اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات
ہمارےآج کےمعاشرےمیں شادی ایک انتہائی مشکل اورمہنگاعمل ہوگیاہےجبکہ طلاق ایک انتہائی آسان اورفیشن ایبل عمل بنتاجارہاہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کو روکنے کے لیے کافی سوچ بچار کے بعد حکومت کو اس سلسلے میں کچھ سفارشات پیش کی ہیں۔ ایک وقت میں تین طلاقیں دینے کے عمل کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام میں بیک وقت تین طلاقوں کا کوئی تصور نہیں ہے اس لیے اس عمل کو قابل سزا جرم قرار دیاجائے اور اس کی سزا مقرر کی جائے۔ کونسل نے یہ سفارش بھی پیش کی ہے کہ خاتون جج جو 40 سال سے کم عمر نہ ہو پردہ کی پابند ہو وہ حدود سمیت تمام مقدمات سن سکتی ہے کونسل نے ایسے اسٹامپ پیپر فروشوں کو جو ایک ہی وقت میں تین طلاقیں اکٹھی تحریر کرے سزا دینے کی سفارش پیش کی ہے۔
چیئرمین کونسل محمد خان شیرانی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ طلاق کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ ایک طہر میں ایک ہی طلاق دی جائے تین طلاقیں اکٹھی دینا خلاف سنت اور گناہ ہے البتہ تین طلاقیں اکٹھا دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ انھوں نے واضح کہاکہ اس کا اطلاق ان مسالک پر نہیں ہوگا جن کے ہاں ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی ہیں اور اس سفارش کا مقصد اس کا احساس اور سزا کا خوف پیدا کرکے طلاق کے رجحان میں کمی واقع کرنا ہے۔
ہمارے آج کے معاشرے میں شادی ایک انتہائی مشکل اور مہنگا عمل ہوگیا ہے جب کہ طلاق ایک انتہائی آسان اور فیشن ایبل عمل بنتا جا رہا ہے۔ دوست رشتے دار ذرا سی گھریلو ناچاقی میں فوراً طلاق کا مشورہ دیتے ہیں کہ بھائی ابھی کچھ نہیں بگڑا فوراً طلاق لے لو۔ اسی طرح ثالثی مصالحت کا کردار ادا کرنے کی بجائے حمایتی کا کردار ادا کرتے ہیں۔
عوام الناس عائلی قوانین طلاق، خلع اور حلالہ جیسے معاملات اور ان کے مضمرات سے لا علم، غلط فہمی اور ابہام کا شکار ہیں اور علمائے کرام اس معاملے میں فقہی جمود کا شکار ہیں، پنچائیت و مصالحت کمیٹیوں، جرگوں، خاندانی تصفیوں میں اور یہاں تک کہ فیملی کورٹس میں فریقین کے علاوہ بعض اوقات وکلا اور ججز تک شرعی حدود و قیود اور اس کے معاشرتی پہلو سے صحیح معنوں میں آگاہ نہیں ہوتے۔ اپنی اپنی سمجھ منطق اور خواہشات کے مطابق معاملات طے کرتے ہیں۔
خلع و طلاق کے اکثر مقدمات کے فیصلے یکطرفہ ہوتے ہیں اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ فریق مخالف مدعی کو تنگ کرنے یا اپنی عزت اور خوف کی وجہ سے عدالت کا سامنا نہیں کرتا یا سمجھتا ہے کہ وہ عدالت چلا بھی جائے تو خلع کو روک نہیں سکتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مدعی اپنا اور فریق مخالفت کا غلط پتہ تحریر کرکے مجاز عدالت کی بجائے کسی دوسری عدالت سے یکطرفہ فیصلہ اور من پسند یونین کونسل سے طلاق کنفرمیشن سرٹیفکیٹ حاصل کرلیتاہے۔
یکطرفہ فسخ نکاح کے فیصلوں سے مفتی صاحبان بھی پریشان نظر آتے ہیں ان کا کہناہے کہ لوگ آئے دن فسخ نکاح کی ڈگریاں لے کر دارالافتا آتے ہیں کہ یہ شریعت کے مطابق ہیں یا نہیں؟ انھیں اس سلسلے میں ہر فیصلے کی تائید و توثیق کا دشوار مسئلہ پیش آتا ہے ان کا کہناہے کہ فیملی کورٹس کے جج صاحبان عام طور پر شرعی حدود و قیود کی رعایت نہیں کرتے بس قانون کے تقاضے پیش نظر رکھتے ہیں ۔مفتیان کرام کا کہناہے کہ خلع جج یا قاضی کے یکطرفہ حکم سے نافذ نہیں ہوتی اس میں زوجین کی رضامندی ضروری ہوتی ہے قاضی کو چاہیے کہ ترغیب و ترتیب سے جس میں شوہر کو تعزیراً حوالات میں بھی رکھا جاسکتا ہے شوہر کو طلاق پر آمادہ کیاجائے۔
جج پر لازم ہے کہ قوت مملکت ہونے کے ناتے وہ پولیس کو پابند کرے کہ شوہر کو عدالت میں پیش کیاجائے کیونکہ یہ محض داد رسی یا حق طلبی کا نہیں بلکہ حرام و حلال کا مسئلہ ہے۔ شیطان کو سب سے زیادہ خوشی طلاق کرواکر ہوتی ہے ہاروت و ماروت جو بنی اسرائیل کو جادو سکھاتے تھے اس کا سب سے مذموم پہلو میاں بیوی میں علیحدگی کرانا ہوتا تھا۔ آج بھی میاں بیوی میں طلاق کرانے والوں میں سب سے زیادہ دونوں خاندانوں اور رشتے داروں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ایسے نادان لوگوں کو اپنے مقام کا خود تعین کرلینا چاہیے۔
طلاق کے جذباتی اور احمقانہ عمل کے بعد حلالہ کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا ہے جس میں عموماً دونوں نکاحوں کی عدت کے دورانیہ کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔ اس عمل پر اﷲ کے رسولؐ نے لعنت فرمائی ہے اور اس کے کرنیوالے کو تیس مستعار یعنی کرایہ کا سانڈ قرار دیا ہے اس عمل پر حضرت عمرؓ نے رجم کی سزا جاری فرمائی تھی۔ آپؓ کے دور خلافت میں مسلمانوں میں پیدا ہونے والی بدعات کو ختم کرنے کے لیے ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دینے والوں کو سزا دی جاتی تھی اور حلالہ کرنیوالوں کے لیے رجم کی سزا مقرر تھی۔ آج ہمارے معاشرے میں بنیادی انسانی حقوق، حقوق نسواں اور بچوں کے حقوق کے نام پر انارکی پھیلائی جارہی ہے۔
ایسی این جی اوز تمام چھوٹے بڑے شہروں میں سرگرم عمل ہیں جو انسانی حقوق ، حقوق نسواں، روشن خیالی اور لبرل ازم کے نام پر فحاشی کو فیشن شوز، ثقافتی شوز کے پر فریب نام سے نوجوان نسل کو بگاڑ رہی ہیں اور خاندان کے بنیادی ادارے کو ختم کرنے کی کوششوں میں سرگرم عمل ہیں جن کی پشت پر بیرونی ممالک ان کے سفارتکار اور بین الاقوامی ادارے صف زن ہیں۔
اکثر این جی اوز نہ تو رجسٹرڈ ہیں اور ان کے بینک اکائونٹس اور امداد دینے والے اداروں اور ممالک اور ان کی سرگرمیوں سے حکومت اور متعلقہ حکومتی ادارے لا علم، لا تعلق اور بے خبر ہیں جب کہ علما کا ایک بڑا طبقہ میڈیائی، خود پسند، خود پرست اور شہرت کا خوگر ہوچکا ہے علما حق نے اپنے آپ کو محدود کرلیاہے جن پر فقہی جمود طاری ہے ،علما کی بڑی تعداد فروعی، مسلکی اور ذاتی برتری کی لڑائیوں میں مصروف عمل ہے۔
گزشتہ دنوں سپریم کورٹ میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس جواد اے خواجہ نے بہت فکر انگیز ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے علما اور فقرا پیسے کے چکر میں پڑ گئے ہیں اور اگر علما اور فقرا پیسے کے چکر میں پڑ جائیں تو قومیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ اگر حکمران قوم کو تباہی سے بچانا چاہتے ہیں تو انھیں اسلامی نظریاتی کونسل کی پیش کردہ سفارشات پر فوری طور پر قانون سازی کرنا چاہیے تاکہ ملک میں امن اور انصاف ہو اور مسلمانوں پر شریعت درست طور پر نافذ ہوسکے خاص طور پر عائلی قوانین کے سلسلے میں فوری خصوصی توجہ دینی چاہیے جو ایک انتہائی حساس معاملہ ہے۔
مسلکی، فقہی اختلافات رکھنے والوں کے درمیان جو پہلے ہی ایک اور تین طلاقوں کے معاملے پر تقسیم ہیں اس تقسیم کو ختم کرنے کے لیے دانشمندی، اخلاص اور خوف خدا کی ضرورت ہے۔ نظریاتی کونسل نے خواتین ججز کے لیے 40 سال عمر اور باپردہ ہونے کی جو شرط لگائی ہے اس سلسلے میں بھی بہت سی قباحتیں پیش آئیںگی کیونکہ ابتدائی یا ماتحت عدالتیں ہونے کی وجہ سے فیملی کورٹس کے ججز کی عمریں عموماً 30 سے 40 سال کے درمیان ہوتی ہیں اور تمام خاتون ججز باپردہ بھی نہیں ہوتیں اسی طرح قانونی طور پر ججز شریعت کی پاسداری اور اطلاق کے لیے قانونی حدود سے باہر بھی نہیں نکل سکتے وہ شوہر کو طلاق دلانے کی خاطر قید کرانے کے اختیارات بھی نہیں رکھتے۔
اس سلسلے میں قانون سازی اور ججز کو اختیارات سے نوازنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ ججز کو اس بات کا بھی پابند کیا جانا چاہیے کہ وہ اپنے فیصلے میں ان وجوہات ، پیش کردہ ثبوت اور شواہد کو باقاعدہ طور پر قلمبند کریں جن کی رو سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اب عملاً میاں بیوی کے درمیان ممکن نہیں رہا کہ وہ اﷲ کی قائم کردہ حدود میں رہتے ہوئے ایک ساتھ گزارہ کرسکتے ہیں ججز کو طلاق یا خلع کے حکم کو آخری اور ناگزیر امکانی صورت کے طور پر اختیار کرنا چاہیے ان کی پہلی ترجیح مصالحت، دوسری شوہر کو رضاکارانہ طلاق پر آمادہ کرنے اور تیسری انھیں خلع پر آمادہ کرنے کی ہونے چاہیے یکطرفہ خلع کے حکم سے یکسر اجتناب برتنا چاہیے۔
اس سلسلے میں اسلامی نظریاتی کونسل اور حکومت کو مل کر تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام کے ساتھ متفقہ لائحہ عمل تیار کرنے کے ساتھ ساتھ عوام الناس کو بیک وقت تین طلاقوں کے باعث پیدا ہونے والی معاشرتی، سماجی خرابیوں، ان کے مضمرات سے آگاہ کرنے اور طلاقوں کے درمیان وقفے میں مصالحت کی اہمیت کو اجاگر کرنا چاہیے جس سے ہزاروں، لاکھوں گھرانے تباہ ہونے سے بچ سکتے ہیں۔
رائے عامہ ہموار اور باہمی اتفاق پیدا کرنے کے بعد اس عمل کو جرم قرار دینا چاہیے جیساکہ برادر اسلامی ممالک مصر، سوڈان، اردن، شام اور مراکش وغیرہ میں رائج ہے ورنہ عجلتی فیصلہ مسلکی و فقہی اختلافات کو مزید ابھار کر انتشار کی کیفیت پیدا کرسکتا ہے۔ تمام مسالک کے علما کو اس سلسلے میں معاشرے کی بہتری اور مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔
چیئرمین کونسل محمد خان شیرانی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ طلاق کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ ایک طہر میں ایک ہی طلاق دی جائے تین طلاقیں اکٹھی دینا خلاف سنت اور گناہ ہے البتہ تین طلاقیں اکٹھا دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ انھوں نے واضح کہاکہ اس کا اطلاق ان مسالک پر نہیں ہوگا جن کے ہاں ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی ہیں اور اس سفارش کا مقصد اس کا احساس اور سزا کا خوف پیدا کرکے طلاق کے رجحان میں کمی واقع کرنا ہے۔
ہمارے آج کے معاشرے میں شادی ایک انتہائی مشکل اور مہنگا عمل ہوگیا ہے جب کہ طلاق ایک انتہائی آسان اور فیشن ایبل عمل بنتا جا رہا ہے۔ دوست رشتے دار ذرا سی گھریلو ناچاقی میں فوراً طلاق کا مشورہ دیتے ہیں کہ بھائی ابھی کچھ نہیں بگڑا فوراً طلاق لے لو۔ اسی طرح ثالثی مصالحت کا کردار ادا کرنے کی بجائے حمایتی کا کردار ادا کرتے ہیں۔
عوام الناس عائلی قوانین طلاق، خلع اور حلالہ جیسے معاملات اور ان کے مضمرات سے لا علم، غلط فہمی اور ابہام کا شکار ہیں اور علمائے کرام اس معاملے میں فقہی جمود کا شکار ہیں، پنچائیت و مصالحت کمیٹیوں، جرگوں، خاندانی تصفیوں میں اور یہاں تک کہ فیملی کورٹس میں فریقین کے علاوہ بعض اوقات وکلا اور ججز تک شرعی حدود و قیود اور اس کے معاشرتی پہلو سے صحیح معنوں میں آگاہ نہیں ہوتے۔ اپنی اپنی سمجھ منطق اور خواہشات کے مطابق معاملات طے کرتے ہیں۔
خلع و طلاق کے اکثر مقدمات کے فیصلے یکطرفہ ہوتے ہیں اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ فریق مخالف مدعی کو تنگ کرنے یا اپنی عزت اور خوف کی وجہ سے عدالت کا سامنا نہیں کرتا یا سمجھتا ہے کہ وہ عدالت چلا بھی جائے تو خلع کو روک نہیں سکتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مدعی اپنا اور فریق مخالفت کا غلط پتہ تحریر کرکے مجاز عدالت کی بجائے کسی دوسری عدالت سے یکطرفہ فیصلہ اور من پسند یونین کونسل سے طلاق کنفرمیشن سرٹیفکیٹ حاصل کرلیتاہے۔
یکطرفہ فسخ نکاح کے فیصلوں سے مفتی صاحبان بھی پریشان نظر آتے ہیں ان کا کہناہے کہ لوگ آئے دن فسخ نکاح کی ڈگریاں لے کر دارالافتا آتے ہیں کہ یہ شریعت کے مطابق ہیں یا نہیں؟ انھیں اس سلسلے میں ہر فیصلے کی تائید و توثیق کا دشوار مسئلہ پیش آتا ہے ان کا کہناہے کہ فیملی کورٹس کے جج صاحبان عام طور پر شرعی حدود و قیود کی رعایت نہیں کرتے بس قانون کے تقاضے پیش نظر رکھتے ہیں ۔مفتیان کرام کا کہناہے کہ خلع جج یا قاضی کے یکطرفہ حکم سے نافذ نہیں ہوتی اس میں زوجین کی رضامندی ضروری ہوتی ہے قاضی کو چاہیے کہ ترغیب و ترتیب سے جس میں شوہر کو تعزیراً حوالات میں بھی رکھا جاسکتا ہے شوہر کو طلاق پر آمادہ کیاجائے۔
جج پر لازم ہے کہ قوت مملکت ہونے کے ناتے وہ پولیس کو پابند کرے کہ شوہر کو عدالت میں پیش کیاجائے کیونکہ یہ محض داد رسی یا حق طلبی کا نہیں بلکہ حرام و حلال کا مسئلہ ہے۔ شیطان کو سب سے زیادہ خوشی طلاق کرواکر ہوتی ہے ہاروت و ماروت جو بنی اسرائیل کو جادو سکھاتے تھے اس کا سب سے مذموم پہلو میاں بیوی میں علیحدگی کرانا ہوتا تھا۔ آج بھی میاں بیوی میں طلاق کرانے والوں میں سب سے زیادہ دونوں خاندانوں اور رشتے داروں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ایسے نادان لوگوں کو اپنے مقام کا خود تعین کرلینا چاہیے۔
طلاق کے جذباتی اور احمقانہ عمل کے بعد حلالہ کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا ہے جس میں عموماً دونوں نکاحوں کی عدت کے دورانیہ کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔ اس عمل پر اﷲ کے رسولؐ نے لعنت فرمائی ہے اور اس کے کرنیوالے کو تیس مستعار یعنی کرایہ کا سانڈ قرار دیا ہے اس عمل پر حضرت عمرؓ نے رجم کی سزا جاری فرمائی تھی۔ آپؓ کے دور خلافت میں مسلمانوں میں پیدا ہونے والی بدعات کو ختم کرنے کے لیے ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دینے والوں کو سزا دی جاتی تھی اور حلالہ کرنیوالوں کے لیے رجم کی سزا مقرر تھی۔ آج ہمارے معاشرے میں بنیادی انسانی حقوق، حقوق نسواں اور بچوں کے حقوق کے نام پر انارکی پھیلائی جارہی ہے۔
ایسی این جی اوز تمام چھوٹے بڑے شہروں میں سرگرم عمل ہیں جو انسانی حقوق ، حقوق نسواں، روشن خیالی اور لبرل ازم کے نام پر فحاشی کو فیشن شوز، ثقافتی شوز کے پر فریب نام سے نوجوان نسل کو بگاڑ رہی ہیں اور خاندان کے بنیادی ادارے کو ختم کرنے کی کوششوں میں سرگرم عمل ہیں جن کی پشت پر بیرونی ممالک ان کے سفارتکار اور بین الاقوامی ادارے صف زن ہیں۔
اکثر این جی اوز نہ تو رجسٹرڈ ہیں اور ان کے بینک اکائونٹس اور امداد دینے والے اداروں اور ممالک اور ان کی سرگرمیوں سے حکومت اور متعلقہ حکومتی ادارے لا علم، لا تعلق اور بے خبر ہیں جب کہ علما کا ایک بڑا طبقہ میڈیائی، خود پسند، خود پرست اور شہرت کا خوگر ہوچکا ہے علما حق نے اپنے آپ کو محدود کرلیاہے جن پر فقہی جمود طاری ہے ،علما کی بڑی تعداد فروعی، مسلکی اور ذاتی برتری کی لڑائیوں میں مصروف عمل ہے۔
گزشتہ دنوں سپریم کورٹ میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس جواد اے خواجہ نے بہت فکر انگیز ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے علما اور فقرا پیسے کے چکر میں پڑ گئے ہیں اور اگر علما اور فقرا پیسے کے چکر میں پڑ جائیں تو قومیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ اگر حکمران قوم کو تباہی سے بچانا چاہتے ہیں تو انھیں اسلامی نظریاتی کونسل کی پیش کردہ سفارشات پر فوری طور پر قانون سازی کرنا چاہیے تاکہ ملک میں امن اور انصاف ہو اور مسلمانوں پر شریعت درست طور پر نافذ ہوسکے خاص طور پر عائلی قوانین کے سلسلے میں فوری خصوصی توجہ دینی چاہیے جو ایک انتہائی حساس معاملہ ہے۔
مسلکی، فقہی اختلافات رکھنے والوں کے درمیان جو پہلے ہی ایک اور تین طلاقوں کے معاملے پر تقسیم ہیں اس تقسیم کو ختم کرنے کے لیے دانشمندی، اخلاص اور خوف خدا کی ضرورت ہے۔ نظریاتی کونسل نے خواتین ججز کے لیے 40 سال عمر اور باپردہ ہونے کی جو شرط لگائی ہے اس سلسلے میں بھی بہت سی قباحتیں پیش آئیںگی کیونکہ ابتدائی یا ماتحت عدالتیں ہونے کی وجہ سے فیملی کورٹس کے ججز کی عمریں عموماً 30 سے 40 سال کے درمیان ہوتی ہیں اور تمام خاتون ججز باپردہ بھی نہیں ہوتیں اسی طرح قانونی طور پر ججز شریعت کی پاسداری اور اطلاق کے لیے قانونی حدود سے باہر بھی نہیں نکل سکتے وہ شوہر کو طلاق دلانے کی خاطر قید کرانے کے اختیارات بھی نہیں رکھتے۔
اس سلسلے میں قانون سازی اور ججز کو اختیارات سے نوازنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ ججز کو اس بات کا بھی پابند کیا جانا چاہیے کہ وہ اپنے فیصلے میں ان وجوہات ، پیش کردہ ثبوت اور شواہد کو باقاعدہ طور پر قلمبند کریں جن کی رو سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اب عملاً میاں بیوی کے درمیان ممکن نہیں رہا کہ وہ اﷲ کی قائم کردہ حدود میں رہتے ہوئے ایک ساتھ گزارہ کرسکتے ہیں ججز کو طلاق یا خلع کے حکم کو آخری اور ناگزیر امکانی صورت کے طور پر اختیار کرنا چاہیے ان کی پہلی ترجیح مصالحت، دوسری شوہر کو رضاکارانہ طلاق پر آمادہ کرنے اور تیسری انھیں خلع پر آمادہ کرنے کی ہونے چاہیے یکطرفہ خلع کے حکم سے یکسر اجتناب برتنا چاہیے۔
اس سلسلے میں اسلامی نظریاتی کونسل اور حکومت کو مل کر تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام کے ساتھ متفقہ لائحہ عمل تیار کرنے کے ساتھ ساتھ عوام الناس کو بیک وقت تین طلاقوں کے باعث پیدا ہونے والی معاشرتی، سماجی خرابیوں، ان کے مضمرات سے آگاہ کرنے اور طلاقوں کے درمیان وقفے میں مصالحت کی اہمیت کو اجاگر کرنا چاہیے جس سے ہزاروں، لاکھوں گھرانے تباہ ہونے سے بچ سکتے ہیں۔
رائے عامہ ہموار اور باہمی اتفاق پیدا کرنے کے بعد اس عمل کو جرم قرار دینا چاہیے جیساکہ برادر اسلامی ممالک مصر، سوڈان، اردن، شام اور مراکش وغیرہ میں رائج ہے ورنہ عجلتی فیصلہ مسلکی و فقہی اختلافات کو مزید ابھار کر انتشار کی کیفیت پیدا کرسکتا ہے۔ تمام مسالک کے علما کو اس سلسلے میں معاشرے کی بہتری اور مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔