ورلڈ کپ کی تاریخ 1992 میں پاکستانی کرکٹرز نے قوم کا سر فخر سے بلند کردیا

ورلڈ کپ کی تاریخ میں پہلی بار رنگین لباس اور سفید گیندوں کا استعمال ہوا


February 07, 2015
عمران خان 1992 ورلڈ کپ ٹرافی اٹھائے ہوئے۔ فوٹو: فائل

اسٹار فاسٹ بولر وقار یونس کی انجری، جاوید میانداد کی آخری لمحات میں اسکواٹ میں شمولیت اور عمران خان سے اختلافات، وارم اپ میچز میں ناقص کارکردگی اور آسٹریلوی پچز پر ہمیشہ جدوجہد کرنے کے منفی پوائنٹس کے باوجود پاکستان کھلاڑیوں نےعمران کان کی قیادت میں ٹرافی حاصل کرکے قوم کا سر فخر سےبلند کردیا۔

1992 کے اس میگا ایونٹ کی میزبانی کا اعزاز آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو حاصل ہوا، پہلی بار جنوبی افریقہ کی شمولیت سے ٹورنامنٹ میں 9 ٹیموں نے حصہ لیا جنہیں گروپس میں تقسیم نہیں کیا گیا، تمام سائیڈز کو حریف سے ایک، ایک میچ کھیلنا تھا، نیوزی لینڈ نے تمام میچز ہوم گراؤنڈ پر کھیلے، ایونٹ میں ماضی کے مقابلے میں سب سے زیادہ 39 میچز کھیلے گئے، یہ پہلا ورلڈ کپ تھا جس کے دس میچز فلڈ لائٹس میں ہوئے، کھلاڑیوں نے رنگین لباس پہنچے اور سفید گیندوں کا استعمال ہوا، دونوں میزبان ٹیموں کے درمیان آکلینڈ میں میچ سے ورلڈ کپ کا آغاز ہوا۔

کیویز نے نئی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے مار گریٹ بیچ اور راڈلیتھم وغیرہ سے اننگز کا آغاز کرایا جبکہ نئی گیند اسپنر دیپک پٹیل کو تھمائی، یہ حربے کامیاب رہے اور نیوزی لینڈ کو لیگ میچز میں صرف پاکستان ہی کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا، دفاعی چیمپئن و فیورٹ آسٹریلوی ٹیم کا کھیل غیر معیاری رہا اور وہ فائنل فور میں بھی شامل نہ ہوسکی، اس سے قبل تین بار سیمی فائنل میں ناکام ہونے والی پاکستانی ٹیم نے ایونٹ کا آغاز بدترین انداز میں کیا، اوپنر رمیز راجہ نے ویسٹ انڈیز کے خلاف پورے 50 اوورز وکٹ پر قیام کرکے 102 رنز ناٹ آؤٹ بنائے، حریف ٹیم نے ایک وکٹ کھوئے بغیر 3.1 اوورز قبل ہدف حاصل کرلیا، ڈیسمنڈ ہینز نے 93 اور برائن لارا نے 88 رنز اسکور کیے۔

زمبابوے کے خلاف عامر سہیل کی سنچری نے گرین شرٹس کو 53 رنز سے سرخرو کرایا، جاوید میانداد نے مسلسل دوسرے میچ میں نصف سنچری بنائی۔ انگلینڈ کے خلاف پاکستان بیٹنگ لائن بری طرح ناکام ہوئی اور ٹیم 74 رنز پر ڈھیر ہوگئی تاہم بارش نے یقینی شکست سے بچالیا۔ بھارت کیخلاف میچ میں پاکستان کو 43 رنز سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، عامر سہیل کی ففٹی ٹیم کے کام نہ آسکی، مین آف دی میچ سچن ٹنڈولکر نے 54 رنز ناٹ آؤٹ بنائے۔ جنوبی افریقہ کے خلاف پاکستان کو 20 رنز سے شکست ہوئی، جونٹی رہوڈز نے انضمام الحق کو رن آؤٹ کرکے اسٹار فیلڈر کا درجہ حاصل کیا۔

مشکل حالات میں پاکستانی ٹیم کا عالمی چیمپئن بننا خواب سا دکھائی دیتا تھا تاہم عمران خان اینڈ کمپنی نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا، آسٹریلیا کے خلاف عامر سہیل کے 76 رنز سے تقویت پاتے ہوئے ٹیم نے 48 رنز سے فتح پائی، جاوید میانداد اور سلیم ملک کی نصف سنچریوں نے پاکستان کو سری لنکا پر 4 وکٹ سے سرخرو کرایا۔ نیوزی لینڈ کے خلاف وسیم اکرم و مشتاق احمد کی عمدہ بولنگ اور رمیز راجہ کی ناقابل شکست سنچری نے 7 وکٹ کی فتح پاکستان کے نام لکھی۔ پاکستان کے ساتھ سیمی فائنل کیلیے نوزی لینڈ، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ نے کوالیفائی کیا۔

ایڈن پارک آکلینڈ میں پہلے سیمی فائنل میں میزبان ٹیم نے 7 وکٹ پر 262 رنز بنائے، مارٹن کرو نے 91 اور کین ردرفورڈ نے 50 رنز کی اننگز کھیلیں، جواب میں جاوید میانداد اور نوجوان بیٹسمین انضمام الحق نے یادگار کھیل کا مظاہرہ کرکے ایک اوور قبل ٹیم کی ناؤ پار لگادی، دونوں نے بالترتیب 57اور 60 رنز بنائے، انضمام کے دلکش اسٹروکس کا تو کوئی جواب ہی نہ تھا، انہوں نے صرف 37 گیندوں کا استعمال کیا، اس اننگز کی اب تک مثالیں دی جاتی ہیں۔

بارش سے متاثرہ دوسرے سیمی فائنل میں جنوبی افریقی ٹیم کو ڈک ورتھ اینڈ لوئس سسٹم کا شکار ہوکر 19 رنز سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، بارش سے قبل اسے 13 گیندوں پر 22 رنز درکار تھے تاہم نظرثانی شدہ ہدف ایک پر 21 رنز تھا، میلبورن کرکٹ گراؤنڈ میں 87,182 شائقین کی موجودگی میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان فائنل کھیلا گیا، پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا مگر 24 رنز پر دونوں اوپنرز پویلین لوٹ گئے، عمران خان اور جاوید میانداد نے ذمہ داری سے بیٹنگ کی تاہم اس دوران رن ریٹ خاصا کم ہوگیا، دونوں نے بالترتیب 72 اور 58 رنز بنائے۔

اختتامی اوورز میں انضمام الحق 42 اور وسیم اکرم 33 نے جارحانہ انداز اختیار کرکے ٹیم کا اسکول 249 تک پہنچا دیا، جواب میں انگلش ٹیم 49.2 اوورز میں 227 پر آؤٹ ہوگئی، وسیم اکرم نے مسلسل گیندوں پر ایلن لیمب اور کرس لوئس کی وکٹیں حاصل کیں، مجموعی طور پر انہوں نے 3 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا، مشتاق احمد نے بھی 3 جبکہ عاقب جاوید نے 2 وکٹیں لیں، آل راؤنڈر کارکردگی پر وسیم اکرم مین آف دی میچ قرار پائے۔

فائنل میں 22 رنز سے فتح کے بعد عمران خان نے وننگ ٹرافی وصول کی تاہم اپنے خطاب میں کھلاڑیوں کی ستائش کرنے کے بجائے انہوں نے کینسر اسپتال کے بارے میں باتیں کی، اس پر پاکستان کرکٹرز ان کے مخالف ہوگئے اور کپتان کو ریٹائر ہونا پڑا۔ پانچویں ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ 456 رنز نیوزی لینڈ کے مارٹن کرو نے ایک سنچری اور چار نصف سنچریوں کی مدد سے بائے، ان کے بعد پاکستان کے جاوید میانداد نے 437 رنز اسکور کیے جس میں پانچ ففٹیز شامل تھیں۔ بولرز میں پاکستان کے وسیم اکرم 18 کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے سرفہرست رہے، ہم وطن لیگ اسپنر مشتاق احمد نے 16 وکٹیں لیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔