جاگو بھٹائی جاگو ایاز
میں آج جب یہ کالم ارسال کر رہا ہوں، شکارپور سے لوٹا ہوں۔ ابھی میری نیند بھی پوری نہیں ہوئی۔
شیخ ایاز کی جنم بھومی شکار پور تھی۔ اس نے اپنی آنکھوں سے اس تہذیب و تمدن سے درخشاں شکار پور کو اپنے وجود سے محسوس کیا تھا اور بالآخر وہ اس شکارپور کا عکس بن کر بیٹھ گئے۔ ہمارے سندھ میں بھٹائی کے بعد دوسری روحانی حیثیت شیخ ایاز کی ہے۔ بھٹائی کے بعد ایاز سے پہلے یہ مقام سچل کے پاس تھا تو تیسرا نام سامی کا تھا۔ سامی ہندو تھے، سامی بھی شکار پور سے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ وقت کے ساتھ ایاز سندھ کا مرکز نہ بن جائے اور اگر وہ مرکز بن جاتے ہیں تو ان کے اس اعزاز سے شکارپور وہ اعزاز پاسکتا ہے جو بھٹ شاہ کو صوفی سندھ میں حاصل ہے، مگر ایاز نے اپنی تدفین بھٹ شاہ میں چاہی۔ ایاز کہتے تھے کہ جہاں لطیف نے ''شاہ جو رسالو'' لکھنا چھوڑا تھا میں نے وہیں سے اس میں اضافہ کرنا شروع کیا تھا۔
ایاز کا یہ کہنا کچھ لوگوں کے لیے شاہ کے سامنے اپنے قد بڑھانے کی حرکت تھی یا گستاخی تھی۔ اور آج وقت یہ کہتا ہے کہ وہ جرأت تھی۔ بھٹائی کا یہ مقام کوئی حادثاتی عمل نہیں تھا۔ یہ کلھوڑو بادشاہوں کا زمانہ تھا۔ سندھ نے دلی سے ڈیڑھ سو سال بعد آزادی پالی تھی۔ یہاں سے کپڑا مانچسٹر جاتا تھا۔ سمندر سے تجارت کے راستے سندھ کے لیے نئی نوید لے کر آئے تھے بھٹائی اس مالا مال و خوشحال سندھ کا عکس تھے۔ مگر ایاز کے لیے کچھ اس طرح نہ تھا، وہ پیدا تو بھٹائی کی طرح ایک خوشحال سندھ میں ہوئے تھے مگر پھر سندھ کو آمریتوں نے محکوم بنا دیا، پھر بنگال کا سانحہ ہوا، ایاز سے ایک مرتبہ پھر یہ بلند آواز نکل پڑی ''جاگو بھٹائی گھوٹ تمہیں سندھڑی بلا رہی ہے۔''
میں آج جب یہ کالم ارسال کر رہا ہوں، شکارپور سے لوٹا ہوں۔ ابھی میری نیند بھی پوری نہیں ہوئی۔ کل شام (چار فروری) ابھی سورج کے ڈھلنے میں بہت وقت تھا ہم اس جگہ کی طرف بڑھنے لگے جہاں یہ المناک واقعہ 30 جنوری کو ہوا تھا۔ ہم پورے سندھ سے آئے ہوئے سب سول سوسائٹی کے لوگ تھے، کوئی ادیب تھا، کوئی شاعر، وکیل، صحافی، ایڈیٹر، کالم نگار، ڈاکٹر، اساتذہ لگ بھگ تین چار سو کی تعداد میں تھے مگر شہر پورا الگ تھلگ، سہما ہوا، ڈر کی کیفیت میں نڈھال تھا کہ کہیں کوئی ہمیں ان کے ساتھ نہ دیکھ لے، گلی گلی چوراہے، چوراہے پر مدرسے تھے۔
جب شہر میں ایک جانب سے جاؤ تو بھی مدرسہ اور اگر دوسری جانب سے نکلو تو بھی مدرسہ۔ یوں لگتا تھا جیسے فیض کہتے ہیں ''ہے جاں کے زیاں کی ہمیں بھی تشویش مگر کیا کیجیے' ہر رہ ادھر کو...سے مقتل سے گزر کے جاتی ہے'' اب تو سندھ کی عوامی پارٹی بھی وڈیروں کی پارٹی بن گئی۔ کل تک کی لاکھوں کے جلسے کرنے والی یہ پارٹی اس شہر شکارپور میں اتنا بڑا احتجاج بھی نہ کر پائی جو ہم جیسے اہل قلم لوگ، جن کا یہ کام بھی نہیں وہ کرپائے۔ ہاں یہ اعزاز ان کو جاتا ہے کہ ایک سردار زرداری ذات کو انھوں نے دے کر اسے قوم و قبیلے کا رتبہ دے دیا۔
جب شیخ ایاز کی وہ تجارت کرنے والی، سو فیصد خواندگی کی شرح رکھنے والی ٹوٹ پھوٹ گئی تھی، وہ صدیوں میں بنی مڈل کلاس جب ہجرت کرکے چلی گئی تھی تو اس کی کوکھ سے جنم لیا تھا، وڈیروں اور سرداروں والی شکارپور نے تو وہ سندھ اور بھی وڈیرا شاہی میں بنیادیں بنا کے بیٹھ گئی۔ شکار پور شہر کی دیہی شکار پور اپنے آغوش میں لے کر بیٹھ گیا۔ کوئی بھیو تھا، کوئی مہر تو کوئی جتوئی۔ کچھ ایسی بھی قبائلی ذاتیں و قومیں تھیں جو دیوبندی تھیں۔ اور شہر میں رہتے تھے امن پسند شیخ، میمن و سومرو۔ اور پھر جس طرح NGOکی رسم چلی اس طرح NGOسے مدرسے بھی کھلے، ان کے بھی فنڈ آنے شروع ہوئے۔
آج سے دو سال قبل کچھ لوگ ماڑی وارو پیر درگاہ کے رکھوالے ''حاجن شاہ حضوری'' کے پاس گئے کہ جناب آپ کے صوفی کلام و رقص سے ہمارے کام پر منفی اثر پڑتا ہے، اسے تب تک بند کریں جب تک ہم یہاں ہیں، حاجن شاہ حضوری نے کہا یہ ناچ یہ صوفی کلام و موسیقی دہائیوں سے یہاں ہوتی ہے اور ایک رات کا بھی اس میں ناغہ نہیں ہوتا اس لیے یہ نہیں ہو سکتا۔اس کے دو ہفتے بعد ''ماڑی وارو پیر'' کی درگاہ میں دھماکہ ہوتا ہے اور اس میں صوفی حاجن شاہ حضوری شہید ہو جاتے ہیں۔
اس کے کچھ دنوں کے بعد بینظیر بھٹو کے پیر حسین شاہ پر شکارپور و جیکب آباد کے قریب گاڑی پر بم پھٹتا ہے جس میں ان کے نواسے شہید ہوجاتے ہیں مگر آپ خوش قسمتی سے بچ جاتے ہیں۔ اس کے بعد نیٹو کے ساٹھ کنٹینروں کو شکارپور کے قریب آگ لگا دی جاتی ہے۔ پھر جتوئی قبیلے کے سردار ابراہیم جتوئی پر دو حملے ہوتے ہیں، جس میں وہ بال بال بچ جاتے ہیں۔ جتوئی سردار ان سارے سرداروں میں مختلف اس لیے ہیں کہ وہ واحد سردار ہیں جو اہل تشیع ہیں اور پھر یوں بھی ہوا کہ جمعیت علماء اسلام کے ڈاکٹر خالد میاں سومرو بھی شہید ہوجاتے ہیں۔ اس کے کچھ مہینوں کے پھر یہ امام بارگاہ کا واقعہ ہوتا ہے، جس میں ساٹھ لوگ شہید ہوجاتے ہیں۔
اب تو پوری سندھ کی پانچ سو سال سے کی ہوئی وہ محنت جس سے سندھ incluciveسماج بنا تھا۔ سب پہ سوالیہ نشان آگیا امام بارگاہ کا واقعہ سندھ کا 9/11 ہے مگر سندھ چپ ہے۔ کیوں نہ ہو اور سانت، غلامی ہی جو رقم ہوئی ، قوم کیسے اس آتے ہوئے طوفان کو روک سکتی ہے۔ میں نے اپنی ...آنکھوں سے اس شیخ ایاز کی شکارپور کو کل دیکھا۔
وہ شکارپور جو موئن جو دڑو کی طرح ڈھیر بن چکی ہے۔ اس میں اب نہ کوئی راکھ ہے نہ شعلہ ہے نہ چنگاری ہے۔ ایک سہما ہوا شکارپور ۔ وہ کہتے ہیں صوفی ازم بدعت ہے، درگاہوں پر جانا بدعت ہے یہاں تک اگر یہ کہتے بھی ہیں تو کہنے دیجیے مگر جب وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ سب واجب القتل ہیں تو یہاں سے شروع ہوتا ہے مسئلہ ساڑھے تین کروڑ قوم کا جن کا اسلام صوفی اسلام ہے۔ یہ سب درگاہوں پر جاتے ہیں۔ منتیں و مرادیں مانگتے ہیں، پیری مریدی کرتے ہیں۔
آج یہ ماڑی وارو پیر پر حملہ ہوا، کل یہ سچل کی درگاہ پر حملہ کرینگے اور پھر ایک دن یہ بھٹائی کی درگاہ پر بھی کرینگے اور اس طرح پوری سندھ میں یہ لاکھوں لوگوں کو ماریں گے۔مگر اس ساری حقیقت سے پیپلز پارٹی بے نیاز ہے۔ ان کے لیڈروں کو گنے کے نرخ کی فکر ہے وہ شوگر مل بنانے میں لگے ہوئے ہیں تو پھر کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔
شکارپور کی گلیاں دیکھ کر میں حیران ہوگیا، کوئی گلی بھی بنی ہوئی نظر نہ آئی۔ نالیاں کھلی ہوئی، اسپتال و اسکول بند، چوری، ڈاکے، تاوان، کاروکاری، وہاں کے سب سے بڑے کاروبار ہیں۔ جہاں کل تک قندھار سے سینٹرل ایشیا تک کپڑے، سونے، اچار و کرنسی کا کاروبار ہوتا تھا۔ اور اب اس ڈاکہ زنی، اغوا برائے تاوان، کاروکاری سے بڑا کاروبار آج کل مذہب کے نام پر ہوتا ہے، اور راستہ وہی جو کل تھا۔ مگر جنس مختلف ہے۔
میں جیسے ہی اس مقام پر پہنچا جہاں خودکش بمبار نے اپنے آپ کو بٹن دبا کے اڑایا تھا جس سے ساٹھ لوگ مارے گئے تھے میں اپنے آنسو نہ روک سکا۔ جی تو چاہا کہ بلک بلک کر روؤں مگر مجھ پر لازم تھا کہ میں اپنے پر ضبط بھی رکھوں اور پھر جب میں نے بچوں کے چچا کو اپنے بھتیجے گود میں لیے دیکھا تو پوچھا کہ یہ کون ہیں تو اس نے کہا کہ یہ میرے بھائی کے بچے ہیں جو اس دن اس امام بارگاہ میں شہید ہوگیا۔
یہاں مجھ سے اس طرح بلکتے ہوئے دل میں چیخ اٹھی کہ جیسے کہہ دوں کہ ''جاگو شیخ ایاز تمہیں شکارپور بین کرتی ہوئی بلکتی ہوئی پکار رہی ہے۔''
اب سندھ میں ایک نئی صف بندی شروع ہوگئی ہے، نئی بحث کے مرحلے آگئے ہیں ، وہ لوگ جو کل کے گھسے پٹے تضادات میں اب بھی الجھے پڑے ہیں وہ تاریخ ہوجائینگے۔ سندھ اب بھی اس ملک کے نئے تضادات میں بھرپور قیادت کرنے کے لیے تیار ہے، ضرورت اس بات کی ہے آپ بھی ''جاگو بھٹائی اور جاگو ایاز'' کے اس نئے رمز میں ہاتھ تھامیں۔
ایاز کا یہ کہنا کچھ لوگوں کے لیے شاہ کے سامنے اپنے قد بڑھانے کی حرکت تھی یا گستاخی تھی۔ اور آج وقت یہ کہتا ہے کہ وہ جرأت تھی۔ بھٹائی کا یہ مقام کوئی حادثاتی عمل نہیں تھا۔ یہ کلھوڑو بادشاہوں کا زمانہ تھا۔ سندھ نے دلی سے ڈیڑھ سو سال بعد آزادی پالی تھی۔ یہاں سے کپڑا مانچسٹر جاتا تھا۔ سمندر سے تجارت کے راستے سندھ کے لیے نئی نوید لے کر آئے تھے بھٹائی اس مالا مال و خوشحال سندھ کا عکس تھے۔ مگر ایاز کے لیے کچھ اس طرح نہ تھا، وہ پیدا تو بھٹائی کی طرح ایک خوشحال سندھ میں ہوئے تھے مگر پھر سندھ کو آمریتوں نے محکوم بنا دیا، پھر بنگال کا سانحہ ہوا، ایاز سے ایک مرتبہ پھر یہ بلند آواز نکل پڑی ''جاگو بھٹائی گھوٹ تمہیں سندھڑی بلا رہی ہے۔''
میں آج جب یہ کالم ارسال کر رہا ہوں، شکارپور سے لوٹا ہوں۔ ابھی میری نیند بھی پوری نہیں ہوئی۔ کل شام (چار فروری) ابھی سورج کے ڈھلنے میں بہت وقت تھا ہم اس جگہ کی طرف بڑھنے لگے جہاں یہ المناک واقعہ 30 جنوری کو ہوا تھا۔ ہم پورے سندھ سے آئے ہوئے سب سول سوسائٹی کے لوگ تھے، کوئی ادیب تھا، کوئی شاعر، وکیل، صحافی، ایڈیٹر، کالم نگار، ڈاکٹر، اساتذہ لگ بھگ تین چار سو کی تعداد میں تھے مگر شہر پورا الگ تھلگ، سہما ہوا، ڈر کی کیفیت میں نڈھال تھا کہ کہیں کوئی ہمیں ان کے ساتھ نہ دیکھ لے، گلی گلی چوراہے، چوراہے پر مدرسے تھے۔
جب شہر میں ایک جانب سے جاؤ تو بھی مدرسہ اور اگر دوسری جانب سے نکلو تو بھی مدرسہ۔ یوں لگتا تھا جیسے فیض کہتے ہیں ''ہے جاں کے زیاں کی ہمیں بھی تشویش مگر کیا کیجیے' ہر رہ ادھر کو...سے مقتل سے گزر کے جاتی ہے'' اب تو سندھ کی عوامی پارٹی بھی وڈیروں کی پارٹی بن گئی۔ کل تک کی لاکھوں کے جلسے کرنے والی یہ پارٹی اس شہر شکارپور میں اتنا بڑا احتجاج بھی نہ کر پائی جو ہم جیسے اہل قلم لوگ، جن کا یہ کام بھی نہیں وہ کرپائے۔ ہاں یہ اعزاز ان کو جاتا ہے کہ ایک سردار زرداری ذات کو انھوں نے دے کر اسے قوم و قبیلے کا رتبہ دے دیا۔
جب شیخ ایاز کی وہ تجارت کرنے والی، سو فیصد خواندگی کی شرح رکھنے والی ٹوٹ پھوٹ گئی تھی، وہ صدیوں میں بنی مڈل کلاس جب ہجرت کرکے چلی گئی تھی تو اس کی کوکھ سے جنم لیا تھا، وڈیروں اور سرداروں والی شکارپور نے تو وہ سندھ اور بھی وڈیرا شاہی میں بنیادیں بنا کے بیٹھ گئی۔ شکار پور شہر کی دیہی شکار پور اپنے آغوش میں لے کر بیٹھ گیا۔ کوئی بھیو تھا، کوئی مہر تو کوئی جتوئی۔ کچھ ایسی بھی قبائلی ذاتیں و قومیں تھیں جو دیوبندی تھیں۔ اور شہر میں رہتے تھے امن پسند شیخ، میمن و سومرو۔ اور پھر جس طرح NGOکی رسم چلی اس طرح NGOسے مدرسے بھی کھلے، ان کے بھی فنڈ آنے شروع ہوئے۔
آج سے دو سال قبل کچھ لوگ ماڑی وارو پیر درگاہ کے رکھوالے ''حاجن شاہ حضوری'' کے پاس گئے کہ جناب آپ کے صوفی کلام و رقص سے ہمارے کام پر منفی اثر پڑتا ہے، اسے تب تک بند کریں جب تک ہم یہاں ہیں، حاجن شاہ حضوری نے کہا یہ ناچ یہ صوفی کلام و موسیقی دہائیوں سے یہاں ہوتی ہے اور ایک رات کا بھی اس میں ناغہ نہیں ہوتا اس لیے یہ نہیں ہو سکتا۔اس کے دو ہفتے بعد ''ماڑی وارو پیر'' کی درگاہ میں دھماکہ ہوتا ہے اور اس میں صوفی حاجن شاہ حضوری شہید ہو جاتے ہیں۔
اس کے کچھ دنوں کے بعد بینظیر بھٹو کے پیر حسین شاہ پر شکارپور و جیکب آباد کے قریب گاڑی پر بم پھٹتا ہے جس میں ان کے نواسے شہید ہوجاتے ہیں مگر آپ خوش قسمتی سے بچ جاتے ہیں۔ اس کے بعد نیٹو کے ساٹھ کنٹینروں کو شکارپور کے قریب آگ لگا دی جاتی ہے۔ پھر جتوئی قبیلے کے سردار ابراہیم جتوئی پر دو حملے ہوتے ہیں، جس میں وہ بال بال بچ جاتے ہیں۔ جتوئی سردار ان سارے سرداروں میں مختلف اس لیے ہیں کہ وہ واحد سردار ہیں جو اہل تشیع ہیں اور پھر یوں بھی ہوا کہ جمعیت علماء اسلام کے ڈاکٹر خالد میاں سومرو بھی شہید ہوجاتے ہیں۔ اس کے کچھ مہینوں کے پھر یہ امام بارگاہ کا واقعہ ہوتا ہے، جس میں ساٹھ لوگ شہید ہوجاتے ہیں۔
اب تو پوری سندھ کی پانچ سو سال سے کی ہوئی وہ محنت جس سے سندھ incluciveسماج بنا تھا۔ سب پہ سوالیہ نشان آگیا امام بارگاہ کا واقعہ سندھ کا 9/11 ہے مگر سندھ چپ ہے۔ کیوں نہ ہو اور سانت، غلامی ہی جو رقم ہوئی ، قوم کیسے اس آتے ہوئے طوفان کو روک سکتی ہے۔ میں نے اپنی ...آنکھوں سے اس شیخ ایاز کی شکارپور کو کل دیکھا۔
وہ شکارپور جو موئن جو دڑو کی طرح ڈھیر بن چکی ہے۔ اس میں اب نہ کوئی راکھ ہے نہ شعلہ ہے نہ چنگاری ہے۔ ایک سہما ہوا شکارپور ۔ وہ کہتے ہیں صوفی ازم بدعت ہے، درگاہوں پر جانا بدعت ہے یہاں تک اگر یہ کہتے بھی ہیں تو کہنے دیجیے مگر جب وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ سب واجب القتل ہیں تو یہاں سے شروع ہوتا ہے مسئلہ ساڑھے تین کروڑ قوم کا جن کا اسلام صوفی اسلام ہے۔ یہ سب درگاہوں پر جاتے ہیں۔ منتیں و مرادیں مانگتے ہیں، پیری مریدی کرتے ہیں۔
آج یہ ماڑی وارو پیر پر حملہ ہوا، کل یہ سچل کی درگاہ پر حملہ کرینگے اور پھر ایک دن یہ بھٹائی کی درگاہ پر بھی کرینگے اور اس طرح پوری سندھ میں یہ لاکھوں لوگوں کو ماریں گے۔مگر اس ساری حقیقت سے پیپلز پارٹی بے نیاز ہے۔ ان کے لیڈروں کو گنے کے نرخ کی فکر ہے وہ شوگر مل بنانے میں لگے ہوئے ہیں تو پھر کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔
شکارپور کی گلیاں دیکھ کر میں حیران ہوگیا، کوئی گلی بھی بنی ہوئی نظر نہ آئی۔ نالیاں کھلی ہوئی، اسپتال و اسکول بند، چوری، ڈاکے، تاوان، کاروکاری، وہاں کے سب سے بڑے کاروبار ہیں۔ جہاں کل تک قندھار سے سینٹرل ایشیا تک کپڑے، سونے، اچار و کرنسی کا کاروبار ہوتا تھا۔ اور اب اس ڈاکہ زنی، اغوا برائے تاوان، کاروکاری سے بڑا کاروبار آج کل مذہب کے نام پر ہوتا ہے، اور راستہ وہی جو کل تھا۔ مگر جنس مختلف ہے۔
میں جیسے ہی اس مقام پر پہنچا جہاں خودکش بمبار نے اپنے آپ کو بٹن دبا کے اڑایا تھا جس سے ساٹھ لوگ مارے گئے تھے میں اپنے آنسو نہ روک سکا۔ جی تو چاہا کہ بلک بلک کر روؤں مگر مجھ پر لازم تھا کہ میں اپنے پر ضبط بھی رکھوں اور پھر جب میں نے بچوں کے چچا کو اپنے بھتیجے گود میں لیے دیکھا تو پوچھا کہ یہ کون ہیں تو اس نے کہا کہ یہ میرے بھائی کے بچے ہیں جو اس دن اس امام بارگاہ میں شہید ہوگیا۔
یہاں مجھ سے اس طرح بلکتے ہوئے دل میں چیخ اٹھی کہ جیسے کہہ دوں کہ ''جاگو شیخ ایاز تمہیں شکارپور بین کرتی ہوئی بلکتی ہوئی پکار رہی ہے۔''
اب سندھ میں ایک نئی صف بندی شروع ہوگئی ہے، نئی بحث کے مرحلے آگئے ہیں ، وہ لوگ جو کل کے گھسے پٹے تضادات میں اب بھی الجھے پڑے ہیں وہ تاریخ ہوجائینگے۔ سندھ اب بھی اس ملک کے نئے تضادات میں بھرپور قیادت کرنے کے لیے تیار ہے، ضرورت اس بات کی ہے آپ بھی ''جاگو بھٹائی اور جاگو ایاز'' کے اس نئے رمز میں ہاتھ تھامیں۔