عدالتی کمیشن اور انتخابی اصلاحات
انتخابی فہرستوں میں خامیاں سامنے آئیں۔ یہ انتخابی فہرستیں نادرا کے ڈیٹابیس سے تیار کی گئی تھیں۔
سینیٹ کے انتخابات قریب آ گئے۔ تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ انتخابی بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کے قیام کی شرائط پر متفق نہیں ہو سکیں۔ دونوں جماعتیں خورشید شاہ کو مصالحت کار بنانے پر آمادہ ہیں۔ عمران خان نے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کر کے انتخابی دھاندلیوں کے بارے میں تجاویز پیش کیں۔
ٹریبونل کے فیصلے تک قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کی رکنیت معطل کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ عمران خان اس ملاقات میں الیکشن کمیشن کے اراکین کے مستعفی ہونے کے مطالبے سے بظاہر دست بردار ہو گئے مگر کیا جامع انتخابی اصلاحات کے بغیر شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن ہے؟ عمران خان، نواز شریف اور آصف زرداری سمیت تمام سیاستدانوں کے سامنے یہ سوال واضح ہے۔
تحریکِ انصاف نے گزشتہ سال پنجاب کے قومی اسمبلی کے چار حلقوں کو کھلوانے اور 2013ء کے انتخابات میں بدعنوانی کی سازش کی تحقیقات کے لیے اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا دیا تھا اور پھر پارلیمنٹ ہاؤس اور ایوانِ صدر کا گھیراؤ کرنے کی کوشش کی تھی تو اس وقت تحریکِ انصاف کا بنیادی مطالبہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کا استعفیٰ، وسط مدتی انتخابات اور انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کا قیام تھا۔ عمران خان کا اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے ملک کی تاریخ کا طویل ترین دھرنا تھا۔ اس دھرنے میں عوامی تحریک اپنے سربراہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی قیادت میں شامل تھی۔ یہ طویل دھرنا تقریباً 4 ماہ تک جاری رہا۔
اس دھرنے میں مختلف مرحلے آئے۔ ایک وقت وہ آیا جب تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کے کارکنوں نے پارلیمنٹ ہاؤس، وزیر اعظم ہاؤس اور ایوانِ صدر پر قبضے کی کوشش کی۔ پولیس نے اس حملے کو ناکام بنانے کے لیے بھرپور طاقت استعمال کی۔ یوں کئی مظاہرین ہلاک اور زخمی ہوئے۔ آخر کار دھرنے کے شرکاء کی تعداد کم ہوتی چلی گئی مگر عمران خان نے پنجاب بھر میں جلسے شروع کر دیے۔ ان جلسوں میں عوام کی تعداد کے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔
لوگوں کو 70ء کی دھائی میں ذوالفقار علی بھٹو اور 80ء کی دھائی کے محترمہ بے نظیر بھٹو کے جلسوں کی یاد تازہ ہو گئی مگر ایک دن طاہر القادری اپنا دھرنا ختم کر کے کینیڈا تشریف لے گئے، یوں عمران خان تنہا رہ گئے۔ اس دوران پیپلز پارٹی، جماعتِ اسلامی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے جرگے کے رہنماؤں نے عمران خان سے مذاکرات کیے۔ حکومت اور تحریکِ انصاف کی قیادت میں براہِ راست مذاکرات ہوئے۔ ان مذاکرات میں عدالتی کمیشن کے قیام اور قومی اسمبلی کے چار حلقوں کو کھلوانے سے متعلق امور پر خاطرخواہ بحث ہوئی۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کئی دفعہ خوشخبری سنائی کہ عدالتی کمیشن کے قیام پر اتفاقِ رائے ہو گیا ہے۔ پشاور پبلک اسکول پر خودکش حملے کے بعد تحریکِ انصاف نے دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ کیا مگر عدالتی کمیشن کے قیام کا معاملہ التواء کا شکار رہا۔ تحریکِ انصاف نے پھر عدالتی کمیشن کا مطالبہ نہ ماننے پر احتجاجی تحریک شروع کرنے کی دھمکی دی مگر اس دفعہ عمران خان نے پختون خواہ کو ماڈل صوبہ بنانے پر خصوصی توجہ دینے کا اعلان کیا۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف 2013ء کے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی سازش کی تعریف پر آمادہ نہیں ہے جب کہ تحریک ِ انصاف کا مؤقف ہے کہ کمیشن کو کسی بھی حلقے کو کھولنے کا اختیار ہونا چاہیے۔ بظاہر یہ معمولی اختلاف دونوں قومی جماعتوں کے درمیان ایک بڑے اختلاف کی وجہ بن گیا ہے۔ اب اس بات کی امید کی جا رہی ہے کہ تحریکِ انصاف نے پہلی دفعہ سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا ہے اور کے پی کے سے اس کے خاطر خواہ اراکین ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے رکن بن سکتے ہیں اور اگر یہ موقع ضایع ہو گیا تو تحریک ِانصاف کو اگلے 6 سال تک انتظار کرنا پڑے گا۔
یوں تحریکِ انصاف کو اپنے مؤقف میں لچک پیدا کرنی پڑے گی۔ مسلم لیگ ن اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر عدالتی کمیشن کے قیام پر اتفاقِ رائے کرا سکتی ہے جو محدود حلقوں میں اجتماعی دھاندلیوں کی تحقیقات کرے۔ کمیشن کو وسیع پیمانے پر انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کا اختیار نہیں ہو گا اور موجودہ قومی اسمبلی میں نشستوں کی ترتیب تبدیل ہونے کا امکان نہیں رہے گا، مسلم لیگ ن کی حکومت اپنی 5 سالہ آئینی معیاد پوری کر سکے گی۔ ایک منتخب حکومت کا اپنی معیاد پوری کرنا جمہوری نظام کے استحکام کے لیے ضروری ہے مگر ایک شفاف جمہوری نظام کے استحکام کے لیے جامع انتخابی اصلاحات ہی مسئلے کا حقیقی حل ہیں۔
آئین میں کی گئی 18 ویں اور 20 ویں ترامیم میں خودمختار الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت کے قیام کے لیے راستے ہموار ہوئے تھے۔ اس ترمیم کے تحت چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے چاروں اراکین کے اختیارات برابر کر دیے گئے تھے، مکمل اتفاقِ رائے کے اصول کو اولیت دی گئی تھی۔ اس اصول کے تحت جسٹس فخر الدین جی ابراہیم نے چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ سنبھالا مگر 2013ء کے انتخابات کے وقت کمیشن کے دیگر اراکین کے عدم تعاون کی بناء پر وہ الیکشن کمیشن کو متحرک نہیں کر پائے، خاص طور پر صدارتی انتخاب کے وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی مداخلت کے بعد وہ مستعفی ہو کر اپنے گھر چلے گئے۔
اسی طرح نگراں حکومت کے لیے قائدِ ایوان اور قائدِ حزبِ اختلاف کے بعد وفاقی حکومت اور صوبوں میں جو نگراں حکومتیں سامنے آئیں۔ ایک نگراں وزیر اعلیٰ کو نواز شریف حکومت نے نواز کر نگراں حکومتوں کے بارے میں کئی سوالات پیدا کر دیے۔ بیوروکریسی نے نگراں حکومتوں کو مکمل طور پر اختیارا ت استعمال کرنے کا موقع نہیں دیا۔ انتخابی فہرستوں میں خامیاں سامنے آئیں۔ یہ انتخابی فہرستیں نادرا کے ڈیٹابیس سے تیار کی گئی تھیں۔ جن لوگوں کے شناختی کارڈ پر مستقل پتے اپنے آبائی علاقوں میں تھے اور وہ برسوں سے دیگر شہروں میں مقیم تھے تو ان کا ووٹ آبائی علاقے کے پتے پر منتقل کر دیے گئے۔
بہت سے ایسے افراد کے ایسے حلقوں کی انتخابی فہرستوں میں اندراج کے الزامات لگے جہاں وہ رہتے ہی نہیں تھے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کے اس فیصلے کے تحت کہ امیدوار ووٹروں کو ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم نہیں کریں گے اور ووٹروں کے گھروں کے قریب پولنگ اسٹیشن قائم ہونگے عجیب مضحکہ خیز صورتحال کو جنم دیا۔ ریٹرننگ افسروں نے اپنے دفتروں میں بیٹھ کر ایسے اسکولوں کو پولنگ اسٹیشن بنا دیا جو آبادیوں میں گھرے ہوئے تھے اور بعض اسکولوں میں تو 8 سے 10 پولنگ اسٹیشن بنائے گئے۔ یوں سیکیورٹی کے مسائل پیدا ہوئے اور ووٹروں کو ووٹ ڈالنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
مقناطیسی سیاہی کے معیار کے مختلف ہونے سے ووٹروں کے انگوٹھوں کے عکس کاؤنٹر فائلوں پر منتقل نہ ہونے اور انتخابی عملے کی عدم دلچسپی اور قانون سے عدم واقفیت کی بناء پر فارم 14 اور 15 کے خالی رہنے، ووٹوں کے تھیلوں کے منہ سربمہر نہ ہونے اور بعض تھیلوں سے ریت برآمد ہونے سے انتخابی عمل کی شفافیت کا معاملہ پیدا ہوا۔ انتخابی قوانین مبہم ہونے کی وجہ سے اس طرح کی غیر ذمے داری کو بدانتظامی یا دھاندلی قرار دینے کا معاملہ بھی مکمل طور پر طے نہ ہو سکا۔ گنتی کے وقت پولیس اور رینجرز کے دستے اچانک غائب ہو گئے، بعض حلقوں میں مسلح گروہوں کو پولنگ اسٹیشنوں پر قبضے اور انتخابی عملے کو خوفزدہ کرنے کے مواقعے ملے۔
پورے ملک میں پولنگ دیر سے شروع ہونے، انتخابی عملے کی کمی، پولنگ اور گنتی سے متعلق دستاویزات کی عدم دستیابی نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا۔ تحریکِ انصاف جس عدالتی کمیشن کے قیام کے لیے کوشاں ہے وہ کسی مخصوص حلقے میں ہونے والے انتخابات کے شفاف ہونے کے بارے میں الزامات کی تحقیقات کرے گا۔ اس تحقیقات میں انتخابی عمل کے دوران بنیادی خامیوں، الیکشن کمیشن کے غیر فعال ہونے، نگراں حکومت کی خامیوں کے بارے میں میں تحقیقات شامل نہیں ہونگی۔
وزیر اعظم نواز شریف کو قومی اسمبلی کے چار حلقوں میں بدعنوانی کی تحقیقات کے لیے فوری طور پر عدالتی کمیشن قائم کرنا چاہیے تا کہ تحریکِ انصاف کا مطالبہ پورا ہو سکے مگر شفاف انتخابات کے حصول کے لیے بنیادی انتخابی اصلاحات ہی مسئلے کا حل ہیں۔ یہ اصلاحات پارلیمنٹ کے ذریعے ممکن ہیں۔ قومی اسمبلی میں انتخابی اصلاحات کے لیے جو کمیٹی قائم ہوئی ہے اس کمیٹی میں پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کی نمایندگی ہے۔ اس پارلیمانی کمیٹی کو متحرک کر کے اور جامع اصلاحات پارلیمنٹ سے منظور کرا کر ہی شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن ہو گا۔
ٹریبونل کے فیصلے تک قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کی رکنیت معطل کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ عمران خان اس ملاقات میں الیکشن کمیشن کے اراکین کے مستعفی ہونے کے مطالبے سے بظاہر دست بردار ہو گئے مگر کیا جامع انتخابی اصلاحات کے بغیر شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن ہے؟ عمران خان، نواز شریف اور آصف زرداری سمیت تمام سیاستدانوں کے سامنے یہ سوال واضح ہے۔
تحریکِ انصاف نے گزشتہ سال پنجاب کے قومی اسمبلی کے چار حلقوں کو کھلوانے اور 2013ء کے انتخابات میں بدعنوانی کی سازش کی تحقیقات کے لیے اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا دیا تھا اور پھر پارلیمنٹ ہاؤس اور ایوانِ صدر کا گھیراؤ کرنے کی کوشش کی تھی تو اس وقت تحریکِ انصاف کا بنیادی مطالبہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کا استعفیٰ، وسط مدتی انتخابات اور انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کا قیام تھا۔ عمران خان کا اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے ملک کی تاریخ کا طویل ترین دھرنا تھا۔ اس دھرنے میں عوامی تحریک اپنے سربراہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی قیادت میں شامل تھی۔ یہ طویل دھرنا تقریباً 4 ماہ تک جاری رہا۔
اس دھرنے میں مختلف مرحلے آئے۔ ایک وقت وہ آیا جب تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کے کارکنوں نے پارلیمنٹ ہاؤس، وزیر اعظم ہاؤس اور ایوانِ صدر پر قبضے کی کوشش کی۔ پولیس نے اس حملے کو ناکام بنانے کے لیے بھرپور طاقت استعمال کی۔ یوں کئی مظاہرین ہلاک اور زخمی ہوئے۔ آخر کار دھرنے کے شرکاء کی تعداد کم ہوتی چلی گئی مگر عمران خان نے پنجاب بھر میں جلسے شروع کر دیے۔ ان جلسوں میں عوام کی تعداد کے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔
لوگوں کو 70ء کی دھائی میں ذوالفقار علی بھٹو اور 80ء کی دھائی کے محترمہ بے نظیر بھٹو کے جلسوں کی یاد تازہ ہو گئی مگر ایک دن طاہر القادری اپنا دھرنا ختم کر کے کینیڈا تشریف لے گئے، یوں عمران خان تنہا رہ گئے۔ اس دوران پیپلز پارٹی، جماعتِ اسلامی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے جرگے کے رہنماؤں نے عمران خان سے مذاکرات کیے۔ حکومت اور تحریکِ انصاف کی قیادت میں براہِ راست مذاکرات ہوئے۔ ان مذاکرات میں عدالتی کمیشن کے قیام اور قومی اسمبلی کے چار حلقوں کو کھلوانے سے متعلق امور پر خاطرخواہ بحث ہوئی۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کئی دفعہ خوشخبری سنائی کہ عدالتی کمیشن کے قیام پر اتفاقِ رائے ہو گیا ہے۔ پشاور پبلک اسکول پر خودکش حملے کے بعد تحریکِ انصاف نے دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ کیا مگر عدالتی کمیشن کے قیام کا معاملہ التواء کا شکار رہا۔ تحریکِ انصاف نے پھر عدالتی کمیشن کا مطالبہ نہ ماننے پر احتجاجی تحریک شروع کرنے کی دھمکی دی مگر اس دفعہ عمران خان نے پختون خواہ کو ماڈل صوبہ بنانے پر خصوصی توجہ دینے کا اعلان کیا۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف 2013ء کے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی سازش کی تعریف پر آمادہ نہیں ہے جب کہ تحریک ِ انصاف کا مؤقف ہے کہ کمیشن کو کسی بھی حلقے کو کھولنے کا اختیار ہونا چاہیے۔ بظاہر یہ معمولی اختلاف دونوں قومی جماعتوں کے درمیان ایک بڑے اختلاف کی وجہ بن گیا ہے۔ اب اس بات کی امید کی جا رہی ہے کہ تحریکِ انصاف نے پہلی دفعہ سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا ہے اور کے پی کے سے اس کے خاطر خواہ اراکین ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے رکن بن سکتے ہیں اور اگر یہ موقع ضایع ہو گیا تو تحریک ِانصاف کو اگلے 6 سال تک انتظار کرنا پڑے گا۔
یوں تحریکِ انصاف کو اپنے مؤقف میں لچک پیدا کرنی پڑے گی۔ مسلم لیگ ن اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر عدالتی کمیشن کے قیام پر اتفاقِ رائے کرا سکتی ہے جو محدود حلقوں میں اجتماعی دھاندلیوں کی تحقیقات کرے۔ کمیشن کو وسیع پیمانے پر انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کا اختیار نہیں ہو گا اور موجودہ قومی اسمبلی میں نشستوں کی ترتیب تبدیل ہونے کا امکان نہیں رہے گا، مسلم لیگ ن کی حکومت اپنی 5 سالہ آئینی معیاد پوری کر سکے گی۔ ایک منتخب حکومت کا اپنی معیاد پوری کرنا جمہوری نظام کے استحکام کے لیے ضروری ہے مگر ایک شفاف جمہوری نظام کے استحکام کے لیے جامع انتخابی اصلاحات ہی مسئلے کا حقیقی حل ہیں۔
آئین میں کی گئی 18 ویں اور 20 ویں ترامیم میں خودمختار الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت کے قیام کے لیے راستے ہموار ہوئے تھے۔ اس ترمیم کے تحت چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے چاروں اراکین کے اختیارات برابر کر دیے گئے تھے، مکمل اتفاقِ رائے کے اصول کو اولیت دی گئی تھی۔ اس اصول کے تحت جسٹس فخر الدین جی ابراہیم نے چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ سنبھالا مگر 2013ء کے انتخابات کے وقت کمیشن کے دیگر اراکین کے عدم تعاون کی بناء پر وہ الیکشن کمیشن کو متحرک نہیں کر پائے، خاص طور پر صدارتی انتخاب کے وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی مداخلت کے بعد وہ مستعفی ہو کر اپنے گھر چلے گئے۔
اسی طرح نگراں حکومت کے لیے قائدِ ایوان اور قائدِ حزبِ اختلاف کے بعد وفاقی حکومت اور صوبوں میں جو نگراں حکومتیں سامنے آئیں۔ ایک نگراں وزیر اعلیٰ کو نواز شریف حکومت نے نواز کر نگراں حکومتوں کے بارے میں کئی سوالات پیدا کر دیے۔ بیوروکریسی نے نگراں حکومتوں کو مکمل طور پر اختیارا ت استعمال کرنے کا موقع نہیں دیا۔ انتخابی فہرستوں میں خامیاں سامنے آئیں۔ یہ انتخابی فہرستیں نادرا کے ڈیٹابیس سے تیار کی گئی تھیں۔ جن لوگوں کے شناختی کارڈ پر مستقل پتے اپنے آبائی علاقوں میں تھے اور وہ برسوں سے دیگر شہروں میں مقیم تھے تو ان کا ووٹ آبائی علاقے کے پتے پر منتقل کر دیے گئے۔
بہت سے ایسے افراد کے ایسے حلقوں کی انتخابی فہرستوں میں اندراج کے الزامات لگے جہاں وہ رہتے ہی نہیں تھے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کے اس فیصلے کے تحت کہ امیدوار ووٹروں کو ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم نہیں کریں گے اور ووٹروں کے گھروں کے قریب پولنگ اسٹیشن قائم ہونگے عجیب مضحکہ خیز صورتحال کو جنم دیا۔ ریٹرننگ افسروں نے اپنے دفتروں میں بیٹھ کر ایسے اسکولوں کو پولنگ اسٹیشن بنا دیا جو آبادیوں میں گھرے ہوئے تھے اور بعض اسکولوں میں تو 8 سے 10 پولنگ اسٹیشن بنائے گئے۔ یوں سیکیورٹی کے مسائل پیدا ہوئے اور ووٹروں کو ووٹ ڈالنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
مقناطیسی سیاہی کے معیار کے مختلف ہونے سے ووٹروں کے انگوٹھوں کے عکس کاؤنٹر فائلوں پر منتقل نہ ہونے اور انتخابی عملے کی عدم دلچسپی اور قانون سے عدم واقفیت کی بناء پر فارم 14 اور 15 کے خالی رہنے، ووٹوں کے تھیلوں کے منہ سربمہر نہ ہونے اور بعض تھیلوں سے ریت برآمد ہونے سے انتخابی عمل کی شفافیت کا معاملہ پیدا ہوا۔ انتخابی قوانین مبہم ہونے کی وجہ سے اس طرح کی غیر ذمے داری کو بدانتظامی یا دھاندلی قرار دینے کا معاملہ بھی مکمل طور پر طے نہ ہو سکا۔ گنتی کے وقت پولیس اور رینجرز کے دستے اچانک غائب ہو گئے، بعض حلقوں میں مسلح گروہوں کو پولنگ اسٹیشنوں پر قبضے اور انتخابی عملے کو خوفزدہ کرنے کے مواقعے ملے۔
پورے ملک میں پولنگ دیر سے شروع ہونے، انتخابی عملے کی کمی، پولنگ اور گنتی سے متعلق دستاویزات کی عدم دستیابی نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا۔ تحریکِ انصاف جس عدالتی کمیشن کے قیام کے لیے کوشاں ہے وہ کسی مخصوص حلقے میں ہونے والے انتخابات کے شفاف ہونے کے بارے میں الزامات کی تحقیقات کرے گا۔ اس تحقیقات میں انتخابی عمل کے دوران بنیادی خامیوں، الیکشن کمیشن کے غیر فعال ہونے، نگراں حکومت کی خامیوں کے بارے میں میں تحقیقات شامل نہیں ہونگی۔
وزیر اعظم نواز شریف کو قومی اسمبلی کے چار حلقوں میں بدعنوانی کی تحقیقات کے لیے فوری طور پر عدالتی کمیشن قائم کرنا چاہیے تا کہ تحریکِ انصاف کا مطالبہ پورا ہو سکے مگر شفاف انتخابات کے حصول کے لیے بنیادی انتخابی اصلاحات ہی مسئلے کا حل ہیں۔ یہ اصلاحات پارلیمنٹ کے ذریعے ممکن ہیں۔ قومی اسمبلی میں انتخابی اصلاحات کے لیے جو کمیٹی قائم ہوئی ہے اس کمیٹی میں پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کی نمایندگی ہے۔ اس پارلیمانی کمیٹی کو متحرک کر کے اور جامع اصلاحات پارلیمنٹ سے منظور کرا کر ہی شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن ہو گا۔