ورلڈ کپ کہانی سر ویوین رچرڈز کی یادیں

1975 کو یاد کرتا ہوں تو وہ دور یاد آ جاتا ہے جب نہ رنگین وردیاں ہوتی تھیں اور نہ ہی بڑی اسکرینیں

1975 کو یاد کرتا ہوں تو وہ دور یاد آ جاتا ہے جب نہ رنگین وردیاں ہوتی تھیں اور نہ ہی بڑی اسکرینیں۔ فوٹو: فائل

جب میں 1975ء میں ہونے والے پہلے آئی سی سی ورلڈکپ کو یاد کرتا ہوں، میرے ذہن میں وہ دور آ جاتا ہے، جو آج کل سے بالکل مختلف تھا۔ ان دنوں رنگین لباس ہوتا تھا، نہ سفید گیند۔ بیٹسمین کو بال دیکھنے میں مدد کرنے والی سیاہ سکرین بھی نہیں ہوتی تھی۔ اس ورلڈ کپ میں ہم نے کریم کلر کے ٹریکس پہنے تھے۔

ایک ٹیم کی حیثیت سے ہم بہت پرجوش تھے، کیونکہ بہت زیادہ محنت کے بعد ہم ایک پراعتماد ٹیم بن چکے تھے، جس نے کرکٹ میں خودکو منوانا شروع کر دیا تھا۔ اس وقت ہماری ٹیم میں کلائیو لائیڈ، گورڈون گرینیج، رائے فریڈرکس، ایلون کالی چرن اور روہن کنھائی جیسے عمدہ کھلاڑی شامل تھے۔ ہم سب کائونٹی کرکٹ کھیلنے کا اچھا تجربہ رکھتے تھے۔ ہماری ٹیم باصلاحیت کھلاڑیوں پر مشتمل تھی، اس کے ساتھ کائونٹی کرکٹ کھیلنے کی وجہ سے انگلینڈ کی کنڈیشنز سے واقفیت بھی ہمارے لیے مفید ثابت ہوئی۔

اس زمانے میں انگلینڈ میں 40 ، 55 اور 60 اوورز پر مشتمل ایک روزہ کرکٹ ٹورنامنٹ ہوتے تھے۔ دوسرے کھلاڑیوں کی طرح، میں بھی اس طرز کی کرکٹ سے پہلی بار برطانیہ میں متعارف ہوا تھا، اس لیے ورلڈ کپ کا یہ فارمیٹ ہمارے لیے نیا نہیں تھا۔ جسمانی اور دماغی طور پر اس مقابلے کے لیے ہم تیار تھے۔

1975ء کے ورلڈ کپ کے دوران ہمارے قدم صرف ایک موقع پر پاکستان کے خلاف لڑکھڑائے، جب انہوں نے ہمارے نو بلے بازوں کو پویلین واپس بھیج دیا تھا۔ بہرحال آخری وکٹ کی کامیاب شراکت داری سے ڈیرک مرے اور اینڈی رابرٹس نے ہمیں میچ جتوا دیا۔ پھر فائنل میں ہم نے آسڑیلیا کو جیتنے کے لیے اچھا ہدف دیا تھا، لیکن انہوں نے ایک دو اچھی شراکت داریوں سے وقتی طور پر ہمیں پریشان ضرور کیا۔

پہلے ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم بننا، میرے لیے آج بھی خوشی اور فخر کا موجب ہے۔ اس وقت میں نے ابھی انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنا شروع ہی کی تھی، اور بہت سے عظیم بلے بازوں کی موجودگی میں، میں پانچویں یا چھٹے نمبر پر بیٹنگ کیا کرتا تھا۔ لیکن ٹیم کی جیت کے لیے میں زیادہ سے زیادہ کردار ادا کرنا چاہتا تھا، اور فائنل میچ میں، میں نے ایلن ٹرنر، گریگ چیپل اور آئن چیپل جیسے تین بلے بازوں کو رن آئوٹ کیا۔

جب ہم چمپئین کی حیثیت سے وطن واپس لوٹے، شاہی خاندان کی طرح ہمارا استقبال کیا گیا۔ اگرچہ کریبئین جزائر پانی کی وجہ سے ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہیں، لیکن اس جشن میں شریک بارباڈوس، ٹرینیڈیڈ اینڈ ٹوبیگو، جمیکا اور گیانا کے لوگوں کا جوش و ولولہ ہم محسوس کر سکتے تھے۔ جس نے بھی پہلا ورلڈ کپ کھیلا یا دیکھا ہے، وہ اسے ہمیشہ یاد رکھے گا۔

1979ء کے ورلڈ کپ میں، اپنی بیٹنگ کی وجہ سے میں زیادہ نمایاں ہو چکا تھا۔ پہلے کی طرح اس بار بھی، میں ٹیم کی جیت کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہتا تھا، بلکہ اس دفعہ مجھے اس مقصد کے لیے ہی ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔ انگلینڈ کے خلاف فائنل میں ہمارے ابتدائی بلے باز ناکام ہوتے چلے گئے، لیکن پھر کولس کنگ نے میدان میں آ کر شاندار اننگز کھیلی، جس سے مجھ پر تمام تر دبائو ختم ہو گیا۔ یہ کبھی کبھار ہی ہوتا ہے کہ کوئی بلے باز اتنا اچھا کھیلے کہ اس کے سامنے ویوین رچرڈز کی کارکردگی بھی ماند پڑ جائے، لیکن کنگ نے یہ کر دکھایا۔

مجھے اس کی طرح تیز بیٹنگ کرنے کی ضرورت نہ تھی، سو دوسرے اینڈ سے میں اسے سپورٹ کرتا رہا۔ 86 رنز بنانے کے بعد وہ آئوٹ ہوا، تو میں نے چارج سنبھالنے کا فیصلہ کیا اور تیزی سے اسکور کرنے لگا۔ لیکن فائنل میں میری اس اننگز ) 138ناٹ آئوٹ( کا کریڈٹ کنگ کو ہی جاتا ہے، جس کی شاندار اننگز نے میرے اچھے کھیل کے لیے راہ ہموار کی۔

1983ء کے ورلڈ کپ میں ہمارے پاس موقع تھا کہ ہم تیسری مرتبہ اس عالمی ٹورنامنٹ میں کامیابی حاصل کریں۔ اس دفعہ فائنل میں ہماری مقابل (آسڑیلیا اور انگلینڈ کے بعد) ایک تیسری ٹیم تھی، جو نئی حکمت عملی کے ساتھ ہمارے خلاف میدان میں اتری تھی۔ اس وقت ون ڈے کرکٹ میں انڈیا نے کوئی خاص نام نہ بنایا تھا، لیکن کیپل دیو نے __ جس کے کھیل کو میں بہت زیادہ سراہتا ہوں __ اپنی ٹیم میں یہ یقین پیدا کر دیا تھا کہ خوابوں کو حقیقت میں بدلا جا سکتا ہے۔

میں ایک اونچی شاٹ کھیلتے ہوئے آئوٹ ہو گیا، کیپل دیو کے علاوہ کوئی انڈین فیلڈر ایسا کیچ نہیں کر سکتا تھا۔ اس سے اس کا عزم ظاہر ہوتا تھا۔ انڈیا جیت گیا اور اس رات ہوٹل میں منائے جانے والے جشن کو میں کبھی نہیں بھولوں گا۔ وہاں طبلے، ڈرم، رقص اور سب کچھ تھا، اور اس سے مجھے زیادہ مایوسی نہ ہوئی۔ جب آپ دو دفعہ کی ورلڈ چمپئین ٹیم کو ورلڈ کپ میں شکست دیتے ہو، تو آپ کو حق پہنچتا ہے کہ اس جیت کا بھرپور جشن منائیں۔


1987ء کے ورلڈ کپ میں، میں اپنی ٹیم کا کپتان تھا۔ سری لنکا کے خلاف میں نے 181رنز اسکور کیے، جو ایک یادگار اننگز تھی۔ لیکن مجھے ذاتی طور پر مایوسی ہوئی کہ ہماری ٹیم سیمی فائنل میں نہیں پہنچ سکی تھی۔ اس ٹورنامنٹ کے حوالے سے ایک اور واقعہ میری یادداشت میں محفوظ ہے۔ پاکستان کے خلاف میچ میں، سلیم جعفر، بالر کے گیند پھینکنے سے قبل ہی رن لینے کے لیے نان سڑائیکر اینڈ سے بھاگ کھڑے ہوتے۔ کورٹنی والش نے مجھ سے پوچھا کہ کیا وہ گیند پھینکنے سے پہلے اسے کریز سے باہر نکلتے ہوئے دیکھ کر رن آئوٹ کر سکتا ہے؟



میں نے اسے کہا کہ وہ سلیم کو اس طریقے سے رن آئوٹ کرنے کے بجائے اسے وارننگ دینے پر اکتفا کرے۔ کیونکہ وہ ایسا کرتا، تو ویسٹ انڈیز کے نام پر ایک دھبہ لگ جاتا، اور ہماری کرکٹ نے ایسی بدنامیاں مول نہ لی تھیں۔ ایک کپتان کی حیثیت سے میں فئیر گیم کھیلنے پر یقین رکھتا تھا، چاہے اس کے نتیجے میں شکست ہی کیوں نہ ہو جائے۔ اس طرح والش نے فئیر پلے ایوارڈ تو اپنے نام کر لیا، لیکن وہ میچ ہم ہار گئے۔

اس ورلڈ کپ کے بعد ویسٹ انڈیز کرکٹ کے لیے حالات بدلنا شروع ہو گئے، اور ہماری کرکٹ زوال کا شکار ہونے لگی۔

1992ء کا ورلڈ کپ رنگین کپڑوں، سفید گیند اور مصنوعی روشنی کے استعمال کے ساتھ ایک مختلف ورلڈ کپ تھا۔ یہ ایک اوپن ٹورنامنٹ تھا، لیکن ہماری ٹیم کے مقابلے میں دوسرے ممالک کی ٹیمیں اپنی صلاحیتوں کے اوپر کہیں زیادہ یقین رکھتی تھیں۔ عالمی کپ میں شریک کھلاڑیوں میں اچھا مقابلہ تھا اور فٹنس کے اعتبار سے بھی کھلاڑی پہلے سے بہتر تھے۔

ویسٹ انڈیز اب کوئی ایسی تگڑی ٹیم نہیں رہی تھی، جسے ہرانا مشکل ہو۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت 1996ء کے ورلڈ کپ میں ویسٹ انڈیز کی کینیا کے ہاتھوں شکست ہے۔ اپنی ٹیم کی شکست پر مجھے افسوس ہوا، لیکن بلاشبہ کینیا جیسی نئی ٹیم کے لیے دو دفعہ کی ورلڈ چمپئین کو ہرانا، ایک اعزاز کی بات تھی۔

اس کے بعد 1999ء اور 2003ء کے عالمی کپ میں ویسٹ انڈیز نے کوئی اچھا کھیل پیش نہ کیا۔ ہماری ٹیم سپر سکس مرحلے تک بھی نہ پہنچ سکی۔ ایک ٹیم جو کبھی کرکٹ میں رجحان ساز مانی جاتی تھی، اب کوئی قابل ذکر ٹیم نہیں رہی تھی۔ ہم کوئی ایسی ٹیم نہیں رہے تھے، جو اچھی ٹیموں کا مقابلہ کر سکے۔ لیکن میرے خیال میں جب آپ عالمی کپ میں حصہ لے رہے ہوتے ہیں، آپ کبھی بھی مقابلے سے باہر نہیں ہوتے۔ کیونکہ کھیل میں ہم کوئی بات یقین سے نہیں کہہ سکتے، کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے، آپ کو بس کھلے دماغ سے اپنا کھیل کھیلنا ہوتا ہے۔

2007ء میں ہم پہلی دفعہ ورلڈ کپ کے میزبان تھے اور مجھے اس ایونٹ کا سفیر بنایا گیا۔ اپنے کرائوڈ کے سامنے کھیلنے کا یہ شاندار موقع تھا۔ وہاں کا ماحول اور ویسٹ انڈیز کے لوگوں کی حوصلہ افزائی بہت اچھی تھی۔

2011ء کا ورلڈ کپ انڈیا، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں کھیلا گیا۔ اس ورلڈ کپ کا فارمیٹ مختلف تھا، جس میں کوارٹر فائنل میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو شکست دے دی۔ جب بھی آپ کی ٹیم ہارتی ہے، یہ آپ کے لیے مایوس کن ہوتا ہے۔ لیکن اس عالمی مقابلے کی مناسبت سے، انڈین کرکٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے، میں ایک مختلف سوچ رکھتا ہوں۔ سچن ٹنڈولکر نے اس وقت اپنی ریٹائرمنٹ کے بارے میں سوچنا شروع ہی کیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں ایک ایسا شخص جس نے نہ صرف انڈین کرکٹ بلکہ ورلڈ کرکٹ کو بہت کچھ دیا ہے، وہ اس بات کا پورا استحقاق رکھتا ہے کہ اس کے اعزازات میں، ورلڈکپ جیتنے کا اعزاز بھی شامل ہو۔

انڈیا کے پاس ورلڈ کپ جیتنے کے لیے یہ بہترین موقع تھا۔ اور مجھے ایک ایسے بیٹسمین کے لیے، جس نے اپنے پورے کرئیر کے دوران شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا، خوشی ہوئی کہ جب اس کے کرئیر کا اختتام ہوا، وہ اپنی سخت محنت اور کمٹمنٹ کا نتیجہ دنیا کو دکھا سکتا تھا۔ وہ ایک عظیم کھلاڑی ہے اور سچن کے لیے ہوم گرائونڈ پر ورلڈ کپ جیتنا، اس کے کارناموں میں، ایک اور قابل قدر اضافہ ہے۔

ایک عرصے سے ہماری ٹیم کوئی تگڑی ٹیم نہیں سمجھی جاتی۔ لیکن میرا دل ہمیشہ ویسٹ انڈیز کے لیے دھڑکتا ہے، میری نیک خواہشات اور دعائیں ہمیشہ اپنی ٹیم کے ساتھ ہوتی ہیں۔
Load Next Story