صوفی تبسم کی نظمیں آج بھی ہنسی بکھیر رہی ہیں

صوفی تبسم نے ٹوٹ بٹوٹ کےنام سے ایک لڑکے کاکردار تخلیق کیا اور یہ نظم آج بھی پرائمری لیول کی کتابوں میں کورس کا حصہ ہے

صوفی تبسم نے ٹوٹ بٹوٹ کےنام سے ایک لڑکے کاکردار تخلیق کیا اور یہ نظم آج بھی پرائمری لیول کی کتابوں میں کورس کا حصہ ہے۔ فوٹو وکی پیڈیا

بچپن ہی سے مجھے کہانیاں اور نظمیں پڑھنے کا بڑا شوق تھا اور اس شوق کی تکمیل کے لیے میں پیسے بچا کر کہانیوں اور نظموں والی کتابیں خریدتا رہتا تھا۔ پھر کتابیں پڑھنے کا چسکا ایسا لگا کہ مطالعہ کرنا عادت بن گئی۔ یوں تو بچپن میں بہت سی کہانیوں اور نظموں والی کتابیں پڑھیں لیکن ایک شاعر ایسا بھی تھا جس کو پڑھنے کے بعد مجھے ان سے لگاو سا ہوگیا اور میں نے مارکیٹ میں موجود نظموں اُس کی ساری کتابیں نہ صرف خریدلیں بلکہ پڑھ بھی ڈالیں۔

چلو آج آپ کو بھی اپنے پسندیدہ شاعر سے ملوا ہی دیتے ہیں۔ ان کا نام صوفی غلام مصطفی تبسم تھا۔ آپ اگست 1899 کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم چرچ مشن اسکول امرتسر میں حاصل کی۔ 1923 میں ایف سی کالج لاہور سے بی اے (آنرز) کیا۔ 1924 میں اسلامیہ کالج سے ایم اے فارسی اور 1926 میں سینٹرل ٹریننگ کالج سے بی ٹی کیا۔ امرتسر میں اسکول ٹیچر کی حیثیت سے نوکری کی ابتداء کی، بعد میں امرتسر ہی میں انسپکٹر آف اسکولز مقرر ہوئے۔ 1927 تا 1931 سینٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں لیکچرار رہے۔ 1941 میں گورنمنٹ کالج لاہور چلے گئے جہاں فارسی و اردو کے شعبوں کے صدر رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد خانہ فرہنگ ایران، ریڈیو پاکستان، اقبال اکیدمی وغیرہ سے وابستہ رہے۔ اس کے علاوہ بے شمار ادبی تنظیموں سے وابستہ و سرپرست بھی رہے۔ فارسی، اردو، پنجابی اور انگریزی میں بھی شعر کہتے تھے۔ آپ نے اقبال، امیر خسرو اور شیکسپیر کی تخلیقات کے مثالی تراجم بھی کئے۔

صوفی غلام مصطفی تبسم کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ آپ خوش مزاج تھے۔ آپ کو چھوٹے بچوں سے لگاؤ تھا اور یہی وجہ تھی کہ آپ نے بچوں کے لیے پیاری پیاری نظمیں تخلیق کیں۔ آپ نے بچوں کی نظموں کے لیے ٹوٹ بٹوٹ کے نام سے ایک لڑکے کا کردار تخلیق کیا اور یہ نظم آج بھی پرائمری لیول کی کتابوں میں کورس کا حصہ ہے اور جسے بچے پڑھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔

ان کے کردار ٹوٹ بٹوٹ نے مقبولیت حاصل کی تو آپ نے اس نام سے بچوں کے لیے ایک کتاب لکھی جس میں بہت سی نظمیں شامل ہیں اور آج بھی والدین اپنے بچوں کو یہ نظمیں پڑھ کر سناتے ہیں۔

بچے جب ان کی نظم ـ ''چیچوں'' پڑھتے ہیں تو وہ اس سے لطف اٹھاتے ہیں۔ وہ نظم کچھ یوں ہے؛




فوٹو؛ فیس بک پیچ مائی سول

1958 میں بچوں کی نظموں پر مشتمل کتاب ''جھولنے'' شائع ہوئی ۔ جھولنے تو ننھے بچوں کے لیے ایسی کتاب ہے جو ہر بچہ اپنے بچپن میں پڑھتا رہا ہے۔ اس کتاب کے دیباچہ میں پطرس بخاری تعریفی کلمات لکھتے ہیں کہ ؛
''دعا ہے کہ صوفی تبسم کا یہ بچپن ہمیشہ قائم رہے''

صوفی غلام مصطفٰی تبسم بچوں کے مقبول ترین شاعر تھے۔ بڑوں کے لیے بھی بہت کچھ لکھا۔ استاد رہے، ماہانہ لیل و نہار کے مدیر رہے اور براڈ کاسٹر بھی رہے۔ صوفی تبسم ہر میدان کے شہسوار تھے۔ نظم ہو یا نثر، غزل ہو یا گیت، ملی نغمے ہوں یا بچوں کی نظمیں۔کہاں کہاں ان کے نقوش باقی نہیں ہیں۔ ادارہ فیروز سنز سے انکی بہت سی کتابیں شائع ہوئیں، جس میں انجمن، صد شعر اقبال اور دوگونہ شامل ہیں۔ علاوہ ازیں بچوں کے لیے بے شمار کتابیں لکھیں، جن میں شہرہ آفاق کتابیں جھولنے، ٹوٹ بٹوٹ، کہاوتیں اور پہلیاں، سنو گپ شب وغیرہ شامل ہیں۔

صوفی غلام مصطفٰی تبسم 7 فروری 1978 کو 78 سال کی عمر میں اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے لیکن ان کی لکھی نظمیں آج بھی نہ صرف زندہ ہیں بلکہ بچوں کے چہروں پر ہنسی بکھیر رہی ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story