ریاست کو بچائیے

دنیا بھر کے مسلمان ملکوں میں ان کا عقیدہ ہی نافذالعمل ہو جس کے لیے وہ جبر کا طریقہ اختیار کرنا جائز سمجھتے ہیں۔

mohsin014@hotmail.com

21 ویں ترمیم میں فوجی عدالتوں کے قیام سے یقینا دہشت گردی ختم کرنے میں کافی مدد ملے گی ۔یہ کام پاکستان کی داخلی اورخارجی سلامتی کے ذمے دار اداروں کا کام ہے۔مگر اس دہشت گردی میںایک بنیادی بات یہ ہے کہ ایک مخصوص نظریے کا عقیدہ رکھنے والی جماعتیں اپنے نظریے اور عقیدے کو نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں عملی طور پر نافذالعمل کرنا چاہتی ہیں اور اس نظریے کے لوگ اس نظریے کی جماعت مصر میں بھی ہے۔

بھارت میں بھی ہے بنگلادیش میں بھی بیشتر عرب ممالک میں بھی اور افریقہ کے مسلم ممالک سوڈان وغیرہ میں بھی ہے۔انھیں جماعتوں میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ پوری دنیا کے مسلم ممالک میں نظام خلافت پیدا کیا جائے اور داعش نامی تنظیم اسی بنیاد پر ہر مسلم ملک میں امیر مقررکررہی ہے، جہاں تک اُن کے نظریات اور عقائد کا تعلق ہے اصولاً انھیں اپنے نظریات اور عقائد پر عمل کرنے کی بنیادی آزادی ہونی چاہیے اور ہے بھی مگر وہ یہ چاہتے ہیں کہ دنیا بھر کے مسلمان ملکوں میں ان کا عقیدہ ہی نافذالعمل ہو جس کے لیے وہ جبر کا طریقہ اختیار کرنا جائز سمجھتے ہیں۔

وہ مسلمانوں کے تمام فرقوں کو دراصل تسلیم ہی نہیں کرتے نہ اُن کو اپنے نظریات اور عقائد میں آزادی کا حق دیتے ہیں۔القاعدہ جیسی جماعت کے وجود کے بعد اُن نظریات اور عقائد رکھنے والی جماعتوںکو بڑی تقویت ملی، انھیںمالی معاونت بھی ملی انھوںنے اس سلسلے میں بڑا تبلیغی کام بھی کیا ۔

پاکستان کی ایسے نظریے رکھنے والی جماعتوں نے سیاسی چادر اُوڑھی ہوئی ہے یہ طریقہ ہمارے وطن ہماری قوم ہماری ریاست کے لیے کافی حد تک خطرناک بنتا چلا گیا۔کیونکہ ایک طرف انھوں نے مذہبی منافرت پیدا کی اوردوسری طرف سیاسی قوت بھی حاصل کی۔ اس کے علاوہ بعض سیاسی جماعتیں جو لسانی بنیاد پر وجود میں آئیں انھوں نے بھی ملک اور قوم کو تقسیم کیا ہے اُن مذہبی اور لسانی جماعتوں کی وجہ سے حقیقی جمہوریت کے ثمرات عوام کو نہیں ملے اور پاکستان جو دنیا کا پہلا اسلامی جوہری صلاحیت کا ملک ہے وہ افراتفری اور انتشار کا شکار ہوتا چلا گیا۔


جس طرح اس ملک کو ترقی کرنی چاہیے تھی وہ نہ کرسکا، اس کے پیچھے ان سیاست دانوں کا بڑا ہاتھ ہے جنہوں نے سیاسی قوت کے حاصل کرنے کے بعد مال و زر لوٹا۔تقریباً نو ّے فی صد سیاستداں جو حقیقی معنوں میں سیاستداں نہیں انھوں نے سیاسی قوت کے ذریعے ملک کو کھوکھلا کردیا۔لہٰذا اب ریاست کو بچانے کے لیے اتنا وقت نہیں رہا کہ مزید انتشار اور افراتفری برداشت کی جائے۔ ہماری نظر میں اس کا بہترین حل یہ ہے فوری طور پرکچھ اہم اقدامات اٹھائے جائیں ۔تمام سیاستدانوں کا کڑا حساب ہو۔ خفیہ ذرایع سے یہ معلومات جمع کی جائیں کہ ان کے کاروبار ان کے طرز زندگی میں اتنی دولت کن ذرایع سے آئی ہے۔

انھوں نے کتنا قرضہ لیا اور اس قرضے کو کیوں معاف کیا۔ کن کن زمینوں کو بیچ کر دولت کمائی۔دوسرا اقدام یہ ہو کہ جن جن کے خلاف تھانوں میں ایف آئی آر درج ہے اس پر فوری اقدام اٹھایا جائے بلا امتیاز کارروائی ہو۔ان سیاستدانوں کے پاس کسی حال میں دہری شہریت نہ ہونی چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ تمام مذہبی جماعتوں پر سیاست کرنے پر پابندی ہو انھیں صرف مذہبی طور پر کام کرنے کا حق ہو اور تمام سیاسی جماعتوں کو مذہب کے نام پر سیاست سے روکا جائے۔ ملک کے تمام اہم اداروں میں بدنام زمانہ رشوت خوروں کو نکال دیا جائے۔

ہر ادارے میں قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر کام کرنے کی اجازت ہو۔ جب تک یہ اقدامات نہیں اٹھائیں جائیں گے ملک سے قتل و غارت، لوٹ مار، بھتہ اور اغوا جیسے معاملات پر کسی طرح قابو نہیں پایا جاسکتا انتظامیہ کو مضبوط کیا جائے۔ہر ادارے کو نظم و ضبط کے دائرے میں لایا جائے۔بجلی،پانی،گیس کی ترسیل کو بہتر بنایا جائے۔جب دنیا میں تیل کی قیمت کم ہو رہی ہے تو اِس کا اثر ہمارے ملک میں مہنگائی کی صورت میں کیوں ہے ایسا معاشی نظام عمل میں لایا جائے جس میںخورونوش کی اشیاء کی پیداوار میںاضافہ کر کے اس کی رسد کے نظام کو بہتر بنا کر سستی اشیاء بازار میں لائیں۔اسکولوں میں من مانی فیسوںکو اعتدال میں لایا جائے۔

ڈاکٹر جو ہر تین سال میں اپنی فیس میں سو روپے کا اضافہ کرتے ہیں انھیں روکا جائے اعتدال والی فیس کا پابند کیا جائے۔اور ان سے آمدنی پر ٹیکس لیا جائے بہت سے ڈاکٹر جو بچوں کے علاج کرتے ہیںوہ 600 روپے کم سے کم فیس لیتے ہیں پورے دن میں پچاس سے 100 مریضوں سے یہ رقم لیتے ہیں مگر ایک پائی بھی ٹیکس میں نہیں دیتے۔

اس قسم کے بہت سے معاملات ہیں جن پر خاطر خواہ توجہ دی جائے عوام پر مسلسل ٹیکس کا دباؤ ڈالنے کے بجائے ذرایع آمدنی کے لیے دوسرے وسائل پیدا کیے جائیں اور ریاست کے نظام کو مکمل کرنے کے لیے فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں ان اقدامات سے ہمارا وطن مضبوط ہوگا اس کے وقار میں اضافہ ہوگا۔ اندرونی خلفشار ختم ہوگا اور ترقی کی راہیںکھلیں گی۔عوام کا اعتماد اداروں پر بڑھے گا اور بااعتماد قوم کے شاندار سپوت بہترین رہنما بن کر مستقبل کے معمار بنیں گے۔
Load Next Story