت کا حصہ رہا جب کہ 16 ویں صدی میں پرتگیزیوں نے مکران کے متعدد علاقوں جن میں یہ علاقہ (گوادر) بھی شامل تھا پر قبضہ کرلیا۔ 1581 میں پرتگیزیوں نے اس علاقے کے دو اہم تجارتی شہروں پسنی اور گوادر کو جلادیا۔
یہ علاقہ متعدد مقامی حکمرانوں کے درمیان بھی تختہ مشق بنا رہا اور کبھی اس پر بلیدی حکمران رہے تو کبھی رندوں کو حکومت ملی کبھی ملک حکمران بن گئے تو کبھی گچکیوں نے اس پر قبضہ کرلیا۔ 1740 تک بلیدی حکومت کرتے رہے ۔ ان کے بعد گچکیوں کی ایک عرصے تک حکمرانی رہی مگر خاندانی اختلافات کی وجہ سے جب یہ کمزور پڑے تو خان قلات میر نصیر خان اول نے کئی مرتبہ ان پر چڑھائی کی جس کے نتیجے میں ان دونوں نے اس علاقے اور یہاں سے ہونے والی آمدنی کو آپس میں تقسیم کرلیا۔
1783 میں مسقط کے بادشاہ کا اپنے بھائی سعد سلطان سے جھگڑا ہوگیا جس پر سعد سلطان نے خان آف قلات میر نصیر خان کو خط لکھا جس میں اس نے یہاں آنے کی خواہش ظاہر کی چنانچہ خان نے نہ صرف سلطان کو فوری طورپر آجانے کو کہا بلکہ گوادر کا علاقہ اور وہاں کی آمدن بھی لا محدود وقت کے لیے سلطان کے نام کردیا۔ جس کے بعد سلطان نے گوادر میں آکر رہائش اختیار کرلی۔ 1797 میں سلطان واپس مسقط چلا گیا اور وہاں اپنی کھوئی ہوئی حکومت حاصل کرلی۔
1804 میں سلطان کی وفات کے بعد اس کے بیٹے حکمران بن گئے تو ان دور میں بلیدیوں نے ایک بار پھر گوادر پر قبضہ کرلیا جس پر مسقط سے فوجوں نے آکر اس علاقے کو بلیدیوں سے واگزار کروایا۔ 1838 کی پہلی افغان جنگ میں برطانیہ کی توجہ اس علاقے پر ہوئی تو بعد میں 1861 میں برطانوی فوج نے میجر گولڈ اسمتھ کی نگرانی میں آکر اس علاقے پر قبضہ کرلیا اور 1863 میں گوادر میں اپنا ایک اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کردیا چنانچہ ہندوستان میں برطانیہ کی برٹش انڈیا اسٹیم نیویگیشن کمپنی کے جہازوں نے گوادر اور پسنی کی بندرگاہوں کو استعمال کرنا شروع کردیا۔
1863 میں گوادر میں پہلا تار گھر (ٹیلی گرام آفس) قائم ہوا جب کہ پسنی میں بھی تارگھر بنایا گیا۔ 1894کو گوادر میں پہلا پوسٹ آفس کھلا جب کہ 1903 کو پسنی اور 1904 کو اور ماڑہ میں ڈاک خانے قائم کیے گئے۔ 1947 میں جب برصغیر کی تقسیم ہوئی اور بھارت اور پاکستان کے نام سے دو بڑی ریاستیں معرض وجود میں آئیں تو گوادر اور اس کے گرد ونواح کے علاوہ یہ علاقہ قلات میں شامل تھا۔
1955 میں علاقے کو مکران ضلع بنا دیاگیا۔ 1958 میں مسقط نے 10 ملین ڈالرز کے عوض گوادر اور اس کے گرد و نواح کا علاقہ واپس پاکستان کو دے دیا جس پر پاکستان کی حکومت نے گوادر کو تحصیل کا درجہ دے کر اسے ضلع مکران میں شامل کردیا۔ یکم جولائی 1970 کو جب ون یونٹ کا خاتمہ ہوا اور بلوچستان بھی ایک صوبے کی حیثیت اختیار کر گیا تو مکران کو بھی ضلعی اختیارات مل گئے۔ 1977 میں مکران کو ڈویژن کا درجہ دے دیاگیا اور یکم جولائی 1977 کو تربت، پنجگور اور گوادر تین اضلاع بنا دیے۔
موجودہ دور میں گوادر ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ 1998 کی قومی مردم شماری کے مطابق 53,080 افراد پر مشتمل تھی۔ اس کی یونین کونسلیں 28 وارڈ پر مشتمل ہے۔ پاکستان کے انتہائی جنوب مغرب میں واقع اس شہر کو سمندر نے تین اطراف سے اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے اور ہر وقت سمندری ہوائیں چلتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے یہ ایک خوبصورت اور دلفریب منظر پیش کرتا ہے۔
گوادر کے معنی ''ہوا کا دروازہ'' گوا کے معنی ہوا اور در کا مطلب دروازہ ہے۔ گہرے سمندر کے علاوہ شہر کے ارد گرد مٹی کی بلند وبالا چٹانیں موجود ہیں۔ آپ یقین کریں یا نہ کریں اس پہاڑی کے چوٹی پر کھڑے ہوکر جب آپ اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کو پھیلائیںگے تو پورا گوادر شہر آپ کے ہتھیلی پر سمو رہا ہوگا۔
اس بلند ترین پہاڑی پر چڑھنے کے لیے آڑی ترچھی سیمنٹ کی سیڑھی بنائی گئی ہے جس کے 720 زینے ہیں۔ جس کے ارد گرد کوئی حفاظتی دستہ نہیں جوں جوں آپ پہاڑ پر چڑھتے رہیں گے نیچے زمین چھوٹی نظر آتی رہے گی۔ سر میں چکر آنے شروع ہوجاتے ہیں، دل کی دھڑکن کی رفتار تیز ہوجاتی ہے اور آپ بلا جھجھک یہ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی ہیلی کاپٹر آئے اور آپ کو نیچے زمین پر اتار دے کیوں کہ دوبارہ اسی پر خطر راستہ کو عبور کرنا ہمت والا کام ہے۔
اس پہاڑی کی بلندی کا اندازہ آپ کراچی کے حبیب پلازہ بینک کی عمارت کی اونچائی سے زیادہ لگاسکتے ہیں۔واضح رہے کہ گزشتہ دنوں گوادر کے سیر کے لیے گیا ہوا تھا۔ سوچاتھا کہ کراچی کی ہنگامہ خیز زندگی سے سیکڑوں میل دور صحت افزا مقام پر کچھ روز گزاریں گے لیکن وہاں پہنچنے پر کراچی جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ خبر ملی کہ آج گوادر شہر کے ایک معروف پرائیویٹ اسکول کے پرنسپل کو نامعلوم افراد نے دن کے اجالے میں قتل کیا ہے اور لوگ خوف زدہ اور غمگین ہیں۔ (جاری ہے)
60 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی والے شہرگوادر میں اکیسویں صدی کی ضرورتوں سے آراستہ جدید بندرگاہ کی تکمیل سے آنے والے وقت میں پاکستان،چین،افغانستان اورایشیا کے ممالک کی بحری تجارت کا زیادہ تردارومدار اسی بندرگاہ پر ہوگا۔گوادر اوراس کے گردونواح کی تاریخ بہت پرانی ہے یہ علاقہ وادی کلانچ اوروادی دشت بھی کہلاتا ہے اس کا زیادہ رقبہ بے آباد اور بنجر ہے۔
تاریخی روایت کے مطابق حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں جب قحط پڑا تو وادی سینا سے بہت سے افراد کوچ کرکے وادی مکران کے علاقے میں آگئے۔ مکران کا یہ علاقہ ہزاروں سال تک ایران کا حصہ رہا ہے۔ 325 قبل مسیح میں سکندر اعظم جب برصغیر سے واپس یونان جارہا تھا تو اس نے یہ علاقہ اتفاقاً دریافت کیا اس کی بحری فوج کے سپہ سالار ADMIRAL NEARCHOS نے اپنے جہاز اس بندرگاہ پر لنگر انداز کیے اور اپنی یاداشتوں میں اس علاقے کے اہم شہروں کو قلمات، گوادر،پشوکان اور چاہ بہار کے ناموں سے لکھا ہے۔
اہم سمندری راستے پر واقع ہونے کی وجہ سے سکندراعظم نے اس علاقے کو فتح کرکے اپنے ایک جنرل SELEUKOS NIKATOR کو یہاں کا حکمران بنادیا جو 303 قبل مسیح تک حکومت کرتا رہا۔ 303 ق م میں برصغیر کے حکمران چندرگپتا نے حملہ کرکے یونانی جنرل سے یہ علاقہ چھین لیا اور اپنی حکومت میں شامل کرلیا مگر ایک سوسال بعد 202 ق م میں پھر یہاں کی حکمرانی ایران کے بادشاہوں کے پاس چلی گئی۔
711 عیسوی میں مسلمان جنرل محمد بن قاسم نے یہ علاقہ فتح کرلیا۔ ہندوستان کے مغل بادشاہوں کے زمانے میں یہ علاقہ مغلیہ سلطنت کا حصہ رہا جب کہ 16 ویں صدی میں پرتگیزیوں نے مکران کے متعدد علاقوں جن میں یہ علاقہ (گوادر) بھی شامل تھا پر قبضہ کرلیا۔ 1581 میں پرتگیزیوں نے اس علاقے کے دو اہم تجارتی شہروں پسنی اور گوادر کو جلادیا۔
یہ علاقہ متعدد مقامی حکمرانوں کے درمیان بھی تختہ مشق بنا رہا اور کبھی اس پر بلیدی حکمران رہے تو کبھی رندوں کو حکومت ملی کبھی ملک حکمران بن گئے تو کبھی گچکیوں نے اس پر قبضہ کرلیا۔ 1740 تک بلیدی حکومت کرتے رہے ۔ ان کے بعد گچکیوں کی ایک عرصے تک حکمرانی رہی مگر خاندانی اختلافات کی وجہ سے جب یہ کمزور پڑے تو خان قلات میر نصیر خان اول نے کئی مرتبہ ان پر چڑھائی کی جس کے نتیجے میں ان دونوں نے اس علاقے اور یہاں سے ہونے والی آمدنی کو آپس میں تقسیم کرلیا۔
1783 میں مسقط کے بادشاہ کا اپنے بھائی سعد سلطان سے جھگڑا ہوگیا جس پر سعد سلطان نے خان آف قلات میر نصیر خان کو خط لکھا جس میں اس نے یہاں آنے کی خواہش ظاہر کی چنانچہ خان نے نہ صرف سلطان کو فوری طورپر آجانے کو کہا بلکہ گوادر کا علاقہ اور وہاں کی آمدن بھی لا محدود وقت کے لیے سلطان کے نام کردیا۔ جس کے بعد سلطان نے گوادر میں آکر رہائش اختیار کرلی۔ 1797 میں سلطان واپس مسقط چلا گیا اور وہاں اپنی کھوئی ہوئی حکومت حاصل کرلی۔
1804 میں سلطان کی وفات کے بعد اس کے بیٹے حکمران بن گئے تو ان دور میں بلیدیوں نے ایک بار پھر گوادر پر قبضہ کرلیا جس پر مسقط سے فوجوں نے آکر اس علاقے کو بلیدیوں سے واگزار کروایا۔ 1838 کی پہلی افغان جنگ میں برطانیہ کی توجہ اس علاقے پر ہوئی تو بعد میں 1861 میں برطانوی فوج نے میجر گولڈ اسمتھ کی نگرانی میں آکر اس علاقے پر قبضہ کرلیا اور 1863 میں گوادر میں اپنا ایک اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کردیا چنانچہ ہندوستان میں برطانیہ کی برٹش انڈیا اسٹیم نیویگیشن کمپنی کے جہازوں نے گوادر اور پسنی کی بندرگاہوں کو استعمال کرنا شروع کردیا۔
1863 میں گوادر میں پہلا تار گھر (ٹیلی گرام آفس) قائم ہوا جب کہ پسنی میں بھی تارگھر بنایا گیا۔ 1894کو گوادر میں پہلا پوسٹ آفس کھلا جب کہ 1903 کو پسنی اور 1904 کو اور ماڑہ میں ڈاک خانے قائم کیے گئے۔ 1947 میں جب برصغیر کی تقسیم ہوئی اور بھارت اور پاکستان کے نام سے دو بڑی ریاستیں معرض وجود میں آئیں تو گوادر اور اس کے گرد ونواح کے علاوہ یہ علاقہ قلات میں شامل تھا۔
1955 میں علاقے کو مکران ضلع بنا دیاگیا۔ 1958 میں مسقط نے 10 ملین ڈالرز کے عوض گوادر اور اس کے گرد و نواح کا علاقہ واپس پاکستان کو دے دیا جس پر پاکستان کی حکومت نے گوادر کو تحصیل کا درجہ دے کر اسے ضلع مکران میں شامل کردیا۔ یکم جولائی 1970 کو جب ون یونٹ کا خاتمہ ہوا اور بلوچستان بھی ایک صوبے کی حیثیت اختیار کر گیا تو مکران کو بھی ضلعی اختیارات مل گئے۔ 1977 میں مکران کو ڈویژن کا درجہ دے دیاگیا اور یکم جولائی 1977 کو تربت، پنجگور اور گوادر تین اضلاع بنا دیے۔
موجودہ دور میں گوادر ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ 1998 کی قومی مردم شماری کے مطابق 53,080 افراد پر مشتمل تھی۔ اس کی یونین کونسلیں 28 وارڈ پر مشتمل ہے۔ پاکستان کے انتہائی جنوب مغرب میں واقع اس شہر کو سمندر نے تین اطراف سے اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے اور ہر وقت سمندری ہوائیں چلتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے یہ ایک خوبصورت اور دلفریب منظر پیش کرتا ہے۔
گوادر کے معنی ''ہوا کا دروازہ'' گوا کے معنی ہوا اور در کا مطلب دروازہ ہے۔ گہرے سمندر کے علاوہ شہر کے ارد گرد مٹی کی بلند وبالا چٹانیں موجود ہیں۔ آپ یقین کریں یا نہ کریں اس پہاڑی کے چوٹی پر کھڑے ہوکر جب آپ اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کو پھیلائیںگے تو پورا گوادر شہر آپ کے ہتھیلی پر سمو رہا ہوگا۔
اس بلند ترین پہاڑی پر چڑھنے کے لیے آڑی ترچھی سیمنٹ کی سیڑھی بنائی گئی ہے جس کے 720 زینے ہیں۔ جس کے ارد گرد کوئی حفاظتی دستہ نہیں جوں جوں آپ پہاڑ پر چڑھتے رہیں گے نیچے زمین چھوٹی نظر آتی رہے گی۔ سر میں چکر آنے شروع ہوجاتے ہیں، دل کی دھڑکن کی رفتار تیز ہوجاتی ہے اور آپ بلا جھجھک یہ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی ہیلی کاپٹر آئے اور آپ کو نیچے زمین پر اتار دے کیوں کہ دوبارہ اسی پر خطر راستہ کو عبور کرنا ہمت والا کام ہے۔
اس پہاڑی کی بلندی کا اندازہ آپ کراچی کے حبیب پلازہ بینک کی عمارت کی اونچائی سے زیادہ لگاسکتے ہیں۔واضح رہے کہ گزشتہ دنوں گوادر کے سیر کے لیے گیا ہوا تھا۔ سوچاتھا کہ کراچی کی ہنگامہ خیز زندگی سے سیکڑوں میل دور صحت افزا مقام پر کچھ روز گزاریں گے لیکن وہاں پہنچنے پر کراچی جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ خبر ملی کہ آج گوادر شہر کے ایک معروف پرائیویٹ اسکول کے پرنسپل کو نامعلوم افراد نے دن کے اجالے میں قتل کیا ہے اور لوگ خوف زدہ اور غمگین ہیں۔ (جاری ہے)