بھلا نہیں سکتا

حکیم محمد سعید شہید کی بچپن کی یادیں


حکیم محمد سعید شہید کی بچپن کی یادیں۔ فوٹو: فائل

ایک بار کیا ہوا کہ حضرت سلطان غاری رحمۃ اللہ علیہ کے عرس میں گئے۔ یہ مزار اقدس قطب صاحب مہرولی، دلّی سے کوئی 17,18 میل دور جنگل بیابان میں ہے۔ ہر سال 17 شوال المکرم کو عرس ہوتا تھا۔ لوگ پہلے قطب صاحب آتے۔ قطب مینار کو شوق اور فخر سے دیکھتے ہوئے حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے مرجع خلائق مزار شریف پر آتے۔ فاتحہ خوانی کرتے، ادب سے الٹے پائوں باہر آتے اور اپنی منزلوں کو ہزار امیدوں کے ساتھ سدھارتے۔

میں جب بھی مہرولی (صوبہ دہلی) جاتا، پہلے مزار خواجہؒ پر حاضری دیتا۔ آج بھی میں جب دہلی جاتا ہوں تو خواجہ صاحب کے ہاں حاضری ضرور دیتا ہوں۔ خیر، تو صاحب ہم 17 شوال کو دہلی سے نکلے، مہر ولی آئے۔ یہاں ہمارے دوست جناب اشتیاق حسین شوق منتظر ہوتے۔ بڑے اچھے شاعر تھے۔ سارے انتظامات وہ کرتے تھے۔ اپنا کلام سناتے تو تخلص ''شوق'' کرتے، مگر جب دوسروں کا کلام پیش کرتے تو ''انقلاب'' تخلص فرماتے تھے۔ سلطان غاریؒ کے مزار کے قریب ہمارے لیے خیمے لگ جاتے۔ رات کو عرس کے بعد لوگ وہاں ہی شب گزارتے۔ ہم بھی خیموں میں رہتے۔ دوسرے دن شکار کو نکل جاتے۔ یہاں ہرن کا شکار ہوتا تھا۔

رات بھر فاتحہ خوانی میں گزری۔ صبح نور کے تڑکے ہمارا قافلہ شکاری کپڑوں میں ملبوس ہرن کے شکار کو نکل گیا۔ میں بھی شان دار شکاری لباس پہنے تھا۔ برجیس، کوٹ، ہیٹ۔ خود کو اب اس لباس میں دیکھتا ہوں تو بے اختیار ہنسی آجاتی ہے۔ میرے ہاتھ میں بارہ بور تھی۔ کارتوس ایس جی۔ میں نے کھیتوں کا رخ کیا۔ بھائی جان محترم میرے ساتھ تھے اور رحمت خاں ہمراہ۔ رحمت خاں کی آنکھیں غضب کی تیز۔ میلوں جاکر ہرن کو تاڑ لیتیں۔ شکار دیکھتا وہ تھا، مارتا میں تھا!

گنّے کے کھیت تھے۔ خیال تھا کہ کوئی ہرن یہاں ضرور ہوگا۔ میں ہر طرح تیار کہ ہرن قلانچیں مارے اور میں ہوا میں اسے مار گرائوں، مگر ہرن نہیں ملا۔ میں نے ایک گنّا توڑا اسے چوسنا شروع کردیا۔ جب آدھے سے زیادہ چوس چکا تو بھائی جان محترم نے فرمایا: ''کھیت والے سے اجازت لے کر گنا توڑا ہے نا؟''

میں سٹپٹا گیا۔ وہاں کھیت والا کہاں تھا۔ میں نے سچی بات کہہ دی کہ یہ تو خیال نہیں رہا، مگر صرف اتنی بات بھائی جان کو قبول نہ تھی۔ ان کا ارشاد ہوا کہ ہم جب تک گنے کا معاوضہ ادا نہ کریں، یہاں سے آگے نہیں جاسکتے۔ کھیت والے کا انتظار کرنا ہوگا۔

میں نے بھائی جان محترم کے حکم سے ایک بار بھی سرتابی آج تک نہیں کی ہے۔ میں نے تعمیل ارشاد کی۔ رحمت خاں سے کہا کہ بھائی تم میلوں سے ہرن کو دیکھ لیتے ہو۔ آج ذرا کھیت والے کو دیکھو کہ کہاں ہے! مگر کھیت والا نہ ملا۔ شکار دھرا کا دھرا رہ گیا۔ کھیت والا کوئی 12 بجے ہاتھ لگا۔ اس سے سب سے پہلے معافی مانگی کہ اس کے کھیت کا گنا اس کی اجازت کے بغیر توڑا گیا۔ پھر اسے زبردستی پیسے دیئے۔ شکار ختم، ہم سب اپنے خیمے پر واپس آگئے۔ اطمینان کئی تھے۔ ایک تو یہ کہ بھائی جان محترم کے ارشاد کی تعمیل ہوئی۔ دوسرے یہ کہ کھیت والے سے معافی مانگنے کا موقع مل گیا اور ایک اور اطمینان یہ کہ برادر محترم حافظ محمد یحییٰ ایک ہرن مار لائے تھے۔



نیا سلیپر

ایک شام میں نے ایک نیا سلیپر خریدا۔ بڑا چمک دار تھا۔ اس کی چمک دمک سے دل خوش ہوگیا۔ ذرا مہنگا ملا۔ کوئی سوا روپے کا تھا! اسے پہن کر میں ہمدرد منزل میں پہنچا۔ رات کے کوئی دس بجے تھے۔ بھائی جان دواخانہ بند کرانے کے لیے اٹھ رہے تھے۔ میں نے سیڑھیاں چڑھیں، مگر اس شان سے کہ کھٹ پٹ کھٹ پٹ سے زینہ گونج اٹھا۔ بھائی جان محترم نے سب سے پہلے سلیپر کی تعریف کی۔ دوسرے سانس میں فرمایا ''کیا یہ ضروری تھا کہ اس نئے سلیپر سے زینے کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے؟ مناسب یہ ہے کہ آدمی چلے تو آواز نہ ہو!''

میں واقعی بڑا شرمندہ ہوا۔ وہ دن ہے (1931ء) اور آج کا دن، میں جب چلتا تو میرے قدم رکھنے کی کوئی آواز نہیں سن سکتا۔ بھائی جان محترم کی رہنمائی شریعت اسلامی کی روشنی میں تھی۔ قرآن حکیم میں واضح ہدایت ہے کہ زمین پر پیر پٹخ کر نہ چلو!

دسترخوان پر ہنسی

یہ یقینا 1934ء کی بات ہے۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ سخت گرمیوں کے رمضان۔ ایسے سخت کہ برف کی صورت دیکھ کر دل ٹھنڈا ہو جاتا۔ مسجد میں اذان ہوئی اور میں وہاں سے سرپٹ بھاگا۔ ''روزے والو روزہ کھول لو۔ روزے دارو روزہ کھول لو۔'' یہ ہم بچوںکا معمول تھا کہ مسجد میں جاکر کھڑے ہوجاتے۔ جیسے ہی اذان ہوتی، ہم محلے بھر کا روزہ کھلوا دیتے۔ گھر آیا۔ دسترخوان پر بھائی جان محترم، والدہ معظمہ، بہنیں وغیرہ سب ہی تھے۔ اس دور میں خاندان بھر اکٹھا ہو جاتا تھا۔ خلوص اور انس کی فضا تھی۔ ایک انسان دوسرے انسان سے محبت کرتا تھا۔

نہ جانے بھائی عبدالوحید (مرحوم) نے کیا حرکت کی کہ میں کھل کھلا کر ہنس دیا۔ ابھی میری ہنسی ختم نہ ہوئی تھی کہ رخسار پر ایک زناٹے کا تھپڑ پڑا۔ یہ بھائی جان محترم کا ہاتھ تھا جس نے چودہ طبق روشن کردیئے! ہدایت یہ ملی کہ دسترخوان کے آداب یہ ہیں کہ انسان اس پر بیٹھ کر ٹھٹھے نہ مارے۔

میں پوری زندگی صرف دو بار بھائی جان محترم سے پٹا ہوں۔ ایک 1934ء میں اور اس سے پہلے 1927ء میں کراچی میں، جب ہم حج کے لیے براستہ کراچی جدہ جارہے تھے۔ اس کراچی کے زناٹے کا حال پھر کبھی سنائوں گا! اس کے علاوہ زندگی بھر اور آج بھی، بھائی جان محترم نے ہر ہدایت مجھے خود عمل کرکے دی ہے۔ انہوں نے میری تربیت کی خاطر اپنے سارے آرام تج دیئے۔ وہ ساری زندگی، بلکہ آج تک خود عمل کرکے نصیحتیں کرتے رہے۔ انہوں نے مجھے حکیم محمد سعید بنا دیا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |