خاموشی
مشکل مسائل کوکشیدکرآسان طورپرپیش کرناخاص ہنر ہے۔میں محض ایک طالبعلم ہوں۔
کیالازم ہے کہ کوئی شخص ہروقت جوکہے وہ بالکل درست ہو۔نہیں،صاحبان فہم یہ ممکن ہی نہیں۔ قوموں اورملکوں کوبھی اسی زاویے سے دیکھنے کی کوشش کیجیے۔ ممکن ہے کہ کڑیاں ملنے لگیں اورمعاملات کوسمجھنے میں آسانی ہوجائے۔
مشکل مسائل کوکشیدکرآسان طورپرپیش کرناخاص ہنر ہے۔میں محض ایک طالبعلم ہوں۔سیکھنے اورپڑھنے کی جستجومیں زندگی گزارنے والا۔ہمارے دانشوراوراہل فکرایک خاص تناظرمیں واقعات کوپیش کرتے ہیں۔یہ مخصوص تناظرہی وہ عملی اورفکری قدغن ہے جس میں انھوں نے اپنے آپ کو مقید کر رکھا ہے۔ معاملہ صرف اہل ہنرلوگوں کا نہیں۔یہاں کسی بھی شعبہ کافرد اپنے سوا کسی کودرست نہیں سمجھتا۔ کیا سیاستدان، کیاسرکاری ملازم،کیاادیب یاکوئی دانشور۔ہماری موجودہ صورتحال کی متعددوجوہات ہیں۔اس میں ایک بہت سنجیدہ وجہ یہ ہے کہ ہمارے اندراتنے قدآورلوگ موجودہی نہیںہیںجو اپنے سائے سے باہرنکل سکیں۔
ہمارے پاس اکثریت بونوں کی ہے جومحنت کرتے ہیں کہ کوئی دوسرا ان سے قدآورنہ ہوجائے۔نتیجہ سامنے ہے۔ اگرآپ ملکی رویوں کامقابلہ باقی دنیاسے نہ کریں تو آپ کو کسی قسم کاکوئی تضادنظرنہیں آئیگا۔ مغرب دوسو سے تین سوسال میں غیرمعمولی ترقی کرچکا ہے۔ یہ ترقی زندگی کے ہرشعبہ پر محیط ہے۔انسان کی زندگی کاہرلمحہ اس تبدیلی سے متاثر ہوا ہے۔انھوں نے اپنی ترقی کی بنیادسائنس اور ٹیکنالوجی پر رکھی ہے۔چارسوسال پہلے کامغرب بالکل ہماری طرح کاتھا۔ فکری طورپرمنتشراورتبدیلی کے خوف سے ڈرا ہوا۔ پاکستان اس وقت بالکل اسی طرح ہے۔
مغرب نے اس سفرمیں بے انتہاقربانیاں دی ہیں۔وہاں جہالت کایہ حال تھاکہ خوبصورت خواتین کوجادوگرنیاں اورچڑیلیں قرار دیکر زندہ جلادیا جاتا تھا۔ لاکھوں خواتین کواس ظالمانہ طریقے سے نیست ونابود کردیا گیا۔وہ الگ بات ہے کہ داعش اب اردن سے تعلق رکھنے والے پائلٹ کوزندہ جلاکردنیاکے سامنے فاتحانہ اندازمیں اپناپیغام پہنچاتی ہے۔جب وہ مسلمان ہوابازجلتے ہوئے چیخیں مارتاہے تواسے ریکارڈکرکے پوری دنیاکے سامنے پیش کیاجاتاہے۔جب وہ مرنے سے پہلے اپناجلتاہوا سر پکڑ کربیٹھ جاتاہے تونعرے بلندکیے جاتے ہیں۔ پنجرے میں قیدانسان کوزندہ جلاکراسے پنجرے سمیت ایک بلڈوزرکے ذریعے دفنادیاجاتاہے۔
نہ تجہیز،نہ دعا،نہ کفن، نہ قبر۔یہ کونسا پیغام ہے؟داعش والے بضدہیں کہ وہ اسلام کے حقیقی پیروکار ہیں۔صاحبان کیا کہا جائے، کیا لکھا جائے۔ خیرمیں مغرب کی عرض کررہاتھا۔جب فرانس اورلندن نے تحقیق کادروازہ کھولا توانھوں نے ہرقدیم رویہ کونفی کردیا۔یہ بہت ہی مشکل مرحلہ تھا۔پرانے پاسبان اس قدرمضبوط تھے کہ کسی بھی تحقیق کوجگہ دینے کے لیے تیارنہیں تھے۔چنانچہ قتل وغارت کاایک دور شروع ہواجس میں آخری مرحلہ پرنئی اورتحقیقی فکرنے فتح حاصل کی۔
ہماراملک ابھی اس مرحلہ سے نہیں گزرا۔شائدابھی تک وہ مقام نہیں آیاکہ ہم لوگ محض علمی تحقیق کے حوالے سے اپنی سوسائٹی کو ترتیب دے سکیں۔یورپ جوآپکوبہت برق رفتاری سے آگے دوڑتا ہوا نظرآتاہے،یہ دوتین دہائیوں کی بات نہیں۔اس میں صدیوں کی جستجو، ریاضت اورشخصی قربانیاں شامل ہیں۔گزشتہ دوسوسالوں میں ان قوموں کوہم پرمکمل بالادستی حاصل ہوچکی ہے۔ایک فیصلہ کن برتری!آج کی مغربی دنیااوربالخصوص امریکا اسی فکری انقلاب کاثمر ہے۔
آپ اپنے ملک میں مغرب کے حوالے سے متعدد متضادروشوں کودیکھتے ہیں۔ملک کی ایک کثیرتعدادیہ سمجھتی ہے کہ ہم ہی سب سے اہم ہیں۔لہذاہمارے لیے باقی تمام ممالک کوئی معنی نہیں رکھتے۔آپ کسی مکالمہ میں اگرامریکا یا لندن یافرانس کی بے مثال ترقی کے متعلق کوئی لفظ بولیں،توفوری طورپراسکی نفی کردیجاتی ہے۔آپکو اسی وقت ایک ملزم قرار دیاجاتا ہے جوغیرملکی امدادپرپل رہاہو اور جسکا اپنے ملک کے خلاف ایک مخصوص ایجنڈا ہو۔تقریباًاَسی فیصد جماعتیں امریکا کے خلاف نعرے لگاتی ہیں۔وہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہماری تمام مشکلوں کاذمے دارصرف اور صرف مغرب ہے۔ان کی اس دلیل یاالزام میں کافی حدتک سچائی موجودہے۔
لیکن ہمیں امریکا نے صرف اس شرط پر استعمال کیاکہ ہم بذات خود استعمال ہونے کے لیے تیار تھے۔ میں جزئیات میں نہیں جانا چاہتاکیونکہ اس حقیقت کوثابت کرنے کے لیے بہت زیادہ ثبوت موجودہیں۔کوئی ملکی قیادت اس الزام سے بری الزمہ نہیں کہ انھوں نے محض اپنے ذاتی مفادات کے لیے ہرچیزقبول کرلی۔ کیا فوجی اورکیاسیاسی قیادت،کسی میں جوہری طورپرکوئی فرق نہیں۔آپ اگرپاکستان میں کسی بھی سیاسی رول میں ہیں تو آپکومحسوس ہوگاکہ،عوام کوخوش کرنے کے لیے ایک نعرہ گزشتہ پچاس سال سے مسلسل لگایا جارہا ہے۔
عمومی نعرہ یہ ہے کہ ہماری قوم کومغرب کی غلامی سے آزاد کیا جائیگا۔ مگرکوئی یہ نہیں سمجھاتاکہ کیسے اورکس طرح۔ سب سے بڑھ کر وہی لوگ جواس نعرے کوہروقت بلندکرتے رہتے ہیں۔ ہم مغرب کاایجاد کیا ہوا لائوڈ اسپیکر،کمپیوٹر،لیپ ٹاپ ،موبائل اور سافٹ وئیراستعمال کرتے ہیںاورپھرانھیں کوگالی بھی دیتے ہیں۔کوئی بھی قیادت اس تضادکاذکربھی نہیں کرناچاہتی بلکہ اس پرمکمل خاموشی اختیارکرلی جاتی ہے۔میں یہاں عرض کرنا چاہتاہوں کہ میں ان لوگوں میں شامل ہوں جومغرب کے تسلط سے باہرآناچاہتے ہیں۔مگرکوئی اس تغیرکے لیے ہاتھ پکڑنے کی جرات نہیں رکھتا۔
اس کے بالکل برعکس ہمارے اندرایک اور طبقہ موجودہے جو ہماری ہرخرابی کوایک دلیل کے طورپراستعمال کرتاہے۔ ان کے نزدیک ہمارے تمام مسائل کاایک ہی حل ہے کہ ہم بھرپور طریقے سے مغرب کی اطاعت میں آجائیں۔ان کے نزدیک دنیاکوجانچنے کاصرف ایک طریقہ ہے کہ ہم سوچے سمجھے بغیرانہی اصولی بنیادوں پراپنے نظام کواستوارکرلیں جو اس وقت امریہ اورمغرب ہمیں سمجھارہاہے۔ عرض کروں کہ یہ ہندوستان سے ہماراتعلق ایک مختلف زاویے سے پیش کرتے ہیں۔ان کے نزدیک ان دوملکوں کی سرحدمحض ایک غیرفطری لکیرسی ہے جسکی کوئی گنجائش نہیں۔
میں نے ہندوستان کاذکر اس لیے کیاکہ یہ فکررکھنے والے ہمارے ہمسایہ ملک کوایک مثال کے طورپرپیش کرتے ہیں۔تمام مشکلات کے باوجود ہندوستان کی تیزرفتارترقی کی مثال دیتے ہیں۔یہ لوگ پاکستان کے تمام نظام کومغربی قدروں کے حوالے سے مکمل تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ان کے لیے سیکولریالادین کاصیغہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس نظریہ کوغلط یاصحیح ثابت کرنے کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ مگراس مضبوطیِ نظرسے پاکستان کودیکھنے والے کسی کی بات سننے کے لیے تیارنہیں۔وہ سمجھتے ہیں بلکہ برملااظہارکرتے ہیں کہ صرف اورصرف وہی ٹھیک ہیں۔
میں کسی شخصی بحث میں نہیں جاناچاہتا مگراس فکرکوپھیلانے والے ہرجگہ نظرآتے ہیں اوران کی تعدادمیں بھرپوراضافہ ہورہا ہے۔ آپ ان کے استدلال کودیکھئے تویہ ہماری تمام پستی اور جہالت کاذمے داردنیاوی طورپرتحقیق اورسائنس کی دنیاسے دوری کوبتاتے ہیں۔ میں سیاست کے میدان کاکھلاڑی نہیں، بلکہ بالکل بھی نہیں۔مگریہ لوگ کافی حدتک ہمارے فکری مسائل کومحض اپنے زاویہ سے پرکھ کرحل کرناچاہتے ہیں۔کیایہ لوگ صحیح ہیں۔کیایہ لوگ غلط ہیں۔اس کاانحصارمحض آپکے سوچنے اورسمجھنے کے طریقے پر ہے۔ مگروہ جوباتیں کررہے ہیں،ان میں کچھ فیصدمعاملات سنجیدگی سے سوچنے کے قابل ہیں۔ بہرحال وہ بھی حقیقت کے کافی نزدیک ہیں۔ مجھے کبھی کبھی ان کی کہی ہوئی باتوں میں سے کچھ سچائی نظرآنے لگتی ہے۔ مگر پھربھی ان کے پورے استدلال سے قطعاًاتفاق نہیں کرتا۔
اس معاملے سے بالکل برعکس،ہمارے ملک میں ایک خاموش اکثریت موجودہے۔اس میں ہرطبقہ فکرکے لوگ ہیں۔ یہ خاموش اس لیے ہیں کہ انھیں مندرجہ بالاپیش کردہ دونوں زاویوں سے اختلاف ہوتاہے مگرکبھی کبھی وہ دونوں سے اتفاق کرلیتے ہیں۔یہ کھل کرکوئی بھی پوزیشن لینے کے لیے قطعاً تیارنہیں۔ان میں سے کچھ خاموش صرف اس لیے ہیں کہ ان کے مفادات ایک مخصوص طرزِعمل لینے سے متاثر ہوتے ہیں۔وہ اپنے ذاتی مفادات کوبرقراررکھنے کے لیے ہرفریق کے ساتھ ہیں۔میں نے" کچھ"کالفظ استعمال کیاہے سب کا نہیں۔ یہ لوگ سیاست کی اعلیٰ قیادت میں موجودہیں۔یہ ہرطورپراپنے مفادات کاتحفظ چاہتے ہیں۔یہ لندن اورامریکا میں مغرب کی تمام سہولتیں استعمال کرتے ہیں۔ان میں سے کچھ کی جائیدادمغربی ممالک میں محفوظ ہے۔مگریہ پاکستان میں اپنے آپکوزندہ رکھنے کے لیے ہرسمت سے میچ کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ ہرٹیم کے ساتھ ہیں جوجیت جائے اسکوکندھوں پراٹھانے کے لیے پیہم تیارہیں۔یہ کبھی بھی کھل کراپنانقطہ نظرنہیں بتاتے۔اگرآج ان کی حکومت طالبان سے فائدہ اٹھاسکتی ہے تویہ انکاساتھ دیتے ہیں۔اگرکچھ عرصے کے بعدمذہبی شدت پسندی ان کے معروضی حالات کے خلاف ہے تووہ اس کے خلاف جنگ کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ان میں سے اکثریت انتہائی جانفشانی سے لوگوں کوبیوقوف بناتی ہے اور بدقسمتی سے یہ لوگ اب تک کامیاب ہیں۔ان لوگوں کے علاوہ اکثریت تذبذب کاشکارہے۔انکوسمجھ نہیں آرہاکہ وہ اس بساط پرکس کاساتھ دیں۔ان کے لب صرف اس لیے سلے ہوئے ہیںکہ اپنے آپکومحفوظ رکھناچاہتے ہیں۔آہستہ سے سانس لینے کاحق مانگتے ہیں۔اورمحض سانس لیناچاہتے ہیں۔
تفصیل میں نہیں جاناچاہتا۔اس بحث میںبھی پڑنا نہیں چاہتا۔فکری انتشارکواگرکم نہیں کرسکتاتوبڑھانابھی نہیں چاہتا۔مگرمیں دل سے چاہتاہوں کہ ہم لوگ اپنے سماجی اورمذہبی قدروں کومحفوظ رکھتے ہوئے مغرب کے ان اصولوں سے صرف نظرنہ کریں جس سے عام انسان کی زندگی بہتر ہوسکتی ہے۔ہمیں دیانت داری،قانون کی حکمرانی اور سائنسی تحقیق کی اشدضرورت ہے۔یہ قابل غور عناصر ہیں۔
مگر مجھے اس وقت اگرکسی کم مائیگی کااحساس ہوتاہے تومحض یہ کہ ہمارے پاس کوئی ایسی بلندقامت شخصیت نہیں جوہمارے اور مغرب کے درمیان ایک فکری مکالمہ کا آغاز کرسکے۔ ہماری قومی قیادت میں کوئی ایسا نہیں جو مغرب سے متاثر ہوئے بغیر ہمارے اور ان کے درمیان ایک پُل کاکردار ادا کرسکے۔جب کوئی پُل ہی نہیں،جب کوئی رابطہ ہی نہیں اورجب کوئی مکالمہ ہی نہیں توپھرگلہ کس بات کا۔اسی لیے تومکمل خاموشی ہے۔مکمل گہری خاموشی!