حقوق نسواں اور ہمارے رویے
دین اسلام نے مردوں کے ساتھ عورتوں کے حقوق و فرائض کا خاص خیال رکھا ہے۔
عورت اور مرد ایک حقیقت ہیں۔ حضرت آدمؑ کے ساتھ امّاں حواؑ کا ذکر اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے مرد و زن کے ملاپ سے اپنی اشرف مخلوق کو پیدا فرمایا۔ اﷲ تعالیٰ اس کے علاوہ بھی جو چاہتا کرسکتا تھا، لیکن اس کی مشیت تھی کہ ایک جوڑا پیدا کیا جائے جس سے انسانی نسل کو آگے پھولنا پھلنا ہے لہٰذا عورت کی اسلام میں ایک خاص اہمیت ہے۔
دین اسلام نے مردوں کے ساتھ عورتوں کے حقوق و فرائض کا خاص خیال رکھا ہے۔ عورت بحیثیت بیٹی رحمت، بطور بیوی راحت اور بطور ماں جنت کے منصب پر فائز ہے۔ قرآن حکیم میں کئی جگہ عورتوں کے حقوق اور ان کی پاسداری کا حکم ہے۔ رب تعالیٰ نے عورتوں کو جو حقوق دیے ہیں انہیں دنیا کی کوئی طاقت منسوخ نہیں کرسکتی۔ یہ عورتوں کا اعزاز ان کے لیے ان کے رب کی طرف سے ہے۔ اسی طرح رب تعالیٰ نے وراثت میں بھی عورتوں کا حصہ مقرر فرمایا۔ قرآن پاک میں یوں ارشاد باری تعالیٰ ہے ''عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتے داروں نے چھوڑا۔'' اسی طرح رسول کریم ﷺ نے بھی عورتوں کے حقوق کی ہمیشہ تاکید فرمائی ہے۔ حضرت عبداﷲ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ساری دنیا سرمایہ ہے اور دنیا کا بہترین سرمایہ نیک عورت ہے۔ (مسلم)
سرکار دوعالمؐ نے خطبہ حجۃالوداع کے موقع پر فرمایا:
''سن لو! تمہاری عورتوں پر تمہارے حقوق ہیں اور اسی طرح تمہاری عورتوں کے بھی حقوق ہیں۔ تمہارے حقوق میں یہ ہے کہ وہ تمہاری غیر حاضری میں امین رہیں اور ہر اس شخص کو جس کو تم ناپسند کرتے ہو، گھروں میں نہ آنے دیں، اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ ان کے نان نفقے میں بھلائی کا سلوک کرو۔ ( ترمذی)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا ''عورتوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی میں وصیت کرتا ہوں۔ تم میری اس وصیت کو قبول کرو۔ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلیوں میں سب سے زیادہ ٹیڑھی اوپر والی ہے اگر تم نے اسے سیدھا کرنا چاہا تو وہ ٹوٹ جائے گی، سو اسے ٹیڑھا ہی رہنے دو تاکہ وہ باقی رہے۔'' (بخاری و مسلم)
حضرت ابوہریرہؓ سے ہی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا مومنہ عورت کو مغبوض نہ رکھو۔ اگر اس کی ایک عادت بُری معلوم ہوتی ہے تو دوسری پسندیدہ ہوگی۔ (مسلم)
یعنی عورت بھی انسان اور خطا کا پتلا ہے۔ اچھی بُری عادات ہر انسان میں ہوتی ہیں، چاہے وہ عورت ہو یا مرد۔ اور مرد کو چاہیے کہ وہ عفو و درگزر اور صبر کا مظاہرہ کریں۔ ہمیشہ عورت کی ناپسندیدہ عادات پر ہی نظر نہ رکھے بلکہ اس کی اچھائی اور اچھی عادات کی تعریف بھی کرے۔ آپؐ نے فرمایا تم میں سے اچھے وہ لوگ ہیں جو عورتوں سے اچھی طرح پیش آئیں۔
آج کے اس دور میں بہت مہذب، ترقی یافتہ اور جدید کہلانے والوں کی ساری شرافت اور تہذیب گھر سے باہر ہوتی ہے اور عموماً گھروں میں تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کو ملتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کوئی شخص اپنی عورت کو نہ مارے۔ جیسے غلام کو مارتا ہے ۔ (بخاری و مسلم)
اپنے خاوند کے مال پر بیوی کا پورا حق ہے۔ اگر بیوی خود ملازمت کر رہی ہے تو اس کے باوجود اس کے نان و نفقے اور گھریلو اخراجات کا ذمے دار مرد ہے نہ کہ وہ عورت اور اگر عورت گھریلو اخراجات میں معاونت کر رہی ہے تو یہ اس کا مرد پر احسان ہے۔ اس لیے کہ اسلام نے عورت کا کفیل مرد کو بنایا ہے۔
آج کے دور میں ہمارے ہاں رشتے طے کرتے ہوئے شادی بیاہ کے موقع پر سب سے پہلا سوال ہی عورت کی ملازمت سے شروع ہوتا ہے کہ کتنی کمائی والی لڑکی ہے؟ اور شادی کے بعد اس لڑکی کی کمائی پر خاوند کا حق سمجھا جاتا ہے۔ جس میں سے اپنی مرضی سے کچھ بھی خرچ کرنا عورت کا اختیار نہیں ہوتا۔ پھر جب وہی عورت بچے کی ماں بن جائے تو باہر کی ذمے داری کے ساتھ گھریلو ذمے داری اور بچے کی پرورش اس اکیلی عورت کے فرائض میں شامل ہوتی ہے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک عورت آپؐ کے پاس آئی اور عرض کیا یارسول اﷲ ﷺ میرے شوہر مجھے اور بچوں کو پورا خرچ نہیں دیتے جو ہمیں کافی ہو۔ سوائے اس کے کہ میں خود ان کے بغیر پوچھے کچھ لے لوں تو آپؐ نے فرمایا تم اس کے مال میں سے اتنا لے سکتی ہو جو تمہیں اور تمہاری اولاد کو کافی ہو۔ (ابن ماجہ)
آپؐ عورتوں کے ساتھ عدل کرنے کی تلقین فرماتے اور آپؐ نے خود بھی اپنی ازواج مطہراتؓ کے تمام حقوق ادا فرمائے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں رسول کریم ﷺ جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے جس کا نام قرعہ میں نکلتا آپؐ اسے سفر پر ساتھ لے جاتے۔ کتنا انصاف ہے عورت کے ساتھ کہ کسی کو کسی سے کم یا زیادہ حق نہیں دیا گیا۔ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ ''حلال کاموں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ کام خدا کے نزدیک طلاق ہے۔ (ابوداؤد)
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا جب خدا تعالیٰ تم میں سے کسی کو مال عطا فرمائے تو اس کو چاہیے کہ وہ پہلے اپنی ذات پر خرچ کرے اور پھر اپنے گھر والوں پر (مسلم)
ہر دور کے انسان نے عورت کے ساتھ ظلم کیا۔ قبل از اسلام بیٹی کو پیدا ہوتے ہی زمین میں دفن کردیا جاتا اور زندگی کے ہر شعبے میں اس کو ذلیل و خوار کیا جاتا۔ مگر اسلام نے خواتین کو عظمت و مرتبہ دیا اور اسے ہر روپ میں قابل عزت و قابل عظمت قرار دیا۔ وہ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی ہر روپ میں قابل احترام ہے اور دوسرے رشتوں میں بھی ایک خاص مقام اور اہمیت رکھتی ہے۔
دین اسلام نے مردوں کے ساتھ عورتوں کے حقوق و فرائض کا خاص خیال رکھا ہے۔ عورت بحیثیت بیٹی رحمت، بطور بیوی راحت اور بطور ماں جنت کے منصب پر فائز ہے۔ قرآن حکیم میں کئی جگہ عورتوں کے حقوق اور ان کی پاسداری کا حکم ہے۔ رب تعالیٰ نے عورتوں کو جو حقوق دیے ہیں انہیں دنیا کی کوئی طاقت منسوخ نہیں کرسکتی۔ یہ عورتوں کا اعزاز ان کے لیے ان کے رب کی طرف سے ہے۔ اسی طرح رب تعالیٰ نے وراثت میں بھی عورتوں کا حصہ مقرر فرمایا۔ قرآن پاک میں یوں ارشاد باری تعالیٰ ہے ''عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتے داروں نے چھوڑا۔'' اسی طرح رسول کریم ﷺ نے بھی عورتوں کے حقوق کی ہمیشہ تاکید فرمائی ہے۔ حضرت عبداﷲ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ساری دنیا سرمایہ ہے اور دنیا کا بہترین سرمایہ نیک عورت ہے۔ (مسلم)
سرکار دوعالمؐ نے خطبہ حجۃالوداع کے موقع پر فرمایا:
''سن لو! تمہاری عورتوں پر تمہارے حقوق ہیں اور اسی طرح تمہاری عورتوں کے بھی حقوق ہیں۔ تمہارے حقوق میں یہ ہے کہ وہ تمہاری غیر حاضری میں امین رہیں اور ہر اس شخص کو جس کو تم ناپسند کرتے ہو، گھروں میں نہ آنے دیں، اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ ان کے نان نفقے میں بھلائی کا سلوک کرو۔ ( ترمذی)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا ''عورتوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی میں وصیت کرتا ہوں۔ تم میری اس وصیت کو قبول کرو۔ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلیوں میں سب سے زیادہ ٹیڑھی اوپر والی ہے اگر تم نے اسے سیدھا کرنا چاہا تو وہ ٹوٹ جائے گی، سو اسے ٹیڑھا ہی رہنے دو تاکہ وہ باقی رہے۔'' (بخاری و مسلم)
حضرت ابوہریرہؓ سے ہی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا مومنہ عورت کو مغبوض نہ رکھو۔ اگر اس کی ایک عادت بُری معلوم ہوتی ہے تو دوسری پسندیدہ ہوگی۔ (مسلم)
یعنی عورت بھی انسان اور خطا کا پتلا ہے۔ اچھی بُری عادات ہر انسان میں ہوتی ہیں، چاہے وہ عورت ہو یا مرد۔ اور مرد کو چاہیے کہ وہ عفو و درگزر اور صبر کا مظاہرہ کریں۔ ہمیشہ عورت کی ناپسندیدہ عادات پر ہی نظر نہ رکھے بلکہ اس کی اچھائی اور اچھی عادات کی تعریف بھی کرے۔ آپؐ نے فرمایا تم میں سے اچھے وہ لوگ ہیں جو عورتوں سے اچھی طرح پیش آئیں۔
آج کے اس دور میں بہت مہذب، ترقی یافتہ اور جدید کہلانے والوں کی ساری شرافت اور تہذیب گھر سے باہر ہوتی ہے اور عموماً گھروں میں تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کو ملتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کوئی شخص اپنی عورت کو نہ مارے۔ جیسے غلام کو مارتا ہے ۔ (بخاری و مسلم)
اپنے خاوند کے مال پر بیوی کا پورا حق ہے۔ اگر بیوی خود ملازمت کر رہی ہے تو اس کے باوجود اس کے نان و نفقے اور گھریلو اخراجات کا ذمے دار مرد ہے نہ کہ وہ عورت اور اگر عورت گھریلو اخراجات میں معاونت کر رہی ہے تو یہ اس کا مرد پر احسان ہے۔ اس لیے کہ اسلام نے عورت کا کفیل مرد کو بنایا ہے۔
آج کے دور میں ہمارے ہاں رشتے طے کرتے ہوئے شادی بیاہ کے موقع پر سب سے پہلا سوال ہی عورت کی ملازمت سے شروع ہوتا ہے کہ کتنی کمائی والی لڑکی ہے؟ اور شادی کے بعد اس لڑکی کی کمائی پر خاوند کا حق سمجھا جاتا ہے۔ جس میں سے اپنی مرضی سے کچھ بھی خرچ کرنا عورت کا اختیار نہیں ہوتا۔ پھر جب وہی عورت بچے کی ماں بن جائے تو باہر کی ذمے داری کے ساتھ گھریلو ذمے داری اور بچے کی پرورش اس اکیلی عورت کے فرائض میں شامل ہوتی ہے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک عورت آپؐ کے پاس آئی اور عرض کیا یارسول اﷲ ﷺ میرے شوہر مجھے اور بچوں کو پورا خرچ نہیں دیتے جو ہمیں کافی ہو۔ سوائے اس کے کہ میں خود ان کے بغیر پوچھے کچھ لے لوں تو آپؐ نے فرمایا تم اس کے مال میں سے اتنا لے سکتی ہو جو تمہیں اور تمہاری اولاد کو کافی ہو۔ (ابن ماجہ)
آپؐ عورتوں کے ساتھ عدل کرنے کی تلقین فرماتے اور آپؐ نے خود بھی اپنی ازواج مطہراتؓ کے تمام حقوق ادا فرمائے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں رسول کریم ﷺ جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے جس کا نام قرعہ میں نکلتا آپؐ اسے سفر پر ساتھ لے جاتے۔ کتنا انصاف ہے عورت کے ساتھ کہ کسی کو کسی سے کم یا زیادہ حق نہیں دیا گیا۔ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ ''حلال کاموں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ کام خدا کے نزدیک طلاق ہے۔ (ابوداؤد)
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا جب خدا تعالیٰ تم میں سے کسی کو مال عطا فرمائے تو اس کو چاہیے کہ وہ پہلے اپنی ذات پر خرچ کرے اور پھر اپنے گھر والوں پر (مسلم)
ہر دور کے انسان نے عورت کے ساتھ ظلم کیا۔ قبل از اسلام بیٹی کو پیدا ہوتے ہی زمین میں دفن کردیا جاتا اور زندگی کے ہر شعبے میں اس کو ذلیل و خوار کیا جاتا۔ مگر اسلام نے خواتین کو عظمت و مرتبہ دیا اور اسے ہر روپ میں قابل عزت و قابل عظمت قرار دیا۔ وہ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی ہر روپ میں قابل احترام ہے اور دوسرے رشتوں میں بھی ایک خاص مقام اور اہمیت رکھتی ہے۔