غیر معمولی اقدامات
دہشت گردوں کو کئی سہولتیں حاصل ہیں ۔ دہشت گرد عوام میں یہ تاثر دینے میں ایک حد تک کامیاب ہیں۔
ہمارے محترم وزیر اعظم قوم کو بار بار بتا رہے ہیں کہ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کرنے ہوتے ہیں لیکن جو غیر معمولی اقدامات کیے جا رہے ہیں کیا وہ اس عفریت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کافی ہیں۔ لیکن جو بات غالباً نہیں سمجھی جا رہی ہے وہ ہے، اس جنگ کی نوعیت اس جنگ کی وسعت اس جنگ کی گہرائی اس جنگ کی سنگینی۔
ہماری مسلح افواج نے ضرب عضب کے نام سے دہشت گردی کے خلاف جو آپریشن شروع کیا ہے وہ بلاشبہ دہشت گردوں کو بہت نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ دہشت گردوں کی کمر بھی ٹوٹ گئی ہے۔ لیکن یہ آپریشن شمالی وزیرستان تک محدود ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ حکمران طبقات کی وجہ سے دہشت گرد ملک کے چپے چپے میں پھیل گئے ہیں اورمقصد ان علاقوں میں منظم منصوبہ بند حملے کر کے عوام کی جان لینے کے ساتھ ساتھ عوام میں دہشت اور مایوسی پھیلانا ہے ۔ یہ جنگ صرف سیکیورٹی فورسز نہیں لڑ سکتیں کیونکہ یہ گلی گلی تک پھیلی ہوئی ہے۔
دہشت گردوں کو کئی سہولتیں حاصل ہیں ۔ دہشت گرد عوام میں یہ تاثر دینے میں ایک حد تک کامیاب ہیں کہ وہ یہ جنگ ملک میں نفاذ اسلام کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اور میڈیامیں کچھ نادان دوست موجود ہیں جو اس گمراہ کن موقف سے اتفاق کرتے ہیں بلکہ بعض پیشین گوئیوں کی غلط تاویلیں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عوام اور بعض مذہبی حلقوں میں بھی یہ غلط فہمی موجود ہے کہ دہشت گرد مذہب کی جنگ لڑ رہے ہیں اسی غلط تاثر کی وجہ سے ان حلقوں میں دہشت گردوں کے لیے نرم گوشہ بھی نظر آتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں جو بے شمار مذہبی جماعتیں ہیں وہ بھی ملک میں نفاذ اسلام کے لیے ہی کوشاں ہیں پھر وہ 67 سال سے کیوں دہشت گردی کا راستہ اختیار نہیں کر رہی ہیں؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہم نظریاتی کجرویوں کے باوجود جس مہذب دنیا میں رہ رہے ہیں۔ اس دنیا میں کسی بھی نظریے کو ملک و ملت پر مسلط کرنے کا راستہ دہشت گردی اور خودکش حملوں سے ہو کر نہیں گزرتا۔ جو راستہ روایتی طور پر ہر مذہب میں موجود ہے وہ تبلیغ کا پرامن راستہ ہے اور اس راستے پر مذہبی جماعتوں کی اکثریت عمل پیرا ہے۔ اس حوالے سے دوسرا راستہ جمہوریت کا ہے ملک کی تقریباً تمام مذہبی جماعتیں اپنے ''اعلیٰ مقصد'' کے حصول کے لیے اسی راستے پر چل رہی ہیں۔ اور سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی بھٹکا ہوا گروہ تشدد کے ذریعے اپنا مقصد حاصل کرنا بھی چاہتا ہے تو وہ تشدد کا نشانہ کسے بنائے گا۔
ہمارے ملک میں نہ ہندو دہشت گردوں کا راستہ روک رہے ہیں نہ سکھ نہ عیسائی نہ مسلمان۔ دہشت گردی کا راستہ ہماری تہذیب روک رہی ہے ہمارا تمدن روک رہا ہے ہماری جدید روایات رہی ہیں لیکن سزا مل رہی ہے بے چارے بے گناہ معصوم مسلمانوں کو۔ پشاور کے آرمی اسکول کے 140 بچے ہوں، شکار پور کے شہید 60 بے گناہ ہوں یا اب تک ملک کے مختلف علاقوں میں انتہائی بے دردی سے شہید کیے جانے والے 50 ہزار مسلمان اور پاکستانی ہوں۔ کیا یہ معصوم مسلمان نفاذ اسلام کی راہ میں کسی بھی طرح رکاوٹ بن رہے تھے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہو اور نفی ہی میں ہو گا، تو پھر ان بیگناہوں کو کس جرم میں قتل کیا گیا؟
ہم بات کر رہے تھے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ہم اس بات سے متفق ہیں کہ ہماری سیکیورٹی فورسز انتہائی بے جگری سے یہ جنگ لڑ رہی ہیں اور بڑی جانی قربانیاں بھی دے رہی ہیں لیکن ہم نے سوال اٹھایا تھا کہ ملک کے شہر شہر، گلی گلی، محلے محلے تک پھیلا دی گئی یہ جنگ کیا صرف سیکیورٹی فورسز لڑسکتی ہیں؟ اس کا جواب خود ہمارا حکمران طبقہ عوام سے بار بار یہ اپیل کر کے دے رہا ہے کہ عوام اس جنگ میں شامل ہوں۔
بلاشبہ یہ جنگ عوام کی بھرپور منظم اور منصوبہ بند شرکت کے بغیر نہیں جیتی جا سکتی۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران بار بار عوام سے اس جنگ میں شرکت کی اپیل تو کر رہے ہیں لیکن انھیں یہ نہیں بتا رہے ہیں کہ عوام اس جنگ میں کس طرح شریک ہوں؟ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں عوام دشمن کے خلاف متحرک تھے لیکن اس دور میں عوام کو کسی نہ کسی حوالے سے گائیڈ لائن مل جاتی تھی وہ دشمن کے جاسوسوں پر نظر رکھتے تھے- اپنے گلی محلوں کو محفوظ رکھنے کی سبیل کرتے تھے ہمارے شاعر ہمارے گلوکار اپنے ملی نغموں کے ذریعے افواج اور عوام کا حوصلہ بڑھاتے تھے جب کہ دشمن جانا پہچانا اور سرحدوں پر تھا۔ اب دشمن بہت پراسرار بھی ہے اور ''باپردہ'' بھی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ دشمن ہمارے سامنے ہے سرحدوں پر نہیں ہماری گلی کوچوں ہمارے محلوں ہماری بستیوں میں ہے۔ ہمارے سامنے ہمارے اردگرد ہے ہماری بستیوں میں بیٹھ کر دہشت گردی کی تیاری کرتا ہے اور ہماری بستیوں ہماری گلیوں ہمارے محلوں سے نکل کر ہی ہم پر حملے کرتا ہے۔ پھر ہم اس دشمن کے خلاف ایک موثر طاقت کیوں نہیں بن پا رہے ہیں؟
اس سوال کا جواب ہے حکومت کی کمزوری حکومت کی غیر ذمے داری میدان جنگ میں بھی ایک ایک بٹالین کو لڑانے والا ایک کمانڈر ہوتا ہے انھیں ضرورت کے مطابق ہدایات دیتا ہے۔دہشت گردوں کی کامیابی کی دوسری بڑی وجہ وسائل کی فراوانی ہے۔ منشیات کا اربوں روپیہ' بینک ڈکیتیوں سے حاصل ہونے والی بھاری رقوم' اغوا برائے تاوان سے حاصل ہونے والا سرمایہ اور بعض معلوم مسلم اور غیر مسلم ملکوں کا بھاری سرمایہ۔ اندرون ملک سے حاصل ہونے والے اس سرمائے کی روک تھام کی تو کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن بیرونی ملکوں سے آنے والے بھاری سرمائے کی روک تھام کے آگے دوستی، ہم مسلکی آ رہی ہے' سفارتی آداب آ رہے ہیں سیاسی مصلحتیں آ رہی ہیں لیکن غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کرنے پڑتے ہیں۔ بیرونی امداد کو روکنے کے حوالے سے کیا ہم غیر معمولی اقدامات کر رہے ہیں؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوام کی بامعنی شمولیت کے لیے ایک علیحدہ کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم بنایا جائے۔