سعید لخت
سعید لخت کی کہانیوں میں بامحاورہ اورشستہ زبان کے ساتھ مزاح کا تڑکاہے
پڑھنے کے رسیا افراد عمربھربچوں کے ان ادیبوں کو نہیں بھولتے،جنھوں نے بچپن میں ان میں پڑھنے کی جوت جگائی ہوتی ہے۔
ایسے لکھنے والے محسنین کا درجہ پاتے ہیں۔بچوں کے ادیبوں میں ایک معتبرنام سعید لخت کا ہے،جنھوں نے کئی نسلوں کی فکری آبیاری کی۔ 15 نومبر2014ء کودنیا سے خاموشی سے سدھارے۔ ان کی وفات کی خبرکسی اخبارمیں شائع نہ ہوئی۔اخباروں میں گزشتہ برس گزرجانے والی اہم قومی شخصیات کے بارے میں جوصفحے نکلے، ان میں بھی اس محترم کا ذکرنہ تھا۔غالب کا یہ مصرع کہ'' نہ ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پروا ''،کلیشے بن چکا لیکن سچی بات ہے کہ سعید لخت کی شخصیت کے لیے اس سے موزوں شاید ہی کوئی دوسرے الفاظ میسرآسکیں۔
اس بے خبری کی بات الگ ،مگران کا کام ایسا ہے، جوانھیں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔سعید لخت جن دنوں صاحب فراش تھے، ان دنوں بھی ان کے نام کا حوالہ دیکھنے میں آتارہا۔معروف ادبی جریدے ''دنیازاد''کے اس پرچے میں جوان کی وفات سے مہینہ بھرپہلے شائع ہوا،اس میں بچوں کے ادب پر راشد اشرف کے معلوماتی مضمون میں سعید لخت کا ذکرموجود پایا، مع اس اطلاع کے ''افسوس کہ ان کی صحت کچھ اچھی نہیں ہے۔'' ''ڈان''نے دوایک برس قبل ادیبوں اوردانشوروں سے کتابوںکے متعلق سوال جواب کا سلسلہ''ٹاکنگ بکس ''کے زیرعنوان شروع کیا، جس میں شخصیات سے بچپن کی پسندیدہ کتاب کے بارے میں بھی پوچھا جاتا۔
معروف محقق اور ماہر بشریات کامران اصدرعلی نے اپنے انٹرویومیں سعید لخت کی کتاب ''حافظ جی''کوبچپن کی پسندیدہ کتاب قراردیا اوربتایا کہ ٹائٹل اسٹوری کی بہت سے باتیں اب بھی ان کے ذہن میں تازہ ہیں۔ ممتاز دانشور وجاہت مسعود بھی سعید لخت کے مداحوں میں سے ہیں۔ان کا کہنا ہے ، اردومیںبچوں کے بہتیرے ادیبوں کو انھوں نے پڑھالیکن کوئی بھی سعید لخت کی ٹکرکا نہ تھا۔اوران کی تحریرجیسا مزاانھیں کہیں اور ملا نہیں۔
بچوں کے بارے میں ادب تخلیق کرنا بچوں کا کھیل نہیں، یہ بات عام طورپرسننے اورپڑھنے کوملتی ہے، اورسچی بات ہے، اس سے اتفاق بنا چارہ نہیں۔بچوں کے واسطے لکھنا جس خاص ہنرمندی کا تقاضاکرتا ہے، اس بابت، فیض احمد فیض نے کچھ یوں توجہ دلائی ہے۔ ''بچوں کے ساتھ بچہ بن جانا،ان سے ان کی ہی بولی میں گفتگو کرنا،بڑوں کے لیے کچھ ایسا آسان کام نہیں۔اسے نباہنے کے لیے مشاہدہ، متخیلہ، زبان دانی اورکئی لوازم درکارہیں، اوریہ سعادتیں محض علم کے زورسے ہاتھ نہیں آتیں۔''
فیض نے جن سعادتوں کی طرف اشارہ کیا ہے،وہ سعیدلخت کے طرز تحریر میں عیاں ہیں۔ سعید لخت کی کہانیوں میں بامحاورہ اورشستہ زبان کے ساتھ مزاح کا تڑکاہوتا،جس سے پڑھنے والے کی دلچسپی کہانی میں شروع سے اخیرتک قائم رہتی۔ میرزا ادیب کے بقول '' ہمارے ہاں لطیفوں کی توکمی نہیں۔لیکن مزاحیہ کہانیاںبہت کم تعداد میں لکھی گئی ہیں۔لے دے کے سعید لخت نے خوب صورت اور کامیاب مزاحیہ کہانیاں لکھی ہیں۔ ''کہانی کارکے طورپرسعید لخت کا شملہ اونچا رہے گا ہی لیکن ''تعلیم وتربیت''کے ایڈیٹرکی حیثیت سے بھی انھیں یاد رکھا جائے گا۔
پاکستان میں ان جیسے ذی علم ایڈیٹربچوں کے رسالوں کو کم کم ملے۔1961 ء کے پاکستان ریویو کے ایڈیشن میں تعلیم و تربیت کے ایڈیٹر سعید لخت کو بچوں کا مقبول ترین لکھاری قرار دیاگیا۔مسعود اشعرکے بقول'' یوں توتعلیم و تربیت کے اوربھی کئی ایڈیٹر ہوئے۔ مگرچونکہ شروع سے ہی سعید لخت اس کے ایڈیٹر تھے اورزیادہ عرصہ وہی اسے ایڈٹ کرتے رہے اس لیے بچے انھی کا نام جانتے تھے۔
اورپھربچے ان کا نام اس لیے بھی جانتے تھے کہ وہ صرف ایڈیٹرہی نہیں تھے بلکہ انھوں نے بچوں کے لیے ایسی چٹ پٹی کہانیاں بھی لکھیں کہ بچے اس انتظارمیں رہتے تھے کہ سعید لخت کی کوئی کہانی رسالے میں کب چھپے گی۔یا وہ کہانی کتابی شکل میںکب سامنے آئے گی۔ سعید لخت کی کہانیاں صرف کہانیاں ہی نہیں ہوتیں بلکہ ان میں زبان کا چٹخارہ بھی ہوتا ہے۔ان کی زبان میں وہ پرانی کہاوتیں اورمحاورے بھی ہوتے ہیں، جن سے بچے لطف بھی لیتے ہیں اورسبق بھی مل جاتاہے۔زبان کا یہ چٹ پٹا پن اورچٹخارہ ان پرانی داستانوں میں بھی ملتاہے جوسعید لخت نے بچوں کے لیے مختصرصورت میں لکھیں۔''
بچوں کے لیے سعید لخت کی سب سے مشہورکتاب ''حافظ جی'' ہے۔ اس کے متعدد ایڈیشن نکلے ۔ان کے چاہنے والوں کے ذہن سے اس کتاب کی یاد کبھی محونہیں ہوئی۔ ان کی کتاب ''سرائے کے اندر'' ان چھ کہانیوں پرمشتمل ہے،جن کا پلاٹ مشہور انگریزی افسانوں سے ماخوذ ہے۔یہ کتاب پہلی بار 1948ء میں شائع ہوئی۔ 1973ء میں''الوکے گھونسلے سے'' شائع ہوئی تواس کے تعارف میں لکھا ''چھانگا مانگا کے جنگل میں ایک بوڑھا الورہتا تھا، بہت عقل مند،نیک اورخدا ترس۔جنگل کے کسی جانورپرکوئی مصیبت آتی تووہ دوڑا دوڑا میاں الوکے پاس آتااوروہ چٹکی بجاتے میں اس کی مشکل آسان کر دیتے۔
تمام جانورانھیں ادب سے ''گرو جی''کہتے تھے۔ گروجی روز شام کو دربارلگاتے اورجانوران کے سامنے اپنا اپنا دکھڑا روتے۔جس دن کوئی مصیبت کامارانہ آتا،اس دن گروجی جانوروں کو ایک دل چسپ کہانی سناتے۔ اس کتاب میں گروجی کی چارکہانیاں ہیں۔آپ نے پسند کیاتوایسی اورکہانیاں بھی چھاپی جائیں گی۔''''دیس دیس کی لوک کہانیاں'' بھی سعید لخت کے قلم سے ہے۔ سعید لخت کامیاب منظوم کہانی لکھنے پربھی قدرت رکھتے تھے،جس کا ثبوت ''لال بجھکڑ''کی پرلطف کہانی ہے۔
متفرق ادیبوں کی کہانیوں پرمشتمل مجموعوں میں بھی سعیدلخت کی کہانیاں شامل ہوتی رہیں۔اس سلسلے کی ایک اہم کتاب ''شاہکار کہانیاں'' ہیں، جس میں صوفی تبسم، شوکت تھانوی، احمد ندیم قاسمی،شفیق الرحمٰن،الطاف فاطمہ سمیت چودہ لکھنے والوں کی ایک ایک کہانی کا انتخاب ہے۔ ہر کہانی کے شروع میں مصنف کی تصویرکے ساتھ مختصرتعارف کا اہتمام ہے۔سعیدلخت کی کہانی ''ہائے اللہ سانپ'' سے پہلے، تصویر کے ساتھ ان کا تعارف ان الفاظ میں ہے:بڑی بوڑھیاں کہتی ہیں ''پوت کے پائوں پالنے میں دیکھے جاتے ہیں۔''
سعید لخت صاحب چوتھی جماعت میں تھے کہ انھوں نے ایک رسالہ نکالا جس کا نام ''جانباز''تھا اوریہ ہاتھ سے لکھ کرجماعت کے بچوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔1945ء میں''تعلیم وتربیت''کے ایڈیٹرمقررہوئے اورجب سے اب تک بچوں کے لیے بے شمارکہانیاں، مضمون اورڈرامے لکھے۔کچھ اپنے نام سے کچھ فرضی ناموں سے۔ ان کی مزاحیہ کہانیوںکا مجموعہ ''حافظ جی'' حال ہی میں چھپاہے۔'' گگو میاں بھی متفرق کہانیوں کا انتخاب ہے، جس میں سعید لخت کی تین کہانیاں ''آئس کریم''، ''شمو کے دادا'' اور ''گگو میاں'' شامل ہیں۔
بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے اوررسالہ ایڈٹ کرنے سے ہٹ کرترجمہ نگاری بھی، ان کے علمی دائرہ کارمیں شامل رہی۔ کارلوکولودی کی بچوں کیلئے کہانی "The Adventures of Pinocchio" کو دنیا بھرمیں بے حد مقبولیت ملی۔ کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا۔ بیس برس ادھر سعید لخت کے قلم سے اس کا اردو ترجمہ ''پناکوکے کارنامے'' کے عنوان سے چھپ کربچوں میں مقبول ہوا۔
اس کتاب کے آغاز میں ''چند باتیں''کے عنوان سے تحریراس کہانی کا تعارف یوں کراتی ہے ''کہنے کوتویہ ایک کٹھ پتلے کی کہانی ہے،لیکن اسے پڑھتے ہوئے یوں لگتاہے جیسے ہم سچ مچ کے بچے کی کہانی پڑھ رہے ہیں۔ہربچہ چاہے کسی ملک کا ہو، ہنستا کھیلتا اور شرارتیں کرتا ہے۔بچے غلطیاںبھی کرتے ہیںلیکن جوبچہ جلدی سنبھل جاتا ہے اوراپنے آپ کو ٹھیک کرلیتاہے،وہ ترقی، عزت اورشہرت حاصل کرتاہے۔''
سعید لخت نے تخیل بیدارکرنے والی کہانیاں ہی نہیں لکھیں بلکہ انھیں برابراس بات کا بھی احساس رہا کہ بچوں کے لیے معلومات عامہ سے آگاہی کس قدراہمیت رکھتی ہے۔ ان کی معلومات افزاکتابوں سے بچے کیا بڑے بھی استفادہ کرسکتے ہیں۔ انھوں نے ''آپ جانتے ہیں؟''کے عنوان سے دوجلدوں میں بچوں کے واسطے بڑے سادہ پیرائے میں مفید معلومات پہنچانے کا چارہ کیا۔ جین سٹرائوڈ کے بچوں کے لیے انسائیکلوپیڈیاکا اردو ترجمہ بھی کیا۔ فیروز سنز اردو انسائیکلوپیڈیا کی تیاری میں ان کی محنت کوبہت دخل تھا۔
سعید لخت جس اشاعتی ادارے کے لیے کتابوں کو ایڈٹ کرتے، اس کی ساکھ کا یہ عالم تھا کہ بچوں کے معروف ادیب اشتیاق احمد جب اپنے لکھنے کے ابتدائی زمانے میں پبلشرکے پاس ناول لے کر گئے تووہ بڑی رکھائی سے پیش آیا لیکن جونہی اس کے علم میں آیا کہ ان کا ایک ناول فیروزسنزسے شائع ہوچکا ہے تواس کا رویہ معاً بدل گیا، یہ اعتبار بنانے میں سعید لخت کا بڑا کردار تھا، کہ چھپنے سے قبل مسودے انھی کی نظرسے گزرتے۔بہت سا کام ایسا بھی ہے، جوان کے نام سے شائع تونہ ہوا لیکن ان کی محنت شاقہ کا نتیجہ تھا۔ بچوں کے لیے سعید لخت کی تحریروں کوپذیرائی اس لیے ملی کہ ایک تووہ کہانی کہنے کے سلیقے سے واقف تھے۔
دوسرے بات کو دلچسپ بناکرپیش کرسکتے تھے۔ان دونوں باتوں سے بڑھ کران کی مقبولیت کی وجہ عمدہ زبان تھی۔زبان برتنے کا معاملہ یہ ہے کہ بعض حضرات کی زبان کو قواعد کے اعتبارسے غلط قرارنہیں دیاجاسکتا لیکن وہ بے لطف ہوتی ہے ، مگردوسری طرف ایسے بھی ہیں، جوزبان بھی صحیح لکھتے ہیں اوراس میں آن بان اورچٹخارہ ہوتا ہے، سعید لخت بھی ایسی ہی زبان لکھتے تھے۔
فرانس سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور لکھاری ژولیاں کے سامنے ہم نے ایک بار جب یہ جا وہ جا کا محاورہ برتا تووہ کہنے لگے کہ یہ توآپ نے انتظارحسین کے ڈکشن سے لیا ہوگا تو ہم نے عرض کیا کہ انتظارحسین کی تحریروں سے بہت سے لفظ سیکھے جاسکتے ہیں لیکن یہ جا وہ جاجیسے محاوروں سے توہم اپنے بچپن میں سعید لخت جیسے زبان کے شناوروں کی تحریروں سے آگاہ ہوگئے تھے،اب اس مضمون کے سلسلے میں ''پناکو کے کارنامے'' دوبارہ پڑھی تواس میں ایسا جملہ پڑھنے کو مل بھی گیاجس میں یہ جا وہ جا کا استعمال ہواہے '' اس نے آئو دیکھانہ تائو، ایک زورکی قلانچ ماری اوردروازے میں سے نکل یہ جا، وہ جا۔''
ایک اورمحاورے کا عمدہ استعمال بھی ملاحظہ کیجیے۔ ''بے چاراگپیتوایک غریب آدمی تھا۔ چھوٹے سے گھرمیں بالکل اکیلارہتاتھا۔نہ جورو،نہ جاتا،اللہ میاں سے ناتا۔'' لکھتے وقت یہ احساس انھیں رہتا کہ وہ بچوں کے لیے لکھ رہے ہیںاس لیے محاوروںاورضرب الامثال کے استعمال سے پہلے اوربعد کا بیانیہ ان کی تفہیم میں معاون نظرآتا ہے۔بچپن میں انسانی ذہن جن لفظوں ،استعاروں اورترکیبوں سے واقفیت حاصل کرتاہے، وہ ساری عمرانسانی حافظے سے چمٹ جاتی ہیں۔
راجندر سنگھ بیدی کے معروف افسانے''بھولا''میں، دادااپنے پوتے کوکہانی سناتا ہے۔ ایک دفعہ جب پوتااپنے ماموں کی آمد کا بیتابی سے انتظار کر رہا ہوتا ہے تو اپنے دادا سے کہتا ہے''اورتواورایسی مٹھائی لائیں گے جوآپ نے خواب میں بھی نہ دیکھی ہوگی۔''اس پرداداکا ردعمل یوں سامنے آتاہے۔''میں حیران تھااورسوچ رہا تھاکہ کس خوبی سے خواب میں بھی نہ دیکھی ہوگی''کے الفاظ سات شہزادوں اورسات شہزادیوں والی کہانی کے بیان میںسے اس نے یاد رکھے تھے۔''
دائود رہبرعالم فاضل آدمی تھے۔ عمدہ نثرنگار۔لفظوں کے پارکھ۔ اپنے ایک مضمون میں اعجازبٹالوی کے بارے میں لکھا ''آداب محفل کا رکھ رکھائوبھی اعجازکے ہاں مثالی تھا، محفل کا رنگ دیکھ کریہ لب کشائی کرتے تھے،محفل ہڑبونگ والی ہوتی تو یہ چپ سادھ لیتے،ہڑبونگ کا لفظ مجھے نہ فرہنگ آصفیہ میں ملانہ نسیم اللغات میں، شاید یہ پنجابی کا لفظ ہے۔ ''یہ پڑھ کر انتظار حسین نے لکھا ''ادھرہم نے یہ سوچ کرکہ یہ لفظ فرہنگ آصفیہ میں نہیں تو نوراللغات میں ہوگا، یہ لغت کھولی مگروہاں بھی یہ لفظ نہیں تھا۔
ہمارے پاس''فرہنگ اثر''رکھی تھی جواثرصاحب کے حساب سے نوراللغات پراضافہ ہے۔وہاں بھی یہ لفظ نہیں تھا۔اب ہم دائود رہبرکی خدمت میں عرض کرنے کی جسارت کرتے ہیں کہ قبلہ اب لغات پرزیادہ بھروسہ نہ کیا کریں۔یہ لغات ہم آپ ایسے لوگوں کوجوبول چال کی زبان کے زیادہ قائل ہیں گمراہ کرنے کے لیے مرتب کی گئی ہیں۔لغات مرتب کرنے والے ہمارے ثقہ بزرگ ہیں۔بول چال کے لفظوں کے بارے میں ان کے بہت تعصبات ہیں۔بھلا ہم کیسے مان لیں کہ ہڑبونگ اردو کا لفظ نہیں ہے۔ہم نے اپنی بستی میں ہوتے ہوئے یہ لفظ بہت سنا ہے۔ عورتوں کی زبانوں پرخصوصیت سے جاری رہتا تھا۔''
لفظ ہڑبونگ سعید لخت کی کہانی''ہائے اللہ بھوت!''میں اس طریقے سے آیا ہے ''بھ بھ بھ بھوت''میں نے کانپتے ہوئے کہا ''اوپر چھت پربھی بھوت ہے۔''اس ہڑبونگ میں امی جان کی بھی آنکھ کھل گئی تھی اوروہ سوالیہ نشان بنی ہماری صورت تک رہی تھیں۔'' یہ تو خیرایک مثال تھی،سعید لخت کے ہاں بھی بول چال کے لفظوں پر مشتمل زبان لکھنے کا رجحان غالب نظرآتا ہے، جس کے بارے میں بقول انتظارحسین لغات مرتب کرنے والے ثقہ بزرگوں نے تعصبات پال رکھے تھے۔بول چال کی زبان میں اچھی نثرکی اردو میں توانا روایت موجود ہے۔بچوں کے ادب میں اس روایت کوسعید لخت نے بڑے موثرطریقے سے آگے بڑھایا۔
نمونۂ تحریر
ایک دن جب ہم نے بی پڑوسن کا گھڑاغلا مارکرتوڑ دیا توبڑی گڑ بڑمچی۔اباجی شام کوگھرآئے توامی بولیں''اے،میں نے کہا سنتے ہو؟اپنے لاڈلے کے لچھن تودیکھو۔اس نے سارا محلہ سرپراٹھارکھاہے۔''
اباجان بولے''لاحول ولا قوۃ۔حد کردی۔اتنا سابچہ محلہ کیسے اٹھاسکتاہے۔''
امی بولیں ''اے، تمہیں توسوجھتاہے مذاق۔میں کہتی ہوں،اللہ رکھے اب یہ پانچ سال کا ہوگیاہے۔اب اس کی پڑھائی کا بھی توکچھ بندوبست کرو۔یہ کب تک یونہی مارا مارا پھرتا پھرے گا؟''آپاجان کوتوہم سے خداواسطے کا بیر تھا۔ سر پر دوپٹا ٹھیک کرتے ہوئے بولیں ''ابا جان، ایمان سے،یہ بہت شیطان ہوگیاہے۔کل میں سہیلیوں سے بیٹھی باتیں کررہی تھی کہ پیچھے سے آکرایک دم میری پیٹھ پرچڑھ گیااورچٹیاکھینچ کر بولا ''چل، بھاٹی لوہاری دوآنے سواری۔''
ہم چیخ کربولے''جھوٹ۔ہم نے کب دوآنے کو کہا تھا۔ ہم نے توتین آنے کہا تھا۔''
ابا جان ہنسی روک کربولے ''لاحول ولا قوۃ۔یعنی حد کر دی۔''
امی نے ابا جان کی ناک کے سامنے انگلی نچائی اوربولیں ''اے حد،نہیں کرے گاتوکیا کرے گا؟آخربیٹاکس کا ہے!۔۔
''لاحول ولا قوۃ۔ارے بھئی،بیٹاہمارا ہے، اورکس کا ہوتا۔ تم بھی حد کرتی ہو۔''
''اے ،تم توحدیں کھودتے رہوگے اوربچے کا ستیاناس ہو جائے گا۔'' امی جان جھلاکربولیں''میں کہتی ہوںاسے اسکول میں بھرتی کرادو۔ڈنڈے کھاکرآپ ٹھیک ہوجائے گا۔''ابا جان چونک کربولے ''ایں!بھرتی کرادوں؟یعنی اسکول نہ ہوا کوئی فوج پلٹن ہوگئی۔حد کردی۔''
''خدایامیری توبہ!''امی جان سرپکڑ کربیٹھ گئیں''تم سے تووہ بات کرے جودس سیرگھی اوردوبوری بادام کھاکرآیاہو۔''n
(کہانی ''حافظ جی'' سے اقتباس)
کام اِن کا، نام مگر کسی اور کا
... لیکن ان کے ساتھ ایک اورظلم بھی ہوا۔اوریہ ظلم کئی اورلکھنے والوں کے ساتھ بھی ہواہے اورہوتا ہی رہتا ہے۔کئی کتابیں اورکئی تحریریں ایسی بھی شائع ہوئیں جولکھی توسعید لخت نے تھیں مگرنام کسی اورکا تھا(کسی اورسے آپ خود ہی سمجھ جائیے کہ وہ نام کس کا ہوتا تھا) پھرایسا بھی ہواکہ کتاب پرنام کسی کا بھی نہیں ہے صرف پبلشر کا نام ہے،جیسے اردولغت۔اس لغت پرکام توبہت پہلے کسی اورنے شروع کیا تھا۔مگربعد میں اس میں جس شخص نے اضافے کئے اس کا نام ہی غائب ہے۔
اوروہ نام ہے سعید لخت کا۔اسی طرح انسائیکلوپیڈیامیں بھی سید سبط حسن کے ساتھ جس نے کام کیاوہ سعید لخت تھے۔لیکن عجیب بات یہ ہے کہ سعید لخت کوقلق کسی بات کا بھی نہیں تھا۔وہ کسی سے یہ نہیں کہتے تھے کہ میں نے فلاں فلاں کام کیا اورنام کسی اورنے کمایا۔جب بھی اس کا ذکرآتاوہ کہتے ''ارے چھوڑو،جانے دو۔کوئی خوش ہوتا ہے توہونے دو۔''
(مسعود اشعرکے کالم ''بچوں کے لیے لکھنے والا'' سے اقتباس)
ہمت کوشناوری مبارک
ممتازادیب محمد سلیم الرحمٰن نے بچوں کے ادب سے بھی اپنا واسطہ برابررکھا۔ سعید لخت جس ادارے سے متعلق تھے، اس کے لیے انھوں نے ایچ۔جی ۔ویلزکے ناولThe Invisible Man کا ''غیبی انسان''اوررائیڈرہیگرڈ کے ناولKing Solomon's Mines کا ''سلیمانی خزانہ''کے نام سے ترجمہ کیا۔جدید جرمن ادب سے متعلق مارٹن گریگرڈیلن کامرتبہ انتخاب ''امن''کے عنوان سے اردومیں منتقل کیا۔اس سب کام کے ضمن میں اوراس سے ہٹ کربھی ان کا سعید لخت سے ملنا جلنا رہا۔ یادوں کو آوازدے کرانھوں نے سعید لخت کے بارے میں جس واقعہ کا ذکرہم سے کیا، وہ درج ذیل ہے: '' یہ کم وبیش تیس برس پہلے کی بات ہے۔ میں '' پاکستان ٹائمز'' کے دفترمیں اقبال جعفری سے ملنے کے بعد ''نیاادارہ''جانے کے لیے باہرآیا۔
جون کا مہینہ تھا اورانتہاکی گرمی۔دھوپ سے آنکھیں خیرہ ہوئی جارہی تھیں۔ دیکھتاکیا ہوںکہ سعید لخت چلے آرہے ہیں۔شاید فیروز سنز سے پیدل ہی آئے تھے۔میری ان سے خاصی شناسائی تھی۔ ایک دوسرے کی خیر و عافیت معلوم کرنے کے بعدمیں نے پوچھا: ''خیر تو ہے؟ اس گرمی میں آپ یہاں کیسے؟'' بولے کہ ''فیروز سنز نے جو انسائیکلوپیڈیا شائع کیا تھا۔اس کا نیا اڈیشن چھپنے والا ہے۔اس پر نظرثانی کررہا ہوں۔
اس دوران میں بہت سی معروف شخصیات فوت ہوچکی ہیں۔ ان کی صحیح صحیح تاریخ وفات درج کرنی ہے۔اس مقصد کے لیے ''امروز''اور''پاکستان ٹائمز''کی فائلیں دیکھوں گا۔'' میں نے کہاکہ ''اگرکسی مددکی ضرورت ہوتومیں ساتھ چلوں؟'' کہنے لگے ''نہیں، میرے کئی جاننے والے یہاں ہیں۔'' وہ چلے گئے۔ میں سوچتارہ گیاکہ کاش اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کا ایسا احساس ملک میں عام ہوتا۔سعید لخت جیسے محنتی اورلائق شخص کوتوکسی اہم ادبی ادارے کا سربراہ ہونا چاہیے تھا۔ہم نالائقوں کی قدرزیادہ کرتے ہیں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ہمیں اچھے برے کی تمیزہی نہیں۔
وہ سعید لخت بعد میں بنے پہلے توسعید لکنت تھے
سعیدلخت جن کا اصل نام سعید احمد خان ہے،1924میں رام پورمیں پیدا ہوئے۔پانچ بھائیوں اوردوبہنوں میںسب سے بڑے تھے۔اجداد کا تعلق یوسف زئی قبیلے سے، جو سوات اوربونیر سے رام پور آن بسا ۔نواب رام پورکی جانب سے کسی بھی معززخاندان سے تعلق رکھنے والے فرد کواچھی ملازمت دی جاتی۔ان کے دادا،چاندی خانے کے منصرم تھے۔جیلر بھی رہے۔والد ،لطیف احمد خان درس نظامی پڑھے ہوئے تھے۔عربی اچھی جانتے۔شعر کہتے لیکن چرچا نہ کرتے ،اب ان کے رام پورمیں مقیم بیٹے مودود احمد خان، والد کا مجموعۂ کلام چھپوانے کا چارہ کررہے ہیں۔
رام پورمیں ان کے پاس مستاجری زمین تھی، جوایسی زمین ہوتی، جونواب ٹھیکے پردیتا۔ رام پور میں سعید لخت کا گھرانہ گھیر مقبول احمد خان میںرہتا، یہ وہ علاقہ ہے، جوان کے دادا کے نام سے اب تک موسوم چلا آتا ہے۔ سعید لخت کوگھرمیں لکھنے پڑھنے کے اعتبار سے بڑا موافق ماحول میسرآیا۔ان کے چچارشید احمد خان کی معروف شاعرشاد عارفی سے گہری دوستی تھی،اس لیے بھی گھر میں ادب کا چرچا عام تھا۔سعید لخت نے رام پورکی مشہورعلمی درسگاہ مدرسۂ عالیہ سے جس کاالہ آباد بورڈ سے الحاق تھا،مولوی فاضل کیا۔
جوانی میں موسیقی کا شوق چرایا۔طبلہ بجانا سیکھ بھی لیا۔ مگر اصل میں دل کی طرف مائل تھا۔ لکھنے پڑھنے کا شوق بچپن سے ہوگیا، جس کا بیّن اظہارچوتھی جماعت میں ہاتھ سے لکھ کررسالہ ''جانباز'' نکالنے سے ہوا۔ بڑے ہونے پرقلمکارکی حیثیت سے خود کومنوانے کی ٹھانی۔تقسیم سے دوبرس قبل صحافت کا شوق انھیں دلّی لے گیا۔ کچھ عرصہ دیوان سنگھ مفتون کے ''ریاست'' میں کام کیا لیکن ان کی قسمت میں تو لاہور آنا لکھا تھا۔ رام پورسے لاہورآنا اس باعث ہوا کہ یہ شہر برصغیر میں اردو کاسب سے بڑا ادبی،صحافتی اوراشاعتی مرکزتھا۔
فیروزسنزسے ایک باران کا تعلق جڑاتوپھروفاداری بشرط استواری کے مصداق عمربھرقائم رہا۔سعید لخت کی زبان میں لکنت تھی اور ہکلاتے تھے، لکھنے کا آغازکیا توشروع میں سعید احمد لکنت کے نام سے لکھا، مگرلاہورآئے تو نام کے ساتھ لکنت کے بجائے لخت لکھنے لگے اورپھرتمام عمراسی نام سے لکھا کئے۔بولنے میں زبان بیشک ان کی لڑکھڑاتی ہوگی لیکن زبانِ قلم عمربھرخوب رواں دواں رہی۔ 1956ء میں شادی ہوئی۔ دوبیٹے اوردوبیٹیاں ہیں۔ ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں ان معلومات کا ماخذنامورادیب اورصحافی مسعود اشعر سے ہونے والی ہماری بات چیت ہے، کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ وہ سعید لخت کے چھوٹے بھائی ہیں۔
سعید لخت تقسیم سے دو برس پہلے رام پور سے لاہورآگئے جبکہ مسعود اشعر 47ء کے بعدپاکستان آئے۔دونوں بھائیوں کی ہجرت کسی آدرش سے بڑھ کربہترمستقبل کے لیے تھی۔وقت نے ان کا فیصلہ درست ثابت کردکھایا۔پاکستان میں رہ کردونوں نے اپنی محنت اورلگن سے متعلقہ میدان میں، جوظاہرہے پڑھنے لکھنے سے متعلق ہے، اپنا نام اورمقام بنایا۔مسعود اشعر ادبی وصحافتی سرگرمیوں سے ہٹ کرادبی و سماجی محفلوں اور مذاکروں میں شریک ہوتے ہیں۔
ان کا اپنا حلقہ احباب ہے۔سعید لخت ذرا اورڈھب کے آدمی تھے۔اپنے کام سے کام ۔حلقہ یاراں پھیلا ہوا نہیں۔محفل آرائی سے مجتنب۔دفترسے گھر۔ گھر سے دفتر۔زبان میں لکنت تھی، اس وجہ سے بھی وہ زیادہ بات چیت کرنے سے محترزرہتے ۔سادہ دل۔پاک باز۔ اوررکھ رکھائو والے آدمی تھے۔ان کی شریف النفسی کی گواہی وہ سبھی لوگ دیتے ہیں، جنھوں نے ان کے ساتھ کام کیا یا ان کے ساتھ معاملہ رہا۔
کچھ تذکرہ اشتیاق احمد کی زبانی
بچوں کے معروف ادیب اشتیاق احمد کی کتاب''میری کہانی''میں سعید لخت کا جو ذکرہوا ہے اس سے کچھ کشیدکرکے ہم پڑھنے والوں کی نذرکررہے ہیں۔
اشتیاق احمد جب اپنی کتاب فیروزسنزسے چھپوانے کے لیے ادارے کے مالک سے ملے تو انھوں نے کہا''بات یہ ہے بھئی کہ۔۔۔مسودے سعید لخت صاحب پڑھتے ہیں،وہ تعلیم وتربیت کے ایڈیٹربھی ہیں،میں انھیں فون کردیتا ہوں،آپ اپنا مسودہ ان کے پاس لے جائیں،اگرانھیں ناول پسندآگیاتوٹھیک ہے، ورنہ نہیں۔''
یہ سن کروہ سعید لخت سے ملنے گئے، جنھوں نے ناول وصول کرلیا اورپندرہ دن بعد ان سے دوبارہ ملنے کوکہا۔وہ مقررہ تاریخ پر پہنچے توپھرپندرہ دن کا وقت مل گیا، دو باراوربھی ایسا ہواتوان کی ہمت جواب دینے لگی لیکن اس کے بعد جب وہ پندرہ دن بعد پہنچے توسعید لخت نے ان سے نہایت گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اورمسکراتے ہوئے نوید سنائی''بھئی واہ!میں نے آپ کا مسودہ پڑھا۔۔۔اورایک ہی نشست میں پڑھا۔آپ توبہت اچھا لکھتے ہیں،آپ ایساکریں کہ مسودے کا بل بنادیں،آپ کو ادائیگی کرادی جائے گی۔''
اس پر اشتیاق احمد کے تاثرات یوں سامنے آتے ہیں'' جی''!!!میرے منہ سے بہت لمبا جی نکلا۔۔۔مارے حیرت اورخوشی کے کچھ کہا ہی نہ گیا،کہیں تو مسودہ پڑھ ہی نہیں رہے تھے ،کہاں مسودے کا بل مجھ سے بنوارہے تھے۔۔۔آگے چل کر اشتیاق احمد لکھتے ہیں''میرے دل پرسے منوں بوجھ ہٹتا محسوس ہوا،اس سے پہلے سعیدلخت صاحب کے بارے میں نہ جانے کیا کیا سوچتارہا تھا ، اب وہ فرشتہ نظرآئے،یہ کتنی بڑی اورانصاف کی بات تھی کہ انھوں نے جب یہ دیکھا کہ میرا لکھا ہواناول''آستین کا سانپ ''اس قابل ہے کہ اسے شائع کیا جائے توفوراً ہی اس کا اظہارکردیا،اس سے پہلے انھوں نے پڑھ کرنہیں دیکھا تھا، اس لیے وہ مجھے پندرہ دن کی تاریخ دیتے رہے۔''
ایسے لکھنے والے محسنین کا درجہ پاتے ہیں۔بچوں کے ادیبوں میں ایک معتبرنام سعید لخت کا ہے،جنھوں نے کئی نسلوں کی فکری آبیاری کی۔ 15 نومبر2014ء کودنیا سے خاموشی سے سدھارے۔ ان کی وفات کی خبرکسی اخبارمیں شائع نہ ہوئی۔اخباروں میں گزشتہ برس گزرجانے والی اہم قومی شخصیات کے بارے میں جوصفحے نکلے، ان میں بھی اس محترم کا ذکرنہ تھا۔غالب کا یہ مصرع کہ'' نہ ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پروا ''،کلیشے بن چکا لیکن سچی بات ہے کہ سعید لخت کی شخصیت کے لیے اس سے موزوں شاید ہی کوئی دوسرے الفاظ میسرآسکیں۔
اس بے خبری کی بات الگ ،مگران کا کام ایسا ہے، جوانھیں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔سعید لخت جن دنوں صاحب فراش تھے، ان دنوں بھی ان کے نام کا حوالہ دیکھنے میں آتارہا۔معروف ادبی جریدے ''دنیازاد''کے اس پرچے میں جوان کی وفات سے مہینہ بھرپہلے شائع ہوا،اس میں بچوں کے ادب پر راشد اشرف کے معلوماتی مضمون میں سعید لخت کا ذکرموجود پایا، مع اس اطلاع کے ''افسوس کہ ان کی صحت کچھ اچھی نہیں ہے۔'' ''ڈان''نے دوایک برس قبل ادیبوں اوردانشوروں سے کتابوںکے متعلق سوال جواب کا سلسلہ''ٹاکنگ بکس ''کے زیرعنوان شروع کیا، جس میں شخصیات سے بچپن کی پسندیدہ کتاب کے بارے میں بھی پوچھا جاتا۔
معروف محقق اور ماہر بشریات کامران اصدرعلی نے اپنے انٹرویومیں سعید لخت کی کتاب ''حافظ جی''کوبچپن کی پسندیدہ کتاب قراردیا اوربتایا کہ ٹائٹل اسٹوری کی بہت سے باتیں اب بھی ان کے ذہن میں تازہ ہیں۔ ممتاز دانشور وجاہت مسعود بھی سعید لخت کے مداحوں میں سے ہیں۔ان کا کہنا ہے ، اردومیںبچوں کے بہتیرے ادیبوں کو انھوں نے پڑھالیکن کوئی بھی سعید لخت کی ٹکرکا نہ تھا۔اوران کی تحریرجیسا مزاانھیں کہیں اور ملا نہیں۔
بچوں کے بارے میں ادب تخلیق کرنا بچوں کا کھیل نہیں، یہ بات عام طورپرسننے اورپڑھنے کوملتی ہے، اورسچی بات ہے، اس سے اتفاق بنا چارہ نہیں۔بچوں کے واسطے لکھنا جس خاص ہنرمندی کا تقاضاکرتا ہے، اس بابت، فیض احمد فیض نے کچھ یوں توجہ دلائی ہے۔ ''بچوں کے ساتھ بچہ بن جانا،ان سے ان کی ہی بولی میں گفتگو کرنا،بڑوں کے لیے کچھ ایسا آسان کام نہیں۔اسے نباہنے کے لیے مشاہدہ، متخیلہ، زبان دانی اورکئی لوازم درکارہیں، اوریہ سعادتیں محض علم کے زورسے ہاتھ نہیں آتیں۔''
فیض نے جن سعادتوں کی طرف اشارہ کیا ہے،وہ سعیدلخت کے طرز تحریر میں عیاں ہیں۔ سعید لخت کی کہانیوں میں بامحاورہ اورشستہ زبان کے ساتھ مزاح کا تڑکاہوتا،جس سے پڑھنے والے کی دلچسپی کہانی میں شروع سے اخیرتک قائم رہتی۔ میرزا ادیب کے بقول '' ہمارے ہاں لطیفوں کی توکمی نہیں۔لیکن مزاحیہ کہانیاںبہت کم تعداد میں لکھی گئی ہیں۔لے دے کے سعید لخت نے خوب صورت اور کامیاب مزاحیہ کہانیاں لکھی ہیں۔ ''کہانی کارکے طورپرسعید لخت کا شملہ اونچا رہے گا ہی لیکن ''تعلیم وتربیت''کے ایڈیٹرکی حیثیت سے بھی انھیں یاد رکھا جائے گا۔
پاکستان میں ان جیسے ذی علم ایڈیٹربچوں کے رسالوں کو کم کم ملے۔1961 ء کے پاکستان ریویو کے ایڈیشن میں تعلیم و تربیت کے ایڈیٹر سعید لخت کو بچوں کا مقبول ترین لکھاری قرار دیاگیا۔مسعود اشعرکے بقول'' یوں توتعلیم و تربیت کے اوربھی کئی ایڈیٹر ہوئے۔ مگرچونکہ شروع سے ہی سعید لخت اس کے ایڈیٹر تھے اورزیادہ عرصہ وہی اسے ایڈٹ کرتے رہے اس لیے بچے انھی کا نام جانتے تھے۔
اورپھربچے ان کا نام اس لیے بھی جانتے تھے کہ وہ صرف ایڈیٹرہی نہیں تھے بلکہ انھوں نے بچوں کے لیے ایسی چٹ پٹی کہانیاں بھی لکھیں کہ بچے اس انتظارمیں رہتے تھے کہ سعید لخت کی کوئی کہانی رسالے میں کب چھپے گی۔یا وہ کہانی کتابی شکل میںکب سامنے آئے گی۔ سعید لخت کی کہانیاں صرف کہانیاں ہی نہیں ہوتیں بلکہ ان میں زبان کا چٹخارہ بھی ہوتا ہے۔ان کی زبان میں وہ پرانی کہاوتیں اورمحاورے بھی ہوتے ہیں، جن سے بچے لطف بھی لیتے ہیں اورسبق بھی مل جاتاہے۔زبان کا یہ چٹ پٹا پن اورچٹخارہ ان پرانی داستانوں میں بھی ملتاہے جوسعید لخت نے بچوں کے لیے مختصرصورت میں لکھیں۔''
بچوں کے لیے سعید لخت کی سب سے مشہورکتاب ''حافظ جی'' ہے۔ اس کے متعدد ایڈیشن نکلے ۔ان کے چاہنے والوں کے ذہن سے اس کتاب کی یاد کبھی محونہیں ہوئی۔ ان کی کتاب ''سرائے کے اندر'' ان چھ کہانیوں پرمشتمل ہے،جن کا پلاٹ مشہور انگریزی افسانوں سے ماخوذ ہے۔یہ کتاب پہلی بار 1948ء میں شائع ہوئی۔ 1973ء میں''الوکے گھونسلے سے'' شائع ہوئی تواس کے تعارف میں لکھا ''چھانگا مانگا کے جنگل میں ایک بوڑھا الورہتا تھا، بہت عقل مند،نیک اورخدا ترس۔جنگل کے کسی جانورپرکوئی مصیبت آتی تووہ دوڑا دوڑا میاں الوکے پاس آتااوروہ چٹکی بجاتے میں اس کی مشکل آسان کر دیتے۔
تمام جانورانھیں ادب سے ''گرو جی''کہتے تھے۔ گروجی روز شام کو دربارلگاتے اورجانوران کے سامنے اپنا اپنا دکھڑا روتے۔جس دن کوئی مصیبت کامارانہ آتا،اس دن گروجی جانوروں کو ایک دل چسپ کہانی سناتے۔ اس کتاب میں گروجی کی چارکہانیاں ہیں۔آپ نے پسند کیاتوایسی اورکہانیاں بھی چھاپی جائیں گی۔''''دیس دیس کی لوک کہانیاں'' بھی سعید لخت کے قلم سے ہے۔ سعید لخت کامیاب منظوم کہانی لکھنے پربھی قدرت رکھتے تھے،جس کا ثبوت ''لال بجھکڑ''کی پرلطف کہانی ہے۔
متفرق ادیبوں کی کہانیوں پرمشتمل مجموعوں میں بھی سعیدلخت کی کہانیاں شامل ہوتی رہیں۔اس سلسلے کی ایک اہم کتاب ''شاہکار کہانیاں'' ہیں، جس میں صوفی تبسم، شوکت تھانوی، احمد ندیم قاسمی،شفیق الرحمٰن،الطاف فاطمہ سمیت چودہ لکھنے والوں کی ایک ایک کہانی کا انتخاب ہے۔ ہر کہانی کے شروع میں مصنف کی تصویرکے ساتھ مختصرتعارف کا اہتمام ہے۔سعیدلخت کی کہانی ''ہائے اللہ سانپ'' سے پہلے، تصویر کے ساتھ ان کا تعارف ان الفاظ میں ہے:بڑی بوڑھیاں کہتی ہیں ''پوت کے پائوں پالنے میں دیکھے جاتے ہیں۔''
سعید لخت صاحب چوتھی جماعت میں تھے کہ انھوں نے ایک رسالہ نکالا جس کا نام ''جانباز''تھا اوریہ ہاتھ سے لکھ کرجماعت کے بچوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔1945ء میں''تعلیم وتربیت''کے ایڈیٹرمقررہوئے اورجب سے اب تک بچوں کے لیے بے شمارکہانیاں، مضمون اورڈرامے لکھے۔کچھ اپنے نام سے کچھ فرضی ناموں سے۔ ان کی مزاحیہ کہانیوںکا مجموعہ ''حافظ جی'' حال ہی میں چھپاہے۔'' گگو میاں بھی متفرق کہانیوں کا انتخاب ہے، جس میں سعید لخت کی تین کہانیاں ''آئس کریم''، ''شمو کے دادا'' اور ''گگو میاں'' شامل ہیں۔
بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے اوررسالہ ایڈٹ کرنے سے ہٹ کرترجمہ نگاری بھی، ان کے علمی دائرہ کارمیں شامل رہی۔ کارلوکولودی کی بچوں کیلئے کہانی "The Adventures of Pinocchio" کو دنیا بھرمیں بے حد مقبولیت ملی۔ کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا۔ بیس برس ادھر سعید لخت کے قلم سے اس کا اردو ترجمہ ''پناکوکے کارنامے'' کے عنوان سے چھپ کربچوں میں مقبول ہوا۔
اس کتاب کے آغاز میں ''چند باتیں''کے عنوان سے تحریراس کہانی کا تعارف یوں کراتی ہے ''کہنے کوتویہ ایک کٹھ پتلے کی کہانی ہے،لیکن اسے پڑھتے ہوئے یوں لگتاہے جیسے ہم سچ مچ کے بچے کی کہانی پڑھ رہے ہیں۔ہربچہ چاہے کسی ملک کا ہو، ہنستا کھیلتا اور شرارتیں کرتا ہے۔بچے غلطیاںبھی کرتے ہیںلیکن جوبچہ جلدی سنبھل جاتا ہے اوراپنے آپ کو ٹھیک کرلیتاہے،وہ ترقی، عزت اورشہرت حاصل کرتاہے۔''
سعید لخت نے تخیل بیدارکرنے والی کہانیاں ہی نہیں لکھیں بلکہ انھیں برابراس بات کا بھی احساس رہا کہ بچوں کے لیے معلومات عامہ سے آگاہی کس قدراہمیت رکھتی ہے۔ ان کی معلومات افزاکتابوں سے بچے کیا بڑے بھی استفادہ کرسکتے ہیں۔ انھوں نے ''آپ جانتے ہیں؟''کے عنوان سے دوجلدوں میں بچوں کے واسطے بڑے سادہ پیرائے میں مفید معلومات پہنچانے کا چارہ کیا۔ جین سٹرائوڈ کے بچوں کے لیے انسائیکلوپیڈیاکا اردو ترجمہ بھی کیا۔ فیروز سنز اردو انسائیکلوپیڈیا کی تیاری میں ان کی محنت کوبہت دخل تھا۔
سعید لخت جس اشاعتی ادارے کے لیے کتابوں کو ایڈٹ کرتے، اس کی ساکھ کا یہ عالم تھا کہ بچوں کے معروف ادیب اشتیاق احمد جب اپنے لکھنے کے ابتدائی زمانے میں پبلشرکے پاس ناول لے کر گئے تووہ بڑی رکھائی سے پیش آیا لیکن جونہی اس کے علم میں آیا کہ ان کا ایک ناول فیروزسنزسے شائع ہوچکا ہے تواس کا رویہ معاً بدل گیا، یہ اعتبار بنانے میں سعید لخت کا بڑا کردار تھا، کہ چھپنے سے قبل مسودے انھی کی نظرسے گزرتے۔بہت سا کام ایسا بھی ہے، جوان کے نام سے شائع تونہ ہوا لیکن ان کی محنت شاقہ کا نتیجہ تھا۔ بچوں کے لیے سعید لخت کی تحریروں کوپذیرائی اس لیے ملی کہ ایک تووہ کہانی کہنے کے سلیقے سے واقف تھے۔
دوسرے بات کو دلچسپ بناکرپیش کرسکتے تھے۔ان دونوں باتوں سے بڑھ کران کی مقبولیت کی وجہ عمدہ زبان تھی۔زبان برتنے کا معاملہ یہ ہے کہ بعض حضرات کی زبان کو قواعد کے اعتبارسے غلط قرارنہیں دیاجاسکتا لیکن وہ بے لطف ہوتی ہے ، مگردوسری طرف ایسے بھی ہیں، جوزبان بھی صحیح لکھتے ہیں اوراس میں آن بان اورچٹخارہ ہوتا ہے، سعید لخت بھی ایسی ہی زبان لکھتے تھے۔
فرانس سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور لکھاری ژولیاں کے سامنے ہم نے ایک بار جب یہ جا وہ جا کا محاورہ برتا تووہ کہنے لگے کہ یہ توآپ نے انتظارحسین کے ڈکشن سے لیا ہوگا تو ہم نے عرض کیا کہ انتظارحسین کی تحریروں سے بہت سے لفظ سیکھے جاسکتے ہیں لیکن یہ جا وہ جاجیسے محاوروں سے توہم اپنے بچپن میں سعید لخت جیسے زبان کے شناوروں کی تحریروں سے آگاہ ہوگئے تھے،اب اس مضمون کے سلسلے میں ''پناکو کے کارنامے'' دوبارہ پڑھی تواس میں ایسا جملہ پڑھنے کو مل بھی گیاجس میں یہ جا وہ جا کا استعمال ہواہے '' اس نے آئو دیکھانہ تائو، ایک زورکی قلانچ ماری اوردروازے میں سے نکل یہ جا، وہ جا۔''
ایک اورمحاورے کا عمدہ استعمال بھی ملاحظہ کیجیے۔ ''بے چاراگپیتوایک غریب آدمی تھا۔ چھوٹے سے گھرمیں بالکل اکیلارہتاتھا۔نہ جورو،نہ جاتا،اللہ میاں سے ناتا۔'' لکھتے وقت یہ احساس انھیں رہتا کہ وہ بچوں کے لیے لکھ رہے ہیںاس لیے محاوروںاورضرب الامثال کے استعمال سے پہلے اوربعد کا بیانیہ ان کی تفہیم میں معاون نظرآتا ہے۔بچپن میں انسانی ذہن جن لفظوں ،استعاروں اورترکیبوں سے واقفیت حاصل کرتاہے، وہ ساری عمرانسانی حافظے سے چمٹ جاتی ہیں۔
راجندر سنگھ بیدی کے معروف افسانے''بھولا''میں، دادااپنے پوتے کوکہانی سناتا ہے۔ ایک دفعہ جب پوتااپنے ماموں کی آمد کا بیتابی سے انتظار کر رہا ہوتا ہے تو اپنے دادا سے کہتا ہے''اورتواورایسی مٹھائی لائیں گے جوآپ نے خواب میں بھی نہ دیکھی ہوگی۔''اس پرداداکا ردعمل یوں سامنے آتاہے۔''میں حیران تھااورسوچ رہا تھاکہ کس خوبی سے خواب میں بھی نہ دیکھی ہوگی''کے الفاظ سات شہزادوں اورسات شہزادیوں والی کہانی کے بیان میںسے اس نے یاد رکھے تھے۔''
دائود رہبرعالم فاضل آدمی تھے۔ عمدہ نثرنگار۔لفظوں کے پارکھ۔ اپنے ایک مضمون میں اعجازبٹالوی کے بارے میں لکھا ''آداب محفل کا رکھ رکھائوبھی اعجازکے ہاں مثالی تھا، محفل کا رنگ دیکھ کریہ لب کشائی کرتے تھے،محفل ہڑبونگ والی ہوتی تو یہ چپ سادھ لیتے،ہڑبونگ کا لفظ مجھے نہ فرہنگ آصفیہ میں ملانہ نسیم اللغات میں، شاید یہ پنجابی کا لفظ ہے۔ ''یہ پڑھ کر انتظار حسین نے لکھا ''ادھرہم نے یہ سوچ کرکہ یہ لفظ فرہنگ آصفیہ میں نہیں تو نوراللغات میں ہوگا، یہ لغت کھولی مگروہاں بھی یہ لفظ نہیں تھا۔
ہمارے پاس''فرہنگ اثر''رکھی تھی جواثرصاحب کے حساب سے نوراللغات پراضافہ ہے۔وہاں بھی یہ لفظ نہیں تھا۔اب ہم دائود رہبرکی خدمت میں عرض کرنے کی جسارت کرتے ہیں کہ قبلہ اب لغات پرزیادہ بھروسہ نہ کیا کریں۔یہ لغات ہم آپ ایسے لوگوں کوجوبول چال کی زبان کے زیادہ قائل ہیں گمراہ کرنے کے لیے مرتب کی گئی ہیں۔لغات مرتب کرنے والے ہمارے ثقہ بزرگ ہیں۔بول چال کے لفظوں کے بارے میں ان کے بہت تعصبات ہیں۔بھلا ہم کیسے مان لیں کہ ہڑبونگ اردو کا لفظ نہیں ہے۔ہم نے اپنی بستی میں ہوتے ہوئے یہ لفظ بہت سنا ہے۔ عورتوں کی زبانوں پرخصوصیت سے جاری رہتا تھا۔''
لفظ ہڑبونگ سعید لخت کی کہانی''ہائے اللہ بھوت!''میں اس طریقے سے آیا ہے ''بھ بھ بھ بھوت''میں نے کانپتے ہوئے کہا ''اوپر چھت پربھی بھوت ہے۔''اس ہڑبونگ میں امی جان کی بھی آنکھ کھل گئی تھی اوروہ سوالیہ نشان بنی ہماری صورت تک رہی تھیں۔'' یہ تو خیرایک مثال تھی،سعید لخت کے ہاں بھی بول چال کے لفظوں پر مشتمل زبان لکھنے کا رجحان غالب نظرآتا ہے، جس کے بارے میں بقول انتظارحسین لغات مرتب کرنے والے ثقہ بزرگوں نے تعصبات پال رکھے تھے۔بول چال کی زبان میں اچھی نثرکی اردو میں توانا روایت موجود ہے۔بچوں کے ادب میں اس روایت کوسعید لخت نے بڑے موثرطریقے سے آگے بڑھایا۔
نمونۂ تحریر
ایک دن جب ہم نے بی پڑوسن کا گھڑاغلا مارکرتوڑ دیا توبڑی گڑ بڑمچی۔اباجی شام کوگھرآئے توامی بولیں''اے،میں نے کہا سنتے ہو؟اپنے لاڈلے کے لچھن تودیکھو۔اس نے سارا محلہ سرپراٹھارکھاہے۔''
اباجان بولے''لاحول ولا قوۃ۔حد کردی۔اتنا سابچہ محلہ کیسے اٹھاسکتاہے۔''
امی بولیں ''اے، تمہیں توسوجھتاہے مذاق۔میں کہتی ہوں،اللہ رکھے اب یہ پانچ سال کا ہوگیاہے۔اب اس کی پڑھائی کا بھی توکچھ بندوبست کرو۔یہ کب تک یونہی مارا مارا پھرتا پھرے گا؟''آپاجان کوتوہم سے خداواسطے کا بیر تھا۔ سر پر دوپٹا ٹھیک کرتے ہوئے بولیں ''ابا جان، ایمان سے،یہ بہت شیطان ہوگیاہے۔کل میں سہیلیوں سے بیٹھی باتیں کررہی تھی کہ پیچھے سے آکرایک دم میری پیٹھ پرچڑھ گیااورچٹیاکھینچ کر بولا ''چل، بھاٹی لوہاری دوآنے سواری۔''
ہم چیخ کربولے''جھوٹ۔ہم نے کب دوآنے کو کہا تھا۔ ہم نے توتین آنے کہا تھا۔''
ابا جان ہنسی روک کربولے ''لاحول ولا قوۃ۔یعنی حد کر دی۔''
امی نے ابا جان کی ناک کے سامنے انگلی نچائی اوربولیں ''اے حد،نہیں کرے گاتوکیا کرے گا؟آخربیٹاکس کا ہے!۔۔
''لاحول ولا قوۃ۔ارے بھئی،بیٹاہمارا ہے، اورکس کا ہوتا۔ تم بھی حد کرتی ہو۔''
''اے ،تم توحدیں کھودتے رہوگے اوربچے کا ستیاناس ہو جائے گا۔'' امی جان جھلاکربولیں''میں کہتی ہوںاسے اسکول میں بھرتی کرادو۔ڈنڈے کھاکرآپ ٹھیک ہوجائے گا۔''ابا جان چونک کربولے ''ایں!بھرتی کرادوں؟یعنی اسکول نہ ہوا کوئی فوج پلٹن ہوگئی۔حد کردی۔''
''خدایامیری توبہ!''امی جان سرپکڑ کربیٹھ گئیں''تم سے تووہ بات کرے جودس سیرگھی اوردوبوری بادام کھاکرآیاہو۔''n
(کہانی ''حافظ جی'' سے اقتباس)
کام اِن کا، نام مگر کسی اور کا
... لیکن ان کے ساتھ ایک اورظلم بھی ہوا۔اوریہ ظلم کئی اورلکھنے والوں کے ساتھ بھی ہواہے اورہوتا ہی رہتا ہے۔کئی کتابیں اورکئی تحریریں ایسی بھی شائع ہوئیں جولکھی توسعید لخت نے تھیں مگرنام کسی اورکا تھا(کسی اورسے آپ خود ہی سمجھ جائیے کہ وہ نام کس کا ہوتا تھا) پھرایسا بھی ہواکہ کتاب پرنام کسی کا بھی نہیں ہے صرف پبلشر کا نام ہے،جیسے اردولغت۔اس لغت پرکام توبہت پہلے کسی اورنے شروع کیا تھا۔مگربعد میں اس میں جس شخص نے اضافے کئے اس کا نام ہی غائب ہے۔
اوروہ نام ہے سعید لخت کا۔اسی طرح انسائیکلوپیڈیامیں بھی سید سبط حسن کے ساتھ جس نے کام کیاوہ سعید لخت تھے۔لیکن عجیب بات یہ ہے کہ سعید لخت کوقلق کسی بات کا بھی نہیں تھا۔وہ کسی سے یہ نہیں کہتے تھے کہ میں نے فلاں فلاں کام کیا اورنام کسی اورنے کمایا۔جب بھی اس کا ذکرآتاوہ کہتے ''ارے چھوڑو،جانے دو۔کوئی خوش ہوتا ہے توہونے دو۔''
(مسعود اشعرکے کالم ''بچوں کے لیے لکھنے والا'' سے اقتباس)
ہمت کوشناوری مبارک
ممتازادیب محمد سلیم الرحمٰن نے بچوں کے ادب سے بھی اپنا واسطہ برابررکھا۔ سعید لخت جس ادارے سے متعلق تھے، اس کے لیے انھوں نے ایچ۔جی ۔ویلزکے ناولThe Invisible Man کا ''غیبی انسان''اوررائیڈرہیگرڈ کے ناولKing Solomon's Mines کا ''سلیمانی خزانہ''کے نام سے ترجمہ کیا۔جدید جرمن ادب سے متعلق مارٹن گریگرڈیلن کامرتبہ انتخاب ''امن''کے عنوان سے اردومیں منتقل کیا۔اس سب کام کے ضمن میں اوراس سے ہٹ کربھی ان کا سعید لخت سے ملنا جلنا رہا۔ یادوں کو آوازدے کرانھوں نے سعید لخت کے بارے میں جس واقعہ کا ذکرہم سے کیا، وہ درج ذیل ہے: '' یہ کم وبیش تیس برس پہلے کی بات ہے۔ میں '' پاکستان ٹائمز'' کے دفترمیں اقبال جعفری سے ملنے کے بعد ''نیاادارہ''جانے کے لیے باہرآیا۔
جون کا مہینہ تھا اورانتہاکی گرمی۔دھوپ سے آنکھیں خیرہ ہوئی جارہی تھیں۔ دیکھتاکیا ہوںکہ سعید لخت چلے آرہے ہیں۔شاید فیروز سنز سے پیدل ہی آئے تھے۔میری ان سے خاصی شناسائی تھی۔ ایک دوسرے کی خیر و عافیت معلوم کرنے کے بعدمیں نے پوچھا: ''خیر تو ہے؟ اس گرمی میں آپ یہاں کیسے؟'' بولے کہ ''فیروز سنز نے جو انسائیکلوپیڈیا شائع کیا تھا۔اس کا نیا اڈیشن چھپنے والا ہے۔اس پر نظرثانی کررہا ہوں۔
اس دوران میں بہت سی معروف شخصیات فوت ہوچکی ہیں۔ ان کی صحیح صحیح تاریخ وفات درج کرنی ہے۔اس مقصد کے لیے ''امروز''اور''پاکستان ٹائمز''کی فائلیں دیکھوں گا۔'' میں نے کہاکہ ''اگرکسی مددکی ضرورت ہوتومیں ساتھ چلوں؟'' کہنے لگے ''نہیں، میرے کئی جاننے والے یہاں ہیں۔'' وہ چلے گئے۔ میں سوچتارہ گیاکہ کاش اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کا ایسا احساس ملک میں عام ہوتا۔سعید لخت جیسے محنتی اورلائق شخص کوتوکسی اہم ادبی ادارے کا سربراہ ہونا چاہیے تھا۔ہم نالائقوں کی قدرزیادہ کرتے ہیں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ہمیں اچھے برے کی تمیزہی نہیں۔
وہ سعید لخت بعد میں بنے پہلے توسعید لکنت تھے
سعیدلخت جن کا اصل نام سعید احمد خان ہے،1924میں رام پورمیں پیدا ہوئے۔پانچ بھائیوں اوردوبہنوں میںسب سے بڑے تھے۔اجداد کا تعلق یوسف زئی قبیلے سے، جو سوات اوربونیر سے رام پور آن بسا ۔نواب رام پورکی جانب سے کسی بھی معززخاندان سے تعلق رکھنے والے فرد کواچھی ملازمت دی جاتی۔ان کے دادا،چاندی خانے کے منصرم تھے۔جیلر بھی رہے۔والد ،لطیف احمد خان درس نظامی پڑھے ہوئے تھے۔عربی اچھی جانتے۔شعر کہتے لیکن چرچا نہ کرتے ،اب ان کے رام پورمیں مقیم بیٹے مودود احمد خان، والد کا مجموعۂ کلام چھپوانے کا چارہ کررہے ہیں۔
رام پورمیں ان کے پاس مستاجری زمین تھی، جوایسی زمین ہوتی، جونواب ٹھیکے پردیتا۔ رام پور میں سعید لخت کا گھرانہ گھیر مقبول احمد خان میںرہتا، یہ وہ علاقہ ہے، جوان کے دادا کے نام سے اب تک موسوم چلا آتا ہے۔ سعید لخت کوگھرمیں لکھنے پڑھنے کے اعتبار سے بڑا موافق ماحول میسرآیا۔ان کے چچارشید احمد خان کی معروف شاعرشاد عارفی سے گہری دوستی تھی،اس لیے بھی گھر میں ادب کا چرچا عام تھا۔سعید لخت نے رام پورکی مشہورعلمی درسگاہ مدرسۂ عالیہ سے جس کاالہ آباد بورڈ سے الحاق تھا،مولوی فاضل کیا۔
جوانی میں موسیقی کا شوق چرایا۔طبلہ بجانا سیکھ بھی لیا۔ مگر اصل میں دل کی طرف مائل تھا۔ لکھنے پڑھنے کا شوق بچپن سے ہوگیا، جس کا بیّن اظہارچوتھی جماعت میں ہاتھ سے لکھ کررسالہ ''جانباز'' نکالنے سے ہوا۔ بڑے ہونے پرقلمکارکی حیثیت سے خود کومنوانے کی ٹھانی۔تقسیم سے دوبرس قبل صحافت کا شوق انھیں دلّی لے گیا۔ کچھ عرصہ دیوان سنگھ مفتون کے ''ریاست'' میں کام کیا لیکن ان کی قسمت میں تو لاہور آنا لکھا تھا۔ رام پورسے لاہورآنا اس باعث ہوا کہ یہ شہر برصغیر میں اردو کاسب سے بڑا ادبی،صحافتی اوراشاعتی مرکزتھا۔
فیروزسنزسے ایک باران کا تعلق جڑاتوپھروفاداری بشرط استواری کے مصداق عمربھرقائم رہا۔سعید لخت کی زبان میں لکنت تھی اور ہکلاتے تھے، لکھنے کا آغازکیا توشروع میں سعید احمد لکنت کے نام سے لکھا، مگرلاہورآئے تو نام کے ساتھ لکنت کے بجائے لخت لکھنے لگے اورپھرتمام عمراسی نام سے لکھا کئے۔بولنے میں زبان بیشک ان کی لڑکھڑاتی ہوگی لیکن زبانِ قلم عمربھرخوب رواں دواں رہی۔ 1956ء میں شادی ہوئی۔ دوبیٹے اوردوبیٹیاں ہیں۔ ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں ان معلومات کا ماخذنامورادیب اورصحافی مسعود اشعر سے ہونے والی ہماری بات چیت ہے، کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ وہ سعید لخت کے چھوٹے بھائی ہیں۔
سعید لخت تقسیم سے دو برس پہلے رام پور سے لاہورآگئے جبکہ مسعود اشعر 47ء کے بعدپاکستان آئے۔دونوں بھائیوں کی ہجرت کسی آدرش سے بڑھ کربہترمستقبل کے لیے تھی۔وقت نے ان کا فیصلہ درست ثابت کردکھایا۔پاکستان میں رہ کردونوں نے اپنی محنت اورلگن سے متعلقہ میدان میں، جوظاہرہے پڑھنے لکھنے سے متعلق ہے، اپنا نام اورمقام بنایا۔مسعود اشعر ادبی وصحافتی سرگرمیوں سے ہٹ کرادبی و سماجی محفلوں اور مذاکروں میں شریک ہوتے ہیں۔
ان کا اپنا حلقہ احباب ہے۔سعید لخت ذرا اورڈھب کے آدمی تھے۔اپنے کام سے کام ۔حلقہ یاراں پھیلا ہوا نہیں۔محفل آرائی سے مجتنب۔دفترسے گھر۔ گھر سے دفتر۔زبان میں لکنت تھی، اس وجہ سے بھی وہ زیادہ بات چیت کرنے سے محترزرہتے ۔سادہ دل۔پاک باز۔ اوررکھ رکھائو والے آدمی تھے۔ان کی شریف النفسی کی گواہی وہ سبھی لوگ دیتے ہیں، جنھوں نے ان کے ساتھ کام کیا یا ان کے ساتھ معاملہ رہا۔
کچھ تذکرہ اشتیاق احمد کی زبانی
بچوں کے معروف ادیب اشتیاق احمد کی کتاب''میری کہانی''میں سعید لخت کا جو ذکرہوا ہے اس سے کچھ کشیدکرکے ہم پڑھنے والوں کی نذرکررہے ہیں۔
اشتیاق احمد جب اپنی کتاب فیروزسنزسے چھپوانے کے لیے ادارے کے مالک سے ملے تو انھوں نے کہا''بات یہ ہے بھئی کہ۔۔۔مسودے سعید لخت صاحب پڑھتے ہیں،وہ تعلیم وتربیت کے ایڈیٹربھی ہیں،میں انھیں فون کردیتا ہوں،آپ اپنا مسودہ ان کے پاس لے جائیں،اگرانھیں ناول پسندآگیاتوٹھیک ہے، ورنہ نہیں۔''
یہ سن کروہ سعید لخت سے ملنے گئے، جنھوں نے ناول وصول کرلیا اورپندرہ دن بعد ان سے دوبارہ ملنے کوکہا۔وہ مقررہ تاریخ پر پہنچے توپھرپندرہ دن کا وقت مل گیا، دو باراوربھی ایسا ہواتوان کی ہمت جواب دینے لگی لیکن اس کے بعد جب وہ پندرہ دن بعد پہنچے توسعید لخت نے ان سے نہایت گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اورمسکراتے ہوئے نوید سنائی''بھئی واہ!میں نے آپ کا مسودہ پڑھا۔۔۔اورایک ہی نشست میں پڑھا۔آپ توبہت اچھا لکھتے ہیں،آپ ایساکریں کہ مسودے کا بل بنادیں،آپ کو ادائیگی کرادی جائے گی۔''
اس پر اشتیاق احمد کے تاثرات یوں سامنے آتے ہیں'' جی''!!!میرے منہ سے بہت لمبا جی نکلا۔۔۔مارے حیرت اورخوشی کے کچھ کہا ہی نہ گیا،کہیں تو مسودہ پڑھ ہی نہیں رہے تھے ،کہاں مسودے کا بل مجھ سے بنوارہے تھے۔۔۔آگے چل کر اشتیاق احمد لکھتے ہیں''میرے دل پرسے منوں بوجھ ہٹتا محسوس ہوا،اس سے پہلے سعیدلخت صاحب کے بارے میں نہ جانے کیا کیا سوچتارہا تھا ، اب وہ فرشتہ نظرآئے،یہ کتنی بڑی اورانصاف کی بات تھی کہ انھوں نے جب یہ دیکھا کہ میرا لکھا ہواناول''آستین کا سانپ ''اس قابل ہے کہ اسے شائع کیا جائے توفوراً ہی اس کا اظہارکردیا،اس سے پہلے انھوں نے پڑھ کرنہیں دیکھا تھا، اس لیے وہ مجھے پندرہ دن کی تاریخ دیتے رہے۔''