اسلام بھی کچھ کہتا ہے

کسی مذہبی شخصیت کا سماجی مسئلے پر یوں گفتگو کرنا ان کے لیے تعجب خیز تھا۔


عارف حسین February 06, 2015
یہ اپنے موضوع اور عنوان کے اعتبار سے بظاہر منفرد اور تازہ معلوم نہیں ہوتا، لیکن فکر و نظر کا زاویہ بدلیں تو آپ اسے نہایت پُرقوت اور شاندار کاوش قرار دیں گے۔ فوٹو فائل

''اسلام تمام شعبہ ہائے زندگی کا احاطہ کرتا ہے اور ہر معاملے میں ہمارا رہنما ہے، یہ ہمیں طرزِ معاشرت اور سماجی برتاؤ بھی سکھاتا ہے''
یہ اور اسی نوع کے چند جملے علمائے دین کی تقاریر اور تحاریر میں ضرور شامل ہوتے ہیں، لیکن گنے چنے ناموں کے سوا شاید ہی کوئی اپنے ان خیالات اور دعووں کی تفہیم، وضاحت اور تفصیل بتانے پر قدرت رکھتا ہوگا۔


معذرت چاہوں گا، مگر حقیقت یہی ہے کہ علماء کی اکثریت نے ہم مسلمانوں کو نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کی فرضیت، اہمیت اور مسائل سے آگاہی دینے کے بعد اپنے علم و فضل میں سے صرف عیدین، واقعۂ معراج، شبِ قدر کی فضیلت، جنت و جہنم یا گناہ و ثواب کی حد تک ہی استفادہ کرنے کا موقع دیا ہے۔ انہوں نے ہمیں یہ بتانا ضروری نہیں سمجھا کہ دینِ اسلام کس طرح سماج کی بُنت اور سدھار میں بھی معاونت کرسکتا ہے۔ اسلام کی نظر میں افراد اور ریاست کا تال میل کیسا ہونا چاہیے۔ یہ کس طرح ہمیں ہر سطح پر ذمہ داریوں کا احساس اور دین کے ساتھ دنیاوی تقاضوں کو پورا کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ میں ہمیشہ اس پر کڑھتا رہا، افسوس اور ملال میں گھرا رہا، لیکن ایک روز صرف 27 صفحات کا مضمون ''بجلی استعمال کرنے کے مدنی پھول'' میری ان کیفیات کو امید اور امکان سے بدل گیا۔


اب یہ سطور بھی پڑھ لیجیے۔ اس کے بعد آپ پر میری تحریر کا مقصد واضح ہوجائے گا۔ ہُوا یہ کہ ایک ٹیلیویژن چینل پر بجلی چوری کی مذمت کی گئی، جس نے ادارہ فراہمی بجلی کے عہدیداروں کو حیران کر دیا، کیونکہ وہ عالمی سطح پر سرگرم ایک دینی جماعت کا چینل تھا، جس کے بانی اپنے مریدین اور دیگر مسلمانوں کو بھی اہم معاشرتی ذمہ داری کے متعلق درس دے رہے تھے۔ کسی مذہبی شخصیت کا سماجی مسئلے پر یوں گفتگو کرنا ان کے لیے تعجب خیز تھا۔ انہوں نے اس تنظیم کے عالمی مرکز سے رابطہ کرکے ان کا شکریہ ادا بھی کیا اور بجلی و برقی آلات پر چند تکنیکی معلومات بھی فراہم کیں۔


یہ اپنے موضوع اور عنوان کے اعتبار سے بظاہر منفرد اور تازہ معلوم نہیں ہوتا، لیکن فکر و نظر کا زاویہ بدلیں تو آپ اسے نہایت پُرقوت اور شاندار کاوش قرار دیں گے۔ یہ کتابچہ موجودہ دور کی اہم ترین ضرورت اور توانائی کی ایک شکل یعنی بجلی سے متعلق صارفین کی غیر ذمہ داری اور لاپروائی کی عادت سے بحث کرتا ہے۔ اس میں بجلی اور برقی آلات کے بارے میں بنیادی تکنیکی امور اور مسائل کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ نعمتوں اور دنیاوی سہولیات سے فائدہ اٹھانے کو دین کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے بجلی کے درست استعمال کی تلقین اور توانائی کی بچت کی ترغیب دی گئی ہے۔ الغرض یہ مختصر، مگر ہر لحاظ سے راہنما تحریر ہے۔


چند ماہ قبل ایک دوست اکرام نے مجھے یہ کتابچہ پڑھنے کے لیے دیا تھا۔ اُس وقت تو اس پر سرسری نظر ڈالی اور کہیں رکھ کر بھول گیا، لیکن کچھ دن پہلے دوبارہ اکرام سے اُس کتابچے کا مطالبہ کیا تو چند گھنٹوں بعد یہ کتابچہ میرے ہاتھوں میں تھا اور میں اس کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد یہ بلاگ لکھنے پر مجبور ہوگیا۔


دوستو! بجلی کی کھپت اور بچت اور استعمال سے متعلق یہ کتابچہ حکومتی سرپرستی، بجلی کی فراہمی کے ذمہ دار ادارے یا کسی سماجی تنظیم کی عوام کے لیے آگاہی مہم کے تحت شائع نہیں ہوا بلکہ یہ منبر اور محراب سے بلند ہونے والی آواز ہے، جو یہ یقین دلاتی ہے کہ اسلام ہمیں دنیاوی ذمہ داریوں کا شعور دیتا ہے۔ یہ سماج میں رہنے اور مختلف فوائد حاصل کرنے طور طریقے بتاتا ہے اور ہمارے درمیان کوئی روشن فکر، عالی دماغ مذہبی شخصیت بھی موجود ہے، جن کی کوشش ہے کہ دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کی جائے۔


میں نے ابتدائی سطور میں تقریر و تحریر کے دھنی اور مخصوص ڈگر پر چلنے والے جن علماء سے ناراضی کا اظہار کیا ہے، آپ ان سے مذہب کی روشنی میں سماجی نوعیت کا کوئی بھی سوال کرکے دیکھیں، جواب تو ملے گا، لیکن ضروری نہیں کہ آپ اُس سے مطمئن بھی ہوجائیں۔ البتہ من چاہے، گنے چُنے اور رٹے رٹائے موضوعات پر یہ ہمارا ایمان تازہ و پختہ کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور کسی مجلس میں ہم پر اپنے ''علم و کمال'' کی موٹی موٹی تہیں جمائے بغیر منبر سے نہیں اُترتے۔ انہی کی وجہ سے آج دین محض عبادات کا مجموعہ نظر آتا ہے، جب کہ یہ ایک مکمل نظام ہے، جس کی ایک مثال یہ کتابچہ ہے۔


اور ہاں اس کتابچے میں خاص طور پر غیر قانونی اور ناجائز طریقہ اپنا کر یعنی کنڈا لگا کر بجلی حاصل کرنے کی سخت مذمت کی گئی ہے اور اِسے دنیا و آخرت میں خسارے کا باعث بتایا گیا ہے۔ یہ یقیناً سماج میں سدھار لانے کی ایک اہم اور خوبصورت کوشش ہے۔ اور اب میں سمجھتا ہوں کہ؛




''تبدیلی آنہیں رہی، تبدیلی آگئی ہے''



نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں