چین کو مثال بنائیں آخری حصہ

طاقتور ملک کے دشمن طاقتورہوتے ہیں، امریکا کی نظریں آج کل صرف چائنا پر ہیں اس کی معاشی و اقتصادی، سائنسی ترقی پر ہیں۔


Doctor Nasir Mustehsan February 06, 2015

چین نے ایک بہترین کام یہ کیا کہ دنیا بھر کے ملکوں میں اپنی بنائی ہوئی مصنوعات کے ذریعے عالمی منڈی میں اپنی ساکھ کو مضبوط کرتے ہوئے پبلک سیکٹر نظام کو مغربی جمہوری سرمایہ داری سے مشروط کردیا۔ قارئین! اس بات سے تو آپ واقف ہی ہوں گے کہ جب کوئی ملک ایک ایسا مقام حاصل کرلیتا ہے، جہاں اس کی بڑائی کو دنیا مانتی ہے تو اس ملک کے دشمن بھی کئی ہوجاتے ہیں۔

طاقتور ملک کے دشمن طاقتورہوتے ہیں، امریکا کی نظریں آج کل صرف چائنا پر ہیں اس کی معاشی و اقتصادی، سائنسی ترقی پر ہیں، اس کو ڈر ہے کہ کہیں یہ ملک ہم سے ہماری طاقت ہی نہ چھین لے لہٰذا وہ چین کے معاملے میں سخت موقف اپنائے ہوئے ہے، جب کہ چین کسی بھی طرح کی عالمی برتری کا خواہشمند نہیں ہے، وہ صرف دنیا بھر میں اپنے مال کو بیچنا چاہتا ہے جس کے عوض وہ خام مال کے حصول کے لیے کوشاں رہتا ہے، چین کو نوآبادیات بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، چین اگر افریقہ میں دلچسپی لے رہا ہے تو دنیا کو تشویش ہو رہی ہے، وہ کوئی ایسٹ انڈیا کمپنی بنانے کا خواہاں نہیں ہے بلکہ بڑھتی ہوئی کنزیومرشپ کے لیے وہ دنیا بھر کے ملکوں میں اپنی مصنوعات کے فروغ کے لیے کام کر رہا ہے۔

وہ اپنے لوگوں کو ملک ملک بھیج کر اپنی مارکیٹ کو مستحکم کرنا چاہ رہا ہے، جس کے لیے وہ سب سے زیادہ کام ایشیا ہی میں کر رہا ہے، امریکا کی طرح حاکم بننے کا اس کو کوئی شوق نہیں ہے، چین نے آج تک کبھی اپنے عقائد اور نظریات دنیا پر نہیں تھوپے، اس سلسلے میں پاکستان ایک بڑی مثال ہے، چین نے گہری اور مضبوط دوستی کی آڑ میں کبھی پاکستان پر اپنے نظریات نہیں تھوپے اور نہ ہی اپنے نظام کی ترویج کی کوشش کی، پچھلے سالوں میں مشرق وسطیٰ اور خلیجی ریاستوں میں جو اکھاڑ پٹخ ہوئی کبھی شام کا مسئلہ، تو کبھی مصرکا، توکبھی لیبیا کا، چین نے حتیٰ الامکان کوشش کی کہ وہ دوسرے کے معاملے میں ٹانگ نہ اڑائے۔

چین نے کبھی بشار الاسد کی اپنی عوام پر فوج کشی کی حمایت نہیں کی، بلکہ اس نے مذاکرات کے ذریعے معاملات کے حل کے لیے پیش کش کی، چین کی افواج نے بڑے پیمانے پر اقوام متحدہ کی امن کوششوں میں حصہ لیا، چین ہمیشہ ہی سے پاکستان کی بالواسطہ یا بلاواسطہ مدد کرتا آیا ہے، تعمیراتی پراجیکٹس ہوں یا قوت افرادی کا مسئلہ وہ ہمیشہ ہی پیش پیش رہا ہے۔ اب ذرا پاکستان کی بات ہوجائے۔

پاکستان اپنے محل وقوع کے حساب سے سونے کی چڑیا بن سکتا تھا وہ یوں کہ ایک طرف چین جو سپر پاور بن رہا ہے یا بن چکا ہے، دوسری طرف ہندوستان، جو بڑی تیزی کے ساتھ معاشی ترقی کی منازل طے کرتا ہوا آگے ہی آگے بڑھ رہا ہے، ایک طرف ایران ہے جو کسی سے کسی طور کم نہیں اور پھر ایک طرف وسطی ایشیائی ریاستیں ان چاروں کو اپنی اپنی چیزیں دنیا بھر میں بیچنی ہیں جس کے لیے ان کو پاکستان سے ہوکر اپنی اپنی منزلوں کی طرف جانا ہے لیکن پاکستان کی ناقص صورتحال کے باعث کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتا، سیدھی سی بات ہے، پھر پاکستان، بھارت ہی کی طرح ایک زرعی ملک ہے جس کا انحصار زرعی اجناس پر ہوتا ہے، اب یہ زراعت بھی حکومت کی طرح ٹھپ ہوچکی ہے، ہم کو بعض سبزیاں اور پھل ہندوستان سے منگوانا پڑ رہے ہیں یوں نہیں کہ پاکستان یہ صلاحیت نہیں رکھتا۔

صرف اس وجہ سے کہ حکمرانوں کو اس پر اچھا خاصا کمیشن ملتا ہے جس کے عوض اپنے ملک میں سبزیاں نہیں اگائی جا رہیں، پھر سرحد پار حکمرانوں کے کاروبار بھی تو ہیں جس میں منافع حاصل کرنے کے لیے اپنی زرعی زمین کو بنجر کہہ کر ناقابل کاشت بتایا جا رہا ہے، زمین تو وہی ہے جو بھارت کے پاس ہے، پانی بھی وہی، کھاد اور بیج بھی وہی، موسم بھی ایک سا ہے، کیوں، کبھی سوچیے گا؟

ہم چین کی دوستی کا دم بھرتے تھکتے نہیں ہیں مگر اس جیسی ترقی نہیں چاہتے، ترقی و خوشحالی تو عوام سے مشروط ہوتی ہے، جب تک عوام کو کھڑا نہیں کیا جائے گا ان کے کندھے مضبوط نہیں کیے جائیں گے ترقی نہیں ہوسکتی اور پھر ہمارے حکمران جب تک ہیں یہ محض خواب ہی ہے، جب ہی تو بولا جا رہا کہ اٹھو اور کچھ کرو، اپنا حق مانگو، اگر آج چپ رہے تو آنے والی ہر نسل ہماری طرح ہی ہوگی۔

ہمارے یہاں چین کی طرح سیاست (جس سے وہ عبادت کی طرح عقیدت رکھتے ہیں اور خلق خدا کی بھلائی کے لیے دن رات ایک کر رہے ہیں) نہیں ہے، بلکہ سیاست کے نام پر اپنے اپنے کاروبار کے لیے اور اس کو وسعت دینے کے لیے کام کیے جا رہے ہیں، جس سے عوام کا فائدہ نہیں۔ البتہ ان کے کاروبار کو ضرور فائدہ پہنچ رہا ہے۔ قارئین! چین میں ماؤ پارٹی ہو یا کمیونسٹ پارٹی دونوں میں نظریاتی اختلافات ہیں لیکن وہ اپنے عوام اور اپنے ملک کی فلاح اور نیک نامی کے مسئلے پر سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جس سے عوام کو اور ملک کو فائدہ ہوتا ہے، چینی قوم بدلے زمانے کی کچھ باتوں کو ترقی کے زمانے میں دیکھتی ہے اور اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کی کوشش کرتی ہے، پاکستان کو جب کبھی چین کی ضرورت پڑی چین نے ہمیشہ لبیک کہا۔

چین کے ہونے سے پاکستان خود کو محفوظ سمجھتا ہے، آبادی کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے (اس میں ہم خودکفیل ہیں) جس ملک کی آبادی زیادہ ہوگی وہاں چیزوں کی کنزمپشن بھی زیادہ ہوگی اگر کوئی حکومت جو واقعی پاکستان کا بھلا چاہتی ہے تو اس کو پہلی فرصت میں غربت کے خاتمے کو یقینی بنانا ہوگا دوئم ملک میں چھوٹی چھوٹی گھریلو صنعتوں یا انڈسٹریل زون بناکر افرادی قوت کو بروئے کار لاتے ہوئے اس میں وسعت دینے کی ضرورت ہے جس سے کسی طور ملک میں استحکام آئے گا اور لوگوں میں روزگار کے ہونے سے اعتماد بڑھے گا۔

پاکستان اب تک بجلی (انرجی) کے مسئلے پر قابو نہیں پاسکا اور لاتعداد ذرایع چھوڑ کر مہنگے داموں بجلی پیدا کر رہا ہے اور لے رہا ہے، ساری دنیا میں بلکہ ہندوستان میں وہاں آبادی 1 ارب سے کہیں زیادہ ہے، لہٰذا وہ کئی طریقوں سے بجلی پیدا کر رہے ہیں، اس میں سولر انرجی یعنی سورج کی تپش سے بجلی پیدا کی جا رہی ہے، کوئلے سے بجلی پیدا کی جا رہی ہے، جیوتھرمل زمین کے اندر جو حدت اور تپش ہوتی ہے اس سے بجلی پیدا کی جا رہی ہے، ٹائیڈل انرجی یعنی سمندری لہروں کے کرنٹ سے بجلی پیدا کی جا رہی ہے، ہمارے یہاں ایسے ایسے کارآمد لوگ ہیں جن کے تجربے اور ان کی تحقیق سے خاطر خواہ فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن ان کو اے ویئیں سمجھ کر کھڈے لائن کیا جا رہا ہے۔

پاکستان میں بلوچستان جوانی سے لے کر کراچی کے ساحلوں تک پوری کوسٹل بیلٹ پر تیل کے ذخائر ہیں ان کو استعمال میں نہیں لایا جا رہا پھر ریکوڈک بلوچستان میں سونے، پلاٹینم، تانبے کے ذخائر ہیں جن کو کسی کام میں نہیں لایا جا رہا پھر تھر میں اس قدر کوئلے کے ذخائر ہیں اور نہایت ہی اعلیٰ قسم کا کوئلہ ہے ہمارے پاس اس کے ہوتے ہوئے بجلی پیدا کرنے کے لیے باہر سے کوئلہ منگوایا جا رہا ہے، صرف اس لیے کہ ان سب پر حکمرانوں کو معقول کک بیگز اور اچھا خاصا کمیشن ملتا ہے، اپنی طمع کے لیے پاکستان کو قرضوں کے بوجھ تلے دبایا جا رہا ہے۔

آج حکمرانوں کی عدم دلچسپی، لالچ و ہوس کے چکر میں ہر پاکستانی، ہر پاکستانی میں ایک گھنٹے پہلے یا 1 منٹ پہلے پیدا ہونے والا معصوم بچہ بھی شامل ہے جس پر امریکا کے 900 ڈالر یعنی 91,000 ہزار پاکستانی روپے کا قرضہ ہے، جو ماضی کے اور موجودہ حکمرانوں کی شاہ خرچیوں اور اپنی دولت (جو پاکستان کی دولت ہے اور اس کے عوام کی ملکیت ہے) بڑھانے کے چکر میں یہ سب ہو رہا ہے، آپ یہ طرز حکومت کسی اور ملک میں دیکھ پائے ہیں، نہیں۔ ترقی کرنے والی قومیں ہر حال میں ترقی کرتی ہیں، چاہے زراعت کا شعبہ ہو یا صنعت و حرفت کا، میڈیا ہو یا فلم میکنگ کا، سائنس و ٹیکنالوجی کا ہو یا کھیل کا میدان، ترقی کرنے والی قومیں ہر شعبے میں ترقی کرتی ہیں، اور تنزلی کی طرف جانے والی قوم سونے کو بھی مٹی کا ڈھیر بنا دیتی ہے۔

اچھے کو بھی برے میں تبدیل کردیتی ہے، جیسے کہ ہم۔ خدارا آنے والی نسل کو ایک ایسا پاکستان دینا، جو قائد اعظم کا تھا، جیسا وہ چاہتے تھے، جس پاکستان کا خواب حضرت علامہ اقبال نے دیکھا تھا جس پاکستان کو دیکھنے کی خواہش میں چھ نسلیں اس دنیا سے چلی گئیں۔ اب پاکستان کے 65فیصد نوجوان ہی ایسا کر پائیں گے ہم پاکستان کو عالم اقوام میں بلند مقام دلائیں گے انشاء اللہ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں