قومی زبان اور اس کا المیہ

پاکستان میں اکثر سیاسی جماعتیں لسانیت کی بنیاد پر سیاست کرتی ہیں جو قومی وحدت کے لئے سب سے بڑا خطرہ بنتی جارہی ہیں۔

ملک کو تعصب اور سقوط ڈھاکہ جیسے سانحے سے بچانے کے لیے ضروری کہ وفاق تعلیم کو صوبوں سے لیکر پورے ملک میں ایک ہی نصاب کا اعلان کرے۔ فوٹو: فائل

1948 میں جب اسرائیلی ریاست دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئی تو اسے آباد کرنے کے لئے دنیا کے کونے کونے سے یہودیوں کو یہاں لا کر بسایا گیا۔ ان کے درمیان مذہب کے علاوہ کوئی بھی چیز مشترک نہیں تھی حتی کہ ان کی زبان، ثقافت، تہذیب و تمدن اور رنگ و نسل ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ ان لاکھوں لوگوں کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرنا اور ایک قوم بنانا اس وقت کی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج تھا۔ حکومت نے ایک عرصے تک تعلیم پر پابندی عائد کرتے ہوئے جدید عبرانی زبان میں نصاب تعلیم تیار کیا اور بچوں کو صرف ایک ہی زبان یعنی جدید عبرانی میں تعلیم دینا شروع کی اور اِسی فیصلے نے یہودیوں کو دنیا کی واحد قوم بنادیا کہ جس کے والدین نے اپنے بچوں سےزبان سیکھی۔

سیاسیات کے مضمون میں مضبوط ملک کی جو خصوصیات بیان کی گئی ہیں ان میں زبان اور مذہب کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ آج دنیا میں کم ہی ملک ایسے ہیں جن میں ایک ہی زبان بولی جاتی ہے۔ ماہرین سیاسیات نےدنیا کے ممالک کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک وہ ہیں جنھوں نے (Federal form of Govt) صوبائی خود مختاری دی ہے اور دوسرے (Unitry form of Govt) وہ جن میں صوبوں کے بجائے وفاق کے پاس زیادہ اختیارات ہوتے ہیں۔ دوسری قسم کے ممالک کی زبان ایک ہے اور یہی ممالک اندرونی طور پر سب سے زیادہ مضبوط تصور کیے جاتے ہیں اور ان میں بغاوت کے خطرات کم ہوتے ہیں۔ ان ممالک میں ایران اور اسرائیل سرفہرست ہیں۔

اب ہم پاکستان کی طرف آتے ہیں۔ 1947 میں جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اردو زبان کو ہم نے قومی زبان کا درجہ دے دیا لیکن اس کی ترویج کے لئے جن اصلاحات کی ضرورت تھی ان پر ہمارے حکمرانوں نے توجہ نہیں دی۔ ہمارے حکمرانوں اور بیوروکریسی کی نااہلی کی وجہ سے اردو بنگالی تنازعہ کھڑا ہوا اور یہ اُس وقت تک حل نہ ہوسکتا جب تک مملکت خداداد پاکستان دولخت نہ ہوگیا کہ اگر پہلے ہی یہ کام کرلیا جاتا تو شاید یہ سانحہ کبھی نہ رونما ہوتا۔ پھر 1973 کے آئین میں اردو کو دفتری زبان بنانے کا اعلان کیا گیا لیکن سونے پر سوہاگا یہ ہوا کہ جو اصلاحات کی گئیں ان پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی میں تعلیم کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ دنیا کی پانچ ہزارسالہ تاریخ میں کسی قوم نے دوسروں کی زبان میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ ابتداء سے ہی چینی، جاپانی، جرمن، ترک اور فرانسیسی سب نے اپنی زبان میں تعلیم حاصل کی اور اب بھی کررہے ہیں اور اِپنی زبان کو اپناتے ہی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں جگہ بنائی۔


ہماری ناکامی کا اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہےکہ ہمارے بچے بچپن میں مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، ثانوی تعلیم بھی اردو میں حاصل کرتے ہیں لیکن یونیورسٹی سطح پر یقدم اُن پر انکشاف ہوتا ہے کہ جناب بہت ہوگئی اُردو اب آپ کو انگریزی میں تعلیم حاصل کرنی ہے۔ تعلیمی پس منظر انگریزی نہ ہونے کی وجہ سے پیشہ وارانہ تعلیم سیکھنے کے بجائے پھر ہمارے بچوں کا وقت انگریزی سیکھتے سیکھتے گزر جاتا ہے۔اب آپ خود بتائیے کہ ہم بھلا کیسے ترقی کرسکتے ہیں کہ جب ہمارے مستقبل کے معماروں کو یہ پتہ نہیں کہ انہوں نے آگے جاکر ملک کی ترقی میں کیا کردار ادا کرنا ہے۔

پاکستان کی سیاست پر نظر دواڑائی جائے تو سیاسی جماعتوں کی ایک طویل فہرست ہے جو لسانیت کی بنیاد پر سیاست کرتی ہیں اور یہی وہ وجہ ہے جو قومی وحدت کے لئے سب سے بڑا خطرہ بنتی جارہی ہیں۔ اِس لیے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انتظامی بنیادوں پر مزید صوبے بنانے کی ضرورت ہے لیکن لسانی جماعتیں اس کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ ایک طرف تو ملک کو توانائی کے بدترین بحران کا سامنا ہے لیکن ملک کے سب سے بڑے ڈیم یعنی کالا باغ ڈیم کو بھی لسانی سیاست کی نظر کردیا گیا۔

کسی ملک کی وحدت کو قائم رکھنے کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ایک زبان اور دوسرا مذہب۔ ہماری خوش نصیبی یہ ہے کہ لگ بھگ 90 فی صد آبادی ایک ہی مذہب کے پیروکار ہے لیکن بُرا پہلو یہ ہے کہ زبان کے حوالے سے ہم تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جارہی ہیں۔ ملک سے لسانی تعصب کے خاتمے اور سقوط ڈھاکہ جیسے سانحے سے بچنے کے لئے حکومت کو چاہئے کہ تعلیم کے اختیار کو صوبوں سے واپس لے اور پورے ملک کے لئے اردو زبان میں ایک ہی نصاب تعلیم بناکر اسے نافذ کیا جائے تاکہ اِس بکھری ہوئی قوم کو متحد کر کے ترقی یافتہ ممالک کے صف میں کھڑا کیا جا سکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story